بارے ڈینگی کا بیان ہو جائے
ایمرجنسی وارڈ پر تالے پڑے ہوئے تھے، ڈاکٹر ڈنڈے کھا رہے تھے،مگر پنجاب حکومت ڈینگی کے خلاف نبرد آزما رہی ۔
مجھے آج اچھی اچھی باتیں کرنی ہیں۔
میاں شہباز شریف میرے تب سے شناسا ہیں بلکہ دوست ہیں جب شاید ہی کوئی صحافی ان سے ملا ہو، بعد میںوہ لاہور مسلم لیگ کے صدر بنے تو اپنی پوری ایگزیکٹو کونسل کے ساتھ میرے ایک اخباری فورم میں تشریف لائے۔ان کے بڑے بھائی میاں نواز شریف کے ساتھ جنرل ضیا الحق کے ریفرنڈم اور پچاسی کے الیکشن کو بھگتایا۔ پھر وہ اقتدار میں چلے گئے اور میں اپنی صحافت میں مگن ہو گیا۔مگر ایک دو مواقعے پر میاں صاحب نے مجھے یاد کیا اور میرے ایڈیٹر کی اجازت سے میاں شہباز شریف مجھے ان کی بارگاہ میں لے گئے۔
میں پہلو بچا کر واپس آگیا۔میاں صاحب کے دور میں کارگل کی جنگ چھڑی تو میں نے انٹرنیٹ پر اس وقت اس کی کوریج کی جب پاک و ہند میں میڈیا کو ابھی اس جنگ کا علم بھی نہیں تھا۔ میں نے جوش جہاد میں بہت سارے کالم بھی لکھے۔مجھے نہیں پتہ تھا کہ اندر کھاتے حکومت اور فوج میں اس مسئلے پر تنائو ہے، میاں صاحبان اور ان کے ساتھیوں نے مجھ سے کٹی کر لی کہ میں فوج کا بندہ ہوں۔
جلاوطنی کے ایام میں میرا ان سے کوئی رابطہ نہ ہو سکا۔نئے انتخابات کے بعد میاں شہباز شریف پنجاب کے چیف منسٹر بنے تو میں نے شعیب بن عزیز سے درخواست کی کہ رسمی طور پر ان سے ملنا چاہتا ہوں، اس ملاقات کا انتظام ہو گیا، چند منٹ کی اس علیک سلیک کے دوران چوہدری نثار بھی اندر آ دھمکے تو میاں صاحب نے ان سے میرا تعارف کرایا، چوہدری صاحب نے میرے بارے میں کچھ توصیفی کلمات ادا کیے مگر شہباز شریف صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ مشرف کے مارشل لا میں انھوں نے ہمیں بہت لتاڑا اور یہ ایک حقیقت ہے۔میں اپنے نظریا ت سے انکار نہیں کرتا لیکن نظریا ت کی وجہ سے دوستی کو دشمنی میں بھی نہیں بدل سکتا ، میاں شہباز شریف کے مصاحبین نے بعد میں ایک دو بریفنگ میں شرکت کی دعوت دی۔
جس میں ایک ڈینگی کے بارے میں تھی، ان دنوںمیرا پورا خاندان ڈینگی سے متاثر تھا ، میاں صاحب کو ان کے محکمے چکنی چپڑی کہانیاں سنانے کی کوشش کر رہے تھے اور میں درمیان میں ٹوکتا رہا، اس پر میرے سامنے ایک چٹ آگئی کہ میں جو کہنا چاہتا ہوں ، بعد میں الگ کمرے میں بات کر لوں،ظاہر ہے اس کے بعد مجھے خاموش رہنا تھا، البتہ الگ ملاقات میں ساری باتیں ضرور ہوئیں۔میرا خیال ہے کہ میرے کسی مشورے کو درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا، ادھر ڈینگی کی وبا بھی ایسی پھیلی کہ لوگ توبہ توبہ کر اٹھے۔میں اپنے بیماروں کو کبھی جنرل اسپتال لے جاتا، کبھی جناح کا رخ کرتا، ہر جگہ خلق خدا کا ہجوم تھا، نیشنل اور ڈاکٹر اسپتالوں میں بھی گیا مگر ایک انبوہ آدم وہاں بھی موجود تھا۔ میں نے اللہ اللہ کر کے وقت گزارا، ڈینگی اپنا وقت پورا کر کے پیچھے پلٹتا ہے مگر دیرپا اورمنفی اثرات چھوڑ جاتا ہے، سر درد، سر کے چکر، پیٹ درد، پٹھوں کی شدید کمزوری، میرا ایک جوان بیٹا بینائی سے محروم ہوتا جارہا ہے۔
ہمارے بزرگ الطاف حسن قریشی تو موت کے منہ سے واپس آئے، حکومت کے اعداداو شمار میں تو صرف ہزاروں افراد متاثر ہوئے مگر اسپتالوں کو دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ لاہور میں شاید کوئی محفوظ ہی نہیں رہا، مرنے والے سیکڑوں کی تعداد میں تھے ، اگر کوئی بچ بھی رہا تھا تو ڈینگی کا آسیب بری طرح اس کے سر پر سوار تھا۔ ڈاکٹر کہہ رہے تھے کہ اگلے سال یہ وبا پورے جوبن پر ہو گی، کشتوں کے پشتے لگ جائیں گے، نیا سال آیا تواگلے پچھلے گناہوں کی ہر ایک نے معافی مانگی اور ڈینگی کا انتظار شروع ہوا، سری لنکاکے ماہرین ڈرا گئے تھے کہ وہ برس ہا برس سے اس عفریت کا سامنا کر رہے ہیں ، اس اعتبار سے لوگوں کے خدشات میں اضافہ ہوتا چلا گیا، ادھر حکومت کے لیے بھی یہ سال کسی امتحان سے کم نہیں تھا،کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ میں غلط دوا کے رد عمل میں بہت زیادہ اموات واقع ہو گئی تھیں، یہ ایک لحاظ سے بد شگونی تھی، اوپر سے ڈاکٹروں اور حکومت کی آپس میں بن نہیں رہی تھی۔
ایمرجنسی وارڈ پر تالے پڑے ہوئے تھے، ڈاکٹر ڈنڈے کھا رہے تھے،مگر آفرین ہے حکومت کی کہ وہ ڈینگی کے خلاف نبرد آزما رہی، مچھروں بلکہ لاروے کا تعاقب کیا گیا، گملوں میں ، ٹائروں میں، کاٹھ کباڑ میں،جوہڑوں میں، پارکوں میں، گھاس پھونس میں، قبروں کے تعویذوں میں،سوئمنگ پولز میں،معاشرے میںاس وبا کے خلاف آگہی مہم شروع کی گئی ، ہر شہری کو اپنی حفاظت آپ کے اصول پر کاربند کیا گیا۔
جس کسی کو دیکھو، وہ کوائل خرید رہا ہے، مچھر مار سپرے ڈھونڈ رہا ہے، گھر کے کونے کھدرے صاف کر رہا ہے، یہ ایک زندہ قوم کی علامتیں تھیں مگر کامیابی صرف اس لیے ہوئی کہ اسے ایک سنجیدہ اور مخلص قیادت بھی میسر تھی، مکمل ٹیم ورک کے ساتھ کام ہو رہا تھا ۔بیرونی تجربات سے بہرہ مند ہونے کے لیے سری لنکا، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ ، انڈونیشیا وغیرہ کے ماہرین کو بھی یہاں آنے کی دعوت دی گئی، کسی نے ان کی تنقیدکا برا نہیں منایا اور ان کے مشوروں کو سر آنکھوں پر رکھا، چیف منسٹر کی شبانہ روز کوششوں کا مثبت نتیجہ نکلا ، جو کام سرے سے نا ممکن نظر آتا تھا ، وہ ممکن کر دکھایا گیا۔
اس سال بھی ڈینگی نے حملہ کیا مگر گنے چنے لوگوں پر اور مجھے افسوس یہ ہے کہ ہمارے بزرگ اور دوست عبدا لقادر حسن کا جواں سال بیٹا اس کی زد میں آیا مگر وہ باہمت نکلا اور حج پر چلا گیا، وہاں جا کر انسان خدا کاہو کر رہ جاتا ہے، اپنے سارے دکھ درد بھول جاتا ہے۔میں اس سال بھی اپنی دیرینہ علالت کی وجہ سے مختلف اسپتالوں میں جاتا رہا ہوں مگر میں نے کسی بستر پر مچھردانی میں کوئی مریض نہیں دیکھا۔ایمرجنسی میں ضرور کوئی آیاہو گا اور مناسب ادویہ لے کر رخصت کر دیا گیا ہوگا۔
لیبارٹریوں میں خون ٹیسٹ کروانے کا بھی کوئی رش نہیں دیکھا، موسم گرما اللہ کے فضل سے خیریت سے گزرچکا۔اور اللہ کرے کہ آیندہ بھی یہ وبا ادھر کا رخ نہ کرے۔ میاں شہباز شریف نے جس تندہی اور احساس ذمے داری کے ساتھ اس موذی وبا کی روک تھام کی کوشش کی ہے ، اس کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ وہ محض خادم اعلی نہیں، عوام کے مائی باپ ہیں ، لوگوں کے لیے ان کے دل میں جو تڑپ ہے، وہ ماں باپ کے سوا کسی اور میں نہیں ہو سکتی۔شہباز شریف نے حقیقی معنوں میں عوام کی خدمت کا فریضہ نبھایا ہے۔یہ ایک ایساکارنامہ ہے جس پر ان کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں ، محض تعریفی اور توصیفی کلمات ان کے اس شاندار کارنامے پر صحیح خراج تحسین نہیں ہو سکتے۔
ہم صحافی پیشہ لوگ ہمیشہ حکومت اور سیاستدانوں کی برائیاں ڈھونڈنے میں لگے رہتے ہیں، شاید یہ صحافت کی ضرورت ہے کہ اسے مصالحے دار خبریں ملتی رہیں۔ ان دنوں بھی جتنے پروگرام اصغر خان کیس پر ہو رہے ہیں ،اتنے نیں تو ان سے آدھے پروگرام تو شہباز صاحب کے اس کارنامے پر مختص ہونے چاہئیں تھے۔معاشرے میں اچھائی ڈھونڈے سے نہیں ملتی اور اگر کہیں ہے تو اس کا ذکر گوارا نہیں کیا جاتا، کوئی اسے چمچ گیری یا قصیدہ خوانی سمجھتا ہے مگر ہم میں سے ہر ایک کا فرض بنتا ہے کہ اچھائی کو تلاش کریں اور روشنی کے میناروں سے لوگوں کو روشناس کرائیں۔نیکی کرنے والے کے ذکر پر پتہ نہیں کتنے اور لوگ نیکی کی طرف راغب ہو جائیں گے اور ایک محبت کا زمزم بہہ نکلے گا۔خدا کرے میاں شہباز شریف اسی طرح عوام کی خدمت میں مگن رہیں اور ہماری دعائیں لیتے رہیں۔
میاں شہباز شریف میرے تب سے شناسا ہیں بلکہ دوست ہیں جب شاید ہی کوئی صحافی ان سے ملا ہو، بعد میںوہ لاہور مسلم لیگ کے صدر بنے تو اپنی پوری ایگزیکٹو کونسل کے ساتھ میرے ایک اخباری فورم میں تشریف لائے۔ان کے بڑے بھائی میاں نواز شریف کے ساتھ جنرل ضیا الحق کے ریفرنڈم اور پچاسی کے الیکشن کو بھگتایا۔ پھر وہ اقتدار میں چلے گئے اور میں اپنی صحافت میں مگن ہو گیا۔مگر ایک دو مواقعے پر میاں صاحب نے مجھے یاد کیا اور میرے ایڈیٹر کی اجازت سے میاں شہباز شریف مجھے ان کی بارگاہ میں لے گئے۔
میں پہلو بچا کر واپس آگیا۔میاں صاحب کے دور میں کارگل کی جنگ چھڑی تو میں نے انٹرنیٹ پر اس وقت اس کی کوریج کی جب پاک و ہند میں میڈیا کو ابھی اس جنگ کا علم بھی نہیں تھا۔ میں نے جوش جہاد میں بہت سارے کالم بھی لکھے۔مجھے نہیں پتہ تھا کہ اندر کھاتے حکومت اور فوج میں اس مسئلے پر تنائو ہے، میاں صاحبان اور ان کے ساتھیوں نے مجھ سے کٹی کر لی کہ میں فوج کا بندہ ہوں۔
جلاوطنی کے ایام میں میرا ان سے کوئی رابطہ نہ ہو سکا۔نئے انتخابات کے بعد میاں شہباز شریف پنجاب کے چیف منسٹر بنے تو میں نے شعیب بن عزیز سے درخواست کی کہ رسمی طور پر ان سے ملنا چاہتا ہوں، اس ملاقات کا انتظام ہو گیا، چند منٹ کی اس علیک سلیک کے دوران چوہدری نثار بھی اندر آ دھمکے تو میاں صاحب نے ان سے میرا تعارف کرایا، چوہدری صاحب نے میرے بارے میں کچھ توصیفی کلمات ادا کیے مگر شہباز شریف صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ مشرف کے مارشل لا میں انھوں نے ہمیں بہت لتاڑا اور یہ ایک حقیقت ہے۔میں اپنے نظریا ت سے انکار نہیں کرتا لیکن نظریا ت کی وجہ سے دوستی کو دشمنی میں بھی نہیں بدل سکتا ، میاں شہباز شریف کے مصاحبین نے بعد میں ایک دو بریفنگ میں شرکت کی دعوت دی۔
جس میں ایک ڈینگی کے بارے میں تھی، ان دنوںمیرا پورا خاندان ڈینگی سے متاثر تھا ، میاں صاحب کو ان کے محکمے چکنی چپڑی کہانیاں سنانے کی کوشش کر رہے تھے اور میں درمیان میں ٹوکتا رہا، اس پر میرے سامنے ایک چٹ آگئی کہ میں جو کہنا چاہتا ہوں ، بعد میں الگ کمرے میں بات کر لوں،ظاہر ہے اس کے بعد مجھے خاموش رہنا تھا، البتہ الگ ملاقات میں ساری باتیں ضرور ہوئیں۔میرا خیال ہے کہ میرے کسی مشورے کو درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا، ادھر ڈینگی کی وبا بھی ایسی پھیلی کہ لوگ توبہ توبہ کر اٹھے۔میں اپنے بیماروں کو کبھی جنرل اسپتال لے جاتا، کبھی جناح کا رخ کرتا، ہر جگہ خلق خدا کا ہجوم تھا، نیشنل اور ڈاکٹر اسپتالوں میں بھی گیا مگر ایک انبوہ آدم وہاں بھی موجود تھا۔ میں نے اللہ اللہ کر کے وقت گزارا، ڈینگی اپنا وقت پورا کر کے پیچھے پلٹتا ہے مگر دیرپا اورمنفی اثرات چھوڑ جاتا ہے، سر درد، سر کے چکر، پیٹ درد، پٹھوں کی شدید کمزوری، میرا ایک جوان بیٹا بینائی سے محروم ہوتا جارہا ہے۔
ہمارے بزرگ الطاف حسن قریشی تو موت کے منہ سے واپس آئے، حکومت کے اعداداو شمار میں تو صرف ہزاروں افراد متاثر ہوئے مگر اسپتالوں کو دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ لاہور میں شاید کوئی محفوظ ہی نہیں رہا، مرنے والے سیکڑوں کی تعداد میں تھے ، اگر کوئی بچ بھی رہا تھا تو ڈینگی کا آسیب بری طرح اس کے سر پر سوار تھا۔ ڈاکٹر کہہ رہے تھے کہ اگلے سال یہ وبا پورے جوبن پر ہو گی، کشتوں کے پشتے لگ جائیں گے، نیا سال آیا تواگلے پچھلے گناہوں کی ہر ایک نے معافی مانگی اور ڈینگی کا انتظار شروع ہوا، سری لنکاکے ماہرین ڈرا گئے تھے کہ وہ برس ہا برس سے اس عفریت کا سامنا کر رہے ہیں ، اس اعتبار سے لوگوں کے خدشات میں اضافہ ہوتا چلا گیا، ادھر حکومت کے لیے بھی یہ سال کسی امتحان سے کم نہیں تھا،کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ میں غلط دوا کے رد عمل میں بہت زیادہ اموات واقع ہو گئی تھیں، یہ ایک لحاظ سے بد شگونی تھی، اوپر سے ڈاکٹروں اور حکومت کی آپس میں بن نہیں رہی تھی۔
ایمرجنسی وارڈ پر تالے پڑے ہوئے تھے، ڈاکٹر ڈنڈے کھا رہے تھے،مگر آفرین ہے حکومت کی کہ وہ ڈینگی کے خلاف نبرد آزما رہی، مچھروں بلکہ لاروے کا تعاقب کیا گیا، گملوں میں ، ٹائروں میں، کاٹھ کباڑ میں،جوہڑوں میں، پارکوں میں، گھاس پھونس میں، قبروں کے تعویذوں میں،سوئمنگ پولز میں،معاشرے میںاس وبا کے خلاف آگہی مہم شروع کی گئی ، ہر شہری کو اپنی حفاظت آپ کے اصول پر کاربند کیا گیا۔
جس کسی کو دیکھو، وہ کوائل خرید رہا ہے، مچھر مار سپرے ڈھونڈ رہا ہے، گھر کے کونے کھدرے صاف کر رہا ہے، یہ ایک زندہ قوم کی علامتیں تھیں مگر کامیابی صرف اس لیے ہوئی کہ اسے ایک سنجیدہ اور مخلص قیادت بھی میسر تھی، مکمل ٹیم ورک کے ساتھ کام ہو رہا تھا ۔بیرونی تجربات سے بہرہ مند ہونے کے لیے سری لنکا، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ ، انڈونیشیا وغیرہ کے ماہرین کو بھی یہاں آنے کی دعوت دی گئی، کسی نے ان کی تنقیدکا برا نہیں منایا اور ان کے مشوروں کو سر آنکھوں پر رکھا، چیف منسٹر کی شبانہ روز کوششوں کا مثبت نتیجہ نکلا ، جو کام سرے سے نا ممکن نظر آتا تھا ، وہ ممکن کر دکھایا گیا۔
اس سال بھی ڈینگی نے حملہ کیا مگر گنے چنے لوگوں پر اور مجھے افسوس یہ ہے کہ ہمارے بزرگ اور دوست عبدا لقادر حسن کا جواں سال بیٹا اس کی زد میں آیا مگر وہ باہمت نکلا اور حج پر چلا گیا، وہاں جا کر انسان خدا کاہو کر رہ جاتا ہے، اپنے سارے دکھ درد بھول جاتا ہے۔میں اس سال بھی اپنی دیرینہ علالت کی وجہ سے مختلف اسپتالوں میں جاتا رہا ہوں مگر میں نے کسی بستر پر مچھردانی میں کوئی مریض نہیں دیکھا۔ایمرجنسی میں ضرور کوئی آیاہو گا اور مناسب ادویہ لے کر رخصت کر دیا گیا ہوگا۔
لیبارٹریوں میں خون ٹیسٹ کروانے کا بھی کوئی رش نہیں دیکھا، موسم گرما اللہ کے فضل سے خیریت سے گزرچکا۔اور اللہ کرے کہ آیندہ بھی یہ وبا ادھر کا رخ نہ کرے۔ میاں شہباز شریف نے جس تندہی اور احساس ذمے داری کے ساتھ اس موذی وبا کی روک تھام کی کوشش کی ہے ، اس کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ وہ محض خادم اعلی نہیں، عوام کے مائی باپ ہیں ، لوگوں کے لیے ان کے دل میں جو تڑپ ہے، وہ ماں باپ کے سوا کسی اور میں نہیں ہو سکتی۔شہباز شریف نے حقیقی معنوں میں عوام کی خدمت کا فریضہ نبھایا ہے۔یہ ایک ایساکارنامہ ہے جس پر ان کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں ، محض تعریفی اور توصیفی کلمات ان کے اس شاندار کارنامے پر صحیح خراج تحسین نہیں ہو سکتے۔
ہم صحافی پیشہ لوگ ہمیشہ حکومت اور سیاستدانوں کی برائیاں ڈھونڈنے میں لگے رہتے ہیں، شاید یہ صحافت کی ضرورت ہے کہ اسے مصالحے دار خبریں ملتی رہیں۔ ان دنوں بھی جتنے پروگرام اصغر خان کیس پر ہو رہے ہیں ،اتنے نیں تو ان سے آدھے پروگرام تو شہباز صاحب کے اس کارنامے پر مختص ہونے چاہئیں تھے۔معاشرے میں اچھائی ڈھونڈے سے نہیں ملتی اور اگر کہیں ہے تو اس کا ذکر گوارا نہیں کیا جاتا، کوئی اسے چمچ گیری یا قصیدہ خوانی سمجھتا ہے مگر ہم میں سے ہر ایک کا فرض بنتا ہے کہ اچھائی کو تلاش کریں اور روشنی کے میناروں سے لوگوں کو روشناس کرائیں۔نیکی کرنے والے کے ذکر پر پتہ نہیں کتنے اور لوگ نیکی کی طرف راغب ہو جائیں گے اور ایک محبت کا زمزم بہہ نکلے گا۔خدا کرے میاں شہباز شریف اسی طرح عوام کی خدمت میں مگن رہیں اور ہماری دعائیں لیتے رہیں۔