دہشت گردی کے محرکات و سدِ باب
منحصر اس بات پر ہوتا ہے کہ مذہبی، معاشی اور حکمران جماعتوں کے مفادات کی نوعیت کیا ہے
لاہور میں دہشت گردی کا انتہائی تکلیف دہ واقعہ پیش آیا ہے، جس میں ابھی تک کی اطلاع کے مطابق کوئی 80 کے قریب لوگ جاںبحق ہو چکے ہیں ، زخمیوں کی تعداد 300 سے متجاوز ہے۔ پیرس ہو یا بلجیم یا پھر پاکستان حقیقت تو یہ ہے کہ دہشت گردی کے عمومی واقعات میں عام اور معصوم لوگ ہی جاں بحق ہوتے ہیں جنکا دہشت گردی کے احیا میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔ پارکوں میں تفریح کرنے والے، بسوں اور ٹرینوں میں سفرکرنے والے، جہازوں کی اکانومی کلاس میں سفرکرنے والے متوسط طبقات اور نچلے طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی ہوتے ہیں۔
ان میں تفریح کے لیے اعلیٰ مقامات پر جانے کی استطاعت نہیں ہوتی۔ یہ مختلف موقعوں پر اپنے بچوں ، رشتے داروں کے ساتھ ایسے عام مقامات پر تفریح کی خاطر جاتے ہیں۔ان کے لیے زندگی کے معمولات کی جبروتناؤ سے آزادی کی ایسی ہی چند صورتیں ہوتی ہیں۔ایسی جگہوں پر یہ لوگ ایک ایسے عمل کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
سفاک دہشت گرد ایسے ہی معصوم لوگوں کو نشانہ بنا کر اپنے دہشت پسند نظریاتی اور سیاسی مفادات کے حصول کے لیے حکمرانوں پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ طاقت کے حصول کے اس دہشت پسندانہ عمل میں بھی ایک لذت پنہاں ہوتی ہے جو ہر ظالم کی طبع کا جزوِ لاینفک ہوتی ہے۔ دہشتگردی کا یہ عمل جس نا انصافی و ظلم کی بنیاد پر پروان چڑھتا ہے اس کا کبھی بھی ازالہ نہیں کیا جا سکتا۔ معصوم لوگوں کے اس طرح بلاامتیاز قتال کی ذمے داری ان حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے، جن کی پالیسیوں کا یہ دہشت پسند نتیجہ ہوتے ہیں۔ انھی پر اس دہشت گردی کے سدِ باب کی ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے۔
دہشتگردی ہے کیا چیز؟ میرے خیال میں مخصوص سیاسی، معاشی اورآئیڈیولاجیکل مفادات کے حصول اور دیگر طبقات پر اپنے غلبے کو برقرار رکھنے کے لیے طاقت کا ایسا استعمال کہ جس سے بلامتیاز قتال کا ارتکاب کیا جائے اس کو دہشت گردی کہتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ دہشت گردی کا جواز مذہبی آئیڈیالوجی کی مخصوص تشریحات سے تلاش کیا جا سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح مذہبی آئیڈیالوجی کے تحت دہشت گردی کی نفی بھی کی جا سکتی ہے۔
منحصر اس بات پر ہوتا ہے کہ مذہبی، معاشی اور حکمران جماعتوں کے مفادات کی نوعیت کیا ہے اور انھیں کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے! مخصوص مذہبی آئیڈیالوجی ہمہ وقت دہشت گردی کا محرک نہیں ہوتی، بلکہ دہشت گردی دہشت پسند پالیسیوں کا نتیجہ بھی ہوتی ہے۔ پاکستان میں 80 ہزار لوگوں کے بے رحمانہ قتال کے بعد اگر ریاست واقعی دہشت گردی کو ختم کرنے میں سنجیدہ ہے تو اس کے لیے چند انتہائی بنیادی نوعیت کے اقدامات کرنے ناگزیر ہیں۔ مدرسوں کی اصلاح اور ان کی فنڈنگ کے حوالے سے تو بہت باتیں ہو چکی ہیں۔
لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ دہشتگردی کو جنم دینے والے اسباب کو ختم کیا جائے، معاشرے سے غربت، افلاس، ظلم و استحصال کا خاتمہ کیا جائے، تا کہ لوگوں کے اندر سے احساسِ محرومی ختم کیا جا سکے۔ محض مدرسوں پر نظر رکھنی ہی کافی نہیں ہے، بلکہ ان عوامل کی تشخیص اور تدارک بھی کیا جائے جو غربت و افلاس کا شکار بچوں کو مدارس کا رخ اختیارکرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ان تمام ''روشن خیالوں'' کا بھی محاصرہ کیا جائے جن کی ''روشن خیالی'' کو قائم رکھنے کے لیے مدرسوں کا وجود ناگزیر ہے۔ مدرسوں میں دی جانے والی تعلیم جن کے وجود کی بقا کی ضامن ہے، کیونکہ ایسے واقعات عوامل سے منسلک حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے میں بھی معاون ہوتے ہیں۔
تعلیمی نظام کسی بھی ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اسکولوں میں تعصب و نفرت کو فروغ دینے والی تعلیم کا خاتمہ کیا جائے، نئی نسل کو ان تمام رجحانات سے آگاہ کیا جائے جن سے ناآشنائی جدید تہذیب و دنیا میں داخل ہونے کی اولین شرط ہے۔ اسکولوں ہی سے فلسفے کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے۔ یہ ضروری نہیں کہ بچوں کو وہ فلسفہ پڑھایا جائے جسے روایتی ''مفکر'' الحاد سے تعبیر کرتے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ یہ فلسفہ ہی ہے جس نے مغربی ممالک کے لوگوں کو الحاد سے بچا کر رکھا ہوا ہے، ورنہ پادریوں کا ظلم و بربریت ہی مسیحیت کے خلاف سب سے بڑی 'سازش' تھی۔ فلسفے کی تعلیم اس لیے ضروری ہے کہ آغاز ہی سے بچوں کی فکری صلاحیتوں کے احیا کو ممکن بنایا جا سکے۔ فلسفیانہ الٰہیات، جس کا گہرا تعلق علمیات و منطق سے ہے، اسے فلسفہ اخلاقیات کے ساتھ جوڑ کر پیش کیا جائے۔
علم الوجود، الٰہیات اور منطق کا جڑنا فکری ارتقا کے لیے ناگزیر ہے، اسی صورت میں مذہب کی ''قدامت پسندانہ'' تشریحات سے نجات ممکن ہو سکتی ہے۔ اسکولوں میں نفرت و تعصب پر مبنی تعلیم کو ختم کیا جائے، جس کے تحت مذہبی و فرقہ وارانہ بنیادوں پر دوسروں کو اجنبی اور دشمن تصور کرنے کا میلان پیدا ہوتا ہے۔ مذاہب کی جنگی تاریخ کو زمان و مکاں سے ماورا کسی ازلی و ابدی اصول کا حصہ تصور نہ کیا جائے بلکہ جنگی تاریخ کو اسی تناظر میں سمجھایا جائے جس تناظر میں یہ تشکیل پاتی ہے۔
جنگی تاریخ کو اس عہد کے سماجی حالات، اس عہد کے طبقاتی تضادات، مختلف طبقات کی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے والی خواہشات کے ساتھ منسلک کر کے پیش کیا جائے۔ جنگوں کے آفاقی رجحان کی حوصلہ شکنی کی جائے، مقامی کشمکش کی ایسی تشریح نہ کی جائے، جس کے تحت ازل سے ہی ایک دشمن کا تصور کر لیا جاتا ہے اور پھر حال اور مستقبل کو ماضی کی اسی دشمنی کے احساس کے ساتھ گزار دیا جاتا ہے۔
جنگوں کی تاریخ کے ساتھ یہ بھی اہم ہے کہ قرآن پاک کے ان حصوں کو مرکزی حیثیت دی جائے جن میں عقلمندوں کے لیے فطرت میں نشانیاں رکھی گئی ہیں، ان نشانیوں کا کھوج لگانے کے لیے عملی اقدامات بھی کیے جائیں، نہ کہ اس قضیے کو ''کافروں'' تک محدود کر دیا جائے۔ خود سے مخالف نظریہ، مذہب یا فرقہ رکھنے والوں کو ہمہ وقت اپنا حریف نہ سمجھا جائے، ان کا فیصلہ خدا پر چھوڑ دیا جائے۔ سچ اور جھوٹ کے قطعی معیارات کو انسانی تشکیل سمجھا جائے، جن میں لغزش کا پورا امکان موجود ہے۔
جامد تشریحات محض جامد و باطل سوچ کی عکاس ہوتی ہے، تبدیلی ناگزیر ہے، یہ تبدیلی فطرت میں موجود ہے، یہ تبدیلی' مطلق حقیقت 'ہے، کوئی بھی ا س سے مبرا نہیں ہے، اس تبدیلی کی اہمیت کو سمجھایا جائے۔ جمود کی بجائے تبدیلی کو تقدس کا درجہ دیا جائے۔ جمود کی بجائے اگر تبدیلی کائنات کی روح ہے تو یہ تبدیلی مطلق حقیقت سے الگ اس کے حریف کے طور پر وجود نہیں رکھتی۔
علامہ اقبال کے اس خیال کی اہمیت کو سمجھا جائے کہ کائنات مسلسل تخلیق کے عمل سے گزر رہی ہے۔ اس میں کوئی نظریہ، تصور اور حقیقت جامد و ساکت نہیں ہے۔ کانٹ اور ہیگل اگر فلسفے کی دنیا میں انقلابات برپا کرنے کے باوجود مسیحیت کے علمبردار کہلا سکتے ہیں، نیوٹن اور آئن اسٹائن جیسے سائنسدان اگر سائنسی بنیادوں پر ساری دنیا کے نظریات پر اثر انداز ہو کر بھی مسیحی اور یہودی رہ سکتے ہیں تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام کو اگر خطرہ ہے تو اس کی فکری، فلسفیانہ اور سائنسی جہت سے نہیں، کیونکہ عقائد کی وسعت کا راز ان پر تفکر کرنے میں ہی مضمر ہے۔
اسلام کو اگر اس وقت کوئی خطرہ ہے تو اس کی جامد و ساکت تشریحات سے، جو مفکر پیدا کرنے کی بجائے دہشت پسندوں کی افزائش کر رہی ہیں۔ اس قسم کی جامد تشریحات کے ان تمام محرکات کو سمجھنا چاہیے جن کا مقصد اسلام کی خدمت نہیں بلکہ مخصوص لوگوں کی محض اپنے نظریاتی غلبے کو برقرار رکھنے کی خواہش ہے۔ ان تمام عوامل کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنانا چاہیے اور یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب ریاست واقعی دہشت پسندی کے اسباب کا قلع قمع کرنے میں سنجیدہ ہو۔ اس کا اندازہ ریاست کے اٹھائے گئے عملی اقدامات سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔
ان میں تفریح کے لیے اعلیٰ مقامات پر جانے کی استطاعت نہیں ہوتی۔ یہ مختلف موقعوں پر اپنے بچوں ، رشتے داروں کے ساتھ ایسے عام مقامات پر تفریح کی خاطر جاتے ہیں۔ان کے لیے زندگی کے معمولات کی جبروتناؤ سے آزادی کی ایسی ہی چند صورتیں ہوتی ہیں۔ایسی جگہوں پر یہ لوگ ایک ایسے عمل کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
سفاک دہشت گرد ایسے ہی معصوم لوگوں کو نشانہ بنا کر اپنے دہشت پسند نظریاتی اور سیاسی مفادات کے حصول کے لیے حکمرانوں پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ طاقت کے حصول کے اس دہشت پسندانہ عمل میں بھی ایک لذت پنہاں ہوتی ہے جو ہر ظالم کی طبع کا جزوِ لاینفک ہوتی ہے۔ دہشتگردی کا یہ عمل جس نا انصافی و ظلم کی بنیاد پر پروان چڑھتا ہے اس کا کبھی بھی ازالہ نہیں کیا جا سکتا۔ معصوم لوگوں کے اس طرح بلاامتیاز قتال کی ذمے داری ان حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے، جن کی پالیسیوں کا یہ دہشت پسند نتیجہ ہوتے ہیں۔ انھی پر اس دہشت گردی کے سدِ باب کی ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے۔
دہشتگردی ہے کیا چیز؟ میرے خیال میں مخصوص سیاسی، معاشی اورآئیڈیولاجیکل مفادات کے حصول اور دیگر طبقات پر اپنے غلبے کو برقرار رکھنے کے لیے طاقت کا ایسا استعمال کہ جس سے بلامتیاز قتال کا ارتکاب کیا جائے اس کو دہشت گردی کہتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ دہشت گردی کا جواز مذہبی آئیڈیالوجی کی مخصوص تشریحات سے تلاش کیا جا سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح مذہبی آئیڈیالوجی کے تحت دہشت گردی کی نفی بھی کی جا سکتی ہے۔
منحصر اس بات پر ہوتا ہے کہ مذہبی، معاشی اور حکمران جماعتوں کے مفادات کی نوعیت کیا ہے اور انھیں کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے! مخصوص مذہبی آئیڈیالوجی ہمہ وقت دہشت گردی کا محرک نہیں ہوتی، بلکہ دہشت گردی دہشت پسند پالیسیوں کا نتیجہ بھی ہوتی ہے۔ پاکستان میں 80 ہزار لوگوں کے بے رحمانہ قتال کے بعد اگر ریاست واقعی دہشت گردی کو ختم کرنے میں سنجیدہ ہے تو اس کے لیے چند انتہائی بنیادی نوعیت کے اقدامات کرنے ناگزیر ہیں۔ مدرسوں کی اصلاح اور ان کی فنڈنگ کے حوالے سے تو بہت باتیں ہو چکی ہیں۔
لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ دہشتگردی کو جنم دینے والے اسباب کو ختم کیا جائے، معاشرے سے غربت، افلاس، ظلم و استحصال کا خاتمہ کیا جائے، تا کہ لوگوں کے اندر سے احساسِ محرومی ختم کیا جا سکے۔ محض مدرسوں پر نظر رکھنی ہی کافی نہیں ہے، بلکہ ان عوامل کی تشخیص اور تدارک بھی کیا جائے جو غربت و افلاس کا شکار بچوں کو مدارس کا رخ اختیارکرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ان تمام ''روشن خیالوں'' کا بھی محاصرہ کیا جائے جن کی ''روشن خیالی'' کو قائم رکھنے کے لیے مدرسوں کا وجود ناگزیر ہے۔ مدرسوں میں دی جانے والی تعلیم جن کے وجود کی بقا کی ضامن ہے، کیونکہ ایسے واقعات عوامل سے منسلک حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے میں بھی معاون ہوتے ہیں۔
تعلیمی نظام کسی بھی ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اسکولوں میں تعصب و نفرت کو فروغ دینے والی تعلیم کا خاتمہ کیا جائے، نئی نسل کو ان تمام رجحانات سے آگاہ کیا جائے جن سے ناآشنائی جدید تہذیب و دنیا میں داخل ہونے کی اولین شرط ہے۔ اسکولوں ہی سے فلسفے کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے۔ یہ ضروری نہیں کہ بچوں کو وہ فلسفہ پڑھایا جائے جسے روایتی ''مفکر'' الحاد سے تعبیر کرتے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ یہ فلسفہ ہی ہے جس نے مغربی ممالک کے لوگوں کو الحاد سے بچا کر رکھا ہوا ہے، ورنہ پادریوں کا ظلم و بربریت ہی مسیحیت کے خلاف سب سے بڑی 'سازش' تھی۔ فلسفے کی تعلیم اس لیے ضروری ہے کہ آغاز ہی سے بچوں کی فکری صلاحیتوں کے احیا کو ممکن بنایا جا سکے۔ فلسفیانہ الٰہیات، جس کا گہرا تعلق علمیات و منطق سے ہے، اسے فلسفہ اخلاقیات کے ساتھ جوڑ کر پیش کیا جائے۔
علم الوجود، الٰہیات اور منطق کا جڑنا فکری ارتقا کے لیے ناگزیر ہے، اسی صورت میں مذہب کی ''قدامت پسندانہ'' تشریحات سے نجات ممکن ہو سکتی ہے۔ اسکولوں میں نفرت و تعصب پر مبنی تعلیم کو ختم کیا جائے، جس کے تحت مذہبی و فرقہ وارانہ بنیادوں پر دوسروں کو اجنبی اور دشمن تصور کرنے کا میلان پیدا ہوتا ہے۔ مذاہب کی جنگی تاریخ کو زمان و مکاں سے ماورا کسی ازلی و ابدی اصول کا حصہ تصور نہ کیا جائے بلکہ جنگی تاریخ کو اسی تناظر میں سمجھایا جائے جس تناظر میں یہ تشکیل پاتی ہے۔
جنگی تاریخ کو اس عہد کے سماجی حالات، اس عہد کے طبقاتی تضادات، مختلف طبقات کی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے والی خواہشات کے ساتھ منسلک کر کے پیش کیا جائے۔ جنگوں کے آفاقی رجحان کی حوصلہ شکنی کی جائے، مقامی کشمکش کی ایسی تشریح نہ کی جائے، جس کے تحت ازل سے ہی ایک دشمن کا تصور کر لیا جاتا ہے اور پھر حال اور مستقبل کو ماضی کی اسی دشمنی کے احساس کے ساتھ گزار دیا جاتا ہے۔
جنگوں کی تاریخ کے ساتھ یہ بھی اہم ہے کہ قرآن پاک کے ان حصوں کو مرکزی حیثیت دی جائے جن میں عقلمندوں کے لیے فطرت میں نشانیاں رکھی گئی ہیں، ان نشانیوں کا کھوج لگانے کے لیے عملی اقدامات بھی کیے جائیں، نہ کہ اس قضیے کو ''کافروں'' تک محدود کر دیا جائے۔ خود سے مخالف نظریہ، مذہب یا فرقہ رکھنے والوں کو ہمہ وقت اپنا حریف نہ سمجھا جائے، ان کا فیصلہ خدا پر چھوڑ دیا جائے۔ سچ اور جھوٹ کے قطعی معیارات کو انسانی تشکیل سمجھا جائے، جن میں لغزش کا پورا امکان موجود ہے۔
جامد تشریحات محض جامد و باطل سوچ کی عکاس ہوتی ہے، تبدیلی ناگزیر ہے، یہ تبدیلی فطرت میں موجود ہے، یہ تبدیلی' مطلق حقیقت 'ہے، کوئی بھی ا س سے مبرا نہیں ہے، اس تبدیلی کی اہمیت کو سمجھایا جائے۔ جمود کی بجائے تبدیلی کو تقدس کا درجہ دیا جائے۔ جمود کی بجائے اگر تبدیلی کائنات کی روح ہے تو یہ تبدیلی مطلق حقیقت سے الگ اس کے حریف کے طور پر وجود نہیں رکھتی۔
علامہ اقبال کے اس خیال کی اہمیت کو سمجھا جائے کہ کائنات مسلسل تخلیق کے عمل سے گزر رہی ہے۔ اس میں کوئی نظریہ، تصور اور حقیقت جامد و ساکت نہیں ہے۔ کانٹ اور ہیگل اگر فلسفے کی دنیا میں انقلابات برپا کرنے کے باوجود مسیحیت کے علمبردار کہلا سکتے ہیں، نیوٹن اور آئن اسٹائن جیسے سائنسدان اگر سائنسی بنیادوں پر ساری دنیا کے نظریات پر اثر انداز ہو کر بھی مسیحی اور یہودی رہ سکتے ہیں تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام کو اگر خطرہ ہے تو اس کی فکری، فلسفیانہ اور سائنسی جہت سے نہیں، کیونکہ عقائد کی وسعت کا راز ان پر تفکر کرنے میں ہی مضمر ہے۔
اسلام کو اگر اس وقت کوئی خطرہ ہے تو اس کی جامد و ساکت تشریحات سے، جو مفکر پیدا کرنے کی بجائے دہشت پسندوں کی افزائش کر رہی ہیں۔ اس قسم کی جامد تشریحات کے ان تمام محرکات کو سمجھنا چاہیے جن کا مقصد اسلام کی خدمت نہیں بلکہ مخصوص لوگوں کی محض اپنے نظریاتی غلبے کو برقرار رکھنے کی خواہش ہے۔ ان تمام عوامل کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنانا چاہیے اور یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب ریاست واقعی دہشت پسندی کے اسباب کا قلع قمع کرنے میں سنجیدہ ہو۔ اس کا اندازہ ریاست کے اٹھائے گئے عملی اقدامات سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔