شہدادکوٹ میں قبضہ مافیا نے تھانے کا پلاٹ بھی ہتھیا لیا
شہر بچاؤ کمیٹی کی بھوک ہڑتال، احتجاجی تحریک کی تیاری
شہدادکوٹ اور اس کے باسی سیاسی طور پر لاوارث اور بے یارو مددگار تو تھے ہی، لیکن وہ انتظامی طور پر بھی استحصال کا شکار ہیں۔ شہری بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور شہر کی حالت کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہے۔
تجاوزات اور قبضہ مافیا کی سرگرمیاں عروج پر ہیں، لیکن حکم ران، منتخب نمایندے اور انتظامیہ پراسرار طور پر خاموش ہیں۔ ایسے ماحول میں عوامی مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی آواز بھی دب کر رہ جاتی ہے۔
شہر کی اکثر سرکاری املاک اور اراضی پر قبضے ہوچکے ہیں، جن کو واگزار کرانے کے لیے متعلقہ اداروں نے سنجیدگی سے اقدامات نہیں کیے اور وہ سرکاری املاک قبضہ مافیا کی ملکیت بن چکی ہیں۔ بہ ہر حال شہر کے گنجان آباد علاقہ اور وسط میں موجود ''اے'' سیکشن تھانہ کے اندر جنوبی حصے کے پلاٹ پر مین روڈ کی طرف اچانک کمرشل پلازہ کی تعمیر پر شہری حیران ہوئے۔ جب اس کے متعلق معلوم کیا گیا تو یہ انکشاف ہوا کہ پولیس کی آشیرباد سے غیرقانونی شاپنگ سینٹر تعمیر ہو رہا ہے۔
کروڑوں روپے کے پلاٹ پر تعمیر ہونے والی دکانوں کے لیے کسی بھی ذمہ دار اتھارٹی سے تحریری طور پر اجازت نہیں لی گئی اور نہ ہی اس کا باضابطہ ٹینڈر کرایا گیا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اتنے بڑے منصوبے کے لیے کسی بھی قسم کے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ اس میں پولیس براہ راست ملوث ہے۔ کیوں کہ مقامی پولیس افسران ہر بار اپنے موقف کو تبدیل کرتے رہے ہیں۔ ان کا موقف اپنی جگہ لیکن سرکاری اراضی پر خانگی طور پر اس طرح دکانیں تعمیر کرانا کسی بھی طرح قانونی نہیں ہے۔ اگر اس کی ضرورت بھی ہے تو اس کے لیے قانونی طریقے سے اوپن ٹینڈر کراکر دکانیں تعمیر کرائی جاتیں تو شہری، میڈیا اور دیگر ادارے بھی معترض نہ ہوتے۔ لیکن دکانیں تعمیر کرانے والے اور مقامی افسران کوئی بھی تحریری ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے۔
کچھ عرصہ قبل ایک ضلعی پولیس افسر نے تھانے کے اطراف شاپنگ سینٹر تعمیر کرانے کی فزیبلیٹی رپورٹ بھی تیار کرائی تھی، لیکن شہریوں کے تحفظات اور قبضہ کیے جانے کے خدشات کی پیش نظر آئی جی سندھ پولیس نے اس منصوبے کو مسترد کردیا تھا۔ تاہم اب دوبارہ بااثر شخصیات اور قبضہ مافیا نے موقع پاکر تھانے کے قیمتی پلاٹ پر قبضہ کرکے غیر قانونی طور پر شاپنگ سینٹر کی تعمیر شروع کردی ہے۔
تھانے کے پلاٹ پر قبضے کے خلاف منتخب نمایندے اور انتظامیہ پراسرار طور پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں، جب کہ مختلف شہری تنظیموں کے کارکنوں نے مین چوک پر احتجاجی مظاہرہ کرکے دھرنا دیا۔ مقررین نے تھانے کے پلاٹ پر غیر قانونی طور پر ہونے والی تعمیرات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تعمیرات کا سلسلہ فوری بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ دوسری جانب مختلف شہری تنظیموں کی جانب سے شہر بچاؤ کمیٹی نے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا۔ جس میں فنکشنل لیگ، مجلس وحدت المسلمین، جماعت اسلامی، جیے سندھ محاذ، سندھ یونائیٹڈ پارٹی، جیے سندھ قومی محاذ، سندھ ترقی پسند پارٹی سمیت مختلف سیاسی، سماجی اور شہری تنظیموں کے راہ نماؤں نے شرکت کی۔
اس موقع پر میڈم ناہید کھاوڑ، سید اکبر شاہ، حب دار علی میر جت، ایڈووکیٹ عبدالوحید بھٹی، ذوالفقار مگسی، حمل خشک، پیر بخش بھٹی اور دیگر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اب الٹی گنگا بہہ رہی ہے، پہلے جب کسی شہری کے ساتھ زیادتی یا ناانصافی ہوتی یا ان کی ملکیت پر قبضہ ہوتا تھا تو شکایت لے کر تھانے جاتے تھے اب اگر پولیس کی موجودی میں تھانے کے کروڑوں روپے کے پلاٹ پر غیر قانونی قبضہ ہو تو اس کی شکایت کہاں لے کر جائیں۔
انہوں نے کہا کہ شہر کے گنجان آباد علاقہ اور وسط میں قائم ''اے'' سیکشن تھانے کے انتہائی قیمتی پلاٹ پر قبضہ مافیا نے غیر قانونی طور پر شاپنگ سینٹر کی تعمیر شروع کی ہے مگر افسوس پولیس انتظامیہ کے ساتھ حکم ران جماعت پیپلزپارٹی کے عہدے دار اور منتخب نمایندے بھی خاموش ہیں، ان کی پراسرار خاموشی سے ظاہر ہے کہ ان کی قبضہ مافیا کو آشیرباد حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر قبضہ مافیا نے اس طرح تھانے کے پلاٹ پر قبضہ جمالیا تو شہری ان کے غضب سے بچ نہیں سکیں گے اور اب صورت حال یہ ہے کہ املاک کے معاملے میں شریف شہری خود کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی باشعور شہری تھانے کی آمدنی کے خلاف نہیں ہے تاہم اس طرح قبضے کو بھی برداشت نہیں کریں گے، اگر اس میں دل چسپی لینے والے پولیس افسران اپنے تھانے سے مخلص ہیں تو سب سے پہلے قانونی راستہ اختیار کرکے اوپن آکشن کے ذریعے شہریوں کی موجودی میں ٹھیکہ دینے کی پالیسی کو اپنائیں اور اس کے بعد شہریوں کی موجودی میں ہی دکانیں آکشن کے ذریعے خواہش مندوں کو دی جائیں۔
مقررین نے کہا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ یہ عمل حال ہی میں تعینات ہونے والے ایمان دار آئی جی اے ڈی خواجہ کو بدنام کرنے کی ایک مذموم سازش ہے، اس لیے حکومت کے ساتھ پولیس کے اعلیٰ حکام اس پر فوری توجہ دے کر اس قبضے کو واگزار کرائیں، بہ صورت دیگر احتجاج کا دائرہ وسیع کیا جائے گا۔
اس موقع پر انہوں نے کہا کہ احتجاجی تحریک چلانے کے ساتھ عدالت سے بھی رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جب کہ تحریک کو مؤثر طریقے سے چلانے کے لیے 9 رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔ دوسری جانب شہر بچاؤ کمیٹی کی جانب سے مین چوک پر بھوک ہڑتالی کیمپ لگایا گیا۔ شہری تنظیموں نے متنبہ کیا ہے کہ اگر قبضہ ختم نہ کرایا گیا تو شہر کے تمام راستوں کو بند کرنے اور شٹرڈاؤن ہڑتال کی کال دی جائے گی۔
تجاوزات اور قبضہ مافیا کی سرگرمیاں عروج پر ہیں، لیکن حکم ران، منتخب نمایندے اور انتظامیہ پراسرار طور پر خاموش ہیں۔ ایسے ماحول میں عوامی مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی آواز بھی دب کر رہ جاتی ہے۔
شہر کی اکثر سرکاری املاک اور اراضی پر قبضے ہوچکے ہیں، جن کو واگزار کرانے کے لیے متعلقہ اداروں نے سنجیدگی سے اقدامات نہیں کیے اور وہ سرکاری املاک قبضہ مافیا کی ملکیت بن چکی ہیں۔ بہ ہر حال شہر کے گنجان آباد علاقہ اور وسط میں موجود ''اے'' سیکشن تھانہ کے اندر جنوبی حصے کے پلاٹ پر مین روڈ کی طرف اچانک کمرشل پلازہ کی تعمیر پر شہری حیران ہوئے۔ جب اس کے متعلق معلوم کیا گیا تو یہ انکشاف ہوا کہ پولیس کی آشیرباد سے غیرقانونی شاپنگ سینٹر تعمیر ہو رہا ہے۔
کروڑوں روپے کے پلاٹ پر تعمیر ہونے والی دکانوں کے لیے کسی بھی ذمہ دار اتھارٹی سے تحریری طور پر اجازت نہیں لی گئی اور نہ ہی اس کا باضابطہ ٹینڈر کرایا گیا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اتنے بڑے منصوبے کے لیے کسی بھی قسم کے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ اس میں پولیس براہ راست ملوث ہے۔ کیوں کہ مقامی پولیس افسران ہر بار اپنے موقف کو تبدیل کرتے رہے ہیں۔ ان کا موقف اپنی جگہ لیکن سرکاری اراضی پر خانگی طور پر اس طرح دکانیں تعمیر کرانا کسی بھی طرح قانونی نہیں ہے۔ اگر اس کی ضرورت بھی ہے تو اس کے لیے قانونی طریقے سے اوپن ٹینڈر کراکر دکانیں تعمیر کرائی جاتیں تو شہری، میڈیا اور دیگر ادارے بھی معترض نہ ہوتے۔ لیکن دکانیں تعمیر کرانے والے اور مقامی افسران کوئی بھی تحریری ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے۔
کچھ عرصہ قبل ایک ضلعی پولیس افسر نے تھانے کے اطراف شاپنگ سینٹر تعمیر کرانے کی فزیبلیٹی رپورٹ بھی تیار کرائی تھی، لیکن شہریوں کے تحفظات اور قبضہ کیے جانے کے خدشات کی پیش نظر آئی جی سندھ پولیس نے اس منصوبے کو مسترد کردیا تھا۔ تاہم اب دوبارہ بااثر شخصیات اور قبضہ مافیا نے موقع پاکر تھانے کے قیمتی پلاٹ پر قبضہ کرکے غیر قانونی طور پر شاپنگ سینٹر کی تعمیر شروع کردی ہے۔
تھانے کے پلاٹ پر قبضے کے خلاف منتخب نمایندے اور انتظامیہ پراسرار طور پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں، جب کہ مختلف شہری تنظیموں کے کارکنوں نے مین چوک پر احتجاجی مظاہرہ کرکے دھرنا دیا۔ مقررین نے تھانے کے پلاٹ پر غیر قانونی طور پر ہونے والی تعمیرات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تعمیرات کا سلسلہ فوری بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ دوسری جانب مختلف شہری تنظیموں کی جانب سے شہر بچاؤ کمیٹی نے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا۔ جس میں فنکشنل لیگ، مجلس وحدت المسلمین، جماعت اسلامی، جیے سندھ محاذ، سندھ یونائیٹڈ پارٹی، جیے سندھ قومی محاذ، سندھ ترقی پسند پارٹی سمیت مختلف سیاسی، سماجی اور شہری تنظیموں کے راہ نماؤں نے شرکت کی۔
اس موقع پر میڈم ناہید کھاوڑ، سید اکبر شاہ، حب دار علی میر جت، ایڈووکیٹ عبدالوحید بھٹی، ذوالفقار مگسی، حمل خشک، پیر بخش بھٹی اور دیگر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اب الٹی گنگا بہہ رہی ہے، پہلے جب کسی شہری کے ساتھ زیادتی یا ناانصافی ہوتی یا ان کی ملکیت پر قبضہ ہوتا تھا تو شکایت لے کر تھانے جاتے تھے اب اگر پولیس کی موجودی میں تھانے کے کروڑوں روپے کے پلاٹ پر غیر قانونی قبضہ ہو تو اس کی شکایت کہاں لے کر جائیں۔
انہوں نے کہا کہ شہر کے گنجان آباد علاقہ اور وسط میں قائم ''اے'' سیکشن تھانے کے انتہائی قیمتی پلاٹ پر قبضہ مافیا نے غیر قانونی طور پر شاپنگ سینٹر کی تعمیر شروع کی ہے مگر افسوس پولیس انتظامیہ کے ساتھ حکم ران جماعت پیپلزپارٹی کے عہدے دار اور منتخب نمایندے بھی خاموش ہیں، ان کی پراسرار خاموشی سے ظاہر ہے کہ ان کی قبضہ مافیا کو آشیرباد حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر قبضہ مافیا نے اس طرح تھانے کے پلاٹ پر قبضہ جمالیا تو شہری ان کے غضب سے بچ نہیں سکیں گے اور اب صورت حال یہ ہے کہ املاک کے معاملے میں شریف شہری خود کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی باشعور شہری تھانے کی آمدنی کے خلاف نہیں ہے تاہم اس طرح قبضے کو بھی برداشت نہیں کریں گے، اگر اس میں دل چسپی لینے والے پولیس افسران اپنے تھانے سے مخلص ہیں تو سب سے پہلے قانونی راستہ اختیار کرکے اوپن آکشن کے ذریعے شہریوں کی موجودی میں ٹھیکہ دینے کی پالیسی کو اپنائیں اور اس کے بعد شہریوں کی موجودی میں ہی دکانیں آکشن کے ذریعے خواہش مندوں کو دی جائیں۔
مقررین نے کہا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ یہ عمل حال ہی میں تعینات ہونے والے ایمان دار آئی جی اے ڈی خواجہ کو بدنام کرنے کی ایک مذموم سازش ہے، اس لیے حکومت کے ساتھ پولیس کے اعلیٰ حکام اس پر فوری توجہ دے کر اس قبضے کو واگزار کرائیں، بہ صورت دیگر احتجاج کا دائرہ وسیع کیا جائے گا۔
اس موقع پر انہوں نے کہا کہ احتجاجی تحریک چلانے کے ساتھ عدالت سے بھی رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جب کہ تحریک کو مؤثر طریقے سے چلانے کے لیے 9 رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔ دوسری جانب شہر بچاؤ کمیٹی کی جانب سے مین چوک پر بھوک ہڑتالی کیمپ لگایا گیا۔ شہری تنظیموں نے متنبہ کیا ہے کہ اگر قبضہ ختم نہ کرایا گیا تو شہر کے تمام راستوں کو بند کرنے اور شٹرڈاؤن ہڑتال کی کال دی جائے گی۔