سمجھ نہیں آ رہا ’’ کہاں‘‘ کیا ہے

ایک امریکی اخبار نے لکھا ہے کہ عدلیہ اور فوج کے درمیان اختلافات بڑھ گئے ہیں اور یہ ایک غیر روایتی بات ہے۔

Abbasather@express.com.pk

ایک دھماکا خیز بیان کے بعد آرمی کے حلقوں میں مکمل خاموشی ہے لیکن عدلیہ کے تیور بدستور تیکھے ہیں۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ اور چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کے بیانات اِن دنوں خصوصیت سے عوام اور خواص کی توجہ کا مرکز ہیں۔ کبھی کسی کیس کی سماعت کے دوران اُبھر کر سامنے آتے ہیں اور کبھی بار کی کسی تقریب سے خطاب میں۔ چیف جسٹس کا تازہ ترین بیان یہ ہے کہ اب طاقت کے مراکز تبدیل نہیں ہوں گے اور نظام کو تبدیل کرنے کی کسی میں جرات نہیں۔ یہ بیان صرف اس لحاظ سے اہم نہیں کہ اس میں چیف جسٹس نے غیر آئینی اقدام کی گنجائش نہ ہونے کا یقین ظاہر کیا ہے بلکہ اس لحاظ سے بھی اہم بلکہ زیادہ ہی اہم ہے کہ چیف جسٹس ایک قطعی یقین کے ساتھ بات کر رہے ہیں کہ نظام محفوظ ہے۔

چیف جسٹس صاحب کا یہ یقین محض اس بنیاد پر نہیں ہو سکتا کہ حالات غیر آئینی اقدام کی اجازت نہیں دیں گے بلکہ اس کے پیچھے کوئی اور بات بھی ہو گی۔ ممکن ہے کہ طاقت کے مراکز میں سے بعض اہم گوشے عدلیہ سمیت کئی حلقوں کو یہ پیغام دے رہے ہوں کہ ڈٹے رہو۔

حالات اپنی جگہ اس نوعیت کے ہیں کہ آئینی طور پر عدلیہ کے سوا کوئی اپنے محفوظ ہونے کا یقین نہیں کر سکتا ۔ ادارے افراد یا چند شخصیات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ حکومت ایک ادارہ ہے لیکن اسے چلانے والے سربرآوردہ چہرے منظر سے ہٹا دیے جائیں، تو یہی کہا جائے گا کہ ادارہ ہل گیا ہے۔ عدلیہ کے بارے میں کچھ ہفتے پہلے خاص طور سے ملک ریاض کا کیس سامنے آنے کے بعد بعض حلقے بڑے شدومد سے یہ دعوے کر رہے تھے کہ چیف جسٹس اور ان کے بعض قریبی ججوں پر وار ہونے والا ہے لیکن یہ دعوے غلط ثابت ہوئے اور حقیقت میں چیف جسٹس کا اعتماد زیادہ بڑھ گیا ہے۔

ایک امریکی اخبار نے لکھا ہے کہ عدلیہ اور فوج کے درمیان اختلافات بڑھ گئے ہیں اور یہ ایک غیر روایتی بات ہے۔ روایتی بات یہ ہے کہ عدلیہ ہمیشہ فوج کی تابعدار رہی (اِکا دُکا واقعات کو چھوڑ کر) چنانچہ اگر اختلافات ہونے کا تاثر سامنے آتا ہے تو پاکستان کے کلچر کے حوالے سے یہ غیر روایتی بات ہے۔ آج تک کوئی فوجی حکمران محض عوامی تحریک کی وجہ سے محروم اقتدار نہیں ہوا۔ ایوب خان کا اقتدار تب ختم ہوا جب یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالا اور یحییٰ خان نے اقتدار اس وقت چھوڑا جب ان کے ماتحت فوجی افسروں نے سقوط ڈھاکا کے بعد ان سے استعفیٰ لے لیا ورنہ وہ تو آدھا ملک گنوانے کے باوجود برسراقتدار رہنے پر مصر تھے۔

ضیا الحق کا اقتدار طیارے کے حادثے کی وجہ سے ختم ہوا۔ مشرف واحد جرنیل سربراہ تھے جن کے اقتدار کو عوامی تحریک نے چلتا کیا اور غیر روایتی بات یہ بھی تھی کہ یہ عوامی تحریک سیاستدانوں کے بجائے عدلیہ اور وکیلوں نے چلائی۔ ایک وکیل رہنما کے خیال میں اس وقت تک کی صورتحال یہ ہے کہ لگتا ہے کہ عدلیہ صدر کو محدود کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ اصغر خان کیس کے فیصلے سے نواز شریف، اسلم بیگ یا جنرل درانی کو اتنا نقصان نہیں پہنچا جتنا صدر کے حوالے سے فرض کیا جاتا ہے۔ انھیں واضح طور پر عدالت کے اس حکم کا سامنا ہے کہ سیاست نہ کریں۔ لیکن یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے ایوان صدر اور صدر کے حوالے سے لفظ ''سیاست'' کی تشریح کرنی پڑے گی۔


پیپلز پارٹی کے حلقے یہ اطلاع دے رہے ہیں کہ یوسف رضا گیلانی کو پارٹی کا شریک چیئرمین بنانے پر غور ہو رہا ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو اس کا مطلب ہے کہ صدر عدلیہ سے محاذ آرائی نہیں کرنا چاہتے۔ اگر کریں گے تو سیاسی فضا اور مکدر ہوگی اور اپوزیشن کو حکومت پر دبائو بڑھانے کا موقع مل جائے گا جو انتخابات کا زمانہ قریب آنے کی وجہ سے حکومت کے لیے پسندیدہ نہیں ہو گا۔ میرا خیال ہے کہ صدر عدالت کے ساتھ محاذ آرائی کرنے کی بجائے متبادل حکمت عملی اختیار کریں گے۔

دوسری طرف آرمی ہے۔ آرمی چیف نے تہلکہ خیز بیان دے کر ایک بڑی بحث کا دروازہ کھول دیا لیکن اس بحث میں فوج کا کردار مزید زیر بحث آیا۔ بہت سے لوگوں نے آرمی چیف کی حمایت کی اور بہت سوں نے چیف جسٹس کی جبکہ کچھ لوگوں نے معاملہ ختم کرنے کا مشورہ دیا۔ اس بحث سے یہ خطرناک بات سامنے آئی کہ فوج اور عدلیہ کے حوالے سے بھی قوم میں ایک تقسیم موجود ہے۔ ظاہر ہے یہ بات بے شمار مسائل اور مصیبتوں میں گھر ے ملک کے لیے اچھا شگون نہیں۔ لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ ایسے وقت میں جب اتحاد کی ضرورت ہے' ہر روز تقسیم در تقسیم کا منظر پیدا ہو رہا ہے۔ عدلیہ اور فوج کے درمیان یہ تنائو انتخابات کے لیے بھی اچھا شگون نہیں۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ تجزیہ نگاروں سے لے کر نجومیوں تک کسی کو سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا ہونے والاہے۔ ایک تھیوری ابھی تک چل رہی ہے کہ عدلیہ اور فوج ایک تین سالہ عبوری نظام لانے والے ہیں جس میں سیاستدانوں کا بے رحم احتساب ہو گا جس کے بعد نہایت نیک اور صالح افراد امپورٹ کر کے ایک پاکباز حکومت وجود میں لائی جائے گی۔ لیکن اب عدلیہ اور فوج میں پیدا ہونے والے تنائو کے بعد یہ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ یہ دونوں ادارے آخر کس طرح ایک متفقہ تین سالہ عبوری نظام لائیں گے۔ چیف جسٹس کے اس ارشاد کے بعد کہ غیر آئینی تبدیلی کو عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا، یہ سوال بھی پیدا ہو گیا ہے کہ تین سالہ عبوری سیٹ اپ کی گنجائش آئینی ہو گی یا غیر آئینی۔

جو کشمکش ہو رہی ہے وہ دو فریقی نہیں، سہ فریقی ہے۔ عدلیہ فوج تنائو کی وجہ سے بعض حکومتی شخصیات نے اظہار مسرت کیا ہے لیکن اس سے اس بات کی تصدیق نہیں ہوتی کہ عدلیہ کے مقابلے میں حکومت اور فوج متحد ہیں۔ فوج کے بعض حلقوں میں حکومت کے لیے پسندیدگی نہیں پائی جاتی لیکن اس سے یہ بات بھی ثابت نہیں ہوتی کہ حکومت کے خلاف عدلیہ اور فوج متحد ہیں۔

تین ستون الگ الگ برابرکھڑے نظر آ رہے ہیں۔ کسی ایک ستون کوتنہا کرنے کے لیے باقی دو ستونوں کا متحد ہونا ضروری ہے جو فی الحال وجود میں نہیں آیا۔ بہرحال ان تینوں ستونوں میں ہم آہنگی نہ ہو تب بھی خیر ہے بشرطیکہ محاذ آرائی آگے نہ بڑھے۔ لیکن ابھی تو کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کہاں ہم آہنگی ہے، کہاں اختلاف اور اگر کوئی تنائو ہے تو اس کی نوعیت کیا ہے؟ وہ موجود ہے یا ختم ہو چکا۔

ہمارے ملک کی تاریخ بہت انوکھی ہے ۔ جو یہ کہنے پر مجبور کر رہی ہے کہ اہل سیاست ہوشیار رہیں۔ ہمارے ہاں ''کھبی'' دکھا کر ''سجی'' مارنے کی روایت رہی ہے۔ کراچی اور حید ر آباد کی بد امنی بڑھ رہی ہے۔ فسادات نے شیعہ، سنی رخ اختیار کر لیا ہے۔ کوئی بھی ایسی صورتحال پیدا نہیں ہونی چاہیے جسے جواز بنا کر تین سالہ عبوری حکومت آ جائے۔ عبوری دور آ گیا تو اس کے بعد کسی دور کی ضرورت نہیں رہے گی۔
Load Next Story