خدارا ذہنی صحت کی بھی فکر کیجیے
معاشرے میں مختلف صورتوں میں مختلف ناموں سے پکارا جانا بھی بچے کی ذہنی صلاحیت کو بچپن سے متاثر کرنا شروع کردیتا ہے۔
ہمارے اور آپ کے درمیان اب بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کی ساری توجہ جسمانی صحت پر ہی مرکوز ہوتی ہے، لیکن ایسا نہیں ہے، بلکہ انسان کے لیے جتنی اہمیت جسماتنی صحت کی ہے بالکل اُتنی ہی اہمیت ذہنی کی بھی ہے، یہی وہ وجہ ہے جس کے سبب گزشتہ دو صدیوں سے ماہرِ نفسیات اس کو بھی بہت اہمیت دے رہے ہیں، اور یہ انہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز میں انسان کی ذہنی صلاحیت کی تحقیق میں واضح کامیابیوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔
اس سلسلے میں سوئیٹزر لینڈ کے ماہر نفسیات و علم برائے اصلاح نسلِ انسانی کے محقق پال یوجین نے 1911ء میں انسانی ذہن سے متعلق مثبت و منفی ردعمل کے نتیجہ میں شیزو فرینیا اور آٹزم جیسی چند اصطلاحات سے دنیا کو روشناس کروایا اور وقت گزرنے کے ساتھ مستقبل کے ماہرینِ نفسیات نے اُن وجوہات کو انسانی گفتگو و رویہ سے جاننے کی کوشش کرنا شروع کردی جو معاشرے کی وجہ سے فردِ ِواحد پر اثر انداز ہو رہی تھیں۔
ماہرین نفسیات کے مطابق آٹزم ایک ایسی ذہنی معذوری ہے جس میں بتدریج اضافہ ہوتا رہتا ہے اور بدقسمتی یہ کہ جس ایک بار اِس بیماری کا شکار ہوجائے پھر ساری زندگی اُس کے چنگل سے نکلنے میں ناکام رہتا ہے۔ یہ حالت دماغ کے کام کرنے کی صلاحیت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کا پہلا اشارہ عام طور پر بچے میں 3 سال کی عمر میں ظاہر ہوتا ہے، جو مستقبل میں اُسکی ہیجانی و سماجی مشکلات کا باعث بنتا چلا جاتا ہے۔ اس مرض میں فرد کو اکثر سماجی رابطے میں مشکل ہوتی ہے، اور اس کے ساتھ،
- زبانی و اشارے سے رابطہ بھی مشکل نظر آتا ہے۔
- کردار میں امتناعی و تکرار کا مظاہرہ واضح ہوتا ہے۔
- اپنے آس پاس ہونے والی سرگرمیوں میں دلچسپی محدود ہوتی جاتی ہے۔
- حساس حیثیت میں خود تسکینی، خود فکری و خود خیالی کی طرف راغب نظر آتا ہے۔
تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ یہ مرض عورتوں کی نسبت مردوں میں زیادہ ہوتا ہے۔ امریکہ میں تشخیص کے دوران 42 لڑکوں میں سے 1 لڑکے کو اور 189 لڑکیوں میں سے 1 لڑکی کو یہ مرض لاحق ہوا۔ جبکہ مزید رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں لاکھوں مریض اس حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ شیزو فرینیا اس کی اگلی اور مزید تکلیف دہ کڑی ہے۔
وجوہات
وقت گزرنے کے ساتھ جینیاتی تغیر و تبدل کے ساتھ خاندانی گروہ بندی اور معاشرہ کے رویے وہ وجوہات ہیں جو بچے میں اس مرض کا باعث بنتی ہیں، لیکن وقت گزرنے ساتھ ان ذہنی بیماریوں و بے ترتیبی کی کوئی حد مقرر نہیں کی جاسکی اور مریض پر غلبہ ہی بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔
چند اہم مثالیں
ایک تعلیم یافتہ نوجوان اپنی ملازمت کے دوران پریشان نظر آیا تو اُس کے دوستوں نے وجہ پوچھی۔ اُس نے وجہ دوستوں کو تو نہ بتائی لیکن ایک ماہر نفسیات سے رابطہ کیا اور اُس کو بتایا کہ میں اپنے والدین کو بچپن سے آج تک لڑتے ہی دیکھ رہا ہوں بلکہ ہاتھا پائی کی نوبت بھی آجاتی ہے۔ میرا ایک بھائی تو نفسیاتی مریض ہوچکا ہے اور میں بھی فیصلہ کر نہیں پا رہا ہوں کہ جب وہ دونوں لڑ رہے ہوتے ہیں کس کا ساتھ دوں؟ ماہر نفسیات خاموشی سے بغور اس کا جائزہ لیتا رہا اور پھر مخاطب ہوا! دیکھو یہ بڑا باریک معاملہ ہے، تمہارا ان سے ماں باپ کا رشتہ ہے، اور اُن کا آپس میں میاں بیوی کا رشتہ ہے۔ وہ تو سالوں سے ٹھیک نہیں ہوسکا تو پھر تم اپنے رشتے کے تقدس میں کسی ایک کا ساتھ دینے پر کیوں مجبور ہو؟ لہذا بہتر ہے کہ اب جوں ہی میاں بیوی آپس میں لڑیں تم ماں باپ کی حیثیت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے کمرے یا گھر سے باہر چلے جایا کرو۔ تمہیں سمجھانا آسان ہے لیکن اُن کو مشکل، اب جو بھائی متاثر ہوچکا ہے اُس کے لئے دعا کرتے رہو اور جس حد تک ممکن ہے پیار دو۔
ایک طالب علم نے اپنی تعلیم نا مکمل رہ جانے کی وجہ سے اپنے اپنے استاد کی سختی بتائی جو اُس کو حساب کا سوال ٹھیک نہ کرنے کی وجہ سے برداشت کرنا پڑتی تھی۔ آخر ایک دن آیا نہ وہ سوال حل کر سکا اور نہ سختی برداشت کرسکا، جس کے سبب اسکول بھی چھوڑدی اور اِسی خوف کے سائے میں جب بڑا ہوا تو ذہنی صلاحیت کے باوجود نفسیاتی مریض بن گیا۔
معاشرے میں مختلف صورتوں میں مختلف ناموں سے پکارا جانا بھی بچے کی ذہنی صلاحیت کو بچپن سے متاثر کرنا شروع کردیتا ہے اور اُس دوران گھر والوں کی طرف سے مستقبل بنانے کے مسلسل دباؤ کے سبب ایسی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے کہ بچہ ذہنی طور پر متاثر ہوجاتا ہے، اور اُس کے اعصاب پر ان عوامل کا گہرا اثر پڑتا ہے۔
یہ سب غور طلب پہلو ہیں، ان کو نظر انداز کرنا درست نہیں۔ ان حالات کے پیش نظر نومبر2007ء میں اقوام متحدہ نے آٹزم کے مرض کی آگہی کیلئے ایک دن مختص کرنے کا فیصلہ کیا، اور 18ِ دسمبر2007ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ہر سال 2 اپریل ورلڈ آٹزم ڈے کی آگہی کیلئے مقرر کردیا۔
مقاصد
- والدین، اساتذہ اور دوسرے افراد کو تعلیم و تربیت دی جائے کہ اِس بیماری کے شکار افراد کے لیے کس انداز میں ماحول سازگار بنایا جائے۔
- آٹزم کے مریض سے مستقبل میں پیش آنے کے طریقہ کار کو سمجھا جائے۔
- الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا معاون ترغیبات کا پرچار کرے تاکہ مریض مشکل سے نکل سکے۔
- ورکشاپ ونمائش وغیرہ کا انتظام کیا جائے جو مریض کی صلاحیت کو اُجاگر کرسکے اور دوسروں کو بھی اپنے رویئے بہتر بنانے کی تلقین کرے۔
لہذا اِس دِن کی نسبت سے پہلے ہمیں اپنے معاشرتی رویوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور اس کیلئے سب سے پہلے ہمیں اُن بہترین الفاظ کا چناؤ کرنا پڑے گا جو کسی کی شخصیت کو تقویت بخشیں اور اس کا اعتماد بڑھانے میں معاون ہوں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔