غلام فرید صابری فن قوالی کے بے تاج بادشاہ
کیسٹ میلوڈی ایوارڈ کی ایک کیٹیگری فن قوالی سے بھی متعلق تھی۔
ISLAMABAD:
کیسٹ میلوڈی ایوارڈ کی ایک کیٹیگری فن قوالی سے بھی متعلق تھی۔ جب پہلی بار بہترین قوال کا کیسٹ ایوارڈ دیا گیا تو کیسٹ مارکیٹ میں قوالی کے کیسٹوں میں بیسٹ سیلر قوال میں غلام فرید صابری کا نام منظر عام پر آیا تھا۔ کیسٹ مارکیٹ ہی کے ذریعے یہ بات بھی پتہ چلی کہ ہر سال جتنے کیسٹ غلام فریدی صابری کی قوالیوں کے بکتے ہیں ان سے کئی گنا تعداد چوری کی کیسٹوں کی فروخت بھی ہوتی ہے، جو کسی بڑی کمپنی کے نہیں ہوتے اور اس چوری کو پکڑنے کا کوئی قانون بھی ملک میں موجود نہیں ہے اور اس طرح غلام فرید صابری قوال کو کیسٹوں کی رائلٹی بھی برائے نام ہی ملتی ہے۔
مگر غلام فرید صابری قوال نے کبھی بھی اس طرف توجہ نہیں دی۔ وہ درویش صفت اور فقیر منش انسان تھے۔ ان دنوں مارکیٹ میں عزیز میاں قوال، ذکی تاجی قوال اور چھوٹے صالح محمد کی قوالیوں کے کیسٹ بھی ملتے تھے، مگر فروخت اور پسندیدگی کے اعتبار سے غلام فرید صابری کے کیسٹ سب سے آگے تھے اور اسی بنیاد پر غلام فرید صابری اور مقبول صابری قوال کو کیسٹ میلوڈی ایوارڈ کا حق دار قرار دیا گیا تھا۔ جب میں پہلی بار ان کے گھر واقع لیاقت آباد گیا تو میرے ساتھ مشہور کلاسیکل سنگر اور غزل سنگر استاد امیر احمد خان بھی تھے۔
طالب علمی کے زمانے میں اسلامیہ کالج میں میرے کلاس فیلو بھی رہ چکے تھے، میں نے غلام فرید صابری اور مقبول صابری کو کیسٹ ایوارڈ کے بارے میں بتایا اور تقریب میں شرکت کی دعوت دی، جسے انھوں نے بڑی محبت سے قبول کیا اور یقین دلایا کہ وہ ضرور ایوارڈ لینے آئیںگے۔ میں نے جانے کی اجازت چاہی تو وہ بولے ایسے کیسے جاسکتے ہیں، کچھ کھائے پیئے بغیر۔ میں نے کہا آپ سے ملاقات ہی میرے لیے سب سے بڑی خوشی کی بات ہے۔
یہ سن کر غلام فرید نے بڑے پیار سے کہا ہمدم میاں! آپ ایک مشہور شاعر ہیں اور آپ کے ساتھ امیر احمد خاں دہلی موسیقی گھرانے کے نامور چشم و چراغ ہیں، آپ کی خاطر مدارات کا کچھ تو ہمارا بھی حق بنتا ہے۔ ان کے گھر میں اس وقت حلیم موجود تھا۔ وہ کہنے لگے آپ پہلے حلیم کھائیںگے، پھر دودھ پتی کی یہ چائے۔ انھوں نے بڑی سی چائے کی کیتلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ آپ کے انتظار میں ہے۔ پھر ہم دونوں کا بیٹھنا وہاں لازم ہوگیا تھا، ہم نے مل کر حلیم بھی کھایا اور سب نے دودھ پتی کی چائے بھی نوش کی اور ہم جو کچھ دیر کے لیے یہاں آئے تھے پھر تین گھنٹے تک بیٹھے رہے اور ہر گھنٹے بعد چائے آتی رہی اور ہم پیتے رہے۔ اس چائے کا سرور ہی بڑا سریلا تھا، وہ چائے آج بھی یاد آتی ہے۔
جس دن ایوارڈ کی تقریب کا انعقاد ہوا اس دن غلام فرید صابری، مقبول صابری اپنی ساری ٹیم اور اپنے سارے ساز و سامان کے ساتھ موجود تھے اور تقریب میں اپنی خوبصورت قوالی سے کیسٹ میلوڈی ایوارڈ کی تقریب کے حسن کو دوبالا کردیا تھا۔ میں نے غلام فرید صاحب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ فرید بھائی مجھے آپ کی شرکت کا تو یقین تھا مگر یہ توقع اور امید بالکل نہیں تھی کہ آپ ایک بس بھر کے اپنی ساری ٹیم کو بھی لے کر آئیںگے اور اپنی قوالی کا رنگ جماکر ایوارڈ کی اس تقریب کو یاد گار بنادیںگے۔
یہ سن کر فرید بھائی بولے یونس میاں دنیا کی دولت دنیا ہی میں رہ جاتی ہے اور فنا ہوجاتی ہی، یہ محبت ہی ہوتی ہے جو سدا دلوں میں قائم رہتی ہے، آپ نے جس محبت سے دعوت دی تھی ہم نے تو اس محبت کا تھوڑا قرض چکایا ہے۔ غلام فرید صاحب کا جواب سن کر میری آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔ واقعی سچے فنکار ایسے ہی ہوتے ہیں اور یہ دنیا ایسے ہی سچے فنکاروں سے روشن ہے۔ اب میں غلام فرید صابری کی شخصیت کے بارے میں کچھ بتاتا ہوں۔ یہ دونوں بھائی بچپن ہی سے مزاروں اور عرس پر جانے کے شوقین تھے۔
دونوں بھائی ہمیشہ دوستوں کی طرح رہتے تھے اور فن قوالی سے دیوانگی کی حد تک محبت کرتے تھے، ہندوستان میں اجمیر شریف اور اجمیر شریف کے عرسوں کے موقع پر ہمیشہ ان دونوں بھائیوں کی حاضری رہا کرتی تھی، موسیقی سے بچپن ہی سے دونوں بھائیوں کو بڑی دلچسپی تھی، ''صابر پیا'' کے پیار اور عقیدت میں ڈوب کر انھوں نے اپنے ناموں کے ساتھ صابری لگالیا تھا اور ان کی قوالی کا آغاز بھی مزاروں پر قوالی ہی سے ہوا تھا۔ خواجہ اجمیری چشتی کے مزار پر ان کی ایک قوالی کا رنگ ہی جدا تھا۔ ''آئے ہیں تیرے در پہ تو کچھ لے کے جائیںگے''۔
اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان کا دامن دولت اور شہرت سے بھرتا چلا گیا، دونوں بھائی جہاں سریلے تھے وہاں اچھے لے کار بھی تھے، جہاں بھی قوالی پیش کرتے تھے، اپنا رنگ جمادیتے تھے، پھر ایک وہ وقت بھی آیا کہ بڑی بڑی ریکارڈنگ کمپنیاں بڑے فخر کے ساتھ ان کی قوالیوں کے ریکارڈ بناکر مارکیٹ کرنے کی منتظر رہتی تھیں اور ان کی شہرت سارے برصغیر میں پھیلتی چلی گئی۔ پاکستان میں جب کیسٹ کا رواج ہوا تو ہر کیسٹ کمپنی ان کی قوالیوں کے کیسٹ منظر عام پر آنے لگی، ان دنوں ان کی چند قوالیوں نے بڑی دھوم مچائی ہوئی تھی۔ جن میں چند یہ قوالیاں تو بڑی روح پرور تھیں
''سر لا مکاں سے طلب ہوئی''
''یا صاحب الجمال یا سید البشر''
''تاجدار حرم ہو نگاہ کرم''
''بھردو جھولی میری یا محمد''
''دمادم مست قلندر'' اور دیگر بے شمار قوالیاں، کیسٹ کمپنیوں کے علاوہ EMI گراموفون کمپنی بھی ہمہ وقت ان کی قوالیوں کی ریکارڈنگ کے لیے تیار رہتی تھی۔ پھر فلمی دنیا میں بھی ان کی انٹری فلم ''عشق حبیب'' میں ایک شاندار قوالی سے ہوئی یہ قوالی کی نغمہ نگار مسرور انور نے لکھی تھی جس کے بول تھے:
''میرا کوئی نہیں ہے تیرے سوا
میں بن کے سوالی آیا ہوں
مجھے نظر کرم کی بھیک ملے آقا بھیک ملے''
اس قوالی کی موسیقی ریڈیو پاکستان کراچی کے ایک اسٹاف میوزک کمپوزر ظفر خورشید نے مرتب کی تھی اور فلم کی ریلیز سے پہلے ہی اس قوالی نے ہر طرف دھوم مچادی تھی۔
یہ ایک ایسی قوالی تھی جس نے پچھلی بہت سی فلمی قوالیوں کو ماند کردیا تھا اور یہ قوالی مقبولیت اور پسندیدگی کی ایک سند بن گئی تھی، قوالی کی دنیا میں ان دونوں بھائیوں کی جوڑی چاند اور سورج کی سی جوڑی تھی، بعض گائیکی سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کا خیال تھا کہ غلام فرید صابری کی آواز میں ایک سریلی گھن گرج تھی، مگر مقبول صابری کی آواز میں دھیمے دھیمے انداز میں سروں کا رچاؤ زیادہ تھا، قوالی کے دوران جب غلام فرید صابری اپنی اونچی آواز میں سروں سے بھری تان لگاتے تھے اور جب دوران قوالی وہ بڑے روح پرور انداز میں ''اﷲ'' کہتے تھے تو ساری محفل جھوم اٹھتی تھی، اور ان کی یہ ایک تان ہی محفل کی جان بن جاتی تھی۔ ان کے بارے میں بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ غلام فرید صابری فن قوالی کے بے تاج بادشاہ تھے، غلام فرید صابری کی گائیکی کا انداز ہی سب سے الگ اور سب سے جدا تھا۔
آج دونوں بھائی اس دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کی روح پرور قوالیاں برسوں دلوں میں زندہ رہیںگی۔ ایک خوش قسمتی کی بات یہ بھی ہے کہ غلام فرید صابری کا بیٹا امجد صابری اپنے والد کے فن کو سینے سے لگائے ہوئے ہے اور اپنی محنت، لگن اور سریلی آواز کے ساتھ اپنے والد کے فن کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ فروغ دے رہا ہے، جس طرح غلام فرید صابری نے ساری دنیا میں اپنے فن کا جادو جگایا تھا اسی طرح امجد صابری بھی بڑی جانفشانی کے ساتھ برصغیر پاک و ہند کے علاوہ امریکا، یورپ اور افریقہ میں بھی قوالی کی قدر و منزلت کو بڑھا رہا ہے۔
کیسٹ میلوڈی ایوارڈ کی ایک کیٹیگری فن قوالی سے بھی متعلق تھی۔ جب پہلی بار بہترین قوال کا کیسٹ ایوارڈ دیا گیا تو کیسٹ مارکیٹ میں قوالی کے کیسٹوں میں بیسٹ سیلر قوال میں غلام فرید صابری کا نام منظر عام پر آیا تھا۔ کیسٹ مارکیٹ ہی کے ذریعے یہ بات بھی پتہ چلی کہ ہر سال جتنے کیسٹ غلام فریدی صابری کی قوالیوں کے بکتے ہیں ان سے کئی گنا تعداد چوری کی کیسٹوں کی فروخت بھی ہوتی ہے، جو کسی بڑی کمپنی کے نہیں ہوتے اور اس چوری کو پکڑنے کا کوئی قانون بھی ملک میں موجود نہیں ہے اور اس طرح غلام فرید صابری قوال کو کیسٹوں کی رائلٹی بھی برائے نام ہی ملتی ہے۔
مگر غلام فرید صابری قوال نے کبھی بھی اس طرف توجہ نہیں دی۔ وہ درویش صفت اور فقیر منش انسان تھے۔ ان دنوں مارکیٹ میں عزیز میاں قوال، ذکی تاجی قوال اور چھوٹے صالح محمد کی قوالیوں کے کیسٹ بھی ملتے تھے، مگر فروخت اور پسندیدگی کے اعتبار سے غلام فرید صابری کے کیسٹ سب سے آگے تھے اور اسی بنیاد پر غلام فرید صابری اور مقبول صابری قوال کو کیسٹ میلوڈی ایوارڈ کا حق دار قرار دیا گیا تھا۔ جب میں پہلی بار ان کے گھر واقع لیاقت آباد گیا تو میرے ساتھ مشہور کلاسیکل سنگر اور غزل سنگر استاد امیر احمد خان بھی تھے۔
طالب علمی کے زمانے میں اسلامیہ کالج میں میرے کلاس فیلو بھی رہ چکے تھے، میں نے غلام فرید صابری اور مقبول صابری کو کیسٹ ایوارڈ کے بارے میں بتایا اور تقریب میں شرکت کی دعوت دی، جسے انھوں نے بڑی محبت سے قبول کیا اور یقین دلایا کہ وہ ضرور ایوارڈ لینے آئیںگے۔ میں نے جانے کی اجازت چاہی تو وہ بولے ایسے کیسے جاسکتے ہیں، کچھ کھائے پیئے بغیر۔ میں نے کہا آپ سے ملاقات ہی میرے لیے سب سے بڑی خوشی کی بات ہے۔
یہ سن کر غلام فرید نے بڑے پیار سے کہا ہمدم میاں! آپ ایک مشہور شاعر ہیں اور آپ کے ساتھ امیر احمد خاں دہلی موسیقی گھرانے کے نامور چشم و چراغ ہیں، آپ کی خاطر مدارات کا کچھ تو ہمارا بھی حق بنتا ہے۔ ان کے گھر میں اس وقت حلیم موجود تھا۔ وہ کہنے لگے آپ پہلے حلیم کھائیںگے، پھر دودھ پتی کی یہ چائے۔ انھوں نے بڑی سی چائے کی کیتلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ آپ کے انتظار میں ہے۔ پھر ہم دونوں کا بیٹھنا وہاں لازم ہوگیا تھا، ہم نے مل کر حلیم بھی کھایا اور سب نے دودھ پتی کی چائے بھی نوش کی اور ہم جو کچھ دیر کے لیے یہاں آئے تھے پھر تین گھنٹے تک بیٹھے رہے اور ہر گھنٹے بعد چائے آتی رہی اور ہم پیتے رہے۔ اس چائے کا سرور ہی بڑا سریلا تھا، وہ چائے آج بھی یاد آتی ہے۔
جس دن ایوارڈ کی تقریب کا انعقاد ہوا اس دن غلام فرید صابری، مقبول صابری اپنی ساری ٹیم اور اپنے سارے ساز و سامان کے ساتھ موجود تھے اور تقریب میں اپنی خوبصورت قوالی سے کیسٹ میلوڈی ایوارڈ کی تقریب کے حسن کو دوبالا کردیا تھا۔ میں نے غلام فرید صاحب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ فرید بھائی مجھے آپ کی شرکت کا تو یقین تھا مگر یہ توقع اور امید بالکل نہیں تھی کہ آپ ایک بس بھر کے اپنی ساری ٹیم کو بھی لے کر آئیںگے اور اپنی قوالی کا رنگ جماکر ایوارڈ کی اس تقریب کو یاد گار بنادیںگے۔
یہ سن کر فرید بھائی بولے یونس میاں دنیا کی دولت دنیا ہی میں رہ جاتی ہے اور فنا ہوجاتی ہی، یہ محبت ہی ہوتی ہے جو سدا دلوں میں قائم رہتی ہے، آپ نے جس محبت سے دعوت دی تھی ہم نے تو اس محبت کا تھوڑا قرض چکایا ہے۔ غلام فرید صاحب کا جواب سن کر میری آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔ واقعی سچے فنکار ایسے ہی ہوتے ہیں اور یہ دنیا ایسے ہی سچے فنکاروں سے روشن ہے۔ اب میں غلام فرید صابری کی شخصیت کے بارے میں کچھ بتاتا ہوں۔ یہ دونوں بھائی بچپن ہی سے مزاروں اور عرس پر جانے کے شوقین تھے۔
دونوں بھائی ہمیشہ دوستوں کی طرح رہتے تھے اور فن قوالی سے دیوانگی کی حد تک محبت کرتے تھے، ہندوستان میں اجمیر شریف اور اجمیر شریف کے عرسوں کے موقع پر ہمیشہ ان دونوں بھائیوں کی حاضری رہا کرتی تھی، موسیقی سے بچپن ہی سے دونوں بھائیوں کو بڑی دلچسپی تھی، ''صابر پیا'' کے پیار اور عقیدت میں ڈوب کر انھوں نے اپنے ناموں کے ساتھ صابری لگالیا تھا اور ان کی قوالی کا آغاز بھی مزاروں پر قوالی ہی سے ہوا تھا۔ خواجہ اجمیری چشتی کے مزار پر ان کی ایک قوالی کا رنگ ہی جدا تھا۔ ''آئے ہیں تیرے در پہ تو کچھ لے کے جائیںگے''۔
اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان کا دامن دولت اور شہرت سے بھرتا چلا گیا، دونوں بھائی جہاں سریلے تھے وہاں اچھے لے کار بھی تھے، جہاں بھی قوالی پیش کرتے تھے، اپنا رنگ جمادیتے تھے، پھر ایک وہ وقت بھی آیا کہ بڑی بڑی ریکارڈنگ کمپنیاں بڑے فخر کے ساتھ ان کی قوالیوں کے ریکارڈ بناکر مارکیٹ کرنے کی منتظر رہتی تھیں اور ان کی شہرت سارے برصغیر میں پھیلتی چلی گئی۔ پاکستان میں جب کیسٹ کا رواج ہوا تو ہر کیسٹ کمپنی ان کی قوالیوں کے کیسٹ منظر عام پر آنے لگی، ان دنوں ان کی چند قوالیوں نے بڑی دھوم مچائی ہوئی تھی۔ جن میں چند یہ قوالیاں تو بڑی روح پرور تھیں
''سر لا مکاں سے طلب ہوئی''
''یا صاحب الجمال یا سید البشر''
''تاجدار حرم ہو نگاہ کرم''
''بھردو جھولی میری یا محمد''
''دمادم مست قلندر'' اور دیگر بے شمار قوالیاں، کیسٹ کمپنیوں کے علاوہ EMI گراموفون کمپنی بھی ہمہ وقت ان کی قوالیوں کی ریکارڈنگ کے لیے تیار رہتی تھی۔ پھر فلمی دنیا میں بھی ان کی انٹری فلم ''عشق حبیب'' میں ایک شاندار قوالی سے ہوئی یہ قوالی کی نغمہ نگار مسرور انور نے لکھی تھی جس کے بول تھے:
''میرا کوئی نہیں ہے تیرے سوا
میں بن کے سوالی آیا ہوں
مجھے نظر کرم کی بھیک ملے آقا بھیک ملے''
اس قوالی کی موسیقی ریڈیو پاکستان کراچی کے ایک اسٹاف میوزک کمپوزر ظفر خورشید نے مرتب کی تھی اور فلم کی ریلیز سے پہلے ہی اس قوالی نے ہر طرف دھوم مچادی تھی۔
یہ ایک ایسی قوالی تھی جس نے پچھلی بہت سی فلمی قوالیوں کو ماند کردیا تھا اور یہ قوالی مقبولیت اور پسندیدگی کی ایک سند بن گئی تھی، قوالی کی دنیا میں ان دونوں بھائیوں کی جوڑی چاند اور سورج کی سی جوڑی تھی، بعض گائیکی سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کا خیال تھا کہ غلام فرید صابری کی آواز میں ایک سریلی گھن گرج تھی، مگر مقبول صابری کی آواز میں دھیمے دھیمے انداز میں سروں کا رچاؤ زیادہ تھا، قوالی کے دوران جب غلام فرید صابری اپنی اونچی آواز میں سروں سے بھری تان لگاتے تھے اور جب دوران قوالی وہ بڑے روح پرور انداز میں ''اﷲ'' کہتے تھے تو ساری محفل جھوم اٹھتی تھی، اور ان کی یہ ایک تان ہی محفل کی جان بن جاتی تھی۔ ان کے بارے میں بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ غلام فرید صابری فن قوالی کے بے تاج بادشاہ تھے، غلام فرید صابری کی گائیکی کا انداز ہی سب سے الگ اور سب سے جدا تھا۔
آج دونوں بھائی اس دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کی روح پرور قوالیاں برسوں دلوں میں زندہ رہیںگی۔ ایک خوش قسمتی کی بات یہ بھی ہے کہ غلام فرید صابری کا بیٹا امجد صابری اپنے والد کے فن کو سینے سے لگائے ہوئے ہے اور اپنی محنت، لگن اور سریلی آواز کے ساتھ اپنے والد کے فن کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ فروغ دے رہا ہے، جس طرح غلام فرید صابری نے ساری دنیا میں اپنے فن کا جادو جگایا تھا اسی طرح امجد صابری بھی بڑی جانفشانی کے ساتھ برصغیر پاک و ہند کے علاوہ امریکا، یورپ اور افریقہ میں بھی قوالی کی قدر و منزلت کو بڑھا رہا ہے۔