میموکیس حسین حقانی نے عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا چیف جسٹس
حسین حقانی یہاں آنے سے خوف زدہ ہیں کمیشن میں بھی ان کو غدار کہا گیا۔ عاصمہ جہانگیر
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ حسین حقانی چار دن کے نوٹس پرآنے کا کہہ کرگئے تھے مگر انہوں نے عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا.
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں نو رکنی بینچ میمو کیس کی سماعت کی، دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ حسین حقانی نے چار روز کے نوٹس پر واپس آنے کی تحریری یقین دہانی کرائی تھی، حقانی کا بیان سب سے پہلا سوال ہے۔
اس موقع پر حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ حسین حقانی کی حاضری سے استثنی اور بیان ویڈیو کانفرنس سے ذریعہ ریکارڈ کرنے کی درخواستیں زیر التوا ہیں ، میمو کمیشن نے ابھی تک جو بھی ویڈیو کارروائی کی ہے اس کا ریکارڈ دیا جائے ، جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے حقانی پر اعتماد کیا مگر انہوں نے عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا ، عدالت نے حقانی کو حاضری سے استثنی نہیں دیا ،ان کو پیش ہونا چاہیے تھا۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ حقانی کے خط کی کاپی بھی درخواست گزاروں کو دینے کے حکم پر عمل نہیں کیا گیا، جواب میں عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ حقانی کے خط کی کاپی بیرسٹر ظفر اللہ کو دکھائی ضرور تھی مگر دی نہیں ، حقانی یہاں آنے سے خوف زدہ ہیں کمیشن میں بھی ان کو غدار کہا گیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت نے یہ حکم تو نہیں دیا کہ حقانی پاکستان میں ہی رہیں، جواب میں عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ حقانی کو سیکیورٹی خطرات کا سامنا ہے ، جس پر عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ حقانی کو سیکیورٹی کی یقین دہانی کراسکتے ہیں تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکیورٹی کے حوالہ سے یقین دہانی فراہم کرنا میرا کام نہیں حکومت سے پوچھ کر بتا سکتا ہوں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ حسین حقانی کے آنے پر کیس چلائیں گے، آپ وعدہ کریں کہ وہ آجائیں گے، جواب مین عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ وہ اپنے موکل کی رائے لئے بغیر کوئی وعدہ نہیں کرسکتیں، کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں نو رکنی بینچ میمو کیس کی سماعت کی، دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ حسین حقانی نے چار روز کے نوٹس پر واپس آنے کی تحریری یقین دہانی کرائی تھی، حقانی کا بیان سب سے پہلا سوال ہے۔
اس موقع پر حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ حسین حقانی کی حاضری سے استثنی اور بیان ویڈیو کانفرنس سے ذریعہ ریکارڈ کرنے کی درخواستیں زیر التوا ہیں ، میمو کمیشن نے ابھی تک جو بھی ویڈیو کارروائی کی ہے اس کا ریکارڈ دیا جائے ، جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے حقانی پر اعتماد کیا مگر انہوں نے عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا ، عدالت نے حقانی کو حاضری سے استثنی نہیں دیا ،ان کو پیش ہونا چاہیے تھا۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ حقانی کے خط کی کاپی بھی درخواست گزاروں کو دینے کے حکم پر عمل نہیں کیا گیا، جواب میں عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ حقانی کے خط کی کاپی بیرسٹر ظفر اللہ کو دکھائی ضرور تھی مگر دی نہیں ، حقانی یہاں آنے سے خوف زدہ ہیں کمیشن میں بھی ان کو غدار کہا گیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت نے یہ حکم تو نہیں دیا کہ حقانی پاکستان میں ہی رہیں، جواب میں عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ حقانی کو سیکیورٹی خطرات کا سامنا ہے ، جس پر عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ حقانی کو سیکیورٹی کی یقین دہانی کراسکتے ہیں تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکیورٹی کے حوالہ سے یقین دہانی فراہم کرنا میرا کام نہیں حکومت سے پوچھ کر بتا سکتا ہوں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ حسین حقانی کے آنے پر کیس چلائیں گے، آپ وعدہ کریں کہ وہ آجائیں گے، جواب مین عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ وہ اپنے موکل کی رائے لئے بغیر کوئی وعدہ نہیں کرسکتیں، کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی ہے۔