گجرات کے حکیم چراغ
عام مشاہدہ ہے کہ مقدمات حتمی فیصلے تک پہنچنے میں بیحد طول پکڑتے ہیں
ISLAMABAD:
عام مشاہدہ ہے کہ مقدمات حتمی فیصلے تک پہنچنے میں بیحد طول پکڑتے ہیں یعنی جو بھی تھانے کچہری چڑھ گیا اس کے اترنے کا وقت ''یا قسمت یا نصیب'' کے مطابق ہوتا ہے۔ قتل کے مقدمات جن میں انسانی زندگی کسی رنجش، رقابت، حسد یا دشمنی کی بھینٹ چڑھی ہوتی ہے اکثر اوقات فیصلوں میں تاخیر کے باعث فریقین کے مابین مزید مقدمات کو جنم دیتے ہیں اور ایسے تنازعے اگلی نسل تک منتقل ہوتے دیکھے گئے ہیں۔
قتل کے مقدمات میں تاخیر کم کرنے، جھوٹی گواہیاں تلف کرنے، گواہوں کو پابند کرنے، منحرف ہو سکنے والے چشم دید گواہوں کو سچی گواہی پر قائم رکھنے یا دباؤ میں آ کر بیان بدلنے سے روکنے یا پھر ان کی یادداشت کی حفاظت کرنے کے لیے ضلع کے ایک سینئر مجسٹریٹ کو Commitment Magistrate مقرر کرنے کا قانون ہوا کرتا تھا جس کے تحت قتل کی واردات کی تفتیش دو تین ماہ کے اندر مکمل کر کے علاقہ پولیس کو چالان کمٹمنٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کرنا ہوتا تھا جہاں بلا تاخیر گواہان استغاثہ و صفائی اور ملزمان کے بیان قلمبند کیے جاتے تھے۔
اگر گواہ استغاثہ کو سپورٹ کرتے تو مجسٹریٹ وہ مقدمہ سیشن سپرد کر دیتا، مجسٹریٹ کو اختیار تھا کہ اگر کوئی بھی شہادت ملزم کے خلاف نہ ہوتی تو ملزم کو ڈسچارج کر دیا جاتا۔ اس نظام کے بیحد مفید نتائج مرتب ہوتے رہے لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر کمٹمنٹ کا طریق ختم کر دیا گیا جس کا نقصان ہوا اور اب تک ہو رہا ہے۔گجرات میں تعیناتی پر کیپٹن سید نصیر احمد ڈپٹی کمشنر نے سٹی کا چارج دینے کے علاوہ ضلع کے مقدمات قتل کی کمٹمنٹ پروسیڈنگز بھی میرے سپرد کر دیں۔
یہ بھاری اور اہم ذمے داریاں تھیں، روزانہ تیس چالیس گواہوں کی شہادتیں اپنے قلم سے ریکارڈ کرنا کوئی آسان کام نہ تھا اور اگر وکیل صفائی حکیم چراغ ہوں تو پھر ''جو تن لاگے سو تن جانے''۔ حکیم چراغ ایک ماہر فوجداری وکیل تھے اور اپنے موکل کے ساتھ انصاف کرتے تھے سیاہ پتلون کالا کوٹ سفید قمیض کالی نیکٹائی لیکن سر پر سفید پگڑی ان کا عدالتوں میں مستقل لباس تھا۔ استغاثہ کے گواہوں پر تفصیلی جرح کرتے تھے۔
قتل کے مقدمات میں مجرموں کو سزا نہ ہونے کی ایک وجہ متاثرہ فریق کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ مخالف یعنی ملزم فریق کے زیادہ سے زیادہ افراد کو نامزد کر کے بدلہ لیا جائے۔ پولیس اس خواہش کی تکمیل میں اپنے ذاتی مقاصد حاصل کرنے کے لیے مدد کرتی ہے۔ پولیس زیادہ ملزمان یعنی افراد کو حراست میں لیتی ہے باوجودیکہ انھیں اصل حقائق کا علم ہوتا ہے۔ یوں بیگناہوں کو سودے بازی سے چھوڑنا ایک بات اور استغاثہ کا کیس کمزور ہو جانا یقینی ہو جاتا ہے۔ ملزموں کو اس کا فائدہ ہوتا اور وکیل صفائی کے لیے آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔
اس کا الزام سسٹم اور عدالت پر آتا ہے اور پھر متاثرہ فریق عدالت سے باہر ملزم کی بریت پر ایک اور قتل کا ارتکاب کرتا ہے۔ یوں قتل کی دشمنیاں اگلی نسل تک بھی منتقل ہوتی ہیں۔حکیم چراغ کا نام بحیثیت فوجداری وکیل اپنے ضلع میں تو مستند تھا ہی لیکن زیادہ مشہور تب ہوا جب ایک نوجوان بیرسٹر کی زوجہ کو لاہور کی سب سے بارونق سڑک پر سے چند بااثر گھرانوں کے غنڈوں نے اغوا کر لیا اور پھر گرفتاری کے بعد کیس چلا تو لاہور کے وکلاء نے ملزموں کی وکالت کا بائیکاٹ کر دیا اور جب حکیم چراغ نے یہ کیس لے لیا تو ان کا نام میڈیا پر مشہور ہوا۔
ایک واقع اس کیس سے جڑا ہوا یاد آیا ہے کہ عرصہ بعد میرا ایک جیل انسپکشن پر جانا ہوا اور جیل کے تمام شعبوں کا معائنہ کرنے کے بعد اچانک میں نے وہاں کی لائبریری دیکھنے کا ارادہ کیا تو عملہ جیل کے افراد میں گھبراہٹ پیدا ہوتی دیکھی۔ چھوٹے سے کمرے میں لائبریری تھی اس کمرے میں چند کرسیاں ایک میز اور تین سیٹ والا صوفہ تھا، چھت پر لگا پنکھا چل رہا تھا اور صوفے پر بوسکی کی قمیض سفید شلوار پہنے ایک نوجوان لیٹا ہوا تھا جو ہمیں دیکھ کر گھبرا گیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔
افسران بالا نے اس ملزم کو جس کا تعلق حکیم چراغ صاحب والے کیس سے تھا وہاں خاص مہمان والی سہولتیں دے رکھی تھیں اور میری انسپکشن رپورٹ میں اس کا ذکر شامل ہے۔میری ایک سال تک گجرات تعیناتی کے دوران قتل کے مقدمات کی کمٹمنٹ کارروائی کی وجہ سے ضلع کے یہ مقدمات شہادتوں کی ریکارڈنگ کے لیے میرے پاس پیش ہوتے اکثر مقدمات میں حکیم چراغ ہی وکیل صفائی ہوتے وہ ماہر وکیل تو تھے ہی اپنے کیس کی تیاری بھی محنت سے کرتے اور تفصیلی جرح کرتے۔
ان کی ایک گواہ پر جرح پانچ سے دس فل اسکیپ صفحوں پر مشتمل ہوتی جس روز ان کے کیس کی باری ہوتی عدالت کا سارا دن انھی کی ماہرانہ جرح ریکارڈ کرنے پر صرف ہوتا اس تعیناتی کے ایک سال کے دوران میں نے دو تین سال جتنا کام کیا ہو گا۔ جہاں اس دوران بہت کچھ سیکھا وہاں دائیں ہاتھ کی انگلیوں میں قلم پکڑنے میں دقت اور درد ہر دو نے اپنا اثر دکھایا ہینڈرائٹنگ تو خراب نہ ہوئی لکھنے کی رفتار کم ہونے کے علاوہ کچھ دیر تک لکھنے کے بعد انگلیوں کو آرام دینا ضروری ہو گیا۔
اگر قتل کا ارتکاب اتفاقیہ یا غیرارادی ہو تو الگ بات ہے لیکن اگر کسی خانگی وجہ یا دیرینہ دشمنی کی بنا پر ہو تو متاثرہ فریق زیادہ سے زیادہ مخالفین کو نامزد کر کے بدلہ چکاتے ہیں اس طرح کے مقدمات میں ملزموں کے علاوہ گواہوں کی تعداد میں بھی بھرتی کے افراد شامل ہو جاتے ہیں اور سچے جھوٹے چشم دید گواہوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔
اگر کسی مقدمہ قتل میں کوئی گواہ ہوشیاری دکھاتے ہوئے مدعی فریق سے اپنی لاتعلقی ظاہر کر کے خود کو سچا اور انڈی پینڈنٹ گواہ باور کرانے کے لیے بیان ریکارڈ کرانے کے دوران کسی رشتے داری سے انحراف کر دیتا تو وہ حکیم چراغ کے ہاتھ میں گویا ایک شکار آ جاتا۔ حکیم چراغ اپنی فائل میں سے اس کا شجرہ نسب والا کاغذ نکال کر پہلے اس کے ساتھ بلی چوہے والا کھیل کھیلتے اور پھر اس گواہ کی رشتے داریاں کھنگالتے ہوئے اس کی بیان کردہ رشتے داری کو غلط ثابت کر دیتے۔
ایک بار تو انھوں نے جب پریشان حال گواہ کو شجرہ نسب کی بنیاد پر کسی اور شخص کی اولاد ثابت کر کے کھلی عدالت میں یہ کہہ دیا کہ ''میاں پھر تم حلال زادے تو نہ ہوئے نا'' اس پر بے چارہ گواہ جو حکیم چراغ کے شجرہ نسب والے شکنجے میں آتے آتے کانپنے لگا تھا گر کر بیہوش ہو گیا۔ حکیم چراغ کے پاس تمام گواہان استغاثہ کا شجرہ نسب ہوتا تھا۔
عام مشاہدہ ہے کہ مقدمات حتمی فیصلے تک پہنچنے میں بیحد طول پکڑتے ہیں یعنی جو بھی تھانے کچہری چڑھ گیا اس کے اترنے کا وقت ''یا قسمت یا نصیب'' کے مطابق ہوتا ہے۔ قتل کے مقدمات جن میں انسانی زندگی کسی رنجش، رقابت، حسد یا دشمنی کی بھینٹ چڑھی ہوتی ہے اکثر اوقات فیصلوں میں تاخیر کے باعث فریقین کے مابین مزید مقدمات کو جنم دیتے ہیں اور ایسے تنازعے اگلی نسل تک منتقل ہوتے دیکھے گئے ہیں۔
قتل کے مقدمات میں تاخیر کم کرنے، جھوٹی گواہیاں تلف کرنے، گواہوں کو پابند کرنے، منحرف ہو سکنے والے چشم دید گواہوں کو سچی گواہی پر قائم رکھنے یا دباؤ میں آ کر بیان بدلنے سے روکنے یا پھر ان کی یادداشت کی حفاظت کرنے کے لیے ضلع کے ایک سینئر مجسٹریٹ کو Commitment Magistrate مقرر کرنے کا قانون ہوا کرتا تھا جس کے تحت قتل کی واردات کی تفتیش دو تین ماہ کے اندر مکمل کر کے علاقہ پولیس کو چالان کمٹمنٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کرنا ہوتا تھا جہاں بلا تاخیر گواہان استغاثہ و صفائی اور ملزمان کے بیان قلمبند کیے جاتے تھے۔
اگر گواہ استغاثہ کو سپورٹ کرتے تو مجسٹریٹ وہ مقدمہ سیشن سپرد کر دیتا، مجسٹریٹ کو اختیار تھا کہ اگر کوئی بھی شہادت ملزم کے خلاف نہ ہوتی تو ملزم کو ڈسچارج کر دیا جاتا۔ اس نظام کے بیحد مفید نتائج مرتب ہوتے رہے لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر کمٹمنٹ کا طریق ختم کر دیا گیا جس کا نقصان ہوا اور اب تک ہو رہا ہے۔گجرات میں تعیناتی پر کیپٹن سید نصیر احمد ڈپٹی کمشنر نے سٹی کا چارج دینے کے علاوہ ضلع کے مقدمات قتل کی کمٹمنٹ پروسیڈنگز بھی میرے سپرد کر دیں۔
یہ بھاری اور اہم ذمے داریاں تھیں، روزانہ تیس چالیس گواہوں کی شہادتیں اپنے قلم سے ریکارڈ کرنا کوئی آسان کام نہ تھا اور اگر وکیل صفائی حکیم چراغ ہوں تو پھر ''جو تن لاگے سو تن جانے''۔ حکیم چراغ ایک ماہر فوجداری وکیل تھے اور اپنے موکل کے ساتھ انصاف کرتے تھے سیاہ پتلون کالا کوٹ سفید قمیض کالی نیکٹائی لیکن سر پر سفید پگڑی ان کا عدالتوں میں مستقل لباس تھا۔ استغاثہ کے گواہوں پر تفصیلی جرح کرتے تھے۔
قتل کے مقدمات میں مجرموں کو سزا نہ ہونے کی ایک وجہ متاثرہ فریق کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ مخالف یعنی ملزم فریق کے زیادہ سے زیادہ افراد کو نامزد کر کے بدلہ لیا جائے۔ پولیس اس خواہش کی تکمیل میں اپنے ذاتی مقاصد حاصل کرنے کے لیے مدد کرتی ہے۔ پولیس زیادہ ملزمان یعنی افراد کو حراست میں لیتی ہے باوجودیکہ انھیں اصل حقائق کا علم ہوتا ہے۔ یوں بیگناہوں کو سودے بازی سے چھوڑنا ایک بات اور استغاثہ کا کیس کمزور ہو جانا یقینی ہو جاتا ہے۔ ملزموں کو اس کا فائدہ ہوتا اور وکیل صفائی کے لیے آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔
اس کا الزام سسٹم اور عدالت پر آتا ہے اور پھر متاثرہ فریق عدالت سے باہر ملزم کی بریت پر ایک اور قتل کا ارتکاب کرتا ہے۔ یوں قتل کی دشمنیاں اگلی نسل تک بھی منتقل ہوتی ہیں۔حکیم چراغ کا نام بحیثیت فوجداری وکیل اپنے ضلع میں تو مستند تھا ہی لیکن زیادہ مشہور تب ہوا جب ایک نوجوان بیرسٹر کی زوجہ کو لاہور کی سب سے بارونق سڑک پر سے چند بااثر گھرانوں کے غنڈوں نے اغوا کر لیا اور پھر گرفتاری کے بعد کیس چلا تو لاہور کے وکلاء نے ملزموں کی وکالت کا بائیکاٹ کر دیا اور جب حکیم چراغ نے یہ کیس لے لیا تو ان کا نام میڈیا پر مشہور ہوا۔
ایک واقع اس کیس سے جڑا ہوا یاد آیا ہے کہ عرصہ بعد میرا ایک جیل انسپکشن پر جانا ہوا اور جیل کے تمام شعبوں کا معائنہ کرنے کے بعد اچانک میں نے وہاں کی لائبریری دیکھنے کا ارادہ کیا تو عملہ جیل کے افراد میں گھبراہٹ پیدا ہوتی دیکھی۔ چھوٹے سے کمرے میں لائبریری تھی اس کمرے میں چند کرسیاں ایک میز اور تین سیٹ والا صوفہ تھا، چھت پر لگا پنکھا چل رہا تھا اور صوفے پر بوسکی کی قمیض سفید شلوار پہنے ایک نوجوان لیٹا ہوا تھا جو ہمیں دیکھ کر گھبرا گیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔
افسران بالا نے اس ملزم کو جس کا تعلق حکیم چراغ صاحب والے کیس سے تھا وہاں خاص مہمان والی سہولتیں دے رکھی تھیں اور میری انسپکشن رپورٹ میں اس کا ذکر شامل ہے۔میری ایک سال تک گجرات تعیناتی کے دوران قتل کے مقدمات کی کمٹمنٹ کارروائی کی وجہ سے ضلع کے یہ مقدمات شہادتوں کی ریکارڈنگ کے لیے میرے پاس پیش ہوتے اکثر مقدمات میں حکیم چراغ ہی وکیل صفائی ہوتے وہ ماہر وکیل تو تھے ہی اپنے کیس کی تیاری بھی محنت سے کرتے اور تفصیلی جرح کرتے۔
ان کی ایک گواہ پر جرح پانچ سے دس فل اسکیپ صفحوں پر مشتمل ہوتی جس روز ان کے کیس کی باری ہوتی عدالت کا سارا دن انھی کی ماہرانہ جرح ریکارڈ کرنے پر صرف ہوتا اس تعیناتی کے ایک سال کے دوران میں نے دو تین سال جتنا کام کیا ہو گا۔ جہاں اس دوران بہت کچھ سیکھا وہاں دائیں ہاتھ کی انگلیوں میں قلم پکڑنے میں دقت اور درد ہر دو نے اپنا اثر دکھایا ہینڈرائٹنگ تو خراب نہ ہوئی لکھنے کی رفتار کم ہونے کے علاوہ کچھ دیر تک لکھنے کے بعد انگلیوں کو آرام دینا ضروری ہو گیا۔
اگر قتل کا ارتکاب اتفاقیہ یا غیرارادی ہو تو الگ بات ہے لیکن اگر کسی خانگی وجہ یا دیرینہ دشمنی کی بنا پر ہو تو متاثرہ فریق زیادہ سے زیادہ مخالفین کو نامزد کر کے بدلہ چکاتے ہیں اس طرح کے مقدمات میں ملزموں کے علاوہ گواہوں کی تعداد میں بھی بھرتی کے افراد شامل ہو جاتے ہیں اور سچے جھوٹے چشم دید گواہوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔
اگر کسی مقدمہ قتل میں کوئی گواہ ہوشیاری دکھاتے ہوئے مدعی فریق سے اپنی لاتعلقی ظاہر کر کے خود کو سچا اور انڈی پینڈنٹ گواہ باور کرانے کے لیے بیان ریکارڈ کرانے کے دوران کسی رشتے داری سے انحراف کر دیتا تو وہ حکیم چراغ کے ہاتھ میں گویا ایک شکار آ جاتا۔ حکیم چراغ اپنی فائل میں سے اس کا شجرہ نسب والا کاغذ نکال کر پہلے اس کے ساتھ بلی چوہے والا کھیل کھیلتے اور پھر اس گواہ کی رشتے داریاں کھنگالتے ہوئے اس کی بیان کردہ رشتے داری کو غلط ثابت کر دیتے۔
ایک بار تو انھوں نے جب پریشان حال گواہ کو شجرہ نسب کی بنیاد پر کسی اور شخص کی اولاد ثابت کر کے کھلی عدالت میں یہ کہہ دیا کہ ''میاں پھر تم حلال زادے تو نہ ہوئے نا'' اس پر بے چارہ گواہ جو حکیم چراغ کے شجرہ نسب والے شکنجے میں آتے آتے کانپنے لگا تھا گر کر بیہوش ہو گیا۔ حکیم چراغ کے پاس تمام گواہان استغاثہ کا شجرہ نسب ہوتا تھا۔