سستا خون مہنگا پانی
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آنے والے وقتوں میں ہمارا خطہ ارض پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنے والا ہے
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آنے والے وقتوں میں ہمارا خطہ ارض پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنے والا ہے اور یوں ہزاروں بلائیں ہمیں اپنے حصار میں لینے والی ہیں، چنانچہ اس صورتحال کے سدباب کے لیے جہاں عوامی آگہی کی مہم چلائی جا رہی ہے وہیں مختلف ممالک اپنے آبی وسائل کی محفوظ رکھنے اور ان میں اضافے کے لیے ہر ممکن کوشش بھی کر رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتوں دنیا بھر میں پانی کا عالمی دن منایا گیا اور پانی کی اہمیت، اس کی افادیت اور اس کے زیاں پر موثر طریقے سے میڈیا کے ذریعے روشنی ڈالی گئی۔ پانی و بجلی کے وفاقی وزیر نے بھی دنیا میں پانی کی تشویش ناک حد تک ہونے والی کمی پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم لوگ اس صورتحال سے بے خبری کی بنیاد پر جس طرح پانی کی دولت پانی کی طرح بہاتے ہیں اس کی ایک مثال یہ ہے کہ صبح برش کرتے ہوئے یا شیو کرتے وقت ہم نلکا کھول دیتے ہیں اور پانی اس میں سے اس وقت تک بہتا رہتا ہے جب تک ہم شیو مکمل نہیں کرلیتے اس امر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم لوگ صرف شیو یا دانت صاف کرنے کی مد میں کتنا پانی خرچ کردیتے ہیں۔
وزیر موصوف کی اس بات میں صداقت نظر آتی ہے اور یہ سچ بھی ہے کہ ہم معمولی سے معمولی دورانیے کے کام پر بے بہا پانی ضایع کرتے چلے آرہے ہیں اور ہمیں مطلق اندازہ نہیں ہو پا رہا کہ جن گھروں، جن علاقوں میں پانی کی شدید قلت ہے ان کی نظر یا ان کے لیے پانی کی کس قدر اہمیت اور افادیت ہے۔ اگر اب بھی ہم روزمرہ کے استعمال میں خرچ ہونے والے پانی کو اعتدال سے خرچ کریں یا پانی کے خرچے میں کفایت شعاری سے کام لیں تو ایک سال میں ہم لاکھوں ٹن پانی کی بچت کرسکتے ہیں اس امر سے اور کچھ نہیں تو پانی کے قحط، کمی اور اس کی بہتری کے حوالے سے ایک بوند پانی کا کردار تو ادا کر ہی سکتے ہیں۔
افسوس ناک بات اس حوالے سے یہ ہے کہ جہاں پوری دنیا میں پانی کی قلت کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے وہاں ہمارے ہاں ابھی تک کوئی ''آبی پالیسی'' ایسی نہیں مرتب ہوسکی ہے۔ ہمارے ہاں پانی کی پراسسنگ نہ ہونے کی وجہ سے اس کی طلب و رسد کا توازن بگڑتا جا رہا ہے، ایک طرف زراعت کے لیے استعمال ہونے والے پانی سے آبیانے کی مد میں حکومت کو بہت کم آمدنی ہوتی ہے اور دوسری طرف پاکستان میں دستیاب 90 فیصد پانی زراعت کے لیے استعمال ہوتا ہے اور صرف پانچ فیصد سے صنعتی و تجارتی اور بقیہ پانچ فیصد پانی سے عوامی یا انسانی ضرورتیں پوری کی جاتی ہیں اور یوں آب پاشی نظام کی بحالی کا 75 فیصد بوجھ ملک کا ٹیکس ادا کرنے والا طبقہ اور 25 فیصد رقم حکومت کو آبیانہ کی مد میں حاصل ہوتی ہے۔
یوں تو مذکورہ بالا اعداد و شمار سے ملک میں پانی کے قحط اور اس کی کمیابی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے لیکن پاکستان کے سب سے بڑے اور اہم ترین شہر کراچی جسے معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے اس شہر میں پانی کی قلت حد درجہ تشویشناک صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ کراچی میں پانی کی قلت کی وجہ اور گرمی کی آمد سے پانی کے ٹینکروں کی قیمتوں میں تین سے چار گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ دو ہزار گیلن کے ٹینکر جس کی سرکاری قیمت 13 سو روپے ہے نلکوں سے پانی کی محرومی کے شکار شہری اب 6 سے 7 ہزار روپے میں خریدنے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔ جب کہ ڈپٹی کمشنرز کے ذریعے غریب آبادیوں میں واٹر ٹینکروں کی تقسیم بھی ختم کردی گئی ہے۔
شہر کے متعدد علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ لائنوں کے ذریعے ان کے ہاں پانی پہنچانے میں واٹر بورڈ تاحال ناکام ہے اور وہ مجبوراً واٹر بورڈ کے زیر انتظام ہائیڈرنٹس سے ٹینکر خریدتے ہیں لیکن ان ہائیڈرنٹس پر لائن میں لگنے کے باوجود انھیں ٹینکر نہیں ملتا جس کے بعد وہ مجبوراً پرائیویٹ ٹینکر خریدتے ہیں جو ہائیڈرنٹس کا ہی پانی انھیں کئی گنا مہنگا فروخت کرتے ہیں۔ پانی کے صارفین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت ایک ہزار گیلن ٹینکر کی سرکاری قیمت ایک ہزار روپے ہے لیکن یہ ڈھائی سے تین ہزار روپے میں ملتا ہے۔
اس بات میں قطعی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ''کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ'' کا اس وقت کوئی میکنزم نہیں ہے جو ہائیڈرنٹس پر تعینات اپنے عملے اور ٹینکر کو چیک کرسکے اور اس پر طرفہ تماشہ یہ ہے کہ واٹر بورڈ نے حالیہ دنوں میں مزید ہائیڈرنٹس کم کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن ان کا پانی (عوام کے حصے کا) متعلقہ یا متاثرہ علاقوں میں پہنچنے کے بجائے پتا نہیں کہاں جا رہا ہے؟ البتہ پانی کا ماہانہ بل درست پتے پر پہنچایا جا رہا ہے اور بیشتر بلکہ اکثر علاقہ مکین پانی نہ آنے پر بھی باقاعدگی سے پانی کا بل ادا کرتے چلے آرہے ہیں۔
ریاست یا ہمارے ارباب اختیار کو اس اہم سوال کا جواب آج تک کیوں نہیں سوجھا کہ وطن عزیز میں خون سستا اور پانی آخر کیوں مہنگا ہے؟
کون نہیں جانتا، کسے نہیں معلوم کہ حکومتوں کا کام لوگوں کی جان و مال کا اندرونی مجرموں اور بیرونی حملہ آوروں سے تحفظ کرنا، انھیں روزگار کے مواقعے دینا یا بے روزگاری الاؤنس کی صورت میں زندہ رہنے کا حق دینا، ضروری اشیا لوگوں کو قوت خرید میں رکھنا اور انھیں آسانیاں فراہم کرنا ہے مگر ایسا کیوں ہوا کہ پاکستانی عوام کی بڑی تعداد زندگی کی بنیادی سہولتوں بالخصوص پانی کی شدید قلت (کہ پانی ہی زندگی ہے) کا شکار چلی آرہی ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس عہد میں اپنی بقا کی جنگ لڑنے والے متاثرین اہل وطن کا زندگی سے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رہتا اور انھیں ان کے جائز حق سے محروم نہ ہونا پڑتا لیکن تماشا عجیب یہ ہے کہ ان کی اگلی نسلوں کے گلوں میں بھاری قرضوں کا طوق ڈال دیا گیا۔
گزشتہ دنوں ایک جریدے میں یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ ایک خلیجی ملک میں ''وزارت برداشت'' قائم کی جا رہی ہے۔ ہمارے خیال سے تو اس وزارت کی سب سے زیادہ ضرورت ہمارے ملک میں ہے۔ کیونکہ عدم برداشت کا جو رویہ ہمارے معاشرے میں پروان چڑھ رہا ہے وہ اب واقعی ناقابل برداشت ہوچکا ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی اپنی مرضی اپنی رائے کے خلاف کچھ بھی سننے کا حوصلہ نہیں رکھتا، طرفہ تماشا یہ کہ ضروریات زندگی کی وہ اہم ترین چیزیں جنھیں ہر انسان کی ازلی ضرورت کا نام بھی دیا جاسکتا ہے اس کی دسترس سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ ان حالات میں ہمیں ایک ''وزارت برداشت'' کی اشد ضرورت ہے جو معاشرے میں برداشت اور برداشت یا مزید برداشت، بلند حوصلگی اور اعلیٰ ظرفی کے معیارات کو سامنے لائے انھیں پروان چڑھائے۔ لیکن پھر ہم سوچتے ہیں کہ اگر وزارت برداشت نے بھی اس کارکردگی کا مظاہرہ کیا جو وزارت تعلیم، وزارت صحت، وزارت بجلی، پانی و گیس وغیرہ اپنے اپنے معاملات میں دکھا رہی ہے تو ہمارا اور ہمارے لاچار معاشرے کا کیا بنے گا؟
کاش ہم میں ان حالات یا اس تناظر میں بھی اس حقیقت کا ادراک ہوجائے کہ ہمارا ملک وسائل اور صلاحیتوں سے لدھا پھندا ملک ہے، ہمارا اور ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل بھی اس سرزمین سے وابستہ ہے، ہمیں اسی ملک میں رہنا ہے، ہمیں رہنا بھی چاہیے لہٰذا ہم میں سے سبھی کو اپنی اپنی ذمے داریوں کا پوری طرح احساس کرنا چاہیے کہ اس میں ہماری اور ہماری مملکت کی بقا ہے۔
گزشتہ ہفتوں دنیا بھر میں پانی کا عالمی دن منایا گیا اور پانی کی اہمیت، اس کی افادیت اور اس کے زیاں پر موثر طریقے سے میڈیا کے ذریعے روشنی ڈالی گئی۔ پانی و بجلی کے وفاقی وزیر نے بھی دنیا میں پانی کی تشویش ناک حد تک ہونے والی کمی پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم لوگ اس صورتحال سے بے خبری کی بنیاد پر جس طرح پانی کی دولت پانی کی طرح بہاتے ہیں اس کی ایک مثال یہ ہے کہ صبح برش کرتے ہوئے یا شیو کرتے وقت ہم نلکا کھول دیتے ہیں اور پانی اس میں سے اس وقت تک بہتا رہتا ہے جب تک ہم شیو مکمل نہیں کرلیتے اس امر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم لوگ صرف شیو یا دانت صاف کرنے کی مد میں کتنا پانی خرچ کردیتے ہیں۔
وزیر موصوف کی اس بات میں صداقت نظر آتی ہے اور یہ سچ بھی ہے کہ ہم معمولی سے معمولی دورانیے کے کام پر بے بہا پانی ضایع کرتے چلے آرہے ہیں اور ہمیں مطلق اندازہ نہیں ہو پا رہا کہ جن گھروں، جن علاقوں میں پانی کی شدید قلت ہے ان کی نظر یا ان کے لیے پانی کی کس قدر اہمیت اور افادیت ہے۔ اگر اب بھی ہم روزمرہ کے استعمال میں خرچ ہونے والے پانی کو اعتدال سے خرچ کریں یا پانی کے خرچے میں کفایت شعاری سے کام لیں تو ایک سال میں ہم لاکھوں ٹن پانی کی بچت کرسکتے ہیں اس امر سے اور کچھ نہیں تو پانی کے قحط، کمی اور اس کی بہتری کے حوالے سے ایک بوند پانی کا کردار تو ادا کر ہی سکتے ہیں۔
افسوس ناک بات اس حوالے سے یہ ہے کہ جہاں پوری دنیا میں پانی کی قلت کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے وہاں ہمارے ہاں ابھی تک کوئی ''آبی پالیسی'' ایسی نہیں مرتب ہوسکی ہے۔ ہمارے ہاں پانی کی پراسسنگ نہ ہونے کی وجہ سے اس کی طلب و رسد کا توازن بگڑتا جا رہا ہے، ایک طرف زراعت کے لیے استعمال ہونے والے پانی سے آبیانے کی مد میں حکومت کو بہت کم آمدنی ہوتی ہے اور دوسری طرف پاکستان میں دستیاب 90 فیصد پانی زراعت کے لیے استعمال ہوتا ہے اور صرف پانچ فیصد سے صنعتی و تجارتی اور بقیہ پانچ فیصد پانی سے عوامی یا انسانی ضرورتیں پوری کی جاتی ہیں اور یوں آب پاشی نظام کی بحالی کا 75 فیصد بوجھ ملک کا ٹیکس ادا کرنے والا طبقہ اور 25 فیصد رقم حکومت کو آبیانہ کی مد میں حاصل ہوتی ہے۔
یوں تو مذکورہ بالا اعداد و شمار سے ملک میں پانی کے قحط اور اس کی کمیابی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے لیکن پاکستان کے سب سے بڑے اور اہم ترین شہر کراچی جسے معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے اس شہر میں پانی کی قلت حد درجہ تشویشناک صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ کراچی میں پانی کی قلت کی وجہ اور گرمی کی آمد سے پانی کے ٹینکروں کی قیمتوں میں تین سے چار گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ دو ہزار گیلن کے ٹینکر جس کی سرکاری قیمت 13 سو روپے ہے نلکوں سے پانی کی محرومی کے شکار شہری اب 6 سے 7 ہزار روپے میں خریدنے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔ جب کہ ڈپٹی کمشنرز کے ذریعے غریب آبادیوں میں واٹر ٹینکروں کی تقسیم بھی ختم کردی گئی ہے۔
شہر کے متعدد علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ لائنوں کے ذریعے ان کے ہاں پانی پہنچانے میں واٹر بورڈ تاحال ناکام ہے اور وہ مجبوراً واٹر بورڈ کے زیر انتظام ہائیڈرنٹس سے ٹینکر خریدتے ہیں لیکن ان ہائیڈرنٹس پر لائن میں لگنے کے باوجود انھیں ٹینکر نہیں ملتا جس کے بعد وہ مجبوراً پرائیویٹ ٹینکر خریدتے ہیں جو ہائیڈرنٹس کا ہی پانی انھیں کئی گنا مہنگا فروخت کرتے ہیں۔ پانی کے صارفین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت ایک ہزار گیلن ٹینکر کی سرکاری قیمت ایک ہزار روپے ہے لیکن یہ ڈھائی سے تین ہزار روپے میں ملتا ہے۔
اس بات میں قطعی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ''کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ'' کا اس وقت کوئی میکنزم نہیں ہے جو ہائیڈرنٹس پر تعینات اپنے عملے اور ٹینکر کو چیک کرسکے اور اس پر طرفہ تماشہ یہ ہے کہ واٹر بورڈ نے حالیہ دنوں میں مزید ہائیڈرنٹس کم کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن ان کا پانی (عوام کے حصے کا) متعلقہ یا متاثرہ علاقوں میں پہنچنے کے بجائے پتا نہیں کہاں جا رہا ہے؟ البتہ پانی کا ماہانہ بل درست پتے پر پہنچایا جا رہا ہے اور بیشتر بلکہ اکثر علاقہ مکین پانی نہ آنے پر بھی باقاعدگی سے پانی کا بل ادا کرتے چلے آرہے ہیں۔
ریاست یا ہمارے ارباب اختیار کو اس اہم سوال کا جواب آج تک کیوں نہیں سوجھا کہ وطن عزیز میں خون سستا اور پانی آخر کیوں مہنگا ہے؟
کون نہیں جانتا، کسے نہیں معلوم کہ حکومتوں کا کام لوگوں کی جان و مال کا اندرونی مجرموں اور بیرونی حملہ آوروں سے تحفظ کرنا، انھیں روزگار کے مواقعے دینا یا بے روزگاری الاؤنس کی صورت میں زندہ رہنے کا حق دینا، ضروری اشیا لوگوں کو قوت خرید میں رکھنا اور انھیں آسانیاں فراہم کرنا ہے مگر ایسا کیوں ہوا کہ پاکستانی عوام کی بڑی تعداد زندگی کی بنیادی سہولتوں بالخصوص پانی کی شدید قلت (کہ پانی ہی زندگی ہے) کا شکار چلی آرہی ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس عہد میں اپنی بقا کی جنگ لڑنے والے متاثرین اہل وطن کا زندگی سے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رہتا اور انھیں ان کے جائز حق سے محروم نہ ہونا پڑتا لیکن تماشا عجیب یہ ہے کہ ان کی اگلی نسلوں کے گلوں میں بھاری قرضوں کا طوق ڈال دیا گیا۔
گزشتہ دنوں ایک جریدے میں یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ ایک خلیجی ملک میں ''وزارت برداشت'' قائم کی جا رہی ہے۔ ہمارے خیال سے تو اس وزارت کی سب سے زیادہ ضرورت ہمارے ملک میں ہے۔ کیونکہ عدم برداشت کا جو رویہ ہمارے معاشرے میں پروان چڑھ رہا ہے وہ اب واقعی ناقابل برداشت ہوچکا ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی اپنی مرضی اپنی رائے کے خلاف کچھ بھی سننے کا حوصلہ نہیں رکھتا، طرفہ تماشا یہ کہ ضروریات زندگی کی وہ اہم ترین چیزیں جنھیں ہر انسان کی ازلی ضرورت کا نام بھی دیا جاسکتا ہے اس کی دسترس سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ ان حالات میں ہمیں ایک ''وزارت برداشت'' کی اشد ضرورت ہے جو معاشرے میں برداشت اور برداشت یا مزید برداشت، بلند حوصلگی اور اعلیٰ ظرفی کے معیارات کو سامنے لائے انھیں پروان چڑھائے۔ لیکن پھر ہم سوچتے ہیں کہ اگر وزارت برداشت نے بھی اس کارکردگی کا مظاہرہ کیا جو وزارت تعلیم، وزارت صحت، وزارت بجلی، پانی و گیس وغیرہ اپنے اپنے معاملات میں دکھا رہی ہے تو ہمارا اور ہمارے لاچار معاشرے کا کیا بنے گا؟
کاش ہم میں ان حالات یا اس تناظر میں بھی اس حقیقت کا ادراک ہوجائے کہ ہمارا ملک وسائل اور صلاحیتوں سے لدھا پھندا ملک ہے، ہمارا اور ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل بھی اس سرزمین سے وابستہ ہے، ہمیں اسی ملک میں رہنا ہے، ہمیں رہنا بھی چاہیے لہٰذا ہم میں سے سبھی کو اپنی اپنی ذمے داریوں کا پوری طرح احساس کرنا چاہیے کہ اس میں ہماری اور ہماری مملکت کی بقا ہے۔