کراچی بلا امتیاز آپریشن ہی واحد حل
یہ کہاں کاانصاف ہے کہ قاتل دندناتے پھریں اور پر امن نہتے شہریوں کونشانہ بناتے رہیں۔
اب اس درد ناک حقیقت میں کوئی کلام نہیں کہ منی پاکستان کی بیچارگی قابل دید ہے ،اسے آفت و آسیب زدہ کہا جائے بھی تو کچھ غلط نہیں ، جس کے ڈیڑھ کروڑ عوام شاید قانون سے بالاتر جرائم پیشہ عناصر کے رحم وکرم پر ہیں ، وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے عندیہ دیا ہے کہ امن وامان کی بحالی اور دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے عوام کے اشتراک عمل سے نیا ٹارگٹ آپریشن شروع کیا جائے گا۔
صدر زرداری نے وزیر داخلہ کو کراچی پہنچنے کی ہدایت کی ، ہنگامی جلاس میں قیام امن کے لیے کارروائی کی منظوری دیے جانے کا ایک بار پھر عہد کیا گیا۔وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ ہر صورت شہریوں کے جان ومال کا تحفظ کیا جائے گا۔جب کہ عوام کا کہنا ہے کہ حکومت اجلاس کے ساتھ ساتھ ٹھوس عملی اقدامات سے شہریوں کو مطمئن کرے ۔تمام جرائم پیشہ عناصر کے خلاف یکبارگی بے رحمانہ آپریشن شروع کیا جائے جو نتیجہ خیز ہونے تک روکا نہ جائے۔کیونکہ آپریشن میں تاخیر ملک دشمنوں کا حوصلہ بڑھانے کا سبب بن سکتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلح سفاک گروہوں کی جو ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں پہلے شناخت کی جائے،ان کے چہرے عوام اور میڈیا کے سامنے لائے جائیں،ان کے چہروں پر تفتیشی ''ڈراما'' کی خاطر چادریں نہ ڈالی جائیں بلکہ اصل ملزموں کوگرفتار کیا جائے، اور جو گرفتار ہیںیا جن کے کیسز عدالتوں میںزیر سماعت ہیں ، اگر وہ مجرم قرار پائیں تو انھیں عبرت ناک سزائیں ملنی چاہئیں۔جب قاتلوں کو سزائیں ملیں گی تو امن کے قیام کی راہیں بھی کھلیں گی۔ مسئلہ سارا یہ ہے کہ ''جو قتل بھی کرے ہے وہ لے ثواب الٹا '' والا معاملہ چل رہا ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ شہر کو قتل گاہ میں بدلنے والے دہشت گرد چاہے وہ غیر ملکیوں کے ایجنٹ بن کر استعمال ہورہے ہوں یا ان کے ڈانڈے طالبان،القاعدہ،کالعدم تنظیموں ، سیاسی جماعتوں ، اسٹریٹ کرمنلزیا اسلحہ مافیاسے ملتے ہوں،ان کا صفایا ہونا چاہیے۔
یہ کہاں کاانصاف ہے کہ قاتل دندناتے پھریں اور پر امن نہتے شہریوں کونشانہ بناتے رہیں۔ کراچی اسلحہ اور بارود کے ڈھیر پر بیٹھا ہوا میگا سٹی ہے۔ جو ہم وطنوں کے حسین خوابوں کا مسکن ہے ۔یہ ملک کے لاکھوں جفاکش،مزدور پیشہ ، اور باصلاحیت لوگوں سے منسلک خاندانوں کے لیے معاش کا وسیلہ ہے۔سرمایہ کار یہاں آنے سے ڈرتے ہیں جب کہ ملک دشن یہی چاہتے ہیں کہ کراچی کو اقتصادی طور پر کمزور کیا جائے۔ارباب اختیاراسی نکتہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے سوچیں کہ قتل و غارت اس شہر کا کلچر نہ بننے پائے۔ پر تشدد سیاست گری کسی طور منی پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ ادھر مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف نے کہا ہے کہ کراچی میں موت کا کھیل کھیلنے والوں کو سختی سے کچلا جائے ۔یہ صدا ہر اس محب وطن پاکستانی کی ہے جو کراچی کی تباہی پر فکر مند ہے۔
چنانچہ یہ حقیقت جمہوری و سیاسی اسٹیک ہولڈرز کو فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ مفاہمانہ سیاسی پالیسیاں اسی صورت کامیاب ہوسکتی ہیں جب جمہوری قوتوں میں اشتراک عمل مستحکم ہو۔تبھی شہر یوں کے جان و مال کے تحفظ ، جمہوری نظام،ملکی معیشت اور عوام کی سلامتی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے ۔مگر افسوس ہے کہ تمام خوش فہمیوں اور ارباب اختیار کی طرف سے قیام امن کے بے فیض دعووں کے باوجود قتل وغارت کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا، پیر کو مزید 13 افراد موت کے گھاٹ اتارے گئے، یوں گرفتاری اور سزا سے بے خوف جرائم پیشہ عناصر اسلحہ سے لیس ہوکر فرقہ واریت،لسانی عصبیت،سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ، علاقائی اور حلقہ جاتی غلبے کی داخلی جنگ، ذاتی ،خاندانی دشمنی اور مسلکی انتقام کی آڑ میں وحشیانہ ٹارگٹ کلنگ سے شہریوں کو لقمہ اجل بنا رہے ہیں ۔
جو بھی کچھ کراچی میں ہورہا ہے وہ بلاشبہ سیاسی سطح پر حکمرانوں اور دیگرسیاسی اسٹیک ہولڈرز کے لیے لمحہ فکریہ سے کم نہیںجب کہ پیدا شدہ صورتحال کی سنگینی کا عالم یہ ہے کہ بجائے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سندھ کی اتحادی حکومت ایک ایجنڈے کے تحت آپریشن کلین اپ یا خس کم جہاں پاک کرنے کا عہد کرے خود حکومت کے اتحادی رہنما حکومت سے یہ عجیب مطالبہ کرتے ہیں کہ قاتلوں کو روکا جائے جس کا وہ خود حصہ ہیں۔لہٰذا تذبذب میں مبتلا عوام میں غالباً یہ تاثر ابھرتا ہے کہ حکومت شاید کسی اور کی ہے۔ جب کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف نمٹنے کا پولیس میں مورال بلند کیا جائے،رینجرز اور پولیس کے درمیان بدگمانی اور عدم تعاون کی قیاس آرائیوں کا موثر سدباب کیا جائے ۔پولیس کو جدید ترین سازوسامان سے لیس کیا جائے۔
قانون نافذ کرنے والوں کے بارے میں ایکسپریس کی حالیہ حیران کن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کراچی پولیس نے دہشت گردوں کے خلاف لڑنے سے انکار کردیا ہے جب کہ رواں سال میں 1800 افراد ان کی درندگی اور بربریت کی نذرہوچکے ہیں ، گزشتہ کئی روز سے محصورکراچی مقتل بنا ہوا ہے ، ارباب اختیار کہتے ہیں کہ حساس علاقوں میں گشت اور نفری بڑھا دی جائے گی مگر سوال یہ ہے کہ کراچی کا کون سا علاقہ غیر حساس ہے،لاشیں تو ہر جگہ سے مل رہی ہیں،کہیں بوریوں میں بند اور کہیںگولیوں سے چھلنی ،لہو لہولہان۔ دراصل ٹارگٹ کلرز کا نیٹ ورک اس تاک میں ہے کہ ملک کے سب سے بڑے تجارتی اور پاکستان کے معاشی انجن کو مفلوج اور ناکارہ بنانے کے لیے میدان جنگ بنادیا جائے، ادھر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کن کمیں گاہوں اور حساس علاقوں میں داخل ہوکر قاتلوں کو پکڑیں۔
تاہم جو لوگ منی پاکستان کو دانستہ آگ میں دھکیل رہے ہیں ، اور فرقہ واریت ، سیاسی مفادات یا مجرمانہ مقاصد کے لیے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں مصروف ہیں ان کی پہلے اسلحے کی سپلائی لائن کاٹی جائے۔پھر پولیس،رینجرز اور انٹیلی جنس کی درازوں سے مصدقہ ، مستند اور بستہ بند ٹارگٹ کلرز اور جرائم پیشہ افراد کی فہرستیں نکال کر ان کے خلاف بلا امتیازکریک ڈائون کیا جائے ۔پھر دیکھیے امن قائم ہوتا ہے کہ نہیں ۔
صدر زرداری نے وزیر داخلہ کو کراچی پہنچنے کی ہدایت کی ، ہنگامی جلاس میں قیام امن کے لیے کارروائی کی منظوری دیے جانے کا ایک بار پھر عہد کیا گیا۔وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ ہر صورت شہریوں کے جان ومال کا تحفظ کیا جائے گا۔جب کہ عوام کا کہنا ہے کہ حکومت اجلاس کے ساتھ ساتھ ٹھوس عملی اقدامات سے شہریوں کو مطمئن کرے ۔تمام جرائم پیشہ عناصر کے خلاف یکبارگی بے رحمانہ آپریشن شروع کیا جائے جو نتیجہ خیز ہونے تک روکا نہ جائے۔کیونکہ آپریشن میں تاخیر ملک دشمنوں کا حوصلہ بڑھانے کا سبب بن سکتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلح سفاک گروہوں کی جو ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں پہلے شناخت کی جائے،ان کے چہرے عوام اور میڈیا کے سامنے لائے جائیں،ان کے چہروں پر تفتیشی ''ڈراما'' کی خاطر چادریں نہ ڈالی جائیں بلکہ اصل ملزموں کوگرفتار کیا جائے، اور جو گرفتار ہیںیا جن کے کیسز عدالتوں میںزیر سماعت ہیں ، اگر وہ مجرم قرار پائیں تو انھیں عبرت ناک سزائیں ملنی چاہئیں۔جب قاتلوں کو سزائیں ملیں گی تو امن کے قیام کی راہیں بھی کھلیں گی۔ مسئلہ سارا یہ ہے کہ ''جو قتل بھی کرے ہے وہ لے ثواب الٹا '' والا معاملہ چل رہا ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ شہر کو قتل گاہ میں بدلنے والے دہشت گرد چاہے وہ غیر ملکیوں کے ایجنٹ بن کر استعمال ہورہے ہوں یا ان کے ڈانڈے طالبان،القاعدہ،کالعدم تنظیموں ، سیاسی جماعتوں ، اسٹریٹ کرمنلزیا اسلحہ مافیاسے ملتے ہوں،ان کا صفایا ہونا چاہیے۔
یہ کہاں کاانصاف ہے کہ قاتل دندناتے پھریں اور پر امن نہتے شہریوں کونشانہ بناتے رہیں۔ کراچی اسلحہ اور بارود کے ڈھیر پر بیٹھا ہوا میگا سٹی ہے۔ جو ہم وطنوں کے حسین خوابوں کا مسکن ہے ۔یہ ملک کے لاکھوں جفاکش،مزدور پیشہ ، اور باصلاحیت لوگوں سے منسلک خاندانوں کے لیے معاش کا وسیلہ ہے۔سرمایہ کار یہاں آنے سے ڈرتے ہیں جب کہ ملک دشن یہی چاہتے ہیں کہ کراچی کو اقتصادی طور پر کمزور کیا جائے۔ارباب اختیاراسی نکتہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے سوچیں کہ قتل و غارت اس شہر کا کلچر نہ بننے پائے۔ پر تشدد سیاست گری کسی طور منی پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ ادھر مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف نے کہا ہے کہ کراچی میں موت کا کھیل کھیلنے والوں کو سختی سے کچلا جائے ۔یہ صدا ہر اس محب وطن پاکستانی کی ہے جو کراچی کی تباہی پر فکر مند ہے۔
چنانچہ یہ حقیقت جمہوری و سیاسی اسٹیک ہولڈرز کو فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ مفاہمانہ سیاسی پالیسیاں اسی صورت کامیاب ہوسکتی ہیں جب جمہوری قوتوں میں اشتراک عمل مستحکم ہو۔تبھی شہر یوں کے جان و مال کے تحفظ ، جمہوری نظام،ملکی معیشت اور عوام کی سلامتی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے ۔مگر افسوس ہے کہ تمام خوش فہمیوں اور ارباب اختیار کی طرف سے قیام امن کے بے فیض دعووں کے باوجود قتل وغارت کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا، پیر کو مزید 13 افراد موت کے گھاٹ اتارے گئے، یوں گرفتاری اور سزا سے بے خوف جرائم پیشہ عناصر اسلحہ سے لیس ہوکر فرقہ واریت،لسانی عصبیت،سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ، علاقائی اور حلقہ جاتی غلبے کی داخلی جنگ، ذاتی ،خاندانی دشمنی اور مسلکی انتقام کی آڑ میں وحشیانہ ٹارگٹ کلنگ سے شہریوں کو لقمہ اجل بنا رہے ہیں ۔
جو بھی کچھ کراچی میں ہورہا ہے وہ بلاشبہ سیاسی سطح پر حکمرانوں اور دیگرسیاسی اسٹیک ہولڈرز کے لیے لمحہ فکریہ سے کم نہیںجب کہ پیدا شدہ صورتحال کی سنگینی کا عالم یہ ہے کہ بجائے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سندھ کی اتحادی حکومت ایک ایجنڈے کے تحت آپریشن کلین اپ یا خس کم جہاں پاک کرنے کا عہد کرے خود حکومت کے اتحادی رہنما حکومت سے یہ عجیب مطالبہ کرتے ہیں کہ قاتلوں کو روکا جائے جس کا وہ خود حصہ ہیں۔لہٰذا تذبذب میں مبتلا عوام میں غالباً یہ تاثر ابھرتا ہے کہ حکومت شاید کسی اور کی ہے۔ جب کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف نمٹنے کا پولیس میں مورال بلند کیا جائے،رینجرز اور پولیس کے درمیان بدگمانی اور عدم تعاون کی قیاس آرائیوں کا موثر سدباب کیا جائے ۔پولیس کو جدید ترین سازوسامان سے لیس کیا جائے۔
قانون نافذ کرنے والوں کے بارے میں ایکسپریس کی حالیہ حیران کن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کراچی پولیس نے دہشت گردوں کے خلاف لڑنے سے انکار کردیا ہے جب کہ رواں سال میں 1800 افراد ان کی درندگی اور بربریت کی نذرہوچکے ہیں ، گزشتہ کئی روز سے محصورکراچی مقتل بنا ہوا ہے ، ارباب اختیار کہتے ہیں کہ حساس علاقوں میں گشت اور نفری بڑھا دی جائے گی مگر سوال یہ ہے کہ کراچی کا کون سا علاقہ غیر حساس ہے،لاشیں تو ہر جگہ سے مل رہی ہیں،کہیں بوریوں میں بند اور کہیںگولیوں سے چھلنی ،لہو لہولہان۔ دراصل ٹارگٹ کلرز کا نیٹ ورک اس تاک میں ہے کہ ملک کے سب سے بڑے تجارتی اور پاکستان کے معاشی انجن کو مفلوج اور ناکارہ بنانے کے لیے میدان جنگ بنادیا جائے، ادھر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کن کمیں گاہوں اور حساس علاقوں میں داخل ہوکر قاتلوں کو پکڑیں۔
تاہم جو لوگ منی پاکستان کو دانستہ آگ میں دھکیل رہے ہیں ، اور فرقہ واریت ، سیاسی مفادات یا مجرمانہ مقاصد کے لیے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں مصروف ہیں ان کی پہلے اسلحے کی سپلائی لائن کاٹی جائے۔پھر پولیس،رینجرز اور انٹیلی جنس کی درازوں سے مصدقہ ، مستند اور بستہ بند ٹارگٹ کلرز اور جرائم پیشہ افراد کی فہرستیں نکال کر ان کے خلاف بلا امتیازکریک ڈائون کیا جائے ۔پھر دیکھیے امن قائم ہوتا ہے کہ نہیں ۔