جنرل پرویزکی روانگی بلاجواز واویلا

سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی بیماری کے پیش نظر انھیں دبئی جانے کی اجازت کیا دی گئی

khealdaskohistani@hotmail.com

MUMBAI:
سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی بیماری کے پیش نظر انھیں دبئی جانے کی اجازت کیا دی گئی، اپوزیشن اور خاص طور پر پیپلز پارٹی نے پوائنٹ اسکورنگ کے لیے حکومت کے خلاف ایک طوفان کھڑا کردیا۔ عدالت میں جنرل پرویز مشرف کی بیماری کے حوالے سے دستاویزات بھی پیش کی گئیں اور پھر معاملہ حکومت کے حوالے کردیا گیا۔ حکومت نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کے علاج کے لیے بیرون ملک روانگی کی راہ میں روڑے نہیں اٹکائے۔ وطن عزیز کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی آمر اس قسم کی صورتحال سے دوچار ہے۔

واضح رہے کہ پرویز مشرف نے ایک منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کی۔ انھوں نے پاکستان کا آئین توڑا اور ایک منتخب وزیراعظم محمد نوازشریف کو پابند سلاسل کردیا، لیکن انھیں پہلی ناکامی اس وقت ہوئی جب وہ جیل میں نوازشریف سے اپنی مرضی کے دستاویز پر دستخط نہیں کراسکے۔ پھر وزیراعظم نوازشریف کی اہلیہ کلثوم نواز کی ملک گیر تحریک سے خوفزدہ ہو کر انھوں نے عوامی رہنماؤں کو جلاوطن کردیا۔ پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد امریکی پالیسیوں کو چوں وچرا کیے بغیر قبول کرلیا اور ق لیگ کی حکومت بنا کر اپنا اقتدار برقرار رکھا۔

جنرل پرویز مشرف کی خواہش تھی کہ اب وزیراعظم نوازشریف اور بے نظیر بھٹو واپس نہ آئیں ۔ اس خواہش کا اظہار انھوں نے کئی بار کیا۔ اس دوران تمام سیاسی جماعتیں اے آر ڈی کے پلیٹ فارم پر متحد ہوچکی تھیں۔ اس عوامی دباؤ کی وجہ سے جنرل پرویز مشرف بے بس دکھائی دے رہے تھے اور پھر آخرکار محترمہ بے نظیر بھٹو اور نوازشریف دونوں یکے بعد دیگرے وطن آئے۔ بعدازاں بے نظیر بھٹو کو شہیدکردیا گیا جس کے نتیجے میں پورے ملک میں ہیجانی کیفیت طاری ہوگئی اور ملک شدید سیاسی بحران کی جانب تیزی سے بڑھ رہا تھا جب کہ جنرل پرویز کے خلاف نوازشریف اور پیپلز پارٹی ڈٹے رہے۔

پیپلزپارٹی نے نہایت عمدہ حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنرل پرویزکو مستعفیٰ ہونے پر مجبور کردیا۔ مستعفیٰ ہونے کے بعد جنرل پرویز مشرف ملک سے باہر چلے گئے اور ابوظہبی، دبئی، لندن اور امریکا میں اپنے شب و روزگزارنے لگے۔ لیکن اقتدار کا نشہ انھیں جب یاد آتا تو وہ وطن آنے کی خواہش ظاہر کرتے۔ بہرکیف جمہوریت پر وار کرنے کی غرض سے وہ ایک بار پھر پاکستان لوٹ آئے۔ وہ ایئرپورٹ پہنچے تو صرف 100، 150 افراد ان کے استقبال کے لیے موجود تھے، جو بڑی مایوس کن صورتحال تھی۔ لیکن وہ پاکستان میں رہ کر اقتدار کی پگڈنڈیوں تک پہنچنے کے خواب دیکھتے رہے۔ بلاشبہ پاکستان وہ بدنصیب ملک ہے جس کی نصف تاریخ آمریت کے سائے میں گزری ہے۔

لیکن ماضی میں کبھی کسی جمہوری حکومت نے کسی آمر کا احتساب نہیں کیا اور نہ ہی ان کے خلاف آئین شکنی کے الزام میں غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا۔ ملکی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ موجودہ حکومت نے جمہوریت کو لاحق خطرات کے باوجود ایک آمر کے خلاف آرٹیکل 6 استعمال کیا۔ پرویز مشرف کے خلاف غداری، قتل اور دیگر مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ اب وہ بار بار اپنی بیماری کا بہانہ بناتے ہیں۔


اس بار بھی کون نہیں جانتا کہ ان کی بیماری جعلی ہے اور وہ دبئی پہنچتے ہی سگار سلگا کر اپنی پارٹی کی میٹنگ کی صدارت کرنے لگے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنرل پرویز نے بیماری کا ڈرامہ رچایا تھا۔ بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ جنرل پرویز مشرف ایک ڈیل کے تحت بیرون ملک گئے ہیں، جب کہ بعض سیاسی حلقے حکومت کے اس فیصلے پر شدید نکتہ چینی کررہے ہیں۔ حالانکہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں یہ موجودہ جمہوری حکومت کا کارنامہ ہے کہ اس نے ایک آمر کو عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا اور اس کے خلاف بغاوت کا مقدمہ زیر سماعت ہے۔

جب کہ پیپلز پارٹی سب سے زیادہ معترض ہے لیکن پیپلز پارٹی کا ٹریک ریکارڈ دیکھیے جب پرویز مشرف مستعفی ہوئے تو پی پی حکومت نے نہ صرف یہ کہ انھیں بیرون ملک جانے دیا بلکہ گارڈ آف آنرز بھی دیا گیا۔ اب جنرل پرویز کو گارڈ آف آنرز دینے والے ہی ان کے خلاف ڈرامہ رچا رہے ہیں۔ پی پی کی حکومت نے اپنی مدت پوری کی لیکن جنرل پرویز کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں جنرل پرویز مشرف ملوث ہیں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زرداری حکومت نے اپنے دور میں ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی۔

جب کہ جنرل پرویز مشرف پی پی دور میں ایک سے زائد بار پاکستان آئے۔ جہاں تک موجودہ حکومت کا تعلق ہے تو وزیراعظم نوازشریف یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف نے شریف خاندان کے ساتھ ماضی میں جو زیادتیاں کی تھیں اب وہ انھیں فراموش کرچکے ہیں اور انھیں معاف کرچکے ہیں۔ لیکن جہاں تک قانون پر عملدرآمد اور مقدمات کا تعلق ہے تو اس کا فیصلہ عدالت ہی کرے گی۔

یوں بھی اگر حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی کرے گی تو اس پر ذاتی انتقام کا الزام عائد کیا جائے گا۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ سابق آمر جنرل پرویز مشرف نے اگر قانون کے تقاضے پورے نہیں کیے تو حکومت انھیں عدلیہ کی ہدایت پر بیرون ملک سے انٹرپول کے ذریعے بھی وطن لاسکتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی بیرون ملک روانگی کے حوالے کوئی کچھ بھی کہے لیکن یہ امر اب اظہر من الشمس ہوچکا ہے کہ اور یہ غلط فہمی دور ہوجانی چاہیے کہ پاکستان میں آئین کا کوئی والی وارث نہیں۔ اگر ایک جانب پاکستان کے آئین کو توڑنے والے ہیں تو دوسری جانب آئین کی حفاظت کے لیے جمہوریت پسند لوگ پھانسی پر چڑھ گئے۔ قیدوبند کی سختیاں برداشت کیں۔

اسی تناظر میں اگر دیکھا جائے تو وزیراعظم نوازشریف، ان کے خاندان اور ساتھیوں نے آئین کی بالادستی کے لیے قربانیاں دی ہیں اور اب بھی آئین توڑنے والوں کے گریبان میں ہاتھ ڈالنا ان کی سیاسی بصیرت اور جرأت کا مظہر ہے۔ میں یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ اگر پرویز مشرف کو واقعی کوئی بیماری ہے تو اس کا علاج ہونا چاہیے، یہی انسانی ہمدرد ہے، مگر یہ بھی واضح ہے کہ پرویز مشرف ہوں یا کوئی اور اب قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔
Load Next Story