افغان فوج کی بلااشتعال فائرنگ
پاکستان اور افغانستان کی سرحد شاید دنیا کی ان سرحدوں میں شامل ہے جہاں چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے برابر ہے ۔
افغانستان کی نیشنل آرمی نے اتوار کی شام پاکستانی حدود میں بلا اشتعال گولہ باری کی ۔اس گولہ باری سے 2 بچوں سمیت 4 پاکستانی جاں بحق ہو گئے ہیں۔
عسکری ذرائع کے حوالے سے اخبارات میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی حدود میں بلا اشتعال مارٹر گولے برسائے گئے ۔اطلاعات کے مطابق چوکی 'کے کے ٹاپ' سے پاکستانی علاقے نذر رینگ میں بلا اشتعال گولے برسائے گئے۔ پاکستان نے جوابی کارروائی کی جس سے افغانستان کی جانب سے گولہ باری رک گئی۔ جاں بحق ہونے والے شہری لکڑیاں جمع کر کے واپس جا رہے تھے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جاں بحق ہونے والے عام قبائلی ہیں۔ پاکستان نے افغان حکومت سے بلا اشتعال فائرنگ اور اس کے نتیجے میں ہونے والی شہری ہلاکتوں پر شدید احتجاج کرتے ہوئے واقعے کی فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
افغان فورسزکی جانب سے سرحدی خلاف ورزی کا یہ واحد واقعہ نہیں ہے، ماضی میں بھی ایسا کئی بار ہوچکا ہے اور پاکستان افغانستان کی حکومت سے احتجاج بھی کرچکا ہے ، اس کے باوجود افغان فوج کی جانب سے سرحدی خلاف ورزی ہوتی رہتی ہے جو دنیا کے کسی بھی قانون کے مطابق جائز نہیں ہے۔سرحدی خلاف ورزی کا تازہ واقعہ ایک ایسے موقعے پر پیش آیا ہے جب افغان امن جرگے کے سربراہ صلاح الدین ربانی آج (پیر) اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔وہ صدر پاکستان آصف علی زرداری، وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور وزیر خارجہ حنا ربانی کھرکے علاوہ عسکری قیادت سے بھی ملاقات کریں گے۔ موجودہ حالات میں صلاح الدین ربانی کا دورہ خاصی اہمیت کا حامل ہے اور اس کے اچھے اثرات برآمد ہوسکتے ہیں۔
افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے ہیں۔ افغانستان ہی وہ پہلا ملک ہے جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ افغانستان اور پاکستان ثقافتی' نسلی ولسانی رشتے میں بندے ہوئے ہیں، دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات بھی ہیں لیکن قوموں کی برادری میں رہنے کے کچھ اصول ہوتے ہیں اور ان کی پابندی سب پر فرض ہوتی ہے۔ افغانستان اور پاکستان کو ان اصولوں کی پاسداری کرنا پڑے گی۔سب سے پہلا ایشو ڈیورنڈ لائن کا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس دیرینہ مسئلے کو حتمی طور پر طے کر لیا جائے۔
اس معاملے میں افغانستان کی قیادت اکثر اوقات ابہام پیدا کرتی رہتی ہے، یہ ابہام ختم ہوجانا چاہیے کیونکہ امریکا اور دیگر ممالک جب ڈیورنڈ لائن کو سرحد تسلیم کرتے ہیں تو اس معاملے میں افغان قیادت کو ابہام پیدا نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحد شاید دنیا کی ان سرحدوں میں شامل ہے جہاں چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ مشاہدے کی بات ہے کہ جن ملکوں کی سرحد ڈھیلی ڈھالی ہو اوراس کے بارے میں ابہام بھی ہو' وہاں سرحدی خلاف ورزیاں معمول ہوتی ہیں۔ ریاست جموں وکشمیر میں کنٹرول لائن کو ہی دیکھ لیں ہے۔ یہاں بھارتی فوج اکثر کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کرتی رہتی ہے، اس کے برعکس عالمی سطح پر تسلیم شدہ باؤنڈری لائن کی خلاف ورزی شاذ ونادر ہی ہوتی ہے۔
پاکستان اور افغانستان کی سرحد طویل بھی ہے اور پیچیدہ بھی ہے۔ برسوں سے آمد ورفت بلا روک ٹوک جاری ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ افغانستان میں امریکا اور نیٹو کی فوجیں موجود ہیں جو طالبان کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ امریکا اور نیٹو نے اپنی نگرانی میں افغان نیشنل آرمی تشکیل دی ہے اور وہی اس کی ٹریننگ کر رہے ہیں۔ افغان آرمی اور بیورو کریسی پر تاجکوں اور ازبکوں کا کنٹرول ہے۔ افغانستان کے یہ دونوں طاقت ور گروہ روایتی طور پر پاکستان مخالف سمجھے جاتے ہیں۔ انھیں ہی شمالی اتحاد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
ادھر افغانستان اور بھارت بھی ایک دوسرے کے قریب ہیں۔کالعدم تحریک طالبان کی لیڈرشپ کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ افغانستان میں روپوش ہے۔ سوات میں قتل وغارت کرنے والے گروہ کا سرغنہ فضل اللہ بھی افغانستان کے صوبے نورستان میں چھپا ہوا ہے۔ایسی صورت میں پاکستان کے لیے مشکلات کا پیدا ہونا یقینی ہے۔ ان حالات میں یہ ضروری ہو گیا ہے کہ پاک افغان سرحد کو سخت بنایا جائے۔اس کے ساتھ ساتھ سرحدی خلاف ورزی پر افغانستان کی حکومت سے سخت احتجاج کیا جائے تاکہ مستقبل میں اس قسم کا کوئی اور واقعہ رونما نہ ہوسکے۔
عسکری ذرائع کے حوالے سے اخبارات میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی حدود میں بلا اشتعال مارٹر گولے برسائے گئے ۔اطلاعات کے مطابق چوکی 'کے کے ٹاپ' سے پاکستانی علاقے نذر رینگ میں بلا اشتعال گولے برسائے گئے۔ پاکستان نے جوابی کارروائی کی جس سے افغانستان کی جانب سے گولہ باری رک گئی۔ جاں بحق ہونے والے شہری لکڑیاں جمع کر کے واپس جا رہے تھے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جاں بحق ہونے والے عام قبائلی ہیں۔ پاکستان نے افغان حکومت سے بلا اشتعال فائرنگ اور اس کے نتیجے میں ہونے والی شہری ہلاکتوں پر شدید احتجاج کرتے ہوئے واقعے کی فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
افغان فورسزکی جانب سے سرحدی خلاف ورزی کا یہ واحد واقعہ نہیں ہے، ماضی میں بھی ایسا کئی بار ہوچکا ہے اور پاکستان افغانستان کی حکومت سے احتجاج بھی کرچکا ہے ، اس کے باوجود افغان فوج کی جانب سے سرحدی خلاف ورزی ہوتی رہتی ہے جو دنیا کے کسی بھی قانون کے مطابق جائز نہیں ہے۔سرحدی خلاف ورزی کا تازہ واقعہ ایک ایسے موقعے پر پیش آیا ہے جب افغان امن جرگے کے سربراہ صلاح الدین ربانی آج (پیر) اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔وہ صدر پاکستان آصف علی زرداری، وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور وزیر خارجہ حنا ربانی کھرکے علاوہ عسکری قیادت سے بھی ملاقات کریں گے۔ موجودہ حالات میں صلاح الدین ربانی کا دورہ خاصی اہمیت کا حامل ہے اور اس کے اچھے اثرات برآمد ہوسکتے ہیں۔
افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے ہیں۔ افغانستان ہی وہ پہلا ملک ہے جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ افغانستان اور پاکستان ثقافتی' نسلی ولسانی رشتے میں بندے ہوئے ہیں، دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات بھی ہیں لیکن قوموں کی برادری میں رہنے کے کچھ اصول ہوتے ہیں اور ان کی پابندی سب پر فرض ہوتی ہے۔ افغانستان اور پاکستان کو ان اصولوں کی پاسداری کرنا پڑے گی۔سب سے پہلا ایشو ڈیورنڈ لائن کا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس دیرینہ مسئلے کو حتمی طور پر طے کر لیا جائے۔
اس معاملے میں افغانستان کی قیادت اکثر اوقات ابہام پیدا کرتی رہتی ہے، یہ ابہام ختم ہوجانا چاہیے کیونکہ امریکا اور دیگر ممالک جب ڈیورنڈ لائن کو سرحد تسلیم کرتے ہیں تو اس معاملے میں افغان قیادت کو ابہام پیدا نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحد شاید دنیا کی ان سرحدوں میں شامل ہے جہاں چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ مشاہدے کی بات ہے کہ جن ملکوں کی سرحد ڈھیلی ڈھالی ہو اوراس کے بارے میں ابہام بھی ہو' وہاں سرحدی خلاف ورزیاں معمول ہوتی ہیں۔ ریاست جموں وکشمیر میں کنٹرول لائن کو ہی دیکھ لیں ہے۔ یہاں بھارتی فوج اکثر کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کرتی رہتی ہے، اس کے برعکس عالمی سطح پر تسلیم شدہ باؤنڈری لائن کی خلاف ورزی شاذ ونادر ہی ہوتی ہے۔
پاکستان اور افغانستان کی سرحد طویل بھی ہے اور پیچیدہ بھی ہے۔ برسوں سے آمد ورفت بلا روک ٹوک جاری ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ افغانستان میں امریکا اور نیٹو کی فوجیں موجود ہیں جو طالبان کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ امریکا اور نیٹو نے اپنی نگرانی میں افغان نیشنل آرمی تشکیل دی ہے اور وہی اس کی ٹریننگ کر رہے ہیں۔ افغان آرمی اور بیورو کریسی پر تاجکوں اور ازبکوں کا کنٹرول ہے۔ افغانستان کے یہ دونوں طاقت ور گروہ روایتی طور پر پاکستان مخالف سمجھے جاتے ہیں۔ انھیں ہی شمالی اتحاد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
ادھر افغانستان اور بھارت بھی ایک دوسرے کے قریب ہیں۔کالعدم تحریک طالبان کی لیڈرشپ کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ افغانستان میں روپوش ہے۔ سوات میں قتل وغارت کرنے والے گروہ کا سرغنہ فضل اللہ بھی افغانستان کے صوبے نورستان میں چھپا ہوا ہے۔ایسی صورت میں پاکستان کے لیے مشکلات کا پیدا ہونا یقینی ہے۔ ان حالات میں یہ ضروری ہو گیا ہے کہ پاک افغان سرحد کو سخت بنایا جائے۔اس کے ساتھ ساتھ سرحدی خلاف ورزی پر افغانستان کی حکومت سے سخت احتجاج کیا جائے تاکہ مستقبل میں اس قسم کا کوئی اور واقعہ رونما نہ ہوسکے۔