چھاپے
وہاں دو گھنٹے تک مریضوں کو دی جانے والی طبی سہولیات کا جائزہ لیا، مختلف وارڈز کا معائنہ کیا،
میری جگہ آپ ہوتے تو یقین ہے کہ بے بسی ہی کا شکار ہو کر ہینڈز اپ کر دیتے کیونکہ اخبار میں سے خبر پڑھ کر میرے دوست نے پوچھا تھا کہ خبر سن کر کیا تمہاری چھاتی فخر سے تن گئی ہے یا گردن شرم سے جھک گئی ہے اور خبر یہ تھی کہ وزیراعلیٰ نے حافظ آباد تک بغیر پروٹوکول دورہ کیا اور پھر ایک عام وین میں بیٹھ کر وہاں کے ڈسٹرکٹ اسپتال پر چھاپہ مارا۔
وہاں دو گھنٹے تک مریضوں کو دی جانے والی طبی سہولیات کا جائزہ لیا، مختلف وارڈز کا معائنہ کیا، مریضوں کی عیادت کی، مریضوں کے لواحقین سے گفتگو کی، زچہ و بچہ وارڈ میں پانی کی عدم دستیابی کا نوٹس لیا، اسٹاک رجسٹر مناسب طریقے سے مرتب نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا، اسٹور روم میں ادویات کے فوری آڈٹ کا حکم دیا، ٹوائلٹس میں گندگی اور پانی و لائٹس کی عدم دستیابی اور گندی چادروں پر برہمی کا اظہار کیا، صفائی کی ابتر صورت حال بہتر بنانے کی ہدایت کی، برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسپتال انتظامیہ کی سرزنش کی، ڈی سی او کو حکم دیا کہ جن مریضوں نے بازار سے ادویات خریدی ہیں انھیں فوری طور پر رقم واپس کی جائے پھر وہاں سے عام وین میں بیٹھ کر اراضی ریکارڈ سینٹر پہنچے جہاں موجود افراد سے نئے نظام کی افادیت پر رائے لی۔
آخر میں تقریر کرتے ہوئے سرکاری عملے کو ہدایت کی کہ وہ محنت، دیانت اور امانت کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کے اتنے مفصل دورے اور چھاپے کی خبر سن کر نہ چھاتی فخر سے تنی نہ گردن شرم سے جھکی کیونکہ میرے نزدیک اس طرح کے چھاپے مارنے سے وزیراعلیٰ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکتے۔ میرٹ اور اہلیت کی بنیاد پر لگایا گیا اسپتال کا میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ہی مذکورہ بالا نتائج حاصل اور فرائض چھاپہ مار ٹوٹکے کی بجائے مستقل بنیادوں پر ادا کر سکتا ہے۔
بے جا تنقید کرنے کے شوقین تو اسپتال کے چھاپے کو ذاتی تشہیر کا نام ہی دیں گے جب کہ دوسرے اس معائنے اور وزیراعلیٰ کی ہدایات و احکامات کو سراہیں گے لیکن یہاں مجھے عرصہ پرانے دو چھاپے یاد آ گئے لہٰذا ان کا ذکر بھی ہو جائے۔ ڈپٹی کمشنر نے ایک درخواست جس میں ایک ٹرانسپورٹر نے سیکریٹری RTA کے خلاف شکایت لکھی تھی کہ وہ روٹ پرمٹ جاری کرنے کے عوض رشوت طلب کرتا ہے مع نوٹوں کے نمبروں کے میرے حوالے کی اور میں درخواست دہندہ اور ڈیوٹی پولیس عملہ کے ہمراہ سیکریٹری ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے دفتر کی طرف روانہ ہوا۔
رقم ادا کی گئی، دستاویزات قبضہ میں لی گئیں اور نشان زدہ رقم بھی سیکریٹری کی بجائے آفس سپرنٹنڈنٹ سے برآمد ہو گئی۔ میں نے کارروائی ریکارڈ کر لی تو سیکریٹری RTA نے کولڈ ڈرنگ زبردستی پلانے کی کوشش میں اسے میری دو صفحے کی رپورٹ پر گرا دیا اور مجھے پوری کارروائی دوبارہ تحریر کرنا پڑی کیونکہ شکایت سیکریٹری کے خلاف تھی لیکن رقم اس دفتر کے سپرنٹنڈنٹ سے برآمد ہوئی تھی کوئی گرفتاری نہ کی گئی لیکن رپورٹ بشکل FIR تیار ہوئی لیکن اس دفتر کے افسر اعلیٰ جنھوں نے پہلے کولڈ ڈرنک رپورٹ کے کاغذات پر گرائی تھی بہت بااثر اور تعلقات والے افسر تھے لہٰذا چھاپہ کسی اگلے مرحلے پر داخل دفتر ہو گیا۔
دوسرا چھاپہ ایک اسکول ٹیچر کی شکایت پر انسپکٹر آف اسکولز پر تھا۔ ٹیچر کے مطابق اس کا افسر تبادلہ کرنے کے لیے اس سے رشوت کی رقم طلب کرتا تھا۔ ریڈ کرنے کا پروگرام طے ہوا۔ میں چھاپہ مار پارٹی لے کر غروب آفتاب کے وقت اسکول انسپکٹر کے مکان پر پہنچا۔ خود گلی کے ایک کونے اور پولیس کے ملازم دوسرے کونے پر کھڑے ہو گئے۔
اسکول ٹیچر مدعی نے مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا اور انسپکٹر اسکولز کے دروازہ کھولنے پر اجازت لے کر اندر چلا گیا۔ جب دس پندرہ منٹ گزر گئے، اندھیرا گہرا ہو گیا تو میں گلی میں ٹہلنے لگا۔ اچانک مجھے مکان کی ایک کھڑکی میں سے آوازیں سنائی دیں۔ انسپکٹر اسکولز غصے میں بول رہا تھا کہ بے غیرت تم مجھے تبادلہ کرنے کے لیے رشوت دینا چاہتے ہو۔ جواب آیا کہ نہیں سر بچوں کو مٹھائی کھلانے کے لیے حقیر سا نذرانہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ دونوں کے کچھ دیر تک بولے جانے والے مکالمے اسی انداز کے تھے۔
ادھر غصہ اور انکار، دوسری طرف درخواست اور اصرار۔ میں ٹہلتا اور کھڑکی میں سے آتی آوازیں سنتا رہا پھر خاموشی ہو گئی اور آواز آئی کہ اب تم یہاں سے دفع ہو جاؤ۔ مدعی گھر سے باہر آ گیا اور میری طرف دیکھ کر اشارہ کیا کہ کام ہو گیا۔ میں نے انسپکٹر پولیس کو بلایا اور ایک بار پھر دروازہ کھٹکھٹا کر کھلوایا، تعارف کروایا اور اندر گئے۔ میں نے صاحب خانہ سے پوچھا کہ رشوت کی جو رقم لی کہاں رکھی ہے۔ وہ میری بات سن کر غصے میں آ گیا اور رشوت دینے اور لینے والے پر لعنت بھیجی۔ مدعی نے ایک کپڑا بستر پر سے ہٹا کر کہا سر یہ رہی رشوت کی رقم۔ میں نے مدعی اور الزام علیہ کے بیان ریکارڈ کیے۔ اپنی آبزرویشن تحریر کی اور مدعی کی گرفتاری کے آرڈر کر دیے۔ نتیجہ یہ کہ یہ دوسرا چھاپہ بھی ناکام رہا۔
علم حاصل کرنے کے متلاشی بچے اور جوان اب بوٹی مافیا کا شکار ہو کر عقل کی بجائے نقل کا سہارا لے کر اپنا اور ملک کا نام روشن کرتے ٹیلی ویژن کی اسکرین پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ کیمرہ نہ صرف کمرۂ امتحان میں نقل کرتے طالب علموں کو تفصیلاً دکھا رہا ہوتا ہے بلکہ شریک جرم ممتحن حضرات کی حرکات بھی محفوظ کرتا جاتا ہے۔ مدت سے ایسی خبر نظر سے نہیں گزری کہ اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں نقل کرنے اور کروانے والوں پر بھی چھاپہ پڑا ہو۔
طوفانی دوروں، تواتر سے بلائی جانے والی سرکاری افسروں کی میٹنگوں کے بالکل برعکس مجھے ایک اعلیٰ افسر کے دفتر میں جانے کا دن یاد آتا ہے۔ وہ ایک اہم محکمے کے معروف ترین افسر کا دفتر تھا۔ میں نے عموماً ایسے افسروں کی میزوں پر فائلوں کے ڈھیر دیکھے تھے۔ میں مذکورہ افسر اعلیٰ کے دفتر میں داخل ہوا تو اسے اخبار پڑھتے پایا۔ حیرت سے پوچھا کہ آپ کے ماتحت اسی عمارت میں پندرہ کے قریب افسر ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے ہر صوبے اور ضلع میں اسٹاف ہے اور آپ کی میز پر زیر کارروائی کوئی فائل نہیں، کیا آپ کوئی کام نہیں کرتے، فارغ بیٹھے رہتے ہیں۔ وہ ہنسے اور بولے جب بھی کام میرے لیول پر آتا ہے فوراً نمٹاتا ہوں، کام تقسیم کر رکھا ہے۔ ہر ماتحت سے کام لیتا ہوں۔ دوروں اور میٹنگوں اور چھاپوں میں وقت ضایع نہیں کرتا۔ اختیارات تقسیم کر رکھے ہیں۔ میں سانپ بن کر اختیارات کے خزانے پر نہیں بیٹھتا۔
اس افسر اعلیٰ کے پاس بیٹھے ہوئے مجھے پنجاب کے سیکریٹریٹ کا ایک دن یاد آیا۔ پارکنگ میں گاڑی کھڑی کر کے ایک صوبائی سیکریٹری کو فون کیا کہ کار کھڑی کر دی ہے۔ میں تمہارے کمرے میں آ رہا ہوں۔ اس نے جواب دیا میں اور سات عدد دوسرے سیکریٹری اس وقت باس کے ہمراہ دورے پر بہاولپور آئے ہوئے ہیں، آنا چاہو تو ہیلی کاپٹر بھیج دوں لیکن باس اس کی اجازت نہیں دے گا۔ یہ سات آٹھ افسران بھی اپنے اپنے دفتروں کا کام پس پشت ڈال کر دور دراز کے ضلع میں چھاپے مارنے گئے ہوئے تھے۔
وہاں دو گھنٹے تک مریضوں کو دی جانے والی طبی سہولیات کا جائزہ لیا، مختلف وارڈز کا معائنہ کیا، مریضوں کی عیادت کی، مریضوں کے لواحقین سے گفتگو کی، زچہ و بچہ وارڈ میں پانی کی عدم دستیابی کا نوٹس لیا، اسٹاک رجسٹر مناسب طریقے سے مرتب نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا، اسٹور روم میں ادویات کے فوری آڈٹ کا حکم دیا، ٹوائلٹس میں گندگی اور پانی و لائٹس کی عدم دستیابی اور گندی چادروں پر برہمی کا اظہار کیا، صفائی کی ابتر صورت حال بہتر بنانے کی ہدایت کی، برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسپتال انتظامیہ کی سرزنش کی، ڈی سی او کو حکم دیا کہ جن مریضوں نے بازار سے ادویات خریدی ہیں انھیں فوری طور پر رقم واپس کی جائے پھر وہاں سے عام وین میں بیٹھ کر اراضی ریکارڈ سینٹر پہنچے جہاں موجود افراد سے نئے نظام کی افادیت پر رائے لی۔
آخر میں تقریر کرتے ہوئے سرکاری عملے کو ہدایت کی کہ وہ محنت، دیانت اور امانت کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کے اتنے مفصل دورے اور چھاپے کی خبر سن کر نہ چھاتی فخر سے تنی نہ گردن شرم سے جھکی کیونکہ میرے نزدیک اس طرح کے چھاپے مارنے سے وزیراعلیٰ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکتے۔ میرٹ اور اہلیت کی بنیاد پر لگایا گیا اسپتال کا میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ہی مذکورہ بالا نتائج حاصل اور فرائض چھاپہ مار ٹوٹکے کی بجائے مستقل بنیادوں پر ادا کر سکتا ہے۔
بے جا تنقید کرنے کے شوقین تو اسپتال کے چھاپے کو ذاتی تشہیر کا نام ہی دیں گے جب کہ دوسرے اس معائنے اور وزیراعلیٰ کی ہدایات و احکامات کو سراہیں گے لیکن یہاں مجھے عرصہ پرانے دو چھاپے یاد آ گئے لہٰذا ان کا ذکر بھی ہو جائے۔ ڈپٹی کمشنر نے ایک درخواست جس میں ایک ٹرانسپورٹر نے سیکریٹری RTA کے خلاف شکایت لکھی تھی کہ وہ روٹ پرمٹ جاری کرنے کے عوض رشوت طلب کرتا ہے مع نوٹوں کے نمبروں کے میرے حوالے کی اور میں درخواست دہندہ اور ڈیوٹی پولیس عملہ کے ہمراہ سیکریٹری ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے دفتر کی طرف روانہ ہوا۔
رقم ادا کی گئی، دستاویزات قبضہ میں لی گئیں اور نشان زدہ رقم بھی سیکریٹری کی بجائے آفس سپرنٹنڈنٹ سے برآمد ہو گئی۔ میں نے کارروائی ریکارڈ کر لی تو سیکریٹری RTA نے کولڈ ڈرنگ زبردستی پلانے کی کوشش میں اسے میری دو صفحے کی رپورٹ پر گرا دیا اور مجھے پوری کارروائی دوبارہ تحریر کرنا پڑی کیونکہ شکایت سیکریٹری کے خلاف تھی لیکن رقم اس دفتر کے سپرنٹنڈنٹ سے برآمد ہوئی تھی کوئی گرفتاری نہ کی گئی لیکن رپورٹ بشکل FIR تیار ہوئی لیکن اس دفتر کے افسر اعلیٰ جنھوں نے پہلے کولڈ ڈرنک رپورٹ کے کاغذات پر گرائی تھی بہت بااثر اور تعلقات والے افسر تھے لہٰذا چھاپہ کسی اگلے مرحلے پر داخل دفتر ہو گیا۔
دوسرا چھاپہ ایک اسکول ٹیچر کی شکایت پر انسپکٹر آف اسکولز پر تھا۔ ٹیچر کے مطابق اس کا افسر تبادلہ کرنے کے لیے اس سے رشوت کی رقم طلب کرتا تھا۔ ریڈ کرنے کا پروگرام طے ہوا۔ میں چھاپہ مار پارٹی لے کر غروب آفتاب کے وقت اسکول انسپکٹر کے مکان پر پہنچا۔ خود گلی کے ایک کونے اور پولیس کے ملازم دوسرے کونے پر کھڑے ہو گئے۔
اسکول ٹیچر مدعی نے مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا اور انسپکٹر اسکولز کے دروازہ کھولنے پر اجازت لے کر اندر چلا گیا۔ جب دس پندرہ منٹ گزر گئے، اندھیرا گہرا ہو گیا تو میں گلی میں ٹہلنے لگا۔ اچانک مجھے مکان کی ایک کھڑکی میں سے آوازیں سنائی دیں۔ انسپکٹر اسکولز غصے میں بول رہا تھا کہ بے غیرت تم مجھے تبادلہ کرنے کے لیے رشوت دینا چاہتے ہو۔ جواب آیا کہ نہیں سر بچوں کو مٹھائی کھلانے کے لیے حقیر سا نذرانہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ دونوں کے کچھ دیر تک بولے جانے والے مکالمے اسی انداز کے تھے۔
ادھر غصہ اور انکار، دوسری طرف درخواست اور اصرار۔ میں ٹہلتا اور کھڑکی میں سے آتی آوازیں سنتا رہا پھر خاموشی ہو گئی اور آواز آئی کہ اب تم یہاں سے دفع ہو جاؤ۔ مدعی گھر سے باہر آ گیا اور میری طرف دیکھ کر اشارہ کیا کہ کام ہو گیا۔ میں نے انسپکٹر پولیس کو بلایا اور ایک بار پھر دروازہ کھٹکھٹا کر کھلوایا، تعارف کروایا اور اندر گئے۔ میں نے صاحب خانہ سے پوچھا کہ رشوت کی جو رقم لی کہاں رکھی ہے۔ وہ میری بات سن کر غصے میں آ گیا اور رشوت دینے اور لینے والے پر لعنت بھیجی۔ مدعی نے ایک کپڑا بستر پر سے ہٹا کر کہا سر یہ رہی رشوت کی رقم۔ میں نے مدعی اور الزام علیہ کے بیان ریکارڈ کیے۔ اپنی آبزرویشن تحریر کی اور مدعی کی گرفتاری کے آرڈر کر دیے۔ نتیجہ یہ کہ یہ دوسرا چھاپہ بھی ناکام رہا۔
علم حاصل کرنے کے متلاشی بچے اور جوان اب بوٹی مافیا کا شکار ہو کر عقل کی بجائے نقل کا سہارا لے کر اپنا اور ملک کا نام روشن کرتے ٹیلی ویژن کی اسکرین پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ کیمرہ نہ صرف کمرۂ امتحان میں نقل کرتے طالب علموں کو تفصیلاً دکھا رہا ہوتا ہے بلکہ شریک جرم ممتحن حضرات کی حرکات بھی محفوظ کرتا جاتا ہے۔ مدت سے ایسی خبر نظر سے نہیں گزری کہ اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں نقل کرنے اور کروانے والوں پر بھی چھاپہ پڑا ہو۔
طوفانی دوروں، تواتر سے بلائی جانے والی سرکاری افسروں کی میٹنگوں کے بالکل برعکس مجھے ایک اعلیٰ افسر کے دفتر میں جانے کا دن یاد آتا ہے۔ وہ ایک اہم محکمے کے معروف ترین افسر کا دفتر تھا۔ میں نے عموماً ایسے افسروں کی میزوں پر فائلوں کے ڈھیر دیکھے تھے۔ میں مذکورہ افسر اعلیٰ کے دفتر میں داخل ہوا تو اسے اخبار پڑھتے پایا۔ حیرت سے پوچھا کہ آپ کے ماتحت اسی عمارت میں پندرہ کے قریب افسر ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے ہر صوبے اور ضلع میں اسٹاف ہے اور آپ کی میز پر زیر کارروائی کوئی فائل نہیں، کیا آپ کوئی کام نہیں کرتے، فارغ بیٹھے رہتے ہیں۔ وہ ہنسے اور بولے جب بھی کام میرے لیول پر آتا ہے فوراً نمٹاتا ہوں، کام تقسیم کر رکھا ہے۔ ہر ماتحت سے کام لیتا ہوں۔ دوروں اور میٹنگوں اور چھاپوں میں وقت ضایع نہیں کرتا۔ اختیارات تقسیم کر رکھے ہیں۔ میں سانپ بن کر اختیارات کے خزانے پر نہیں بیٹھتا۔
اس افسر اعلیٰ کے پاس بیٹھے ہوئے مجھے پنجاب کے سیکریٹریٹ کا ایک دن یاد آیا۔ پارکنگ میں گاڑی کھڑی کر کے ایک صوبائی سیکریٹری کو فون کیا کہ کار کھڑی کر دی ہے۔ میں تمہارے کمرے میں آ رہا ہوں۔ اس نے جواب دیا میں اور سات عدد دوسرے سیکریٹری اس وقت باس کے ہمراہ دورے پر بہاولپور آئے ہوئے ہیں، آنا چاہو تو ہیلی کاپٹر بھیج دوں لیکن باس اس کی اجازت نہیں دے گا۔ یہ سات آٹھ افسران بھی اپنے اپنے دفتروں کا کام پس پشت ڈال کر دور دراز کے ضلع میں چھاپے مارنے گئے ہوئے تھے۔