کیا یہی ان کا قصور ہے…
سندھ کے شہرکراچی کو سیاسی اعتبار سے بڑی اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس شہر میں ہر قومیت کے لوگ آباد ہیں۔
سندھ کے شہرکراچی کو سیاسی اعتبار سے بڑی اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس شہر میں ہر قومیت کے لوگ آباد ہیں۔ اسی لیے اس شہرکو پاکستان کے دل کی حیثیت حاصل ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ شہر پاکستانی معیشت کا حب کہلاتا ہے اس کے علاوہ ماضی میں اس شہرکو ملک کا دارالخلافہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا ۔پاکستان کا مستقبل اس شہر سے وابستہ ہے لیکن اس وقت یہ شہر سیاسی ہلچل کی زد میں ہے اور دن رات میڈیا پر اسی ہلچل کی بازگشت سنائی دے رہی ہے ۔
پاکستانی سیاست کا اگر جائزہ لیا جائے تو ماضی میں بھی اسی قسم کے واقعات تقریباً تمام جماعتوں کے ساتھ ہوتے رہے ہیں، جس میں مخالف جماعتوں کی جانب سے کارکنان اور رہنماؤں کو خریدا جاتا رہا اور بسااوقات سازشوں سے نئی جماعتیں وجود میں آتی رہی ہیں لیکن سب بے سود !کیا پیپلز پارٹی ختم ہوگئی ؟ کیا مسلم لیگ (ن) ختم ہوگئی ؟ نہیں بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط بن کر اُبھریں کیونکہ انھیں عوام کی تائید حاصل تھی اور عوامی سپورٹ ہی کامیابی کی ضامن ہے۔ عوامی سپورٹ کے بغیرکسی جماعت کی کامیابی ناممکن ہے لیکن یہ حقائق پر مبنی ہے کہ یہی وہ 2جماعتیں ہیں جو برسہا برس سے اقتدار پر قابض ہیں بلکہ یوں کہنا زیادہ اچھا ہے کہ یہی 2خاندان ہیں جو اس ملک کی باگ دوڑکبھی ہم کبھی تم کی بنیاد پر سنبھال رہے ہیں جن کا تعلق سرمایہ دار طبقے سے ہے ۔
3مارچ 2016کو ایم کیو ایم سے منحرف ہونے والے چند عناصر نے ایم کیوایم کے قائد کے خلاف جو بھی زہر افشانی کی وہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ ماضی میں بھی ایم کیو ایم کو غدار وطن ثابت کرنے کے لیے نہ صرف الزامات عائد کیے گئے بلکہ ایک جھوٹا نقشہ تک برآمدکروایا گیا اور جناح پور کا الزام عائد کیا گیا اور عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ ایم کیو ایم وطن کی غدار جماعت ہے۔
غرض حکومتی مشینری کا بلا دریغ استعمال کیا گیا اور ایم کیو ایم کے تمام دفاتر پر قبضے کروائے گئے بلکہ ہزاروں کارکنان کو ماورائے عدالت قتل عام کیا گیا اور جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے ایم کیو ایم کو دہشت گرد جماعت ثابت کرنے کے لیے جعلی عقوبت خانے اور ٹارچر سیل بھی دکھائے گئے تاکہ عوام کی تائید سے یہ جماعت محروم ہوجائے لیکن قدرت الٰہی کا اپنا قانون ہے کہ وہ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت دے ۔
ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کرنے والے اہم ادارے کے ایک اہم رکن بریگیڈیئر امتیاز احمد نے 17سال بعد اپنے ضمیرکے ہاتھوں مجبور ہوکر الیکٹرونک میڈیا کے سامنے یہ یہ حقائق بتائے اور بتایا کہ 19جون 1992 کو ہونے والا آپریشن غلط تھا۔ 3مارچ کو ایم کیو ایم کے منحرف نمائندوں نے قائد کے خلاف جس قسم کے نازیبا الفاظ استعمال کیے وہ ماضی کے تلخ حقائق کو بھول چکے ہیں کہ ماضی میں مہاجروں کے ساتھ کتنے ظلم وجبر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کیے گئے ہیں اور آج وہ منحرف عناصر اپنی ہی قوم کے خلاف حکومتی آلہ کار بن کر جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔
وقت و حالات کا تقاضا ہے کہ ہم ماضی کے تلخ حقائق سے سبق حاصل کرتے ہوئے ایک قوت بن جائیں یعنی تمام رنگ ونسل سے بالاتر ہوکر ایک سبز پرچم تلے جمع ہوکر اس کی سر بلندی کو قائم و دائم رکھنے کے لیے حب الوطنی کا عملی ثبوت دیں اگر کہیں بھی کوئی زیادتی ہو رہی ہو تو اس کے سد باب کے لیے اپنا کردار ادا کریں تاکہ احساس محرومی اس ملک کے عوام کا مقدر نہ بنے ۔آج جوکچھ بھی اس ملک میں ہورہا ہے۔ اس کی ذمے داری ارباب اختیارواقتدار پرعائد ہوتی ہے جنھوں نے اپنے مقاصد کے تکمیل کے لیے ہمارے درمیان تفرقے کی دیوار قائم کی ہے۔ اس دیوارکوگرانے اور محب وطن پاکستانی بننے کی ضرورت ہے کیونکہ یہی یکجہتی ہمیں دنیا میں ہمارا کھویا ہوا مقام دلاسکتی ہے اور ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
نہایت افسوس کے ساتھ یہاں یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ملک بھر میں قومی یکجہتی کاتصور اُجاگر کرنے والوں کو غدار وطن قرار دینے کے لیے ایک بار پھر سازش کا جا ل بچھایا گیا ہے کہ مائنس الطاف حسین فارمولے کو تسلیم کر لیا جائے بصورت دیگرایم کیو ایم کے اندر ایک نئے گروپ کو تشکیل دے دیا جائے گا ۔ماضی میں بھی مسلم لیگ ن کی حکومت میںایسے حالات پیدا کیے گئے تھے تاکہ ایم کیو ایم کو دیوار سے لگادیا جائے او ر اب پھر وہی قوتیں یکجا ہو گئی ہیں تاکہ ایم کیو ایم کو تقسیم کر دیا جائے سوائے قدرت الٰہی کے دنیا کی اور کوئی ایسی طاقت نہیں جو ایم کیو ایم کو تقسیم کرسکے۔
قدرت الٰہی تو حق کی راہ پر چلنے والوں کا امتحان لیتی ہے یہ کڑا وقت جو مہاجروں کے ساتھ ساتھ ملک بھر کے مظلوم عوام کے لیے بھی ہے ۔آخر کیا وجہ ہے کہ ایم کیو ایم کو ہی تختہ مشق بنا یا جاتاہے ؟ اگر قائد تحریک غریب و متوسط طبقے کی حمایت سے دستبردار ہوجائیں اور وہ جو ملک بھر میں غریب و متوسط طبقے کی حکمرانی قائم کرنے کی جو تحریک چلارہے ہیں کیا یہی ان کا قصور ہے کہ ملک پر قابض وڈیروں ، جاگیرداروں اور چوہدریوں سے اس ملک کے مظلوم عوام کی جان چھڑانا چاہتے ہیں ؟
پاکستان کی 68سالہ تاریخ میں کسی بھی سیاسی و مذہبی جماعت نے غریب و متوسط طبقے کو اسمبلی کی زینت نہیں بنایا ہے کیونکہ وہ غریب و متوسط طبقے اپنا غلام سمجھتے ہیں جب کہ ایم کیو ایم نے مظلوم عوام کو ایوانوں میں پہنچایا ہے جس سے یہ مراعات یافتہ طبقہ سیخ پا ہو گیا ہے اگر الطاف حسین ایسا نہ کرتے تو شائد ان دولت کے پجاریوں کو تسکین ملتی اور شائد آج الطا ف حسین اور ان کی پارٹی کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
لہٰذا ! منحرف و مخالفین حضرات چاہے جو کرلیںلیکن کیا ان کے پاس اس بات کا جواب ہے کہ انھوں نے ایم کیو ایم کے پرچم کو استعمال کرکے دھن دولت کمائی ہے اور آج جو دعوے کر رہے ہیں وہ حقائق کے برعکس ہیں۔ عوام کی تائید کسی بھی صورت میں انھیں حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ الطاف حسین ایک نام نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے جو صرف مہاجروں کے ساتھ ساتھ ملک بھر کے دیگر رنگ و نسل زبان کے دلوں کی دھڑکن ہیںاور یہ ضمیر فروش جو چاہے کرلیں حق آنے کے لیے اور باطل مٹ جانے کے لیے ہے۔
پاکستانی سیاست کا اگر جائزہ لیا جائے تو ماضی میں بھی اسی قسم کے واقعات تقریباً تمام جماعتوں کے ساتھ ہوتے رہے ہیں، جس میں مخالف جماعتوں کی جانب سے کارکنان اور رہنماؤں کو خریدا جاتا رہا اور بسااوقات سازشوں سے نئی جماعتیں وجود میں آتی رہی ہیں لیکن سب بے سود !کیا پیپلز پارٹی ختم ہوگئی ؟ کیا مسلم لیگ (ن) ختم ہوگئی ؟ نہیں بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط بن کر اُبھریں کیونکہ انھیں عوام کی تائید حاصل تھی اور عوامی سپورٹ ہی کامیابی کی ضامن ہے۔ عوامی سپورٹ کے بغیرکسی جماعت کی کامیابی ناممکن ہے لیکن یہ حقائق پر مبنی ہے کہ یہی وہ 2جماعتیں ہیں جو برسہا برس سے اقتدار پر قابض ہیں بلکہ یوں کہنا زیادہ اچھا ہے کہ یہی 2خاندان ہیں جو اس ملک کی باگ دوڑکبھی ہم کبھی تم کی بنیاد پر سنبھال رہے ہیں جن کا تعلق سرمایہ دار طبقے سے ہے ۔
3مارچ 2016کو ایم کیو ایم سے منحرف ہونے والے چند عناصر نے ایم کیوایم کے قائد کے خلاف جو بھی زہر افشانی کی وہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ ماضی میں بھی ایم کیو ایم کو غدار وطن ثابت کرنے کے لیے نہ صرف الزامات عائد کیے گئے بلکہ ایک جھوٹا نقشہ تک برآمدکروایا گیا اور جناح پور کا الزام عائد کیا گیا اور عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ ایم کیو ایم وطن کی غدار جماعت ہے۔
غرض حکومتی مشینری کا بلا دریغ استعمال کیا گیا اور ایم کیو ایم کے تمام دفاتر پر قبضے کروائے گئے بلکہ ہزاروں کارکنان کو ماورائے عدالت قتل عام کیا گیا اور جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے ایم کیو ایم کو دہشت گرد جماعت ثابت کرنے کے لیے جعلی عقوبت خانے اور ٹارچر سیل بھی دکھائے گئے تاکہ عوام کی تائید سے یہ جماعت محروم ہوجائے لیکن قدرت الٰہی کا اپنا قانون ہے کہ وہ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت دے ۔
ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کرنے والے اہم ادارے کے ایک اہم رکن بریگیڈیئر امتیاز احمد نے 17سال بعد اپنے ضمیرکے ہاتھوں مجبور ہوکر الیکٹرونک میڈیا کے سامنے یہ یہ حقائق بتائے اور بتایا کہ 19جون 1992 کو ہونے والا آپریشن غلط تھا۔ 3مارچ کو ایم کیو ایم کے منحرف نمائندوں نے قائد کے خلاف جس قسم کے نازیبا الفاظ استعمال کیے وہ ماضی کے تلخ حقائق کو بھول چکے ہیں کہ ماضی میں مہاجروں کے ساتھ کتنے ظلم وجبر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کیے گئے ہیں اور آج وہ منحرف عناصر اپنی ہی قوم کے خلاف حکومتی آلہ کار بن کر جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔
وقت و حالات کا تقاضا ہے کہ ہم ماضی کے تلخ حقائق سے سبق حاصل کرتے ہوئے ایک قوت بن جائیں یعنی تمام رنگ ونسل سے بالاتر ہوکر ایک سبز پرچم تلے جمع ہوکر اس کی سر بلندی کو قائم و دائم رکھنے کے لیے حب الوطنی کا عملی ثبوت دیں اگر کہیں بھی کوئی زیادتی ہو رہی ہو تو اس کے سد باب کے لیے اپنا کردار ادا کریں تاکہ احساس محرومی اس ملک کے عوام کا مقدر نہ بنے ۔آج جوکچھ بھی اس ملک میں ہورہا ہے۔ اس کی ذمے داری ارباب اختیارواقتدار پرعائد ہوتی ہے جنھوں نے اپنے مقاصد کے تکمیل کے لیے ہمارے درمیان تفرقے کی دیوار قائم کی ہے۔ اس دیوارکوگرانے اور محب وطن پاکستانی بننے کی ضرورت ہے کیونکہ یہی یکجہتی ہمیں دنیا میں ہمارا کھویا ہوا مقام دلاسکتی ہے اور ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
نہایت افسوس کے ساتھ یہاں یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ملک بھر میں قومی یکجہتی کاتصور اُجاگر کرنے والوں کو غدار وطن قرار دینے کے لیے ایک بار پھر سازش کا جا ل بچھایا گیا ہے کہ مائنس الطاف حسین فارمولے کو تسلیم کر لیا جائے بصورت دیگرایم کیو ایم کے اندر ایک نئے گروپ کو تشکیل دے دیا جائے گا ۔ماضی میں بھی مسلم لیگ ن کی حکومت میںایسے حالات پیدا کیے گئے تھے تاکہ ایم کیو ایم کو دیوار سے لگادیا جائے او ر اب پھر وہی قوتیں یکجا ہو گئی ہیں تاکہ ایم کیو ایم کو تقسیم کر دیا جائے سوائے قدرت الٰہی کے دنیا کی اور کوئی ایسی طاقت نہیں جو ایم کیو ایم کو تقسیم کرسکے۔
قدرت الٰہی تو حق کی راہ پر چلنے والوں کا امتحان لیتی ہے یہ کڑا وقت جو مہاجروں کے ساتھ ساتھ ملک بھر کے مظلوم عوام کے لیے بھی ہے ۔آخر کیا وجہ ہے کہ ایم کیو ایم کو ہی تختہ مشق بنا یا جاتاہے ؟ اگر قائد تحریک غریب و متوسط طبقے کی حمایت سے دستبردار ہوجائیں اور وہ جو ملک بھر میں غریب و متوسط طبقے کی حکمرانی قائم کرنے کی جو تحریک چلارہے ہیں کیا یہی ان کا قصور ہے کہ ملک پر قابض وڈیروں ، جاگیرداروں اور چوہدریوں سے اس ملک کے مظلوم عوام کی جان چھڑانا چاہتے ہیں ؟
پاکستان کی 68سالہ تاریخ میں کسی بھی سیاسی و مذہبی جماعت نے غریب و متوسط طبقے کو اسمبلی کی زینت نہیں بنایا ہے کیونکہ وہ غریب و متوسط طبقے اپنا غلام سمجھتے ہیں جب کہ ایم کیو ایم نے مظلوم عوام کو ایوانوں میں پہنچایا ہے جس سے یہ مراعات یافتہ طبقہ سیخ پا ہو گیا ہے اگر الطاف حسین ایسا نہ کرتے تو شائد ان دولت کے پجاریوں کو تسکین ملتی اور شائد آج الطا ف حسین اور ان کی پارٹی کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
لہٰذا ! منحرف و مخالفین حضرات چاہے جو کرلیںلیکن کیا ان کے پاس اس بات کا جواب ہے کہ انھوں نے ایم کیو ایم کے پرچم کو استعمال کرکے دھن دولت کمائی ہے اور آج جو دعوے کر رہے ہیں وہ حقائق کے برعکس ہیں۔ عوام کی تائید کسی بھی صورت میں انھیں حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ الطاف حسین ایک نام نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے جو صرف مہاجروں کے ساتھ ساتھ ملک بھر کے دیگر رنگ و نسل زبان کے دلوں کی دھڑکن ہیںاور یہ ضمیر فروش جو چاہے کرلیں حق آنے کے لیے اور باطل مٹ جانے کے لیے ہے۔