کے ای ایس سی کا معاہدہ پہلی بار منظر عام پر آگیا ملازمین کو نہ نکالنے کی شرط ختم
معاہدے میں300ملین ڈالرسرمایہ کاری کی شرط میں اپریل2013تک توسیع،کمپنی کواثاثے گروی رکھنے کی اجازت بھی ہے
وفاقی حکومت اور کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کے مابین 3سال قبل ہونے والا ترمیمی معاہدہ پہلی بارمنظر عام پر آگیا۔
جس کے تحت کسی بھی مرحلے پرمعاہدہ ختم ہونے پرملکی و غیرملکی مالیاتی اداروں سے ماضی اورمستقبل میں حاصل کیے جانے والے تمام قرضہ جات کی سوفیصدذمے دار وفاقی حکومت ہوگی،3سوملین ڈالرسرمایہ کاری کرنے کی شرط میں اپریل 2013تک کی توسیع کردی گئی، کے ای ایس سی کے اثاثہ جات کوگروی رکھنے کی اجازت دیدی گئی ہے،این ٹی ڈی سی کوواجب الادا30 ارب روپے وفاقی حکومت کومنتقل کردیے گئے۔
7سال تک ملازمین کونہ نکالنے کی شرط ختم کردی گئی۔کے ای ایس سی کی موجودہ انتظامیہ نے ہمیشہ سے یہ موقف اختیارکیاہے کہ معاہدے کی ایک شق کے مطابق تفصیلات اس وقت تک منظرعام پرنہیں لائی جاسکتیں جب تک وفاقی حکومت اورکے ای ایس سی دونوں رضامندنہ ہوں،قانونی ماہرین نے موجودہ انتظامیہ اوروفاقی حکومت کے مابین ہونے والے معاہدے کی قانونی حیثیت پرکئی سوالات اٹھائے تھے اورمتعدداسٹیک ہولڈرزکی جانب سے اس سلسلے میں سپریم کورٹ اورہائیکورٹ میں آئینی پٹیشنزبھی دائرکی جاچکی ہیں جوکہ زیرسماعت ہیں،وفاقی حکومت کے نجکاری کمیشن نے نومبر 2005 میں ایک امپلی مینٹیشن ایگریمنٹ کے تحت کے ای ایس سی کاانتظامی کنٹرول سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے الجمیع گروپ کے سپرد کیا گیاتھا اور موجودہ حکومت کے قیام کے تقریباًایک سال بعد 2009 میں وفاقی حکومت کے محکمہ پانی و بجلی نے ابراج گروپ کے تعینات کردہ کے ای ایس سی کے اس وقت کے سربراہ نوید اسماعیل اورسیکریٹری واٹر اینڈ پاور نے ترمیمی معاہدے پر دستخط کیے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سیکریٹری واٹر اینڈ پاورعہدہ کے لحاظ سے کے ای ایس سی کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے رکن بھی ہیں یعنی کے ای ایس سی سربراہ اور بورڈ آف ڈائریکٹر کے ایک رکن کے مابین معاہدہ مضحکہ خیزہے، اس کے علاوہ ترمیمی معاہدے میں بنیادی معاہدے میں شامل نجکاری کمیشن اور کے ای ایس سی کی ملکیت کے حامل سعودی گروپ الجمیع کاکہیں وجودہی نہیں جبکہ کے ای ایس سی کاانتظامی کنٹرول سنبھالنے والا ابراج گروپ بھی معاہدے میں شامل نہیں۔ذرائع نے بتایا کہ ترمیمی معاہدے میں موجودہ انتظامیہ کودی جانے والی غیر معمولی مراعات کی وجہ سے معاہدے کوخفیہ رکھنے کا فیصلہ کیا گیاتھاحالانکہ ایسی کوئی شق معاہدے میں موجودہی نہیں تھی۔ایکسپریس کے پاس موجود ترمیمی معاہدے کے مطابق کے ای ایس سی کی جانب سے جاری کردہ مالی سال 2011-12 کی سالانہ مالیاتی رپورٹ کے مطابق نجکاری سے بعدسے اب تک ملکی و غیرملکی مالیاتی اداروں سے ڈھائی سو ارب روپے کا قرضہ حاصل کرچکی ہے،معاہدے میں کے ای ایس سی کو پیپکوکی ڈسٹری بیوشن کمپنی قرار دیا گیا اور واپڈا کو پابند کیا گیا کہ وہ کے ای ایس سی کوہرصورت میں ساڑھے 6سو سے 7 سو میگاواٹ بجلی ہائیڈل پاورکے نرخ پرفراہم کرے گی اوراس سلسلے میں کے ای ایس سی پر موجود 30 ارب روپے کے واجبات بھی فوری طورپروفاقی حکومت کومنتقل کردیے گئے۔
موجودہ مالی سال کے پہلے چار ماہ کے دوران وفاقی حکومت کے ای ایس سی کی سبسڈی کی مد میں 45 ارب روپے واپڈاکواداکرچکی ہے یعنی کے ای ایس سی کوواپڈاسے تقریبا مفت میں بجلی دی جارہی ہے، گزشتہ مالی سال کے دوران وفاقی حکومت نے کے ای ایس سی کو 70ارب روپے کی ریکارڈ سبسڈی دی اورموجودہ سال میں سبسڈی کا حجم ایک سو ارب سے بڑھنے کا امکان ہے،ترمیمی معاہدے کی رو سے مستقل ملازمین کو 7 سال تک ملازمت سے بے دخل نہ کرنے کی شرط بھی ختم کردی جس کے بعد گزشتہ سالوں کے دوران تقریبا 5 ہزار سے زائد ملازمین کو مختلف اسکیموں کے تحت ملازمت سے فارغ یابرطرف کیاگیا۔ذرائع کے مطابق کے ای ایس سی کی نجی انتظامیہ اپنے 3 بجلی گھروں اور 9 گرڈ اسٹیشنز کو مالیاتی اداروں کے پاس گروی رکھ کر قرضہ جات حاصل کرچکی ہے۔
جبکہ حال ہی میں پاک برونائی فنانس کمپنی سے2ارب کاقرضہ 15 فیصد مارک اپ پر حاصل کیا گیا ہے اور اس کے عوض 3 سو صنعتی صارفین کو گروی رکھا گیاہے جوکہ کسی بھی بجلی کمپنی کی جانب سے کیا جانے والاانتہائی منفرد اور اپنی نوعیت کا واحد اقدام ہے، 2005 کے معاہدے کے تحت3ارب روپے لازمی سرمایہ کاری کی مدت میں بھی توسیع کردی گئی اورترمیمی معاہدے کے تحت کے ای ایس سی انتظامیہ کو سرمایہ کاری کیلیے اپریل 2013 تک کاوقت دیدیاگیا۔
جس کے تحت کسی بھی مرحلے پرمعاہدہ ختم ہونے پرملکی و غیرملکی مالیاتی اداروں سے ماضی اورمستقبل میں حاصل کیے جانے والے تمام قرضہ جات کی سوفیصدذمے دار وفاقی حکومت ہوگی،3سوملین ڈالرسرمایہ کاری کرنے کی شرط میں اپریل 2013تک کی توسیع کردی گئی، کے ای ایس سی کے اثاثہ جات کوگروی رکھنے کی اجازت دیدی گئی ہے،این ٹی ڈی سی کوواجب الادا30 ارب روپے وفاقی حکومت کومنتقل کردیے گئے۔
7سال تک ملازمین کونہ نکالنے کی شرط ختم کردی گئی۔کے ای ایس سی کی موجودہ انتظامیہ نے ہمیشہ سے یہ موقف اختیارکیاہے کہ معاہدے کی ایک شق کے مطابق تفصیلات اس وقت تک منظرعام پرنہیں لائی جاسکتیں جب تک وفاقی حکومت اورکے ای ایس سی دونوں رضامندنہ ہوں،قانونی ماہرین نے موجودہ انتظامیہ اوروفاقی حکومت کے مابین ہونے والے معاہدے کی قانونی حیثیت پرکئی سوالات اٹھائے تھے اورمتعدداسٹیک ہولڈرزکی جانب سے اس سلسلے میں سپریم کورٹ اورہائیکورٹ میں آئینی پٹیشنزبھی دائرکی جاچکی ہیں جوکہ زیرسماعت ہیں،وفاقی حکومت کے نجکاری کمیشن نے نومبر 2005 میں ایک امپلی مینٹیشن ایگریمنٹ کے تحت کے ای ایس سی کاانتظامی کنٹرول سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے الجمیع گروپ کے سپرد کیا گیاتھا اور موجودہ حکومت کے قیام کے تقریباًایک سال بعد 2009 میں وفاقی حکومت کے محکمہ پانی و بجلی نے ابراج گروپ کے تعینات کردہ کے ای ایس سی کے اس وقت کے سربراہ نوید اسماعیل اورسیکریٹری واٹر اینڈ پاور نے ترمیمی معاہدے پر دستخط کیے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سیکریٹری واٹر اینڈ پاورعہدہ کے لحاظ سے کے ای ایس سی کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے رکن بھی ہیں یعنی کے ای ایس سی سربراہ اور بورڈ آف ڈائریکٹر کے ایک رکن کے مابین معاہدہ مضحکہ خیزہے، اس کے علاوہ ترمیمی معاہدے میں بنیادی معاہدے میں شامل نجکاری کمیشن اور کے ای ایس سی کی ملکیت کے حامل سعودی گروپ الجمیع کاکہیں وجودہی نہیں جبکہ کے ای ایس سی کاانتظامی کنٹرول سنبھالنے والا ابراج گروپ بھی معاہدے میں شامل نہیں۔ذرائع نے بتایا کہ ترمیمی معاہدے میں موجودہ انتظامیہ کودی جانے والی غیر معمولی مراعات کی وجہ سے معاہدے کوخفیہ رکھنے کا فیصلہ کیا گیاتھاحالانکہ ایسی کوئی شق معاہدے میں موجودہی نہیں تھی۔ایکسپریس کے پاس موجود ترمیمی معاہدے کے مطابق کے ای ایس سی کی جانب سے جاری کردہ مالی سال 2011-12 کی سالانہ مالیاتی رپورٹ کے مطابق نجکاری سے بعدسے اب تک ملکی و غیرملکی مالیاتی اداروں سے ڈھائی سو ارب روپے کا قرضہ حاصل کرچکی ہے،معاہدے میں کے ای ایس سی کو پیپکوکی ڈسٹری بیوشن کمپنی قرار دیا گیا اور واپڈا کو پابند کیا گیا کہ وہ کے ای ایس سی کوہرصورت میں ساڑھے 6سو سے 7 سو میگاواٹ بجلی ہائیڈل پاورکے نرخ پرفراہم کرے گی اوراس سلسلے میں کے ای ایس سی پر موجود 30 ارب روپے کے واجبات بھی فوری طورپروفاقی حکومت کومنتقل کردیے گئے۔
موجودہ مالی سال کے پہلے چار ماہ کے دوران وفاقی حکومت کے ای ایس سی کی سبسڈی کی مد میں 45 ارب روپے واپڈاکواداکرچکی ہے یعنی کے ای ایس سی کوواپڈاسے تقریبا مفت میں بجلی دی جارہی ہے، گزشتہ مالی سال کے دوران وفاقی حکومت نے کے ای ایس سی کو 70ارب روپے کی ریکارڈ سبسڈی دی اورموجودہ سال میں سبسڈی کا حجم ایک سو ارب سے بڑھنے کا امکان ہے،ترمیمی معاہدے کی رو سے مستقل ملازمین کو 7 سال تک ملازمت سے بے دخل نہ کرنے کی شرط بھی ختم کردی جس کے بعد گزشتہ سالوں کے دوران تقریبا 5 ہزار سے زائد ملازمین کو مختلف اسکیموں کے تحت ملازمت سے فارغ یابرطرف کیاگیا۔ذرائع کے مطابق کے ای ایس سی کی نجی انتظامیہ اپنے 3 بجلی گھروں اور 9 گرڈ اسٹیشنز کو مالیاتی اداروں کے پاس گروی رکھ کر قرضہ جات حاصل کرچکی ہے۔
جبکہ حال ہی میں پاک برونائی فنانس کمپنی سے2ارب کاقرضہ 15 فیصد مارک اپ پر حاصل کیا گیا ہے اور اس کے عوض 3 سو صنعتی صارفین کو گروی رکھا گیاہے جوکہ کسی بھی بجلی کمپنی کی جانب سے کیا جانے والاانتہائی منفرد اور اپنی نوعیت کا واحد اقدام ہے، 2005 کے معاہدے کے تحت3ارب روپے لازمی سرمایہ کاری کی مدت میں بھی توسیع کردی گئی اورترمیمی معاہدے کے تحت کے ای ایس سی انتظامیہ کو سرمایہ کاری کیلیے اپریل 2013 تک کاوقت دیدیاگیا۔