کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا
المیہ ہے کہ بارشوں اور سیلابوں سے ہونے والی تباہ کاریوں کا دائرہ کم کرنے کی بھی کوئی ملک گیر پلاننگ نہیں ہورہی
خیبر پختونخوا ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں تین دن سے جاری بارشوں نے جو تباہی مچائی ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ارباب اختیاردر حقیقت موسمیاتی تبدیلیوں کے آیندہ کے خطرات سے قطعی بے پروا ہیں یا انہیں اس چیز کا ادراک و احساس ہی نہیں کہ گذشتہ چند برسوں میں ہونے والی غیر معمولی موسمیاتی تبدیلیوں کی غیر محسوس تباہ کاریوں کا انداز ماضی کی بارشوں ، سیلابوں اور سمندری طوفانوں کے عالمی اور مقامی خطرات سے مختلف اور ہولناک ہے۔
گذشتہ بارشوں سے پورا ملک اور اس کے تمام شہر اور دیہی علاقوں میں تباہی اور خانماں بربادی کے جو دلگداز مناظر میڈیا میں نظر آئے وہ ریاستی و حکومتی سطح پر ناکافی اقدامات کی چغلی کھاتے رہے یا انتظامی محاذ پر ایسے پیشگی انتظامات کا فقدان نظر آیا جو قدرتی آفات ، غیر موسمی بارشوں اور موسموں کے عرصہ دراز سے جاری گلوبل تبدیلیوں سے بے خبری کا شاخسانہ تھے۔
بہر حال بارشوں ، سیلابوں اور دیگر فطرتی بربادیوں کی بروقت روک تھام کیلیے جو کچھ ہوسکتا تھا اس میں ارباب اختیار ، وفاقی وزرا، سینیٹرز اور تمام صوبائی حکومتوں کے ماہرین مل کر ایک میکنزم یا ماسٹر پلان کی تیاری کا قومی فریضہ انجام دیتے تو کے پی کے، گلگت بلتستان اور کشمیر سمیت دیگر علاقوں اور ان کے عوام کو مصائب ، مشکلات و تباہی سے اس شدت کے ساتھ دوچارنہ ہونا پڑتا۔ آخر موسمیاتی تبدیلوں کا بگل تو عالمی سطح پر دنیا بھر کے ایٹمی سائنسدانوں سے لے کر موسمیاتی ماہرین تک بجاتے رہتے ہیں۔
ہم اسے کیوں نہیں سنتے؟ وہاں کی عوام دوست حکومتیں سمندر میں آہنی دیواریں کھڑی کرچکی ہیں، سونامی اور بلا خیز طغیانی سے انسانی ہلاکتوں کو کم کرنے پر مفید اور قابل عمل اقدامات بروئے کار لائے گئے، مگر ہمارے حکمران وقتی بندوبست، فوری ریسکیو کیلیے جز وقتی اقدامات تک محدود حکمت عملی سے آگے نہیں بڑھتے ، برس ہا برس سے یہی ان کا طرز عمل رہا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہلاکتیں ، املاک و فصلوں کی تباہی اور شہروں اور دیہات کے ڈوبنے کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ بارشوں، سیلابوں ، لینڈ سلائیڈنگ اور پلوں و شاہراہوں کی بربادی کا سدباب کرنے کی ٹھوس منصوبہ بندی کے لیے ارباب بست وکشاد کب سر جوڑ کر بیٹھیں گے۔
یہ المیہ ہے کہ بارشوں اور سیلابوں سے ہونے والی تباہ کاریوں کا دائرہ کم کرنے کی بھی کوئی ملک گیر پلاننگ نہیں ہورہی ، سارا واویلا بارشوں اور سیلابوں کے بعد شروع ہوتا ہے جب کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے اس مستقل تجاہل عارفانہ کے قوم و ملک کو سنگین نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ طوفانی بارشوں کا دل دہلادینے والا منظر نامہ ذرا ملاحظہ ہو ، چھتیں، تودے ، آسمانی بجلی گرنے اور سیلابی ریلوں میں بہہ جانے سے بچوں اور خواتین سمیت71 افراد جاں بحق، درجنوں زخمی جب کہ مٹی کے تودے اور گلیشیئر گرنے سے سیکڑوں مکان تباہ جب کہ مختلف مقامات پر لینڈ سلائیڈنگ سے کئی راستے بند ہوگئے۔
کے پی کے میں 45، گلگت بلتستان میں 14جب کہ آزاد کشمیر میں 12افراد جاں بحق ہو ئے ، پشاور اور خیبر ایجنسی میں سیلابی ریلے میں 80 سے زائد دکانیں بہنے سے شہریوں کو لاکھوں کا نقصان ہوگیا، برساتی نالوں میں طغیانی سے متعدد پن بجلی گھر تباہ ہوگئے، شاہراہ قراقرم بند ہونے سے درجنوں مسافر گاڑیاں پھنس گئیں ۔
پشاور میں مسلسل بارش کی وجہ سے متعدد دیہات زیر آب آگئے، کٹاؤ کے باعث قراقرم ہائی وے سیلابی ریلے میں بہنے کا خدشہ ہے، دریائے چترال اور ندی نالوں میں غیر معمولی طغیانی سے رابطہ سڑکیں ہر قسم کی ٹریفک کیلیے بند ہیں، کوہستان میں بھی کئی رابطہ سڑکیں اور پل سیلابی ریلے میں بہہ گئے، بلوچستان میں قلعہ عبداللہ اور دیگر علاقوں میں بارش سے ندی نالوں میں طغیانی آگئی، ملک بھر کی طرح مظفرآباد سمیت آزاد کشمیر میں بھی بارشوں کے باعث مختلف رابطہ سڑکیں بند ہوگئیں، بجلی کا نظام درہم برہم ہو گیا۔
حقیقت میں مذکورہ بالا موسمیاتی تباہ کاریاں مستقبل کا ٹریلر ہیں ۔ ماہرین موسمی تبدیلیوں کو قیامت خیز اور تہذیبوں کے خاتمہ کا انتباہ قرار دے رہے ہیں، گارجین نے 26 جنوری2016ء کو اپنی رپورٹ میں خبردار کیا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیاں اور ایٹمی جنگ کے بڑھتے ہوئے خطرات قیامت کا سا ہنگامہ اٹھانے کو بے چین ہیں،ایٹمی سائنسدانوں نے1947ء سے ایک گھڑی تیار کررکھی ہے جسے1984 ء کی سرد جنگ کے موقع پر نصف شک کو دنیا کی بربادی کی ٹک ٹک سنانی تھی جب کہ پرنسٹن اور اسٹینفورڈ یونیورسٹی کیلیفوریا کی ایک سائنسی اعداد وشمار پر مبنی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرہ ارض کو حیاتیات کی تباہی کا سامنا ہے جو 65 ملین سال پہلے ڈائناسارز اور دیگر دیوقامت جنگی جانوروں کے نیست ونابود ہونے کاسبب بنی تھی۔
خود سائنسدانوں میں جنگ چھڑی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی سائنسی پیشگوئیوں پر سنجیدگی کا فقدان ہے۔ کم از کم حکمراں تو سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ سمندر کراچی سمیت ، سندھ وبلوچستان کی زمین کو نگل رہا ہے، ٹیوب ویلوں سے زیرزمین میٹھے پانی کے ذخائر ختم ہورہے ہیں، زیر زمین پانی کی سطح خوفناک حد تک نیچے چلی گئی ہے۔ گلیشیئرز پگھل رہے اور تودے گر رہے ہیں، قیمتی انسانی جانیں بارشوں اور سیلابوں کی نذر ہو رہی ہیں، سیم و تھور سے بچاؤ اور ممکنہ سمندری طوفان سے نمٹنے کیلیے منصوبہ بندی کب ہوگی؟ سیلابی پانی کیلیے جگہ جگہ آبی ذخائر کب بنیں گے ؟ خدارا سوچئے ، پانی سر سے اونچا ہوتا جارہا ہے۔
گذشتہ بارشوں سے پورا ملک اور اس کے تمام شہر اور دیہی علاقوں میں تباہی اور خانماں بربادی کے جو دلگداز مناظر میڈیا میں نظر آئے وہ ریاستی و حکومتی سطح پر ناکافی اقدامات کی چغلی کھاتے رہے یا انتظامی محاذ پر ایسے پیشگی انتظامات کا فقدان نظر آیا جو قدرتی آفات ، غیر موسمی بارشوں اور موسموں کے عرصہ دراز سے جاری گلوبل تبدیلیوں سے بے خبری کا شاخسانہ تھے۔
بہر حال بارشوں ، سیلابوں اور دیگر فطرتی بربادیوں کی بروقت روک تھام کیلیے جو کچھ ہوسکتا تھا اس میں ارباب اختیار ، وفاقی وزرا، سینیٹرز اور تمام صوبائی حکومتوں کے ماہرین مل کر ایک میکنزم یا ماسٹر پلان کی تیاری کا قومی فریضہ انجام دیتے تو کے پی کے، گلگت بلتستان اور کشمیر سمیت دیگر علاقوں اور ان کے عوام کو مصائب ، مشکلات و تباہی سے اس شدت کے ساتھ دوچارنہ ہونا پڑتا۔ آخر موسمیاتی تبدیلوں کا بگل تو عالمی سطح پر دنیا بھر کے ایٹمی سائنسدانوں سے لے کر موسمیاتی ماہرین تک بجاتے رہتے ہیں۔
ہم اسے کیوں نہیں سنتے؟ وہاں کی عوام دوست حکومتیں سمندر میں آہنی دیواریں کھڑی کرچکی ہیں، سونامی اور بلا خیز طغیانی سے انسانی ہلاکتوں کو کم کرنے پر مفید اور قابل عمل اقدامات بروئے کار لائے گئے، مگر ہمارے حکمران وقتی بندوبست، فوری ریسکیو کیلیے جز وقتی اقدامات تک محدود حکمت عملی سے آگے نہیں بڑھتے ، برس ہا برس سے یہی ان کا طرز عمل رہا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہلاکتیں ، املاک و فصلوں کی تباہی اور شہروں اور دیہات کے ڈوبنے کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ بارشوں، سیلابوں ، لینڈ سلائیڈنگ اور پلوں و شاہراہوں کی بربادی کا سدباب کرنے کی ٹھوس منصوبہ بندی کے لیے ارباب بست وکشاد کب سر جوڑ کر بیٹھیں گے۔
یہ المیہ ہے کہ بارشوں اور سیلابوں سے ہونے والی تباہ کاریوں کا دائرہ کم کرنے کی بھی کوئی ملک گیر پلاننگ نہیں ہورہی ، سارا واویلا بارشوں اور سیلابوں کے بعد شروع ہوتا ہے جب کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے اس مستقل تجاہل عارفانہ کے قوم و ملک کو سنگین نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ طوفانی بارشوں کا دل دہلادینے والا منظر نامہ ذرا ملاحظہ ہو ، چھتیں، تودے ، آسمانی بجلی گرنے اور سیلابی ریلوں میں بہہ جانے سے بچوں اور خواتین سمیت71 افراد جاں بحق، درجنوں زخمی جب کہ مٹی کے تودے اور گلیشیئر گرنے سے سیکڑوں مکان تباہ جب کہ مختلف مقامات پر لینڈ سلائیڈنگ سے کئی راستے بند ہوگئے۔
کے پی کے میں 45، گلگت بلتستان میں 14جب کہ آزاد کشمیر میں 12افراد جاں بحق ہو ئے ، پشاور اور خیبر ایجنسی میں سیلابی ریلے میں 80 سے زائد دکانیں بہنے سے شہریوں کو لاکھوں کا نقصان ہوگیا، برساتی نالوں میں طغیانی سے متعدد پن بجلی گھر تباہ ہوگئے، شاہراہ قراقرم بند ہونے سے درجنوں مسافر گاڑیاں پھنس گئیں ۔
پشاور میں مسلسل بارش کی وجہ سے متعدد دیہات زیر آب آگئے، کٹاؤ کے باعث قراقرم ہائی وے سیلابی ریلے میں بہنے کا خدشہ ہے، دریائے چترال اور ندی نالوں میں غیر معمولی طغیانی سے رابطہ سڑکیں ہر قسم کی ٹریفک کیلیے بند ہیں، کوہستان میں بھی کئی رابطہ سڑکیں اور پل سیلابی ریلے میں بہہ گئے، بلوچستان میں قلعہ عبداللہ اور دیگر علاقوں میں بارش سے ندی نالوں میں طغیانی آگئی، ملک بھر کی طرح مظفرآباد سمیت آزاد کشمیر میں بھی بارشوں کے باعث مختلف رابطہ سڑکیں بند ہوگئیں، بجلی کا نظام درہم برہم ہو گیا۔
حقیقت میں مذکورہ بالا موسمیاتی تباہ کاریاں مستقبل کا ٹریلر ہیں ۔ ماہرین موسمی تبدیلیوں کو قیامت خیز اور تہذیبوں کے خاتمہ کا انتباہ قرار دے رہے ہیں، گارجین نے 26 جنوری2016ء کو اپنی رپورٹ میں خبردار کیا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیاں اور ایٹمی جنگ کے بڑھتے ہوئے خطرات قیامت کا سا ہنگامہ اٹھانے کو بے چین ہیں،ایٹمی سائنسدانوں نے1947ء سے ایک گھڑی تیار کررکھی ہے جسے1984 ء کی سرد جنگ کے موقع پر نصف شک کو دنیا کی بربادی کی ٹک ٹک سنانی تھی جب کہ پرنسٹن اور اسٹینفورڈ یونیورسٹی کیلیفوریا کی ایک سائنسی اعداد وشمار پر مبنی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرہ ارض کو حیاتیات کی تباہی کا سامنا ہے جو 65 ملین سال پہلے ڈائناسارز اور دیگر دیوقامت جنگی جانوروں کے نیست ونابود ہونے کاسبب بنی تھی۔
خود سائنسدانوں میں جنگ چھڑی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی سائنسی پیشگوئیوں پر سنجیدگی کا فقدان ہے۔ کم از کم حکمراں تو سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ سمندر کراچی سمیت ، سندھ وبلوچستان کی زمین کو نگل رہا ہے، ٹیوب ویلوں سے زیرزمین میٹھے پانی کے ذخائر ختم ہورہے ہیں، زیر زمین پانی کی سطح خوفناک حد تک نیچے چلی گئی ہے۔ گلیشیئرز پگھل رہے اور تودے گر رہے ہیں، قیمتی انسانی جانیں بارشوں اور سیلابوں کی نذر ہو رہی ہیں، سیم و تھور سے بچاؤ اور ممکنہ سمندری طوفان سے نمٹنے کیلیے منصوبہ بندی کب ہوگی؟ سیلابی پانی کیلیے جگہ جگہ آبی ذخائر کب بنیں گے ؟ خدارا سوچئے ، پانی سر سے اونچا ہوتا جارہا ہے۔