اسمارٹ فون ایپ سے آنکھوں کا علاج ممکن ہوگیا
برطانوی ڈاکٹر نے اس کام کے لیے اسمارٹ فون کو آئی کے معائنہ ٹول میں بدل دیا۔
غریب ممالک میں آنکھوں کا علاج ہمیشہ ایک بڑا مسئلہ رہا ہے اور اسی لیے افریقہ کے دور دراز اور غریب ممالک میں آنکھوں کی بیماریوں میں مبتلا افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے لیکن برطانوی ڈاکٹر نے اس مسئلے کا حل نکالتے ہوئے ایسا ایپ تیار کرلیا ہے جس کی مدد سے انتہائی سستا علاج ممکن ہو سکے گا۔
برطانوی ڈاکٹراینڈریو اس کام کے لیے اسمارٹ فون کو آئی کے معائنہ ٹول میں بدل دیا اور ایسا ایپ تیار کرلیا جس کی مدد سے مریض کی بیماری کا نہ صرف پتہ چلایا جا سکتا تھا بلکہ اس کا علاج بھی ممکن ہوگیا۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 3 کروڑ سے زائد لوگ نابینا ہیں لیکن ان میں سے 80 فیصد کا علاج ممکن ہے تاہم علاج کی سہولتوں کے فقدان سے ایسا ممکن نہیں ہو پاتا۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ کینیا اور دیگر غریب ممالک میں زیادہ تر نابینا لوگ 'کیٹا ریکٹس اور ریفریکٹو' کا شکار ہوتے ہیں جب کہ ان بیماریوں کا علاج کرکے بینائی کو لوٹایا جاسکتا ہے لیکن سہولتوں کی کمی کی وجہ سے یہ لوگ علاج سے محروم رہ جاتے ہیں، اس مشکل کو سامنے رکھ کرڈاکٹر اینڈریو اور ان کی ٹیم نے پورٹیبل آئی ایگزامینیشن کٹ ( پیک) ایپ کو متعارف کرایا جس کی مدد سے انہوں نے صرف 9 دنوں میں 21 ہزار بچوں کی آنکھوں کا معائنہ کیا اور اب وہ مشرقی کینیا میں مزید 3 لاکھ افراد کا معائنہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر اینڈریو کا کہنا ہے کہ پیک میں حرف ای کو فون کی اسکرین پر مختلف شکلوں میں دکھایا جاتا ہے اور مریض اسے دیکھ کر حرف ای کی سمت کے مطابق اپنی آنکھوں کی تکلیف کا اظہار کرتے جس کے مطابق ایگزامنر بیماری کا تعین کرلیتا ہے جب کہ اس ٹیسٹ کے نتائج فوری طورپر دستیاب ہوتے ہیں بلکہ مریض اسے ایک میسج کی صورت میں اپنے موبائل پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔
اس ایپ کا ایک فیچر ایک ہارڈ ویئر کا ٹکڑا ہے جسے پیک ریٹینا کہا جاتا ہے جسے اسمارٹ فون کے کیمرے پر لگا دیا جاتا ہے اور اسے بآسانی تھری ڈی پرنٹر سے بنایا جا سکتا ہے، اسے کیمرے پر لگا کر کیمرے کو مریض کی آنکھ کے انتہائی قریب رکھ دیا جاتا ہے جو خود کو آنکھ کے ریٹینا کے مطابق فوکس کرلیتا ہے اور ایگزامنر اس کی مدد سے کیٹا ریکٹس کو واضح طور پر دیکھ لیتا ہے اور وہ آنکھ کی بیماری گلوکوما، میکولر ڈی جنریشن اور ڈایابیٹک ریٹینو پیتھی کا تپہ لگا لیتا ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اس کی مدد سے مریض کے بلڈ پریشر اور شوگر کے لیول کا بھی پتہ چل جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ایپ کی بدولت آنکھ کے علاج کی روایتی اورمہنگے آلات سے نجات مل گئی ہے اور مزید سہولت کے لیے ڈاکٹر اینڈریو کی ٹیم مقامی لوگوں کو تربیت دے رہی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔
برطانوی ڈاکٹراینڈریو اس کام کے لیے اسمارٹ فون کو آئی کے معائنہ ٹول میں بدل دیا اور ایسا ایپ تیار کرلیا جس کی مدد سے مریض کی بیماری کا نہ صرف پتہ چلایا جا سکتا تھا بلکہ اس کا علاج بھی ممکن ہوگیا۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 3 کروڑ سے زائد لوگ نابینا ہیں لیکن ان میں سے 80 فیصد کا علاج ممکن ہے تاہم علاج کی سہولتوں کے فقدان سے ایسا ممکن نہیں ہو پاتا۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ کینیا اور دیگر غریب ممالک میں زیادہ تر نابینا لوگ 'کیٹا ریکٹس اور ریفریکٹو' کا شکار ہوتے ہیں جب کہ ان بیماریوں کا علاج کرکے بینائی کو لوٹایا جاسکتا ہے لیکن سہولتوں کی کمی کی وجہ سے یہ لوگ علاج سے محروم رہ جاتے ہیں، اس مشکل کو سامنے رکھ کرڈاکٹر اینڈریو اور ان کی ٹیم نے پورٹیبل آئی ایگزامینیشن کٹ ( پیک) ایپ کو متعارف کرایا جس کی مدد سے انہوں نے صرف 9 دنوں میں 21 ہزار بچوں کی آنکھوں کا معائنہ کیا اور اب وہ مشرقی کینیا میں مزید 3 لاکھ افراد کا معائنہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر اینڈریو کا کہنا ہے کہ پیک میں حرف ای کو فون کی اسکرین پر مختلف شکلوں میں دکھایا جاتا ہے اور مریض اسے دیکھ کر حرف ای کی سمت کے مطابق اپنی آنکھوں کی تکلیف کا اظہار کرتے جس کے مطابق ایگزامنر بیماری کا تعین کرلیتا ہے جب کہ اس ٹیسٹ کے نتائج فوری طورپر دستیاب ہوتے ہیں بلکہ مریض اسے ایک میسج کی صورت میں اپنے موبائل پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔
اس ایپ کا ایک فیچر ایک ہارڈ ویئر کا ٹکڑا ہے جسے پیک ریٹینا کہا جاتا ہے جسے اسمارٹ فون کے کیمرے پر لگا دیا جاتا ہے اور اسے بآسانی تھری ڈی پرنٹر سے بنایا جا سکتا ہے، اسے کیمرے پر لگا کر کیمرے کو مریض کی آنکھ کے انتہائی قریب رکھ دیا جاتا ہے جو خود کو آنکھ کے ریٹینا کے مطابق فوکس کرلیتا ہے اور ایگزامنر اس کی مدد سے کیٹا ریکٹس کو واضح طور پر دیکھ لیتا ہے اور وہ آنکھ کی بیماری گلوکوما، میکولر ڈی جنریشن اور ڈایابیٹک ریٹینو پیتھی کا تپہ لگا لیتا ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اس کی مدد سے مریض کے بلڈ پریشر اور شوگر کے لیول کا بھی پتہ چل جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ایپ کی بدولت آنکھ کے علاج کی روایتی اورمہنگے آلات سے نجات مل گئی ہے اور مزید سہولت کے لیے ڈاکٹر اینڈریو کی ٹیم مقامی لوگوں کو تربیت دے رہی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔