کچی بستیوں سے کچی شراب تک
ٹنڈو محمد خان میں کچی شراب پینے سے 50 سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے
ٹنڈو محمد خان میں کچی شراب پینے سے 50 سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے، کئی متاثرہ افراد زیر علاج ہیں۔ کچی شراب پینے والوں میں ہندو بھی ہیں، مسلمان بھی ، مرد بھی شامل ہیں خواتین بھی۔ خواتین کی تعداد چھ ہے۔ میں نے اخباروں میں جب یہ خبر پڑھی تو میرے ذہن میں چند سوال پیدا ہوئے، پہلا سوال یہ تھا کہ کچی شراب غریب بستیوں ہی میں کیوں بنتی ہے، کلفٹن، ڈیفنس، پی ای سی ایچ ایس اور نارتھ ناظم آباد جیسی پوش بستیوں میں کیوں نہیں بنتی؟ غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ شراب کیوں پیتے ہیں؟
اگر پیتے ہی نہیں تو کچی اور زہریلی شراب کیوں پیتے ہیں؟ کیا غریب طبقات محض شوق کی خاطر کچی شراب پیتے ہیں؟ یہ اور اس قسم کے کئی سوال ذہن میں کانٹوں کی طرح چبھتے ہیں۔ شراب پوش بستیوں میں بھی پی جاتی ہے اور بہت زیادہ پی جاتی ہے، دھڑلے سے پی جاتی ہے لیکن یہ شراب نہ کچی ہوتی ہے نہ زہریلی بلکہ دنیا کی بہترین شراب ہوتی ہے، یہ اتنی قیمتی ہوتی ہے کہ ایک بوتل شراب کی قیمت میں ایک غریب خاندان ایک مہینہ گزر بسر کرسکتا ہے ۔ پوش بستیوں میں قانون کا داخلہ کیوں بند ہوتا ہے؟
کچی شراب بنانا اور استعمال کرنا قانوناً جرم ہے لیکن جن ملکوں میں قانون نافذ کرنے والے ادارے غیر قانونی کاموں کی سرپرستی کرتے ہوں اورغیر قانونی کاموں میں براہ راست خود حصہ لیتے ہوں کیا ان ملکوں میں غیرقانونی کاموں کو روکا جاسکتا ہے؟ کچی شراب کی بھٹیاں سندھ کے دیہی علاقوں ہی میں نہیں بلکہ کراچی جیسے ترقی یافتہ شہرکی کئی مضافاتی بستیوں میں بھی کچی شراب کی بھٹیاں دھڑلے سے شراب بنانے میں مصروف ہیں۔
کچی شراب کون لوگ استعمال کرتے ہیں اورکیوں کرتے ہیں؟ ان سوالوں پر غور کرنے کی نہ کسی عام یا خاص حکمران یا اپوزیشن کے پاس فرصت ہے نہ ضرورت ہے، ٹنڈو محمد خان میں مذکورہ شراب کی بھٹی اور شراب کی بھٹی کے مالک کا گھر مشتعل ہجوم نے جلادیا۔ چونکہ یہ اقدام فوری اشتعال کا نتیجہ تھا لہٰذا اس اقدام میں شامل لوگوں کو نہ مورد الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے نہ ان سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ 50 انسانوں کو موت دے کر اپنے جذبات کو قابو میں رکھ سکیںگے لیکن ذمے دار لوگوں کی مجرمانہ خاموشی اور بے شرمانہ سرپرستی کی وجہ سے یہ ایسے جنم لے رہے ہیں کیا عوام کی توجہ ان کی طرف مبذول ہوتی ہے؟
ہمارے دیہی علاقے خاص طور پر سندھ اور جنوبی پنجاب کے علاقے ابھی تک وڈیرہ شاہی کی گرفت میں ہیں اور ان علاقوں میں رہنے والے ہاری اورکسان غلاموں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ وڈیروں اور ان کی اولاد کا رویہ ہاریوں اور کسانوں کے ساتھ اس قدر تحقیر آمیز ہوتا ہے کہ ان کی عزت نفس پاش پاش ہوجاتی ہے۔ غریب طبقات کے ساتھ وڈیروں اور بڑے زمینداروں کا سلوک اس قدر بہیمانہ اور شرمناک ہوتا ہے کہ یہ طبقات اپنی بے بسی اور بے عزتی پر اندر ہی اندر کڑھتے رہتے ہیں اور یہی گھٹن اور احساس کمتری انھیں کچی شراب کی طرف لے جاتا ہے، غریب طبقات شراب شوقیہ طور پر یا سرور کا مزہ لینے کے لیے نہیں پیتے جیساکہ وڈیرہ برادری پیتی ہے۔
غریب کے پاس تو غم غلط کرنے کا یہی ایک سستا وسیلہ ہوتا ہے، اپنے ذہنوں میں چلنے والے احساس کمتری اور محرومیوں کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے غریب طبقات صرف کچی شراب ہی کا سہارا نہیں لیتے بلکہ مختلف سستی نشہ آور منشیات کا بھی بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں اس حوالے سے جامعہ کراچی میں ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں مقررین نے انکشاف کیا کہ 70 لاکھ سے زیادہ غریب نشہ کرتے ہیں۔نشے کے حوالے سے غریب طبقات کو جو منشیات دستیاب ہوتی ہیں۔
ان میں گھٹیا درجے کی اور کیمیکل ملی چرس، مختلف قسم کی سستی نشہ آور گولیاں،اسپرٹ اور نشہ آور گولیاں ملا کر تیار کی گئی شراب قابل ذکر ہیں، یہ منشیات عام طور پر محنت کش طبقات استعمال کرتے ہیں۔ میرے گھر پر گٹر کی صفائی کے لیے جو سوئیپر آتے ہیں وہ عموماً نشے میں ہوتے ہیں ۔
یہ سارے وہ محروم اور ستائے ہوئے لوگ ہیں جنھیں دو وقت کی روٹی بڑے مشکل سے ملتی ہے اور قدم قدم پر انھیں اپنی بے عزتی اور توہین کا سامنا رہتا ہے ۔کیا ہمارے حکمران اخبارات نہیں پڑھتے اور ٹی وی نہیں دیکھتے اس قسم کی خبریں دیکھ کر کیا انھیں احساس نہیں ہوتا کہ ان کی انتظامیہ کیا کررہی ہے اور کس کی سرپرستی میں یہ کام جاری ہے۔ 50 معصوم اور بے گناہوں کا قاتل محض کچی شراب پینے والا نہیں بلکہ اصل قاتل وہ لوگ ہیں جن کی سرپرستی میں یہ گھناؤنا کاروبار ہورہاہے، اصل قاتل وہ نظام ہے جس میں غریب کی قدم قدم پر توہین ہوتی ہے۔
ہمارے ملک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لیکن بے وسیلہ نوجوان حصول روزگار کے لیے برسوں دھکے کھاتے رہتے ہیں لیکن انھیں اپنی صلاحیتوں کے مطابق ملازمت نہیں ملتی جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنی معاشی مجبوریوں کی وجہ سے چپراسیوں کی ملازمت کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ ہمارے افسران اس قدر فرعون بنے ہوتے ہیں کہ ماتحتوں کے ساتھ ان کا رویہ انتہائی توہین آمیز ہوتا ہے لیکن معاشی مجبوریاں انھیں توہین برداشت کرنے پر مجبور کردیتی ہیں اور ان کی خود داری اور عزت نفسی بری طرح مجروح ہوتی ہے، یہ احساس مجبوری یا تو انھیں نفسیاتی بیماریوں کی طرف لے جاتا ہے یا وہ نشے کی طرف چلے جاتے ہیں۔
ہماری زمینی اشرافیہ کی فرعونیت کا عالم یہ ہے کہ ہاریوں اور کسانوں کے معصوم بچوں کے ہاتھ معمولی معمولی غلطیوں پر کاٹ دیتے ہیں جن کی تصویریں اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ پیغمبر اسلام نہ جاگیردار تھے نہ سرمایہ دار لیکن ہمارے مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کی طرف سے نہ جاگیرداری کے خلاف کوئی تحریک اٹھتی دکھائی دیتی ہے نہ سرمایہ داری کے خلاف کوئی میلوں لمبا جلوس نکالا جاتا ہے۔ہمارے ہزاروں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان نوکریوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور ہمارے محترم وزرا ہزاروں نوکریاں سرعام بیچ کروڑوں روپے کمارہے ہیں کیا یہ عوامل محروم عوام کو منشیات کچی شراب کی طرف نہیں لے جائیں گے؟
کچی زہریلی شراب پی کر جان سے جانے والے 50 افراد میں خواتین بھی ہیں، مرد بھی، ہندو بھی ہیں، مسلمان بھی جوان بھی ہیں بوڑھے بھی ۔ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کا دکھ مشترکہ ہے یہی دکھ انھیں کچی شراب کی طرف لے جاتا ہے ،کیا یہ مرحومین گنہگار ہیں یا بے گناہ ؟ معاشرہ ان سوالوں کے جواب چاہتا ہے؟
اگر پیتے ہی نہیں تو کچی اور زہریلی شراب کیوں پیتے ہیں؟ کیا غریب طبقات محض شوق کی خاطر کچی شراب پیتے ہیں؟ یہ اور اس قسم کے کئی سوال ذہن میں کانٹوں کی طرح چبھتے ہیں۔ شراب پوش بستیوں میں بھی پی جاتی ہے اور بہت زیادہ پی جاتی ہے، دھڑلے سے پی جاتی ہے لیکن یہ شراب نہ کچی ہوتی ہے نہ زہریلی بلکہ دنیا کی بہترین شراب ہوتی ہے، یہ اتنی قیمتی ہوتی ہے کہ ایک بوتل شراب کی قیمت میں ایک غریب خاندان ایک مہینہ گزر بسر کرسکتا ہے ۔ پوش بستیوں میں قانون کا داخلہ کیوں بند ہوتا ہے؟
کچی شراب بنانا اور استعمال کرنا قانوناً جرم ہے لیکن جن ملکوں میں قانون نافذ کرنے والے ادارے غیر قانونی کاموں کی سرپرستی کرتے ہوں اورغیر قانونی کاموں میں براہ راست خود حصہ لیتے ہوں کیا ان ملکوں میں غیرقانونی کاموں کو روکا جاسکتا ہے؟ کچی شراب کی بھٹیاں سندھ کے دیہی علاقوں ہی میں نہیں بلکہ کراچی جیسے ترقی یافتہ شہرکی کئی مضافاتی بستیوں میں بھی کچی شراب کی بھٹیاں دھڑلے سے شراب بنانے میں مصروف ہیں۔
کچی شراب کون لوگ استعمال کرتے ہیں اورکیوں کرتے ہیں؟ ان سوالوں پر غور کرنے کی نہ کسی عام یا خاص حکمران یا اپوزیشن کے پاس فرصت ہے نہ ضرورت ہے، ٹنڈو محمد خان میں مذکورہ شراب کی بھٹی اور شراب کی بھٹی کے مالک کا گھر مشتعل ہجوم نے جلادیا۔ چونکہ یہ اقدام فوری اشتعال کا نتیجہ تھا لہٰذا اس اقدام میں شامل لوگوں کو نہ مورد الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے نہ ان سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ 50 انسانوں کو موت دے کر اپنے جذبات کو قابو میں رکھ سکیںگے لیکن ذمے دار لوگوں کی مجرمانہ خاموشی اور بے شرمانہ سرپرستی کی وجہ سے یہ ایسے جنم لے رہے ہیں کیا عوام کی توجہ ان کی طرف مبذول ہوتی ہے؟
ہمارے دیہی علاقے خاص طور پر سندھ اور جنوبی پنجاب کے علاقے ابھی تک وڈیرہ شاہی کی گرفت میں ہیں اور ان علاقوں میں رہنے والے ہاری اورکسان غلاموں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ وڈیروں اور ان کی اولاد کا رویہ ہاریوں اور کسانوں کے ساتھ اس قدر تحقیر آمیز ہوتا ہے کہ ان کی عزت نفس پاش پاش ہوجاتی ہے۔ غریب طبقات کے ساتھ وڈیروں اور بڑے زمینداروں کا سلوک اس قدر بہیمانہ اور شرمناک ہوتا ہے کہ یہ طبقات اپنی بے بسی اور بے عزتی پر اندر ہی اندر کڑھتے رہتے ہیں اور یہی گھٹن اور احساس کمتری انھیں کچی شراب کی طرف لے جاتا ہے، غریب طبقات شراب شوقیہ طور پر یا سرور کا مزہ لینے کے لیے نہیں پیتے جیساکہ وڈیرہ برادری پیتی ہے۔
غریب کے پاس تو غم غلط کرنے کا یہی ایک سستا وسیلہ ہوتا ہے، اپنے ذہنوں میں چلنے والے احساس کمتری اور محرومیوں کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے غریب طبقات صرف کچی شراب ہی کا سہارا نہیں لیتے بلکہ مختلف سستی نشہ آور منشیات کا بھی بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں اس حوالے سے جامعہ کراچی میں ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں مقررین نے انکشاف کیا کہ 70 لاکھ سے زیادہ غریب نشہ کرتے ہیں۔نشے کے حوالے سے غریب طبقات کو جو منشیات دستیاب ہوتی ہیں۔
ان میں گھٹیا درجے کی اور کیمیکل ملی چرس، مختلف قسم کی سستی نشہ آور گولیاں،اسپرٹ اور نشہ آور گولیاں ملا کر تیار کی گئی شراب قابل ذکر ہیں، یہ منشیات عام طور پر محنت کش طبقات استعمال کرتے ہیں۔ میرے گھر پر گٹر کی صفائی کے لیے جو سوئیپر آتے ہیں وہ عموماً نشے میں ہوتے ہیں ۔
یہ سارے وہ محروم اور ستائے ہوئے لوگ ہیں جنھیں دو وقت کی روٹی بڑے مشکل سے ملتی ہے اور قدم قدم پر انھیں اپنی بے عزتی اور توہین کا سامنا رہتا ہے ۔کیا ہمارے حکمران اخبارات نہیں پڑھتے اور ٹی وی نہیں دیکھتے اس قسم کی خبریں دیکھ کر کیا انھیں احساس نہیں ہوتا کہ ان کی انتظامیہ کیا کررہی ہے اور کس کی سرپرستی میں یہ کام جاری ہے۔ 50 معصوم اور بے گناہوں کا قاتل محض کچی شراب پینے والا نہیں بلکہ اصل قاتل وہ لوگ ہیں جن کی سرپرستی میں یہ گھناؤنا کاروبار ہورہاہے، اصل قاتل وہ نظام ہے جس میں غریب کی قدم قدم پر توہین ہوتی ہے۔
ہمارے ملک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لیکن بے وسیلہ نوجوان حصول روزگار کے لیے برسوں دھکے کھاتے رہتے ہیں لیکن انھیں اپنی صلاحیتوں کے مطابق ملازمت نہیں ملتی جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنی معاشی مجبوریوں کی وجہ سے چپراسیوں کی ملازمت کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ ہمارے افسران اس قدر فرعون بنے ہوتے ہیں کہ ماتحتوں کے ساتھ ان کا رویہ انتہائی توہین آمیز ہوتا ہے لیکن معاشی مجبوریاں انھیں توہین برداشت کرنے پر مجبور کردیتی ہیں اور ان کی خود داری اور عزت نفسی بری طرح مجروح ہوتی ہے، یہ احساس مجبوری یا تو انھیں نفسیاتی بیماریوں کی طرف لے جاتا ہے یا وہ نشے کی طرف چلے جاتے ہیں۔
ہماری زمینی اشرافیہ کی فرعونیت کا عالم یہ ہے کہ ہاریوں اور کسانوں کے معصوم بچوں کے ہاتھ معمولی معمولی غلطیوں پر کاٹ دیتے ہیں جن کی تصویریں اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ پیغمبر اسلام نہ جاگیردار تھے نہ سرمایہ دار لیکن ہمارے مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کی طرف سے نہ جاگیرداری کے خلاف کوئی تحریک اٹھتی دکھائی دیتی ہے نہ سرمایہ داری کے خلاف کوئی میلوں لمبا جلوس نکالا جاتا ہے۔ہمارے ہزاروں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان نوکریوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور ہمارے محترم وزرا ہزاروں نوکریاں سرعام بیچ کروڑوں روپے کمارہے ہیں کیا یہ عوامل محروم عوام کو منشیات کچی شراب کی طرف نہیں لے جائیں گے؟
کچی زہریلی شراب پی کر جان سے جانے والے 50 افراد میں خواتین بھی ہیں، مرد بھی، ہندو بھی ہیں، مسلمان بھی جوان بھی ہیں بوڑھے بھی ۔ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کا دکھ مشترکہ ہے یہی دکھ انھیں کچی شراب کی طرف لے جاتا ہے ،کیا یہ مرحومین گنہگار ہیں یا بے گناہ ؟ معاشرہ ان سوالوں کے جواب چاہتا ہے؟