وقار یونس نے بھی کرسی سے چمٹے رہنے کا ارادہ کر لیا
حکام کے دل سے اتر چکے،کوچ برقرار رہنا دشوار، ماضی میں کئی بار من مانیاں کیں
کوچ وقار یونس نے بھی کرسی سے چمٹے رہنے کا ارادہ کر لیا.
ڈیو واٹمور کے بعد جب سابق پیسرکوچ بنے تو ٹیسٹ میں ٹیم چوتھے نمبر پر تھی، اب بھی یہ پوزیشن برقرار ہے البتہ ون ڈے میں 5 سے 8 جب کہ ٹوئنٹی 20 میں ٹیم تیسرے سے آٹھویں درجے پر آ چکی ہے، وقار یونس نے اپنی مرضی کا سپورٹنگ اسٹاف مانگا، ان کے کہنے پر ہی گرانٹ فلاور کو بیٹنگ اور مشتاق احمد کو اسپن بولنگ کوچ مقرر کیا گیا، ایشیا کپ سے قبل مشتاق کی جگہ انھوں نے ہی اظہر محمود کے تقرر کا مطالبہ کیا تھا، وہ ہر بار بورڈ کو یہ کہہ کر بلیک میل کرتے تھے کہ اگر بات نہ مانی تو میڈیا پر آ کر کہوں گا۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ مختار احمد سمیت ڈومیسٹک کرکٹ سے قومی ٹیم میں آنے والے بیشتر پلیئرز کی سفارش بھی ہیڈ کوچ نے کی تھی، ورلڈ ٹی ٹوئنٹی اسکواڈ میں سلیکٹرز محمد عرفان کو شامل کرنے کے حق میں نہ تھے مگر کوچ کے کہنے پر انتخاب کرنا پڑا۔ دوسری جانب چیف سلیکٹر ہارون رشید کی چھٹی یقینی ہے، انھوں نے اپنے بیان میں غلط فیصلوں کی ذمہ داری کپتان اور کوچ پر ڈالی تھی مگر بورڈ حکام نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا، اس ضمن میں خرم منظور کی مثال دی گئی جسے ہارون رشید نے چیئرمین شہریارخان کی مخالفت کے باوجود منتخب کیا۔
ڈیو واٹمور کے بعد جب سابق پیسرکوچ بنے تو ٹیسٹ میں ٹیم چوتھے نمبر پر تھی، اب بھی یہ پوزیشن برقرار ہے البتہ ون ڈے میں 5 سے 8 جب کہ ٹوئنٹی 20 میں ٹیم تیسرے سے آٹھویں درجے پر آ چکی ہے، وقار یونس نے اپنی مرضی کا سپورٹنگ اسٹاف مانگا، ان کے کہنے پر ہی گرانٹ فلاور کو بیٹنگ اور مشتاق احمد کو اسپن بولنگ کوچ مقرر کیا گیا، ایشیا کپ سے قبل مشتاق کی جگہ انھوں نے ہی اظہر محمود کے تقرر کا مطالبہ کیا تھا، وہ ہر بار بورڈ کو یہ کہہ کر بلیک میل کرتے تھے کہ اگر بات نہ مانی تو میڈیا پر آ کر کہوں گا۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ مختار احمد سمیت ڈومیسٹک کرکٹ سے قومی ٹیم میں آنے والے بیشتر پلیئرز کی سفارش بھی ہیڈ کوچ نے کی تھی، ورلڈ ٹی ٹوئنٹی اسکواڈ میں سلیکٹرز محمد عرفان کو شامل کرنے کے حق میں نہ تھے مگر کوچ کے کہنے پر انتخاب کرنا پڑا۔ دوسری جانب چیف سلیکٹر ہارون رشید کی چھٹی یقینی ہے، انھوں نے اپنے بیان میں غلط فیصلوں کی ذمہ داری کپتان اور کوچ پر ڈالی تھی مگر بورڈ حکام نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا، اس ضمن میں خرم منظور کی مثال دی گئی جسے ہارون رشید نے چیئرمین شہریارخان کی مخالفت کے باوجود منتخب کیا۔