آپ کہاں ہیں اہلخانہ خصوصاً ماؤں کو ضرور بتائیے

آپ کسی بھی مقام کا رخ کریں تو فوری طور پر اہلخانہ کو اطلاع دیجیے کہ آپ کہاں جارہے ہیں اور کب تک واپس آئیں گے۔

آپ سے التجا ہے کہ کہیں بھی جاتے وقت، کسی سے بھی ملتے وقت گھر والوں کو اطلاع دیجیے کہ کسی بھی ناخوشگوار حادثے کی صورت میں آپ تک پہنچنے کی کوشش کی جاسکے۔ فوٹو: اے ایف پی

یہ مملکت خداداد کی بدقسمتی ہے کہ اِس نے اپنے قیام سے آج تک ہر وہ زخم جھیل لیا ہے جس کا سوچنا بھی دوسروں کے لیے محال ہے، اور یہی وجہ ہے کہ سوچنے میں کئی کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن کونسا تھا؟ چونکہ تلخ حقائق کو جس قدر بھول جایا جائے وہی بہتر ہے لیکن ہم یہ بھولتے، اِس سے پہلے ہی 27 مارچ 2016ء کا سورج طلوع ہوگیا جس نے ایک ہی دن ہمیں کئی دُکھ دیے۔

اگرچہ اِس دن بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن لاہور واقعہ نے تو جیسے ہر ہر انسان کو جھنجھور کر رکھ دیا۔ ابھی لوگ موسمِ بہار کا جشن منارہے تھے اور عیسائی برادری ایسٹر کی تہوار کی خوشیوں میں مگن تھی کہ اچانک یہ خبر سامنے آئی کہ لاہور میں گلشن اقبال پارک میں شام 6 بج کر 40 منٹ پر بم دھماکہ ہوگیا ہے۔

بس پھر وقت گزرتا رہا اور الیکٹرونک و سوشل میڈیا پر اِس واقع میں جانی و مالی نقصانات کی خبریں آنا شروع ہوگئیں، اور رات دیر گئے تک جاری رہی۔ کہیں ننھے منے بچے والدین سے بچھڑ گئے تو کہیں والدین کو اپنے نومولود بچوں کے نقصان کی اطلاع موصول ہوئی۔ ہر طرف مایوسی اور غم نے ڈیرے جمالیے۔ شہر اور ملک بھر میں جاری محفلیں روک دی گئیں، تقریبات منسوخ کردی گئیں اور دعائیں کی جانے لگیں کہ مزید کسی نقصان کی خبر نہ آئے لیکن کیسے؟ کیونکہ جو ہونا تھا وہ تو ہوچکا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ نقصان روکنا اب کسی کے بس میں نہیں۔

ہر دلخراش واقع کی طرح اِس بار بھی دھماکے کے بعد بہت سارے سوال گردش ہونا شروع ہوگئے۔ کہا جانے لگا کہ جب محکمہ داخلہ پنجاب کے ذرائع نے تفریحی مقامات پر ممکنہ دہشت گردی سے آگاہ کردیا تھا تو کیوں اور کیسے ہوا یہ سب؟ کیسے ایک دہشت گرد صوبائی دارلحکومت لاہور کی ایلیٹ پولیس فورس کو چکما دے کر پارک میں داخل ہوا اور خبروں کے مطابق وہاں پر سیکیورٹی نہ ہونے کا اور سیکیورٹی کیمرے خراب ہونے کا فائدہ اُٹھا کر خودکش حملہ کردیا۔ صرف ایک نالائقی کے سبب پارک میں کھیلتے و جھولے لیتے بچے، خیال رکھتی بہنیں و مائیں، نوبیہاتا جوڑے اور بہت سے مرد حضرات چند سینکنڈوں میں اُس قیامت کا حصہ بن گئے جو وہاں آچکی تھی۔

لاہور تاریخ کے ایک بڑے سانحہ سے گزار گیا ہے جس میں ہلاکتوں کی تعداد 70 کے لگ بھگ ہیں اور زخمیوں کی تعداد 300 سے بھی زائد۔ خبروں کے مطابق کئی اپنے پیاروں کو تلاش کررہے ہیں اور کئی لاشیں مسخ ہوچکی ہیں اور اُن کے متعلقہ عزیز و اقارب کا انتظار کیا جارہا ہے۔ شاید اس لئے کہ بعض کو تو یہ ابھی علم بھی نہیں ہوگا کہ اُنکا کوئی پیارا دھماکے کے وقت گلشن پارک میں تھا بھی یا نہیں۔

لاہور تاریخ کے ایک بڑے سانحہ سے گزار گیا ہے جس میں ہلاکتوں کی تعداد 70 کے لگ بھگ ہیں اور زخمیوں کی تعداد 300 سے بھی زائد۔ خبروں کے مطابق کئی اپنے پیاروں کو تلاش کر رہے ہیں اور کئی لاشیں مسخ ہو چکی ہیں اور اُن سے متعلقہ عزیز واقارب کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ شاید اس لئے کہ بعض کو تو یہ ابھی علم بھی نہیں ہوگا کہ اُنکا کوئی پیارا گلشن پارک میں اُس وقت تھا یا وہ اسلام آباد کے ہنگاموں کا نشانہ بن چکا ہے۔

لاہور سے ہٹ کر بات کی جائے تو وفاقی دارالحکومت کے لیے بھی 27 مارچ کی تاریخ ہرگز اچھی ثابت نہیں ہوئی جہاں بڑی تعداد میں مظاہرین نے شاہراہ دستور اور ارد گرد کی سڑکوں پر قبضہ جمالیا تھا، اور پارلیمنٹ ہاوس اور دیگر اہم عمارتیں چند فٹ پر موجود تھیں۔ اِس دوران سڑکوں پر توڑ پھوڑ بھی کی گئی اور املاک کے ساتھ ساتھ رکاوٹ کے لیے کھڑی کیے گئے کنٹینرز کو آگ بھی لگادی گئی۔ صرف یہی نہیں بلکہ کراچی میں موجود پریس کلب کو بھی شرپسندوں نے نشانہ بنایا اور وہاں موجود نجی ٹی وی چینل کی گاڑی کو آگ لگانے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام ہوگئی۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہوائی فائرنگ بھی کی گئی لیکن پولیس کی آمد سے قبل ہی شرپسند وہاں سے فرار ہوگئے۔


ان تمام واقعات کو دیکھنے کے بعد یہ بات تو بغیر کسی شش و پنج سے کہی جاسکتی ہے کہ کب کونسا واقعہ ہوجائے کسی کو کچھ بھی علم نہیں، لیکن جو انسان کے بس میں کم از کم وہ تو انسان کو ضرور کرنا چاہیے، اور وہ کام کیا ہے آئیے آپ کو بتاتے ہیں۔ چونکہ یہ پرانا زمانہ نہیں ہے کہ گھر والوں سے رابطہ کرنے میں انسان کو کسی مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہو، بلکہ اب تو موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سہولت کی موجودگی میں اطلاع دینا انتہائی آسان ہے تو لہذا آپ کہیں بھی جائیں، کسی بھی مقام کا رخ کریں تو فوری طور پر اپنے اہلخانہ اور دوست احباب کو اطلاع دے دیجیے کہ آپ کہاں جارہے ہیں اور کب تک واپسی کا امکان ہے۔

یقیناً بہت سارے لوگوں میں یہ سوال گردش کررہا ہوگا کہ اِس کا فائدہ کیا ہوگا؟ تو پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں ایسے بہت سے کام کررہے ہوتے ہیں جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، لیکن اِس کام کا فائدہ ضرور ہے اور فائدہ یہ ہے کہ گزشتہ روز سے اب تک گلشن اقبال پارک میں ہونے والے حملے میں زخمی کئی افراد اب بھی اپنے اہلخانہ کے منتظر ہیں اور اِس کی وجہ یہی ہے کہ اُن کے اہلخانہ کو علم ہی نہیں تھا کہ دھماکے کے وقت اُن کا بچہ جائے وقوعہ پر تھا۔

یہ ساری باتیں اِس لیے کی گئی ہیں کہ اکثر اچھے مقصد کے لیے لوگ اپنے آنے کی خبر گھر والوں کو نہیں دیتے اور سوچتے ہیں کہ اچانک پہنچ کر وہ 'سرپرائز' دینگے، اگرچہ خوشی فراہم کرنا اچھی بات ہے لیکن حالات کی مناسبت سے ایسا نہ کیا جائے تو اچھا ہے۔ اگر آپ بیرون ملک سے آرہے ہیں تو بہتر ہے کہ گھر والوں کو بتادیجیے تاکہ وہ آپ کو ائیرپورت یا ریلوے اسٹیشن آجائیں۔ اس طرح کسی بھی انہونی سے بچنے کی تدبیر نسبتاً آسان ہے۔ اسطرح دفتری و کاروباری معاملات میں بھی کئی دفعہ کسی کو بتائے بغیر ہم ایسے افراد سے ملنے چلے جاتے ہیں جن کے بارے میں علم نہیں ہوتا اور نہ ہی جلدی میں کسی کو بتا کر گئے ہوتے ہیں، تو حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام افراد سے التجا ہے کہ آپ کوشش کیجیے کہ کہیں بھی جاتے وقت، کسی سے بھی ملتے وقت گھر والوں کو اطلاع دینے کی کوشش کیجیے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار حادثے کی صورت میں فوری طور پر آپ تک پہنچنے کی کوشش کی جاسکے۔ اگرچہ بات پوری ہوگئی لیکن ایک بار پھر خاص طور یہ کہنا چاہوں گا کہ ماوں کو ضرور اطلاع دیجیے کہ وہ ہمیشہ آپ کے بارے میں ہی سوچتی ہیں، کیونکہ گلشن پارک میں دھماکے کے بعد ایک ایسا موبائل فون بھی بجتا نظر آیا جس پر ''امی جان'' لکھا ہوا آرہا تھا۔



[poll id="1037"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story