بلدیاتی اداروں کو جلد فعال کیا جائے
بلدیاتی انتخابات کو تین ماہ گزر جانےکےباوجود بھی میئر، ڈپٹی میئر اورچیئرمین کےانتخاب کا طریقۂ کاروجۂ تنازع بناہوا ہے
بلدیاتی انتخابات کو تین ماہ گزر جانے کے باوجود بھی میئر، ڈپٹی میئر اور چیئرمین کے انتخاب کا طریقۂ کار وجۂ تنازع بنا ہوا ہے جس کے باعث بلدیاتی ادارے تاحال غیر فعال ہیں۔ سندھ میں میئر، ڈپٹی میئر اور چیئرمین کے انتخاب کے طریقہ کار کے بارے میں مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے سوال اٹھایا ہے کہ بلدیاتی اداروں کو غیر فعال رکھنے میں سندھ حکومت کا مقصد کیا ہے؟ عدالت نے آبزرویشن دی ہے کہ جمہوری نظام کے اصل اسٹیک ہولڈرز عوام ہیں، غیر جمہوری کارروائیوں سے نقصان عوام کا ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے شو آف ہینڈ کے ذریعے میئر، ڈپٹی میئر اور چیئرمین کے انتخاب کو چیلنج کر رکھا ہے اور سپریم کورٹ نے عبوری حکم کے ذریعے الیکشن روک رکھا ہے۔ اس آخری مرحلے کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھنے تک عوام مضطرب ہیں کیونکہ بلدیاتی اداروں کی غیر فعالی کے براہ راست اثرات عوام کو بھگتنے پڑ رہے ہیں۔
صوبائی حکومتیں پہلے تو عرصہ تک بلدیاتی انتخابات سے گریزاں رہیں لیکن اب جب کہ عوام نے اپنے بلدیاتی نمایندوں کا انتخاب کر لیا ہے تو مزید ٹال مٹول سے کام لیا جا رہا ہے۔ یہاں یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر کب تک مسائل سے یوں پہلو تہی کا رویہ برقرار رکھا جا سکے گا۔ ایم کیو ایم کے وکیل کا کہنا ہے کہ 3 ماہ سے بلدیاتی اداروں کو چلنے نہیں دیا جا رہا، لوگوں نے اپنے نمایندے منتخب کر لیے ہیں لیکن صوبائی حکومت سسٹم غیر فعال رکھ کر فنڈز خود استعمال کر رہی ہے۔
ایڈووکیٹ فروغ نسیم نے کہا کہ میئر، ڈپٹی میئر اور چیئرمین کے بغیر بلدیاتی نظام نامکمل ہے، شو آف ہینڈ کے ذریعے ان کا انتخاب جمہوریت کی روح کا منافی عمل ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے سوال اٹھایا کہ سندھ میں اور جماعتیں بھی جیتی ہیں، بلدیاتی اداروں کو فعال نہ کرنے کے پیچھے اصل مقصد کیا ہے؟ جسٹس دوست محمد خان نے کا کہنا صائب ہے کہ خیبرپختونخوا کے 2اضلاع کے 80 کروڑ روپے کے فنڈز صوبائی حکومت نے روک رکھے ہیں، بڑوں کی لڑائی میں نقصان عوام کا ہوتا ہے حالانکہ جمہوریت کے اصل اسٹیک ہولڈرز عوام ہیں۔ حقیقت تو یہی ہے کہ بلدیاتی اداروں کی جلد از جلد فعالیت عوام کے حق میں ہے، اس معاملے کو سیاست کی نذر کر کے مزید وقت ضایع نہ کیا جائے۔
دریں اثنا سپریم کورٹ نے بلدیاتی الیکشن کے ایک تنازع کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ تبدیلی کے دعوے دار منتخب نمایندے ایوان میں اپنی مرضی اور ضمیر کے مطابق ووٹ کا حق تک استعمال نہیں کر سکتے۔
جو بھی ہو، اس معاملے کا جلد از جلد تصفیہ کرنا از حد ضروری ہے تا کہ عوام میں پھیلی بے چینی کا خاتمہ ہو سکے۔ مشہور مفکر جی کے چیسٹرنر کا کہنا ہے کہ مقامی حکومت ہی خالص حکومت ہوتی ہے جسے شہری اپنی مقامیت کی شناخت کے حوالے سے مستحکم کرتے ہیں اور وہی شہر کی بہتر نگرانی کر سکتے ہیں کیونکہ وہ اپنے شہر سے واقف ہوتے ہیں۔ کیا ان بلیغ اشاروں میں ہمارے ارباب اختیار کے لیے غور و فکر کا کوئی سامان نہیں؟
واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے شو آف ہینڈ کے ذریعے میئر، ڈپٹی میئر اور چیئرمین کے انتخاب کو چیلنج کر رکھا ہے اور سپریم کورٹ نے عبوری حکم کے ذریعے الیکشن روک رکھا ہے۔ اس آخری مرحلے کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھنے تک عوام مضطرب ہیں کیونکہ بلدیاتی اداروں کی غیر فعالی کے براہ راست اثرات عوام کو بھگتنے پڑ رہے ہیں۔
صوبائی حکومتیں پہلے تو عرصہ تک بلدیاتی انتخابات سے گریزاں رہیں لیکن اب جب کہ عوام نے اپنے بلدیاتی نمایندوں کا انتخاب کر لیا ہے تو مزید ٹال مٹول سے کام لیا جا رہا ہے۔ یہاں یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر کب تک مسائل سے یوں پہلو تہی کا رویہ برقرار رکھا جا سکے گا۔ ایم کیو ایم کے وکیل کا کہنا ہے کہ 3 ماہ سے بلدیاتی اداروں کو چلنے نہیں دیا جا رہا، لوگوں نے اپنے نمایندے منتخب کر لیے ہیں لیکن صوبائی حکومت سسٹم غیر فعال رکھ کر فنڈز خود استعمال کر رہی ہے۔
ایڈووکیٹ فروغ نسیم نے کہا کہ میئر، ڈپٹی میئر اور چیئرمین کے بغیر بلدیاتی نظام نامکمل ہے، شو آف ہینڈ کے ذریعے ان کا انتخاب جمہوریت کی روح کا منافی عمل ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے سوال اٹھایا کہ سندھ میں اور جماعتیں بھی جیتی ہیں، بلدیاتی اداروں کو فعال نہ کرنے کے پیچھے اصل مقصد کیا ہے؟ جسٹس دوست محمد خان نے کا کہنا صائب ہے کہ خیبرپختونخوا کے 2اضلاع کے 80 کروڑ روپے کے فنڈز صوبائی حکومت نے روک رکھے ہیں، بڑوں کی لڑائی میں نقصان عوام کا ہوتا ہے حالانکہ جمہوریت کے اصل اسٹیک ہولڈرز عوام ہیں۔ حقیقت تو یہی ہے کہ بلدیاتی اداروں کی جلد از جلد فعالیت عوام کے حق میں ہے، اس معاملے کو سیاست کی نذر کر کے مزید وقت ضایع نہ کیا جائے۔
دریں اثنا سپریم کورٹ نے بلدیاتی الیکشن کے ایک تنازع کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ تبدیلی کے دعوے دار منتخب نمایندے ایوان میں اپنی مرضی اور ضمیر کے مطابق ووٹ کا حق تک استعمال نہیں کر سکتے۔
جو بھی ہو، اس معاملے کا جلد از جلد تصفیہ کرنا از حد ضروری ہے تا کہ عوام میں پھیلی بے چینی کا خاتمہ ہو سکے۔ مشہور مفکر جی کے چیسٹرنر کا کہنا ہے کہ مقامی حکومت ہی خالص حکومت ہوتی ہے جسے شہری اپنی مقامیت کی شناخت کے حوالے سے مستحکم کرتے ہیں اور وہی شہر کی بہتر نگرانی کر سکتے ہیں کیونکہ وہ اپنے شہر سے واقف ہوتے ہیں۔ کیا ان بلیغ اشاروں میں ہمارے ارباب اختیار کے لیے غور و فکر کا کوئی سامان نہیں؟