بلدیاتی نطام نافذ نہ ہونے سے کراچی کے مسائل بڑھ گئے
بلدیاتی قوانین کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور متحدہ کی درخواستیں زیر سماعت ہیں، اختیارات سے محروم ہیں
کراچی میں بلدیاتی نمائندوں کو منتخب ہوئے 100دن سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے تاہم عدالت میں زیر سماعت درخواستوں اور دیگر وجوہات کے باعث ابھی تک بلدیاتی منتخب نظام نافذ نہیں ہوسکا،نااہل سرکاری انتظامیہ شہر کے بلدیاتی مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ منتخب بلدیاتی نظام نافذ ہوبھی گیا تو شہری مسائل حل نہیں ہوسکیں گے۔ میئر کراچی کے تمام بلدیاتی اختیارات سلب کرلیے گیے ہیں،ضلعی و یونین کمیٹی کے چیئرمین بھی بے بس ولاچار ثابت ہوں گے، سندھ حکومت کی جانب سے ادارہ ترقیات کراچی بحال کرکے سڑکوں ، فلائی اوورز کی تعمیر اور دیگر اہم منصوبے بلدیہ عظمیٰ سے چھین لیے جائیں گے،تفصیلات کے مطابق بلدیاتی انتخابات کو 100دن سے زائد عرصہ گذر چکا ہے تاہم دوبڑی جماعتوں پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کے درمیان عدالتی لڑائی کے باعث ابھی تک میئر و ڈپٹی میئر اور ضلعی چیئرمین کا انتخاب عمل میں نہیں لایا جاسکا ۔
یونین کمیٹی کے چیئرمین بھی اختیارات نہ ملنے کے باعث عوامی خدمات انجام دینے سے محروم ہیں،واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں بلدیاتی قوانین کے حوالے سے پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کی جانب سے دائر درخواستیں زیر سماعت ہیں، بلدیہ عظمیٰ کراچی اور دیگر بلدیاتی اداروں کی موجودہ انتظامیہ ایک لاکھ سے زائد ملازمین کی فوج رکھنے کے باوجودشہریوں کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہے۔
ایڈمنسٹریٹر کراچی روشن شیخ ڈی ایم جی افسر ہیں تاہم ان کی تعیناتی سے بھی مسائل حل نہیں ہوپارہے ہیں،فلائی اوور اورسڑکوں کے منصوبے سست روی کا شکار ہیں، صفائی ستھرائی کا نظام انتہائی ناقص ہے،سڑکوں گلیوں اور برساتی نالوں میں کچرے اور گندگی کے پہاڑ قائم ہیں،محکمہ موسمیات کی پیش گوئی ہے کہ مئی و جون میں شدید ترین گرمی پڑیگی،بلدیہ عظمیٰ کراچی اور دیگر بلدیاتی اداروں نے ہیٹ اسٹروک سے نبرد آزما ہونے کیلیے کوئی تیاری نہیں کی،بلدیہ عظمیٰ کے اسپتالوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔
ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی عدم دلچسپی اورادویات کی قلت کے باعث مریضوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے،برساتی نالوں کی صفائی کا آغاز ابھی تک نہیں ہوا،بیشتر اسٹریٹ لائٹس کی بندش کے باعث اہم شاہراہیں اور سڑکیں اندھیروں میں ڈوبی ہوئی ہیں، بلدیہ عظمٰی اور ضلعی بلدیاتی اداروں میں تعمیر و مرمت کے ٹھیکوں کے اجراء میں خلاف ورزی جاری ہے اور رشوت ستانی بدستور عروج پر ہے۔
بلدیاتی ماہرین کے مطابق اگر منتخب بلدیاتی نظام نافذ ہوبھی گیا تو منتخب نمائندے اختیارات نہ ہونے کے باعث عوام کی امنگوں پر پورے نہیں اتر سکیں گے، سندھ حکومت نے تقریباً تمام بلدیاتی اختیارات آنے والے میئر کراچی اور منتخب بلدیاتی نمائندوں سے چھین لیے ہیں، صفائی ستھرائی کا نظام ،کراچی ماس ٹرانزٹ سیل، واٹر بورڈ، ادارہ ترقیات کراچی، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور دیگر اہم شعبے سندھ حکومت کے کنٹرول میں جاچکے ہیں۔
ادارہ ترقیات کراچی کی بحالی کے بعد شہر میں تعمیر ہونے والی سڑکیں، فلائی اوورز انڈر پاسز اور دیگر اہم منصوبوں سے بلدیہ عطمیٰ کراچی کا کوئی تعلق نہیں رہے گا، ماہرین نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 140-Aکے تحت بلدیاتی اداروں کوبااختیار بنانا چاہیے تاہم کراچی سمیت پورے سندھ میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے، صوبائی حکومت نے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں، بلدیاتی منتخب نمائندوں کو اپنے اختیارات کی بحالی کیلئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا ہوگا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ منتخب بلدیاتی نظام نافذ ہوبھی گیا تو شہری مسائل حل نہیں ہوسکیں گے۔ میئر کراچی کے تمام بلدیاتی اختیارات سلب کرلیے گیے ہیں،ضلعی و یونین کمیٹی کے چیئرمین بھی بے بس ولاچار ثابت ہوں گے، سندھ حکومت کی جانب سے ادارہ ترقیات کراچی بحال کرکے سڑکوں ، فلائی اوورز کی تعمیر اور دیگر اہم منصوبے بلدیہ عظمیٰ سے چھین لیے جائیں گے،تفصیلات کے مطابق بلدیاتی انتخابات کو 100دن سے زائد عرصہ گذر چکا ہے تاہم دوبڑی جماعتوں پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کے درمیان عدالتی لڑائی کے باعث ابھی تک میئر و ڈپٹی میئر اور ضلعی چیئرمین کا انتخاب عمل میں نہیں لایا جاسکا ۔
یونین کمیٹی کے چیئرمین بھی اختیارات نہ ملنے کے باعث عوامی خدمات انجام دینے سے محروم ہیں،واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں بلدیاتی قوانین کے حوالے سے پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کی جانب سے دائر درخواستیں زیر سماعت ہیں، بلدیہ عظمیٰ کراچی اور دیگر بلدیاتی اداروں کی موجودہ انتظامیہ ایک لاکھ سے زائد ملازمین کی فوج رکھنے کے باوجودشہریوں کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہے۔
ایڈمنسٹریٹر کراچی روشن شیخ ڈی ایم جی افسر ہیں تاہم ان کی تعیناتی سے بھی مسائل حل نہیں ہوپارہے ہیں،فلائی اوور اورسڑکوں کے منصوبے سست روی کا شکار ہیں، صفائی ستھرائی کا نظام انتہائی ناقص ہے،سڑکوں گلیوں اور برساتی نالوں میں کچرے اور گندگی کے پہاڑ قائم ہیں،محکمہ موسمیات کی پیش گوئی ہے کہ مئی و جون میں شدید ترین گرمی پڑیگی،بلدیہ عظمیٰ کراچی اور دیگر بلدیاتی اداروں نے ہیٹ اسٹروک سے نبرد آزما ہونے کیلیے کوئی تیاری نہیں کی،بلدیہ عظمیٰ کے اسپتالوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔
ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی عدم دلچسپی اورادویات کی قلت کے باعث مریضوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے،برساتی نالوں کی صفائی کا آغاز ابھی تک نہیں ہوا،بیشتر اسٹریٹ لائٹس کی بندش کے باعث اہم شاہراہیں اور سڑکیں اندھیروں میں ڈوبی ہوئی ہیں، بلدیہ عظمٰی اور ضلعی بلدیاتی اداروں میں تعمیر و مرمت کے ٹھیکوں کے اجراء میں خلاف ورزی جاری ہے اور رشوت ستانی بدستور عروج پر ہے۔
بلدیاتی ماہرین کے مطابق اگر منتخب بلدیاتی نظام نافذ ہوبھی گیا تو منتخب نمائندے اختیارات نہ ہونے کے باعث عوام کی امنگوں پر پورے نہیں اتر سکیں گے، سندھ حکومت نے تقریباً تمام بلدیاتی اختیارات آنے والے میئر کراچی اور منتخب بلدیاتی نمائندوں سے چھین لیے ہیں، صفائی ستھرائی کا نظام ،کراچی ماس ٹرانزٹ سیل، واٹر بورڈ، ادارہ ترقیات کراچی، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور دیگر اہم شعبے سندھ حکومت کے کنٹرول میں جاچکے ہیں۔
ادارہ ترقیات کراچی کی بحالی کے بعد شہر میں تعمیر ہونے والی سڑکیں، فلائی اوورز انڈر پاسز اور دیگر اہم منصوبوں سے بلدیہ عطمیٰ کراچی کا کوئی تعلق نہیں رہے گا، ماہرین نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 140-Aکے تحت بلدیاتی اداروں کوبااختیار بنانا چاہیے تاہم کراچی سمیت پورے سندھ میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے، صوبائی حکومت نے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں، بلدیاتی منتخب نمائندوں کو اپنے اختیارات کی بحالی کیلئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا ہوگا۔