متبادل ذرائع سے توانائی کا حصول

ہوا اور شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں میں غیرملکی کمپنیوں کی دل چسپی خوش آئند ہے۔

گذشتہ مالی سال میں برآمدات کا ہدف 26 بلین ڈالر رکھا گیا تھا لیکن برآمدات 23.64 بلین ڈالر تک محدود رہی تھیں۔ فوٹو : فائل

پاکستان میں بجلی کا بحران وقت کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کررہا ہے۔

بجلی کی فراہمی میں طویل تعطل سے نہ صرف عوام کی زندگی اجیرن ہوکر رہ گئی ہے بلکہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے معیشت پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ بجلی کی فراہمی میں تعطل کے باعث تاجروں اور صنعت کاروں کے لیے معاشی سرگرمیوں کو بلاوقفہ جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے چار برسوں کے دوران برآمداتی حجم مسلسل زوال پذیر رہا ہے۔ فیکٹریاں اور کارخانے بند ہونے سے بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ منہگائی بلندیوں کو چھورہی ہے۔ ٹیکسٹائل ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے۔

ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات کا حجم مسلسل سکڑ رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ لوڈشیڈنگ کے باعث برآمد کنندگان کے لیے برآمدی آرڈرز کی بروقت تکمیل ممکن نہیں رہی۔ اسی لیے ہزاروں کی تعداد میں صنعتیں بنگلہ دیش اور دبئی منتقل ہوگئی ہیں۔ گذشتہ مالی سال میں برآمدات کا ہدف 26 بلین ڈالر رکھا گیا تھا لیکن برآمدات 23.64 بلین ڈالر تک محدود رہی تھیں۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے پیش نظر رواں مالی سال میں بھی برآمداتی ہدف کا حصول ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔

پاکستان میں بجلی کی طلب 15000 میگاواٹ ہے جب کہ پیداوار اس سے کہیں کم ہے۔ گرمیوں میں بجلی کا شارٹ فال 6000 میگاواٹ تک چلاگیا تھا۔ پاکستان میں توانائی کی طلب کا 45 فی صد گیس، 35 فی صد درآمدی تیل، 12فی صد آبی ذخائر، 6 فی صد کوئلے اور 2 فی صد ایٹمی پاور سے پورا کیا جاتا ہے۔ آج دنیا بھر میں متبادل ذرائع سے بجلی کے حصول پر توجہ دی جارہی ہے۔ جنھیں توانائی کے قابل تجدید ذرائع بھی کہا جاتا ہے۔ تیل اور کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر برقی توانائی کا حصول کا سب سے پرانا اور روایتی ذریعہ ہیں۔

تیل کی درآمد پر آنے والی بھاری لاگت اور کوئلے کے بجلی گھروں سے پھیلنے والی آلودگی کے باعث دنیا بھر میں متبادل ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ تیل اور کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں پر عالمی ماحولیاتی ادارے بھی تنقید کرتے چلے آرہے ہیں کیوں کہ ان سے خارج ہونے والی گیس بالخصوص کاربن ڈائی آکسائیڈ گلوبل وارمنگ میں اضافہ کررہی ہے۔گلوبل وارمنگ سے مراد دنیا کے درجہ حرارت میں ہونے والا اضافہ ہے جس کی وجہ سے عالمی آب و ہوا میں تغیر رونما ہورہے ہیں۔ ان تغیرات کے باعث کہیں تو شدید بارشیں ہورہی ہیں اور کہیں قحط جیسی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔

خوش قسمتی سے پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ دیگر قدرتی وسائل کی طرح یہاں متبادل ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے بھی وسیع مواقع موجود ہیں۔خوش آئند بات یہ ہے کہ مقامی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی کمپنیاں بھی پاکستان میں متبادل ذرائع سے توانائی پیدا کرنے کے منصوبوں میں سرمایہ لگانے میں دل چسپی لے رہی ہیں۔ آلٹرنیٹیوانرجی ڈیولپمنٹ بورڈ (اے ای ڈی بی) کے مطابق پاکستان میں متبادل ذرائع سے 143000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ توانائی حاصل کرنے کے متبادل ذرائع کئی ہیں لیکن ان میں سب سے اہم سورج کی روشنی اور ہوا سے توانائی کا حصول ہے۔ دنیا بھر میں تیل، کوئلے اور گیس کے متبادل کے طور پر انھی ذرائع سے بجلی پیدا کرنے پر توجہ دی جارہی ہے۔


سندھ اور بلوچستان کا بڑا علاقہ ایسا ہے جہاں چوبیس گھنٹہ تیز ہوائیں چلتی ہیں اور دن بھرسورج چمکتا ہے۔ اے ای ڈی بی کے مطابق حکومت شمسی شعاعوں اور ہوا کی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کا ایک بڑا منصوبہ شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سرمایہ لگانے کی ترغیب دی جائے گی۔ اے ای ڈی بی کے مطابق حکومت کو امید ہے کہ صرف ونڈ انرجی سیکٹر میں 25بلین ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ہوگی۔ ذرائع کے مطابق اس وقت ہوا چکیوں سے بجلی پیدا کرنے کے 11منصوبے تکمیل کے قریب ہیں جن سے مجموعی طور پر 556 میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی۔ ان میں سے کچھ پروجیکٹ آئندہ ماہ کام شروع کریں گے جب کہ باقی پروجیکٹ آئندہ برس میں فعال ہوجائیں گے۔

متبادل ذرائع سے توانائی کے حصول کے منصوبوں کی جانب غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے گذشتہ ماہ اسلام آباد میں ایک بین الاقوامی نمائش کا اہتمام کیاگیا تھا۔ نمائش میں جاپانی، چینی اور کوریائی کمپنیوں نے بھی اسٹال لگائے تھے۔ نمائش کے دوران غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے ونڈ انرجی اور سولر انرجی سیکٹر میں سرمایہ کاری میں دل چسپی ظاہر کی گئی۔

پاکستانی حکومت جھمپیر ، گھارو ، کیٹی بندر اور بن قاسم میں ونڈ پاور پلانٹس قائم کررہی ہے۔ اس سے نہ صرف بجلی کی لوڈشیڈنگ کم کرنے میں مدد ملے گی بلکہ تیل کی درآمد پر خرچ ہونے والے بھاری زرمبادلہ کی بھی بچت ہوگی۔ پاکستان تیل کی درآمد پر سالانہ 14بلین ڈالر خرچ کرتا ہے۔

دنیا کے مختلف حصوں میں 6.2اور 6.9 میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے چلتی ہے۔ یہ علاقے ونڈ انرجی کے لحاظ سے مناسب تصور کیے جاتے ہیں۔ کچھ علاقے ایسے ہیں جو ''اچھا'' کی کیٹگری میں آتے ہیں۔ یہاں ہوا کی رفتار 7سے 7.3 میٹر فی سیکنڈ ہوتی ہے۔ تاہم سندھ میں ہوا کے چلنے کی رفتار 7.5سے7.7میٹر فی سیکنڈ ہے۔ اس طرح سندھ کا شمار بہترین کی کیٹگری میں ہوتا ہے یعنی سندھ کے علاقے ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے لیے بہت ہی موزوں ہیں۔ ذرائع کے مطابق اے ای ڈی بی نے 400 میگاواٹ کے نیوپارک انرجی ونڈ پروجیکٹ کے ابتدائی مرحلے کی منظوری دے دی ہے۔

یہ پروجیکٹ پورٹ قاسم کے قریب تعمیر کیا جائے گا۔ چینی کمپنی کے تعاون سے سندھ میں جھمپیر کے مقام پر اگلے برس تک ونڈ انرجی پلانٹ تعمیر کرلیا جائے گا جس سے 50 میگا واٹ بجلی حاصل ہوگی۔ اسلام آباد میں بھی دامن کوہ کے مقام پر ایک آزمائشی ونڈپاور پلانٹ نے کام شروع کردیا ہے۔

پاکستان میں متبادل ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی وسیع گنجائش موجود ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق ہوا سے 340000 میگا واٹ، شمسی توانائی سے900000 میگا واٹ، بڑے ہائیڈل پروجیکٹس سے 50000 میگا واٹ ، چھوٹے ہائیڈل پروجیکٹس سے3100 میگاواٹ، کچرے سے500میگا واٹ اور جیو تھرمل ذرائع سے 1350میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ یو ایس ایڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہوا سے 150000میگاواٹ بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس میں سے 400000میگاواٹ صرف سندھ فراہم کرسکتا ہے۔

متبادل ذرائع سے توانائی کا حصول کی وسیع گنجائش کے پیش نظر حکومت نے 2015ء کے اختتام تک ہوا کی توانائی سے 2500میگاواٹ بجلی حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اپریل 2009ء میں جھمپیر میں ملک کے پہلے ونڈ انرجی پاور پروجیکٹ کا افتتاح کیا تھا۔ یہ پروجیکٹ 60فی صد تک مکمل ہوچکا ہے اور امید ہے کہ اسی برس کے آخر تک آزمائشی پیداوار شروع کردے گا۔
Load Next Story