اب تیرا کیا ہوگا کالیا…جبار جعفر
اسرائیل اور امریکا کی سہولت کی شادی کا 64سالہ طویل ہنی مون تمت بالخیر ہونے کو ہے۔
ڈپلومیٹک زبان میں لکھا ہوا پورا پیراگراف پڑھ ڈالیے، پلّے کچھ نہیں پڑے گا۔ کیوں کہ ہر سوال کے دو جوابات ہوںگے اور ہر جواب کے دو معنی۔ یعنی ہاں، نہیں، پتہ نہیں۔
امریکا کے مشہور زمانہ ڈپلومیٹ، دانشور، ہنری کسنجرکے اسرائیل سے متعلق خیالات ایک دھماکا خیز خبرکی صورت میں آج کل زیرگردش ہیں۔ فرماتے ہیں ''اگر امریکا، اسرائیل کو اربوں ڈالر کی امداد اور اپنی فوج کے ذریعے اسرائیل کے دشمنوں کا خاتمہ جاری رکھتاہے تو اسرائیل ''محفوظ'' رہ سکتا ہے ورنہ 2022 تک اسرائیل کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ امریکا میں یہ تاثر عام ہے کہ امریکا اسرائیل کو ''محفوظ'' بنانے کے لیے اسرائیل کے دشمنوں سے جنگ کرکے اپنے مفادات کو نقصان پہنچا رہا ہے اور اسرائیل اور اس کے حامیوں نے 9/11کا حملہ کروایا۔ (ایکسپریس نیوز 13اکتوبر)
ڈپلومیٹک اظہار رائے میں مطلب ایک ہونے کے باوجود مفہوم جدا جدا کیسے ہوسکتے ہیں ملاحظہ کیجیے۔(1) اسرائیل کو ڈپلومیٹک پیغام ہوسکتا ہے کہ اب امریکا کو جنگ کرنے کے لیے اپنے دشمنوں کے Latest Edition سپلائی کرنا بندکرو۔ غریب پہلے ہی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ امریکی رائے عامہ تمھارے خلاف ہے اگر وہ ڈوبا تو تمھارے پڑوسی عرب ممالک جن کی سرحدوں پر تم نے بزور طاقت قبضہ کیا ہوا ہے تم سے کورس میں ایک ہی سوال کریں گے۔
اب تیرا کیا ہوگا کالیا؟''(2)امریکا کو ڈپلومیٹک وارننگ ہوسکتی ہے کہ امریکی رائے عامہ سے متاثر ہو کر ''اگر اسرائیل کی اربوں ڈالر کی ''چائے پانی'' اور اس کو''محفوظ'' رکھنے کے لیے اس کے دشمنوں سے جنگ نہیں کی تو پھر وہی ہوسکتا ہے جس کی وارننگ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو ایک سوال سے دے رہے ہیں یعنی اسرائیل کا ''دشمن ِ نو'' ایران ایٹم بم بنا چکا ہے یا بنانے کے قریب ہے اگر 9 مہینے سے پہلے اس کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ نہیں کیا گیا تو وہ بے خوفی یا استشنا زون Immunity zone میں چلا جائے گا اور امریکا خلیج کے تیل سے ہاتھ دھولے گا۔ (3) عرب ممالک کو ڈپلومیٹک تسلی ہوسکتی ہے کہ اسرائیلی دشمنی میں کیوں وقت برباد کرتے ہو۔ بے چارہ 2022 کا مہمان ہے۔ دس سال دیکھتے ہی دیکھتے گزر جائیں گے۔ ہم پاکستانی ان ڈپلومیٹک بکھیڑوں میں نہیں پڑے ۔ خوش ہونے کے لیے اپنے مطلب کا ایک جملہ ہی کافی ہوتا ہے۔ ہنری کسنجر نے کہہ دیا کہ ''2022 تک اسرائیل نیست و نابود ہوجائے گا (نعرۂ تکبیر اﷲ اکبر) جب 2022 آئے گا تو کس کو یاد رہے گا کہ کس نے کیا کہا تھا۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکا کی سہولت کی شادی کا 64سالہ طویل ہنی مون تمت بالخیر ہونے کو ہے۔ امریکا کی اپنی معیشت دگرگوں ہے۔ مرے کو مارے شاہ مدار، رہی سہی کسر سمندری طوفان ''سینڈی'' نے پوری کردی۔ (کچھ پاکستانیوں کا انمول خیال ہے کہ اس میں پھر سے نو منتخب اوباما کی کوتاہی شامل ہے بھلا اسامہ بن لادن کو جانتے بوجھتے امریکی سمندر میں غرق کرنے کی کیا تُک تھی؟) توانائی کے حصول کے لیے امریکا کی اپنی جنگیں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ وہ بھلا اسرائیل کے دشمنوں سے جنگ کرکے اس کو کیا ''تحفظ'' فراہم کرے گا اس کے لیے اربوں ڈالر کی امداد کہاں سے لائے گا کیسے لائے گا اور کیوں لائے گا؟
امریکا کے صدارتی انتخاب کے دوران یہودی لابی کے لیے امریکی پالیسیز پر اثرانداز ہونے اور اپنی اہمیت جانچنے کا سنہری موقع ہوتا ہے کیوں کہ دونوں پارٹیوں کو یہودی لابی کے ووٹوں اور لوٹوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے اس لیے اس دوران ہمیشہ سےDiplomatic Activites عروج پر ہوتی نظر آئی ہے۔ مثلاً:
A:۔ ایران کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کی اسرائیلی وزیراعظم کی فرمائش جس کو اوباما نے Diplomatically مسترد کر دیا کہ ابھی مذاکرات کا آپشن موجود اور ساتھ ہی P5+1(امریکا، روس، چین، برطانیہ، فرانس ) اور ایران کے درمیان مذاکرات شروع کرادیئے ۔ اسرائیل کو چُپ لگ گئی اوباما کو وقت مل گیا۔
B:۔ اوباما اور رومنی کے درمیان امریکی خارجہ پالیسی پر جو مباحثہ ہوا اور اس میں رومنی نے (بظاہر) ایران کے خلاف بڑا سخت رویہ اختیار کیا (یہودی لابی کو خوش کرنے کے لیے) فرمایا ''ایران پر نہ صرف پابندیاں مزید سخت کرنا چاہیے بلکہ اس کے اطراف ایک سرخ لکیر کھینج دینی چاہیے تاکہ وہ اس کو کراس نہ کرسکے۔ جس کا عام طور یہ مطلب لیا گیا کہ اوباما کی بہ نسبت ایران کے تعلق سے رومنی کا رویہ انتہائی سخت ہوگا۔ میرا خیال ہے رومنی کا بیان ڈپلومیسی کا شاہکار ہے ۔ کیوںکہ ایران اگر سرخ لکیر کراس نہیںکرتا تو اس پر حملہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، اگر سرخ لائن کراس کرلیتا ہے تو اس پر حملہ کرنا گویا بم کو لات مارنے کے مترادف ہوگا (اور وہ بھی ایٹم بم کو)
C:۔ اس وقت دل چسپ / حیرت انگیز صورت حال یہ ہے کہ IAE A(انٹرنیشنل ایٹمی توانائی ایجنسی) کو شبہ ہے کہ ایران کے پاس بم گریڈ Enrichedیورنیم کا ذخیرہ ہے۔ P5+1 کے ممالک ایران کو سمجھا رہے ہیں کہ وہ ذخیرہ ان کے حوالے کردے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہے تو وہ اس ذخیرے سے دست بردار کیوں ہوگا جو اس کی سلامتی کا ذمے دار ہے؟
D:۔ امریکا شدید معاشی بحران کی وجہ سے 1931ء جیسی شدید مندیGreat Depression کی لپیٹ میں آتے آتے بچا ۔ (جس میں برطانیہ کا سورج غروب ہوگیا تھا) ایسے امریکا کی ملٹی نیشنل کمپنیاں (جن کے مالکان کی اکثریت یہودی ہیں) 30 کروڑ کی آبادی والے ملک امریکا کو 3کروڑ بے روزگاروں کا تحفہ دے کر مشرق کی طرف (جیسے جنوبی کوریا وغیرہ) کوچ کر گئے محض اس لیے کہ اب وہ امریکا کے مراعات یافتہ مزدوروں کو افورڈ نہیں کرسکتے اپنے ''تحفظ'' کی خاطر۔
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی قوم ''عدم تحفظ'' کے خوف سے آزاد ہو ہی نہیں سکتی ، کیوں؟ یہ واحد امت ہے ، جس پر من و سلویٰ اترا، سب سے زیادہ عذاب نازل ہوئے، سب سے زیادہ توبہ قبول ہوئی ، لیکن جونہی عذاب ٹل گیا نئے سرے سے نافرمانیاں شروع کر دیں۔ یہ بھی اﷲ کا اس قوم پر دائمی عذاب ہے کہ یہ خیالی عدم تحفظ کے خوف سے نکلنے کے لیے ایسے اقدامات کرتی ہے کہ حقیقی ''عدم تحفظ'' کے نرغے میں پھنس جاتی ہے ۔ مثلاً متنازعہ اسرائیلی حکومت کے قیام کے بعد اپنے تحفظ کی خاطر پڑوسی عرب ممالک کے سرحدی علاقوں پر زبردستی بزور طاقت قبضہ کرلیا۔ اس طرح اپنی آنے والی نسلوں کے لیے بھی مستقل پائیدار عدم تحفظ کے خوف کا بندوبست کر دیا۔
کسی قوم کی مضبوطی کا دارومدار تین مایع (Liquids) پر ہوتا ہے (1)میٹھا پانی : اسرائیل میںدریا ہی نہیں ہے پینے کے پانی کے لیے ناروے، سویڈن کے سمندر سے گلیشیئر بحری جہازوں سے کھینچ کر لائے جاتے ہیں۔ (2)تیل:۔ اسرائیل کے اطراف تیل ہی تیل ہے لیکن اسرائیل میں نہ تیل ہے نہ تیل کی دھار۔ (3) خون:۔ (افرادی قوت) اس میں اضافہ کے دو طریقے ہیں۔ افزائش نسل اور تبلیغ مذہب ۔ یہودیوں کی افزائش نسل دیگر اقوام کے مقابلے میں کم ترین سطح پر ہے ۔ یہ کوئی ایسا کام نہیں کرتے جس میں دو پیسے کا خرچہ ہو، کوئی فرد یہودی مذہب اختیار نہیں کر سکتا۔ یہودی نسلاً جتنے صدیوں پہلے تھے اسی سے کام چلاتے ہیں ۔ نتیجتاً یہودیوں کی آبادی مقابلتاً اگر گھٹ نہیں رہی ہے تو بڑھ بھی نہیں رہی ہے جب کہ ساری دیگر اقوام کا مسئلہ آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہے۔ اسرائیلی ساری دنیا میں اپنے دشمن تلاش کرتے پھرتے ہیں حالاں کہ ان کا صرف ایک دشمن ہے اوروہ ہے خود ''اسرائیل'' اگر یہ غلط ہے تو پھرکیا وجہ ہے کہ صدیوں پہلے اسرائیلی جتنے غیر محفوظ تھے آج بھی اتنے ہی غیر محفوظ ہیں۔
ایک بہت پرانی فلم ''میوٹنی آن دی بائونٹی'' میں ایک دیوپیکر بادبانی جہاز کا مغرور سفاک کپتان اپنے زیر تربیت شہزادے (مارلن برانڈو) کے سامنے ڈینگیں مارتا ہے''مرد کو بہادری سے مرناچاہیے ، سینے پر گولی کھا کر مرنا چاہیے، موت کی آنکھوں میںآنکھیں ڈال کر مرنا چاہیے، اور شہزادہ (مارلن برانڈو) پوچھتا ہے'' کیا آپ بہادری سے مرنا ہی جانتے ہیں ؟ شریفوں کی طرح زندہ نہیں رہ سکتے؟۔
امریکا کے مشہور زمانہ ڈپلومیٹ، دانشور، ہنری کسنجرکے اسرائیل سے متعلق خیالات ایک دھماکا خیز خبرکی صورت میں آج کل زیرگردش ہیں۔ فرماتے ہیں ''اگر امریکا، اسرائیل کو اربوں ڈالر کی امداد اور اپنی فوج کے ذریعے اسرائیل کے دشمنوں کا خاتمہ جاری رکھتاہے تو اسرائیل ''محفوظ'' رہ سکتا ہے ورنہ 2022 تک اسرائیل کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ امریکا میں یہ تاثر عام ہے کہ امریکا اسرائیل کو ''محفوظ'' بنانے کے لیے اسرائیل کے دشمنوں سے جنگ کرکے اپنے مفادات کو نقصان پہنچا رہا ہے اور اسرائیل اور اس کے حامیوں نے 9/11کا حملہ کروایا۔ (ایکسپریس نیوز 13اکتوبر)
ڈپلومیٹک اظہار رائے میں مطلب ایک ہونے کے باوجود مفہوم جدا جدا کیسے ہوسکتے ہیں ملاحظہ کیجیے۔(1) اسرائیل کو ڈپلومیٹک پیغام ہوسکتا ہے کہ اب امریکا کو جنگ کرنے کے لیے اپنے دشمنوں کے Latest Edition سپلائی کرنا بندکرو۔ غریب پہلے ہی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ امریکی رائے عامہ تمھارے خلاف ہے اگر وہ ڈوبا تو تمھارے پڑوسی عرب ممالک جن کی سرحدوں پر تم نے بزور طاقت قبضہ کیا ہوا ہے تم سے کورس میں ایک ہی سوال کریں گے۔
اب تیرا کیا ہوگا کالیا؟''(2)امریکا کو ڈپلومیٹک وارننگ ہوسکتی ہے کہ امریکی رائے عامہ سے متاثر ہو کر ''اگر اسرائیل کی اربوں ڈالر کی ''چائے پانی'' اور اس کو''محفوظ'' رکھنے کے لیے اس کے دشمنوں سے جنگ نہیں کی تو پھر وہی ہوسکتا ہے جس کی وارننگ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو ایک سوال سے دے رہے ہیں یعنی اسرائیل کا ''دشمن ِ نو'' ایران ایٹم بم بنا چکا ہے یا بنانے کے قریب ہے اگر 9 مہینے سے پہلے اس کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ نہیں کیا گیا تو وہ بے خوفی یا استشنا زون Immunity zone میں چلا جائے گا اور امریکا خلیج کے تیل سے ہاتھ دھولے گا۔ (3) عرب ممالک کو ڈپلومیٹک تسلی ہوسکتی ہے کہ اسرائیلی دشمنی میں کیوں وقت برباد کرتے ہو۔ بے چارہ 2022 کا مہمان ہے۔ دس سال دیکھتے ہی دیکھتے گزر جائیں گے۔ ہم پاکستانی ان ڈپلومیٹک بکھیڑوں میں نہیں پڑے ۔ خوش ہونے کے لیے اپنے مطلب کا ایک جملہ ہی کافی ہوتا ہے۔ ہنری کسنجر نے کہہ دیا کہ ''2022 تک اسرائیل نیست و نابود ہوجائے گا (نعرۂ تکبیر اﷲ اکبر) جب 2022 آئے گا تو کس کو یاد رہے گا کہ کس نے کیا کہا تھا۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکا کی سہولت کی شادی کا 64سالہ طویل ہنی مون تمت بالخیر ہونے کو ہے۔ امریکا کی اپنی معیشت دگرگوں ہے۔ مرے کو مارے شاہ مدار، رہی سہی کسر سمندری طوفان ''سینڈی'' نے پوری کردی۔ (کچھ پاکستانیوں کا انمول خیال ہے کہ اس میں پھر سے نو منتخب اوباما کی کوتاہی شامل ہے بھلا اسامہ بن لادن کو جانتے بوجھتے امریکی سمندر میں غرق کرنے کی کیا تُک تھی؟) توانائی کے حصول کے لیے امریکا کی اپنی جنگیں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ وہ بھلا اسرائیل کے دشمنوں سے جنگ کرکے اس کو کیا ''تحفظ'' فراہم کرے گا اس کے لیے اربوں ڈالر کی امداد کہاں سے لائے گا کیسے لائے گا اور کیوں لائے گا؟
امریکا کے صدارتی انتخاب کے دوران یہودی لابی کے لیے امریکی پالیسیز پر اثرانداز ہونے اور اپنی اہمیت جانچنے کا سنہری موقع ہوتا ہے کیوں کہ دونوں پارٹیوں کو یہودی لابی کے ووٹوں اور لوٹوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے اس لیے اس دوران ہمیشہ سےDiplomatic Activites عروج پر ہوتی نظر آئی ہے۔ مثلاً:
A:۔ ایران کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کی اسرائیلی وزیراعظم کی فرمائش جس کو اوباما نے Diplomatically مسترد کر دیا کہ ابھی مذاکرات کا آپشن موجود اور ساتھ ہی P5+1(امریکا، روس، چین، برطانیہ، فرانس ) اور ایران کے درمیان مذاکرات شروع کرادیئے ۔ اسرائیل کو چُپ لگ گئی اوباما کو وقت مل گیا۔
B:۔ اوباما اور رومنی کے درمیان امریکی خارجہ پالیسی پر جو مباحثہ ہوا اور اس میں رومنی نے (بظاہر) ایران کے خلاف بڑا سخت رویہ اختیار کیا (یہودی لابی کو خوش کرنے کے لیے) فرمایا ''ایران پر نہ صرف پابندیاں مزید سخت کرنا چاہیے بلکہ اس کے اطراف ایک سرخ لکیر کھینج دینی چاہیے تاکہ وہ اس کو کراس نہ کرسکے۔ جس کا عام طور یہ مطلب لیا گیا کہ اوباما کی بہ نسبت ایران کے تعلق سے رومنی کا رویہ انتہائی سخت ہوگا۔ میرا خیال ہے رومنی کا بیان ڈپلومیسی کا شاہکار ہے ۔ کیوںکہ ایران اگر سرخ لکیر کراس نہیںکرتا تو اس پر حملہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، اگر سرخ لائن کراس کرلیتا ہے تو اس پر حملہ کرنا گویا بم کو لات مارنے کے مترادف ہوگا (اور وہ بھی ایٹم بم کو)
C:۔ اس وقت دل چسپ / حیرت انگیز صورت حال یہ ہے کہ IAE A(انٹرنیشنل ایٹمی توانائی ایجنسی) کو شبہ ہے کہ ایران کے پاس بم گریڈ Enrichedیورنیم کا ذخیرہ ہے۔ P5+1 کے ممالک ایران کو سمجھا رہے ہیں کہ وہ ذخیرہ ان کے حوالے کردے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہے تو وہ اس ذخیرے سے دست بردار کیوں ہوگا جو اس کی سلامتی کا ذمے دار ہے؟
D:۔ امریکا شدید معاشی بحران کی وجہ سے 1931ء جیسی شدید مندیGreat Depression کی لپیٹ میں آتے آتے بچا ۔ (جس میں برطانیہ کا سورج غروب ہوگیا تھا) ایسے امریکا کی ملٹی نیشنل کمپنیاں (جن کے مالکان کی اکثریت یہودی ہیں) 30 کروڑ کی آبادی والے ملک امریکا کو 3کروڑ بے روزگاروں کا تحفہ دے کر مشرق کی طرف (جیسے جنوبی کوریا وغیرہ) کوچ کر گئے محض اس لیے کہ اب وہ امریکا کے مراعات یافتہ مزدوروں کو افورڈ نہیں کرسکتے اپنے ''تحفظ'' کی خاطر۔
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی قوم ''عدم تحفظ'' کے خوف سے آزاد ہو ہی نہیں سکتی ، کیوں؟ یہ واحد امت ہے ، جس پر من و سلویٰ اترا، سب سے زیادہ عذاب نازل ہوئے، سب سے زیادہ توبہ قبول ہوئی ، لیکن جونہی عذاب ٹل گیا نئے سرے سے نافرمانیاں شروع کر دیں۔ یہ بھی اﷲ کا اس قوم پر دائمی عذاب ہے کہ یہ خیالی عدم تحفظ کے خوف سے نکلنے کے لیے ایسے اقدامات کرتی ہے کہ حقیقی ''عدم تحفظ'' کے نرغے میں پھنس جاتی ہے ۔ مثلاً متنازعہ اسرائیلی حکومت کے قیام کے بعد اپنے تحفظ کی خاطر پڑوسی عرب ممالک کے سرحدی علاقوں پر زبردستی بزور طاقت قبضہ کرلیا۔ اس طرح اپنی آنے والی نسلوں کے لیے بھی مستقل پائیدار عدم تحفظ کے خوف کا بندوبست کر دیا۔
کسی قوم کی مضبوطی کا دارومدار تین مایع (Liquids) پر ہوتا ہے (1)میٹھا پانی : اسرائیل میںدریا ہی نہیں ہے پینے کے پانی کے لیے ناروے، سویڈن کے سمندر سے گلیشیئر بحری جہازوں سے کھینچ کر لائے جاتے ہیں۔ (2)تیل:۔ اسرائیل کے اطراف تیل ہی تیل ہے لیکن اسرائیل میں نہ تیل ہے نہ تیل کی دھار۔ (3) خون:۔ (افرادی قوت) اس میں اضافہ کے دو طریقے ہیں۔ افزائش نسل اور تبلیغ مذہب ۔ یہودیوں کی افزائش نسل دیگر اقوام کے مقابلے میں کم ترین سطح پر ہے ۔ یہ کوئی ایسا کام نہیں کرتے جس میں دو پیسے کا خرچہ ہو، کوئی فرد یہودی مذہب اختیار نہیں کر سکتا۔ یہودی نسلاً جتنے صدیوں پہلے تھے اسی سے کام چلاتے ہیں ۔ نتیجتاً یہودیوں کی آبادی مقابلتاً اگر گھٹ نہیں رہی ہے تو بڑھ بھی نہیں رہی ہے جب کہ ساری دیگر اقوام کا مسئلہ آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہے۔ اسرائیلی ساری دنیا میں اپنے دشمن تلاش کرتے پھرتے ہیں حالاں کہ ان کا صرف ایک دشمن ہے اوروہ ہے خود ''اسرائیل'' اگر یہ غلط ہے تو پھرکیا وجہ ہے کہ صدیوں پہلے اسرائیلی جتنے غیر محفوظ تھے آج بھی اتنے ہی غیر محفوظ ہیں۔
ایک بہت پرانی فلم ''میوٹنی آن دی بائونٹی'' میں ایک دیوپیکر بادبانی جہاز کا مغرور سفاک کپتان اپنے زیر تربیت شہزادے (مارلن برانڈو) کے سامنے ڈینگیں مارتا ہے''مرد کو بہادری سے مرناچاہیے ، سینے پر گولی کھا کر مرنا چاہیے، موت کی آنکھوں میںآنکھیں ڈال کر مرنا چاہیے، اور شہزادہ (مارلن برانڈو) پوچھتا ہے'' کیا آپ بہادری سے مرنا ہی جانتے ہیں ؟ شریفوں کی طرح زندہ نہیں رہ سکتے؟۔