انٹرویو دینا ہے۔۔۔ بطور خاتون کن باتوں کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے

دوران تعلیم انٹرن شپ کرنی ہو یا تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت کے لیے کوشاں ہوں.

دوران تعلیم انٹرن شپ کرنی ہو یا تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت کے لیے کوشاں ہوں. فوٹو: فائل

دوران تعلیم انٹرن شپ کرنی ہو یا تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت کے لیے کوشاں ہوں، انٹرویو کے مرحلے سے تو گزرنا ہی پڑتا ہے۔ ہماری قابلیت ہمیں انٹرویو کے مرحلے تک لاتی ہے اور ایک اچھا انٹرویو ہمیں ملازمت کے حصول میں کام یابی بخشتا ہے۔

اس لیے انٹرویو ہی جس میں ہماری کارکردگی بے حد اہمیت کی حامل ہے۔ بسا اوقات مطلوبہ تعلیمی معیار، قابلیت ہونے کے باوجود کئی دفعہ انٹرویو دینے کے باوجود بھی کام یابی نہیں ہوتی، اس میں ملازمت کی درخواست سے لے کر انٹرویو دینے تک بے شمار چھوٹی چھوٹی باتیں بہت اہم ہوتی ہیں۔ ایک طرف تو وہ عمومی چیزیں ہیں، جو مرد اور خواتین امیدواروں کے لیے ضروری ہوتی ہیں، جن کی بنا پر اکثر امیدوار مسترد کر دیے جاتے ہیں۔دوسری طرف خواتین امیدواروں کے لیے کچھ خاص ہدایات ہوتی ہیں ذیل میں چند ایسی باتوں کا ذکر ہے، جو انٹرویو میں کام یابی کے لیے بے حد اہم ہیں:

٭کوائف اور درخواست
درخواست اور کوائف یا سی وی کسی بھی امیدوار کا پہلا تاثر ہوتی ہے، اس کی بنیاد پر ہی انٹرویو لینے یا نہ لینے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اس لیے اپنی درخواست میں بہت زیادہ تفصیل کے بہ جائے مختصراً بیان کرنے کی کوشش کریں۔

سب سے پہلے اپنا نام، پتا، موبائل نمبر، ای میل درج کریں۔ اس کے بعد آپ جس عہدے کے لیے درخواست دے رہے ہیں، اس کے ساتھ اپنے متعلق تحریر کریں کہ جس سے واضح ہو کہ اس عہدے یا اس اسامی کے لیے آپ ہی موزوں امیدوار ہیں، اس میں یہ بھی تحریر کیا جا سکتا ہے کہ اس ادارے کی کام یابی کے لیے آپ کس طرح کوشاں ہوں گی، وغیرہ مگر یہ دو سے تین سطور سے زیادہ نہ ہو۔ اس کے بعد اگر کہیں ملازمت کا تجربہ ہے، تو وہ تحریر کریں۔

مثلاً دوران تعلیم جز وقتی ملازمت کرتے ہیں یا تعطیلات کے دوران کوئی ملازمت کی ہو، لہٰذا ملازمت کی نوعیت، ادارے کا نام اور مدت ملازمت ضرور تحریر کریں۔ اس کے علاوہ اگر اس دوران کوئی نمایاں کام یابی حاصل کی ہو، تو وہ تحریر کریں۔ اس کے بعد اپنی تعلیمی قابلیت کے متعلق تحریر کریں۔ اس حوالے سے اہم چیزوں کو بھی نظرانداز نہ کریں۔ تدریسی و غیر تدریسی کسی بھی میدان میں اگر کوئی نمایاں کام یابی، ایوارڈ، سرٹیفکیٹ وغیرہ حاصل کیے ہوں، تو ان کا مختصراً اندراج کرنے کے بعد پھر مشاغل تحریر کریں۔

٭ادارے کے متعلق معلومات
جس ادارے میں ملازمت یا انٹرشپ کی خواہاں ہوں، اس کے متعلق معلومات ضروری ہیں۔ اس ضمن میں انٹرنیٹ کی مدد لی جا سکتی ہے۔ اس طرح دوران انٹرویو ادارے کے متعلق سوال کیے جانے پر آپ گھبراہٹ کا شکار نہیں ہوں گی۔ اس کے علاوہ اس ادارے کے بانی، سربراہ، ہیومن ریسورس آفیسر وغیرہ سب ہی کے متعلق معلومات جمع کرلیں۔

سماجی ذرایع اِبلاغ (سوشل میڈیا) سے عموماً تمام اداروں کے انتظامی امور کے ذمے داران سے لے کر اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کے متعلق معلومات حاصل ہو جاتی ہیں۔ اس طرح جب انٹرویو کے دوران انٹرویو لینے والے کو ان کے نام سے مخاطب کیا جائے، تو پہلا تاثر ہی یہ پڑتا ہے کہ یہ ادارے سے متعلق معلومات بھی رکھتی ہیں۔

٭لباس اور میک اپ
یہ پہلو کسی بھی خاتون کے لیے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ انٹرویو کے لیے جاتے ہوئے لباس کا چناؤ بے حد اہم ہے۔ اس موقع پر بہت شوخ اور کام دار ملبوسات سے اجتناب برتیں۔


اگر آپ عبایا پہنتی ہیں، تو سیاہ یا کسی گہرے رنگ کی عبایا کا انتخاب کریں۔ عبایا، اسکارف یا دوپٹے پر گھنگھرو، چمک دار موتی یا ستاروں کا کام وغیرہ نہ ہو، بلکہ یہ بالکل سادہ ہو۔ اسکارف یا دوپٹے میں مختلف نگوں، موتیوں والے کلپ یا پن لگانے سے بھی اجتناب کریں۔ قمیص شلوار کا انتخاب کریں، تو لمبی قمیص نہ ہو۔ پینٹ شرٹ کوٹ پہننا چاہیں، تو سیاہ کوٹ اور پینٹ کے ساتھ سفید قمیص ہو۔ مگر کوئی پھول دار یا شوخ رنگ یا نقش ونگار نہ ہوں۔

کوئی موتیوں والا بروچ وغیرہ لگانے سے گریز کریں۔ ساتھ سیاہ رنگ کا سادہ پرس لیں۔ اس پر مختلف اشکال، کارٹون، یا کوئی ڈیزائن نہ بنے ہوئے ہوں۔ بہت گہرا میک اپ، شوخ رنگوں کی لپ اسٹک سے قطعی گریز کریں۔ بعض اوقات انٹرویو کے لیے خواتین اس طرح میک اپ کرتی ہیں، گویا کسی پارٹی یا شادی وغیرہ میں جا رہی ہوں۔

بہتر ہے بنا میک اپ یا بہت ہلکا پھلکا سا میک اپ کیا جائے۔ فیشن کو بالائے طاق رکھ کر اپنی قابلیت اور اعتماد سے اپنی کام یابی کے حصول کے لیے کوشاں رہیں۔ اگر فیشن میں لپ اسٹک کا گہرا سرخ رنگ ہے، تو انٹرویو کے لیے جاتے وقت یہ شیڈ نہ لگائیں۔ ہلکے شیڈ کا ہلکا پھلکا ایسا میک اپ کریں، جو غیر فطری محسوس نہ ہو۔

٭انٹرویو
انٹرویو کے لیے دیے گئے وقت سے کوشش کریں کچھ دیر قبل پہنچ جائیں۔ غیر ضروری تفکرات، پریشانی یا گھبراہٹ کا شکار نہ ہوں۔ ملازمت یا انٹرن شپ کے حصول میں یقیناً کام یابی ہوگی۔ اگر خدانخواستہ ناکامی بھی ہوئی، تو یقین رکھیے کہ قسمت میں اس سے بہتر اسامی ہے۔

یہ اسامی میری صلاحیتوں کے لیے موزوں نہیں ہوگی، لہٰذا خوامخواہ کے اندیشوں میں گرفتار نہ ہوں، بلکہ اپنی ذات اور اپنی صلاحیتوں پر اعتماد رکھیں۔ اپنی باری کے انتظار کے دوران کسی بھی قسم کی غیر سنجیدہ سرگرمیوںِ، جیسے ہنسی مذاق کرنا، زور زور سے ہنسنا، میک اپ ٹھیک کرنا، بار بار شیشہ دیکھ کر دوپٹہ یا اپنے لباس ٹھیک کرنا، اپنی تصاویر لینے وغیرہ سے گریز کریں۔

جب آپ کو انٹرویو کے لیے طلب کیا جائے، تو انٹرویو لینے والی اگر خاتون ہوں، تو گرم جوشی سے مصافحہ کریں۔ پُر اعتماد انداز اپنی نشست پر بیٹھیں۔ اگر گھبراہٹ کا شکار ہوں، تو گہرے سانس لے کر پرسکون ہو جائیں۔ بیٹھنے کے بعد بھی کسی ایسی غیر ضروری سرگرمیوں یا حرکات سے گریز کریں۔

خود ہی اپنے متعلق بتانا شروع نہ کر دیں۔ پہلے ان کو پوچھنے دیں، پھر بتائیں۔ کسی سوال کا جواب نہ آنے پر یک دم گھبراہٹ یا پریشانی کا شکار نہ ہوں، بلکہ پر اعتماد رہتے ہوئے مناسب انداز میں ایسا جواب دیں کہ سوال کو ٹالا جا سکے، اگر ٹالنا ممکن نہ ہو سکے تب بھی اپنے اعتماد کو برقرار رکھتے ہوئے مناسب جواب دیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انٹرویو لینے والا کسی مرد امیدوار کے مقابلے میں آپ کو یہ اسامی دینے کے لیے اتنی آسانی سے قائل نہ ہو، اس کا بھی خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔

انٹرویو کے دوران آپ کے مزاج کا بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ مثلاً کوئی ایسی بات، ایسا سوال جو جذباتی یا پریشان کر دے۔ عموماً اعلیٰ عہدوں کی اسامیوں کے لیے ایسے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں، جس سے اس فرد کے مزاج کو پرکھا جاسکے۔ مثلاً بطور خاتون آپ کا لباس سے برتاؤ یا میک اپ کرنا وغیرہ یا چائے پیتے ہوئے بدن بولی، پیالی اٹھانا اور چائے پینا وغیرہ کا بھی مشاہدہ کیا جاتا ہے۔

جسمانی حرکات وسکنات کے تجزیے کے لیے بعض اوقات ماہر نفسیات بھی خاموشی سے جائزہ لے رہے ہوتے ہیں۔ لہٰذا کوشش کیجیے کہ ایسا لباس پہنیے جو آپ کے کام کے لحاظ سے بہتر ہو اور میک اپ بہت ہلکا پھلکا ہو۔ تمام وقت پرسکون رہیے، انٹرویو کے اختتام پر بھی پر اعتماد انداز میں باہر آئیے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کمرے کے باہر بھی کوئی متعلقہ شخص آپ کا مشاہدہ کر رہا ہو، یا اتفاقاً کوئی آپ کا منفی تبصرہ یا کوئی ایسی بات دیکھ یا سن لے، جو آپ کے اچھے انٹرویو کو متاثرکرے۔

ہر چند کہ لوگ بہت صنفی مساوات کی بات کرتے ہیں، لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ اکثر اب بھی بڑی بڑی اسامیوں پر بیٹھنے والے صنف نازک کے حوالے سے غیر ضروری طور پر منفی سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔ اس لیے کسی خاتون کو ان تمام امور کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے، اور کم سے کم دفتر میں گھریلو اور خواتین کی دیگر مصروفیات کے ذکر کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے، یہاں تک کہ آپ دفتر میں سب کے مزاج سے واقف نہ ہو جائیں۔
Load Next Story