نظریاتی جنگ

’’دنیا کے کسی بھی لیڈر نے اتنی کامیابیاں حاصل نہیں کیں جتنی حضور اکرم ﷺ نے حاصل کیں۔

03332257239@hotmail.com

''دنیا کے کسی بھی لیڈر نے اتنی کامیابیاں حاصل نہیں کیں جتنی حضور اکرم ﷺ نے حاصل کیں۔ وہ دنیا کی تاریخ کے سب سے بڑے لیڈر تھے۔'' یہ تقریرکسی مسجد کے خطیب کی نہیں اور نہ عیدمیلاد النبیؐ کے کسی جلسے میں کی جا رہی تھی۔ یہ تقریر نہ کسی تبلیغی جماعت کے اجتماع میں کی جا رہی تھی اور نہ کسی مذہبی پارٹی کے سیرت کے اجتماع کا حصہ تھی۔ طلبا کے کسی پروگرام میں کی جانے والی تقریر ہے۔

مقرر ایک ایسا سیاسی لیڈر ہے جس نے یورپ کی عمدہ درس گاہوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ عمران خان نے ایسی تقاریرکئی مرتبہ کی ہیں۔ اب کیا ہوگیا کہ ان کی اس قسم کی تقریر پر حیرت کا اظہارکیا جارہا ہے؟ ''سو عظیم آدمی'' نامی کتاب میں مائیکل ہارٹ نبی کریمؐ کو دنیاوی لحاظ سے اب تک کے انسانوں میں سب سے زیادہ کامیاب قرار دے چکے ہیں۔ پھر عمران کے اس بیان پر تعجب کی کیا بات ہے؟

ہم اس حوالے سے قائداعظم، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر، عمران خان پر گفتگو کریں گے۔ نواز شریف، اصغر خان، اسفندیار ولی اور الطاف حسین کے خیالات کا پوسٹ مارٹم اس کالم کو مزید دلچسپ بناسکتا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ مسئلہ کیا ہے؟ یہ نظریاتی جنگ ہے کیا؟

مسئلہ ایک جنگ ہے جو پاکستان کے قیام کے اعلان ہونے کے ساتھ ہی سے لڑی جا رہی ہے۔ عجیب و غریب اور خوفناک جنگ۔ ایک نظریاتی جنگ کہ پاکستان کو کیسے چلایا جائے؟ اسلامی انداز میں یا سیکولر طریقے سے؟ سات عشروں سے لڑی جانے والی یہ جنگ ایک عجیب وغریب موڑ پر آگئی ہے۔

جنگ کی ابتدا سو سال قبل ہوئی۔ ایک طرف ہندوستان میں تحریک خلافت زورپکڑ رہی تھی تو دوسری طرف سوویت روس میں کارل مارکس کے نظریے کو لے کر لینن نے ایک حکومت قائم کرلی تھی۔

اس وقت جنگ میں شدت نہ تھی۔ وقت کا پہیہ آگے بڑھا۔ ایک طرف قائداعظم کی قیادت میں مسلم لیگ ایک علیحدہ وطن کے قیام کی تحریک میں عروج حاصل کر رہی تھی تو دوسری طرف امریکا اور روس سپر پاور بننے کی تیاریاں کررہے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ایک طرف ''آل پاکستان ویمن ایسوسی ایشن'' (اپوا) کا قیام عمل میں آیا تو دوسری طرف ''قرارداد مقاصد'' منظور ہوئی۔ یہ دونوں کام لیاقت علی خان کی رضامندی سے ہوئے۔ یہ وہ ابتدا تھی اس جنگ کی جس کی گونج آج کے ''حقوق نسواں قانون'' کی حمایت ومخالفت تک میں سنائی دے رہی ہے۔

ایوب دور میں ''مسلم فیملی لاز'' بھی اس نظریاتی جنگ کا ایک پڑاؤ تھا۔ نئے دارالخلافے کا نام اسلام آباد رکھ کر فیلڈ مارشل نے توازن قائم رکھنے کی کوشش کی۔ یحییٰ خان نے 70 کے انتخابات کے لیے اراکین اسمبلی کی تعداد 313 مقررکرکے ایک پیغام دیا۔ بھٹو نے پیپلزپارٹی کے چار نعروں میں سب سے پہلے ''اسلام ہمارا دین ہے'' قرار دیا۔ سوشلزم کو اپنی پارٹی کی معاشی پالیسی کی بنیاد قرار دے کر بھٹو نے بائیں بازو کو اپنی جانب متوجہ کیا۔

غریب گھرانوں کے پڑھے لکھے افراد کے کمیونزم کے لیے سحر کو ''قائد عوام'' نے سمیٹنے کی کوشش کی۔ بھٹو حکومت نے اسلامی دنیا سے بہتر تعلقات اپنانے کے علاوہ آئین میں مذہبی پارٹیوں کے جذبات کا خیال رکھا۔ قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے علاوہ شراب و جوئے پر پابندی اور جمعے کی تعطیل نے سیکولر و لبرل طبقے کو ناراض کردیا۔ نظریاتی جنگ نے شدت اختیار اس لیے نہ کی کہ دونوں گروہوں میں سے کوئی بھی بھٹو کو اپنا نہیں سمجھتا تھا۔ ضیا الحق کے حدود آرڈیننس اور اسلامی سزاؤں نے ابتدا میں مذہبی طبقے کی حوصلہ افزائی کی۔ حقیقت یہ رہی کہ ضیا بھی بھٹو کی طرح کسی بھی طبقے کے لیے پسندیدہ نہ رہے۔ اسلام پسندوں اور سیکولر گروہ نے دونوں حکمرانوں کے اقدامات کو اپنے اپنے اقتدار کے دوام کے اقدامات سمجھا۔


''ملا اور مغرب زدہ'' کی اصطلاحیں دونوں طبقات اپنے اپنے مخالفین کے لیے استعمال کرتے رہے۔ طلبا سیاست میں اسے ایشیا کو سرخ یا سبز قرار دینے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ جب مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پچھلی صدی کی آخری دہائی میں اقتدارکی جنگ لڑ رہی تھیں تب بھی انھیں ایک ایک گروہ کے نمایندے کے طور پر لیا جاتا رہا۔ نواز شریف کو دائیں بازو کا اسلام پسند سمجھا جاتا رہا اور بے نظیر کو بائیں بازو سے قریب تر سیکولر کے طور پر جانا جاتا رہا۔ جب پاکستان کے ان دو نوجوان سیاستدانوں کی باریاں ختم ہوئیں تو پرویز مشرف برسر اقتدار آئے۔

پہلی تصویر میں کتوں کو گود میں لے کر وہ مغرب کو پیغام دینا چاہتے تھے کہ وہ ضیا الحق سے یکسر مختلف ہیں۔ اپنے ساڑھے آٹھ سالہ دور میں پرویز مشرف بھی کسی طبقے کو اپنا ہمنوا نہ بناسکے۔ مختاراں مائی کے حوالے سے ایک منفی بیان اور عافیہ صدیقی کو امریکا کے حوالے کرنے کے الزام کے سبب وہ کسی کی ''پسندیدہ کتاب'' میں شامل نہیں ہیں۔ آصف زرداری کی پیپلز پارٹی نے نئی صدی میں اپنی ٹرم مکمل کی۔ کرپشن کے الزامات کس گونج کے علاوہ ان پر کسی بھی نظریاتی گروہ کی حمایت یا مخالفت کا کوئی الزام نہیں کہ یہ ان کا ایجنڈا ہی نہیں تھا۔

2011 کے سرد موسم نے پاکستانی سیاست میں ایک گرما گرمی پیدا کردی۔ مینار پاکستان پر تحریک انصاف کے کامیاب جلسے نے سیاسی شطرنج پر عمران خان کی اہمیت بڑھا دی۔ یہ طے تھا کہ اب لڑائی دو طرفہ کے بجائے سہ طرفہ ہوگی۔

پیپلز پارٹی کی کمزور ہوتی پوزیشن نے پہلی مرتبہ ایک عجیب منظر پیش کیا۔ پنجاب کے میدانوں میں مقابل دونوں لاہوریوں پر دائیں بازو کا لیبل لگا ہوا تھا۔ یہ صورتحال پاکستان کے لبرلز اور سیکولرز کے لیے انتہائی تشویشناک تھی۔ ایک طرف میاں شریف مرحوم اور جنرل ضیا الحق کی سرپرستی میں ابھرنے والے نواز شریف تھے تو دوسری طرف ''طالبان خان اور بغیر داڑھی والے مولوی'' کا الزام سہتے عمران خان تھے۔

نتیجے نے ظاہر کیا کہ ووٹوں کے اعتبار سے پہلی اور دوسری پوزیشن لینے والی دونوں پارٹیاں دائیں بازو سے قریب کہلاتی ہیں۔ لبرل اور سیکولر سمجھی جانے والی ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور اے این پی پنجاب کے میدانوں میں ناکام رہیں کہ ایک کراچی میں تو دوسری اندرون سندھ میں تو تیسری خیبر پختونخوا کے دو تین اضلاع تک محدود ہوکر رہ گئی ہیں۔

کیا مسلم لیگ اور تحریک انصاف کی مقبولیت نے صورتحال کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ حقیقت میں یہ صرف نظروں کا دھوکا ثابت ہوا۔ نواز شریف نئی صدی میں تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد اپنی پارٹی کا نیا چہرہ سامنے لائے ہیں۔ ممکن ہے یہ ان کا آزادانہ فیصلہ ہو۔ یوم اقبال کی تعطیل کو ختم کرنا، شرمین عبید چنائے کی پذیرائی اور بھارتی پنجاب کے سکھوں اور پاکستانی پنجاب کے مسلمانوں کو زبان، لباس، ثقافت و خوراک میں ایک جیسا قرار دینا، یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اس خلا کو پُر کرنا چاہتی ہے جو سیکولر پارٹیوں کی کمزوریوں کے سبب پیدا ہوا ہے۔

قائداعظم، بھٹو، بے نظیر اور عمران خان نے انگلینڈ کی اعلیٰ درسگاہوں میں تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے اسلام کی اہمیت کو جانا اور کبھی اپنے آپ کو یہاں کے مسلمانوں کے جذبات سے دور نہیں کیا۔ ان چاروں نے مسلمانوں کے درمیان رہ کر بھی مغرب سے مرعوبیت کا اظہار نہیں کیا۔

اصغر خان، اسفند یار ولی اور الطاف حسین کو بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کا موقع نہیں ملا۔ اس کے باوجود بھی یہ اپنے آپ کو لبرل، سیکولر اور ماڈرن قرار دے رہے ہیں۔ اب مورخ حیرت سے یہ بات سوچے گا کہ پاکستان کی درسگاہوں سے پڑھنے والے نواز شریف اس جانب آگئے ہیں۔ ایسا تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ اب مذہب پر فخر کرنے والی مقبول عام پارٹی صرف تحریک انصاف ہی رہ گئی ہے کہ نواز شریف لکیر کے دوسری طرف چلے گئے ہیں۔

اب مورخ ہاتھ میں قلم تھامے ایک خوفناک انتخابی جنگ کا منتظر ہے۔ وہ چشم براہ ہے ایک دلچسپ اور حیرت انگیز نظریاتی جنگ کا۔ دائیں و بائیں بازو یا اسلام پسند و اسلام بیزار یا سرخ و سبز یا ملا و مغرب زدہ کی نظریاتی جنگ۔
Load Next Story