لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام
قول اور فعل کا تضاد ہمارے معاشرے کا بہت بڑا المیہ ہے۔ جوکہتے کچھ ہیں اورکرتے کچھ اور ہیں۔
قول اور فعل کا تضاد ہمارے معاشرے کا بہت بڑا المیہ ہے۔ جوکہتے کچھ ہیں اورکرتے کچھ اور ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہمارا خاندانی نظام ہے جس میں عورت کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ وہ ہماری ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی شکل میں مرکزی اہمیت کی حامل ہے۔
مگر یہ اہمیت زیادہ تر زبانی کلامی ہی رہ گئی ہے کیونکہ اب تو اخبارات میں ناخلف اولاد کے ہاتھوں ماں کے قتل جیسی سنگین اور انتہائی شرمناک وارداتوں کی خبریں بھی تواتر سے شایع ہو رہی ہیں جنھیں پڑھ کر بے اختیار رونا آجاتا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کی خبریں تو اب گویا روزمرہ کا معمول بن چکی ہیں اور شوہر کے ہاتھوں بیوی کے زدوکوب کیے جانے کے واقعات کا تو اب کوئی شمار ہی نہیں ہے۔اس کے علاوہ گھریلو ملازماؤں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات کی تعداد میں بھی روز بہ روز تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے جو ہماری انتہا سے زیادہ اخلاقی پستی کا کھلا ثبوت ہے۔ عورت کے ساتھ حد سے زیادہ زیادتی سے دل برداشتہ ہوکر ہی ساحر لدھیانوی کو مجبوراً کہنا پڑا کہ:
عورت نے جنم دیا مردوں کو
مردوں نے اسے بازار دیا
جب جی چاہا مسلا کچلا
جب جی چاہا دھتکار دیا
اس تناظر میں اگر بے چاری لیڈی ہیلتھ ورکرز کے حالات اور مسائل پر نظر ڈالی جائے تو بے حد افسوس ہوتا ہے۔ یہ خدمت خلق کی خاطر در درکی خاک چھانتی پھرتی ہیں۔ ''ہیں بندۂ مزدور کے اوقات بہت تلخ'' والا مصرعہ ان مظلوموں پر حرف بہ حرف صادق آتا ہے۔ ان کی نہ تو نوکری محفوظ ہے اور نہ ہی انھیں ان کی محنت اور مشقت کا معاوضہ وقت پر ملتا ہے۔ انھیں Kits اور ادویات بھی وقت پر مہیا نہیں کی جاتیں جس کی وجہ سے انھیں اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں بھی اکثروبیشتر دشواری پیش آتی ہے۔
اس کا تازہ ترین ثبوت سندھ کے قحط زدہ علاقے تھرپارکر ضلع کے وہ افسران ہیں جنھوں نے ایک مانیٹرنگ ٹیم کو بریفنگ کے دوران یہ انکشاف کیا کہ 2014 کے مقامی صحت کے بحران کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ لیڈی ہیلتھ پروگرام بری طرح ناکام ہوگیا تھا۔ اس پروگرام کی تباہی دو رخی تھی۔
ایک جانب وفاقی حکومت نے اس پروگرام کے لیے فنڈز روک دیے اور دوسری طرف حکومت سندھ نے اس پروگرام کے لیے وسائل ہی مختص نہیں کیے۔ 642 لیڈی ہیلتھ ورکرز اور 22 لیڈی ہیلتھ سپروائزرز کو جن کی خدمات ضلع کے 42 فیصد علاقے کے لیے درکار تھیں نہ تو مطلوبہ ادویات فراہم کی گئیں اور نہ ہی ان کے معاوضے کی ادائیگی کی گئی۔ بقیہ 58 فیصد علاقہ لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام سے بالکل ہی محروم رہ گیا جوکہ ستم بالائے ستم کے مترادف تھا۔
اسے اگر لیڈی ہیلتھ ورکرز کے ساتھ سراسر بے انصافی اور عوامی صحت کے ساتھ کھلواڑ نہ کہا جائے تو پھر بھلا اسے اور کیا نام دیا جائے۔ تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق حالات کی ستائی ہوئی لیڈی ہیلتھ ورکرز کو وزیر اعلیٰ ہاؤس کے باہر دھرنا دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ان کا مطالبہ تھا کہ انھیں ان کی تنخواہ وقت پر ادا کی جائے اور ان کے سروس اسٹرکچر کو بہتر بنایا جائے۔
لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام کا آغاز 1990 میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے حکم پرکیا گیا تھا اور اس پروگرام کو دنیا بھر میں کمیونٹی کی بنیاد پر چلنے والا بہت بڑا ہیلتھ پروگرام تسلیم کیا جاتا ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرزکا رول صحت عامہ کے حوالے سے کلیدی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس سے زچہ و بچہ کی بنیادی صحت کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرکا کام کوئی ہنسی کھیل نہیں بلکہ یہ ایک انتہائی دشوار اور محنت طلب کام ہے۔
اس کے لیے بنیادی تعلیم لازمی ہے جوکہ اسکول کی آٹھ سالہ تعلیم پر مشتمل ہے۔ ایک لیڈی ہیلتھ ورکرز کے حصے میں ایک ہزار افراد شامل ہیں۔ اسے 150 گھروں کی دیکھ بھال کرنی ہے اور روزانہ کم ازکم 7 گھروں کا معائنہ کرنا ہوتا ہے۔ اسے عام قسم کی بیماریوں کی تشخیص اور علاج کے لیے 15 ماہ کی تربیت دی جاتی ہے اور مسلسل تین ماہ تک کلاس میں حاضری دینا ہوتی ہے۔
پھر اس کے بعد اسے 12 ماہ تک اس کی جاب پر کام کرنے کی عملی تربیت دی جاتی ہے۔ اس کے کام کا دائرہ بھی بڑا وسیع ہے جس میں نوعیت کے اعتبار سے 20 مختلف کام شامل ہیں جس میں خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق امور بھی شامل ہیں۔ زچہ و بچہ کی صحت کی نگہداشت کے علاوہ بیماریوں کے خلاف مدافعتی اقدامات اس کے علاوہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت ایک لاکھ تیرہ ہزار سے زائد لیڈی ہیلتھ ورکرز ملک کی 60 تا 70 فیصد آبادی کی عمومی صحت کی نگہداشت کے کام پر مامور ہیں۔ان کے ذمے گاؤں دیہات اور کم آمدنی والے شہری افرادکی صحت کی دیکھ بھال کرنا ہے۔
ان تمام فرائض کی انجام دہی کے عوض ان لیڈی ہیلتھ ورکرز کو جو معاوضہ ادا کیا جاتا تھا وہ ناقابل بیان حد تک ناکافی اور شرمناک تھا یعنی صرف تین ہزار روپے ماہانہ۔ اس پر بھی ستم یہ کہ نہ انھیں کوئی اور مراعات حاصل تھیں اور نہ ہی ان کی نوکری کو تحفظ حاصل تھا۔ یعنی ان کے سروں پر بے روزگاری کی تلوار ہر لمحہ لٹکی رہتی تھی۔
بے انصافی کا یہ سلسلہ نہ جانے کب تک اسی طرح جاری رہتا تاآں کہ ایک ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آیا ہوتا۔ ہوا یوں کہ زچگی کے دوران ایک لیڈی ہیلتھ ورکر کی موت نے سب کوگویا سوتے سے جگا دیا اور بشریٰ آرائیں نامی ایک لیڈی ہیلتھ سپروائزر نے اپنی رفقائے کار کے حق میں علم بغاوت بلندکردیا۔ دسمبر 2008 میں آل پاکستان لیڈی ہیلتھ ورکرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا اور پھر یہ تنظیم متحرک ہوتی چلی گئی۔ 2009 کے شروع ہوتے ہی ہر ضلع میں ایک ''باجی'' کا تقررکردیا گیا جس کا کام لیڈی ہیلتھ ورکرز کو فعال اور متحرک کرنا تھا۔ پھر اگلے ہی سال یعنی 2010 میں چاروں صوبوں کی لیڈی ہیلتھ ورکرز نے اپنے معاوضوں میں اضافے اور انھیں ریگولر ہیلتھ سروسز میں شامل کرنے کے حق میں سڑکوں پر مظاہرے کیے اور جلوس نکالے۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ تھا جب لیڈی ہیلتھ ورکرز نے اتنی زبردست یکجہتی اور جرأت مندی کا مظاہرہ کیا، مگر اس کے باوجود حکومت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس پر مجرمانہ حد تک چپ سادھ لی۔
چار و ناچار مظلوم لیڈی ہیلتھ ورکرز نے سپریم کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کرکے انصاف کے دروازے پر دستک دی۔ عدالت نے ستمبر 2010 میں صوبوں کو ان کی سروسز کو ریگولرائزڈ کرنے کے احکامات صادرکردیے اور اس کے علاوہ ان کی تنخواہ تین ہزار روپے ماہانہ سے بڑھا کر قومی سطح کے کم ازکم معاوضے یعنی 7 ہزار روپے ماہانہ تک بڑھانے کا حکم نامہ بھی جاری کردیا۔ پھر 2015 تک کم ازکم معاوضہ 13 ہزار روپے ماہانہ مقرر ہوگیا۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں غریب کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی اور اسے اپنے جائز حقوق کے لیے بھی بڑی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ اس جدوجہد میں بڑے بڑے سنگین مراحل بھی آتے ہیں جب اچھے اچھوں کے قدم بھی ڈگمگانے لگتے ہیں۔
اول تو حکومت ہی ان کی سنی ان سنی کردیتی ہے اور اگر مزدورکے حق میں کوئی عدالتی فیصلہ آ بھی جائے تواس کے نفاذ میں سرکارکے کرتا دھرتا طرح طرح کے روڑے اٹکانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے۔ چنانچہ سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں نے سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت لیڈی ہیلتھ ورکرزکی پوزیشن کو بڑی مشکل سے مستحکم ہونے دیا ہے اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کو گریڈ 5 اور لیڈی ہیلتھ سپروائزرز کو گریڈ 7بڑی کٹ حجتی کے بعد دیا ہے اور صوبہ پنجاب کی حکومت نے تو لیڈی ہیلتھ ورکرز کی ہیلتھ سروسز میں شامل کرنے کے بجائے ایک اتھارٹی کے ماتحت کرکے چھوڑ دیا ہے۔
وفاقی حکومت نے لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام کے لیے ہر سال ضرورت سے بہت کم بجٹ مختص کیا جب کہ Devolution کے بعد صوبائی حکومتوں نے بھی سرد مہری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہی رویہ اختیارکیا ہے جس کے نتیجے میں اس 22 سالہ پروگرام کو وہ مطلوبہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی جس مقصد سے اس کا آغاز کیا گیا تھا۔ صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے صحت کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کریں اور لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام کے لیے خاطر خواہ رقوم مختصر کریں تاکہ یہ پروگرام اپنے بنیادی مقاصد حاصل کرسکے اور غریب عوام اس کے ثمرات سے مستفید ہوسکیں۔
مگر یہ اہمیت زیادہ تر زبانی کلامی ہی رہ گئی ہے کیونکہ اب تو اخبارات میں ناخلف اولاد کے ہاتھوں ماں کے قتل جیسی سنگین اور انتہائی شرمناک وارداتوں کی خبریں بھی تواتر سے شایع ہو رہی ہیں جنھیں پڑھ کر بے اختیار رونا آجاتا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کی خبریں تو اب گویا روزمرہ کا معمول بن چکی ہیں اور شوہر کے ہاتھوں بیوی کے زدوکوب کیے جانے کے واقعات کا تو اب کوئی شمار ہی نہیں ہے۔اس کے علاوہ گھریلو ملازماؤں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات کی تعداد میں بھی روز بہ روز تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے جو ہماری انتہا سے زیادہ اخلاقی پستی کا کھلا ثبوت ہے۔ عورت کے ساتھ حد سے زیادہ زیادتی سے دل برداشتہ ہوکر ہی ساحر لدھیانوی کو مجبوراً کہنا پڑا کہ:
عورت نے جنم دیا مردوں کو
مردوں نے اسے بازار دیا
جب جی چاہا مسلا کچلا
جب جی چاہا دھتکار دیا
اس تناظر میں اگر بے چاری لیڈی ہیلتھ ورکرز کے حالات اور مسائل پر نظر ڈالی جائے تو بے حد افسوس ہوتا ہے۔ یہ خدمت خلق کی خاطر در درکی خاک چھانتی پھرتی ہیں۔ ''ہیں بندۂ مزدور کے اوقات بہت تلخ'' والا مصرعہ ان مظلوموں پر حرف بہ حرف صادق آتا ہے۔ ان کی نہ تو نوکری محفوظ ہے اور نہ ہی انھیں ان کی محنت اور مشقت کا معاوضہ وقت پر ملتا ہے۔ انھیں Kits اور ادویات بھی وقت پر مہیا نہیں کی جاتیں جس کی وجہ سے انھیں اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں بھی اکثروبیشتر دشواری پیش آتی ہے۔
اس کا تازہ ترین ثبوت سندھ کے قحط زدہ علاقے تھرپارکر ضلع کے وہ افسران ہیں جنھوں نے ایک مانیٹرنگ ٹیم کو بریفنگ کے دوران یہ انکشاف کیا کہ 2014 کے مقامی صحت کے بحران کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ لیڈی ہیلتھ پروگرام بری طرح ناکام ہوگیا تھا۔ اس پروگرام کی تباہی دو رخی تھی۔
ایک جانب وفاقی حکومت نے اس پروگرام کے لیے فنڈز روک دیے اور دوسری طرف حکومت سندھ نے اس پروگرام کے لیے وسائل ہی مختص نہیں کیے۔ 642 لیڈی ہیلتھ ورکرز اور 22 لیڈی ہیلتھ سپروائزرز کو جن کی خدمات ضلع کے 42 فیصد علاقے کے لیے درکار تھیں نہ تو مطلوبہ ادویات فراہم کی گئیں اور نہ ہی ان کے معاوضے کی ادائیگی کی گئی۔ بقیہ 58 فیصد علاقہ لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام سے بالکل ہی محروم رہ گیا جوکہ ستم بالائے ستم کے مترادف تھا۔
اسے اگر لیڈی ہیلتھ ورکرز کے ساتھ سراسر بے انصافی اور عوامی صحت کے ساتھ کھلواڑ نہ کہا جائے تو پھر بھلا اسے اور کیا نام دیا جائے۔ تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق حالات کی ستائی ہوئی لیڈی ہیلتھ ورکرز کو وزیر اعلیٰ ہاؤس کے باہر دھرنا دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ان کا مطالبہ تھا کہ انھیں ان کی تنخواہ وقت پر ادا کی جائے اور ان کے سروس اسٹرکچر کو بہتر بنایا جائے۔
لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام کا آغاز 1990 میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے حکم پرکیا گیا تھا اور اس پروگرام کو دنیا بھر میں کمیونٹی کی بنیاد پر چلنے والا بہت بڑا ہیلتھ پروگرام تسلیم کیا جاتا ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرزکا رول صحت عامہ کے حوالے سے کلیدی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس سے زچہ و بچہ کی بنیادی صحت کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرکا کام کوئی ہنسی کھیل نہیں بلکہ یہ ایک انتہائی دشوار اور محنت طلب کام ہے۔
اس کے لیے بنیادی تعلیم لازمی ہے جوکہ اسکول کی آٹھ سالہ تعلیم پر مشتمل ہے۔ ایک لیڈی ہیلتھ ورکرز کے حصے میں ایک ہزار افراد شامل ہیں۔ اسے 150 گھروں کی دیکھ بھال کرنی ہے اور روزانہ کم ازکم 7 گھروں کا معائنہ کرنا ہوتا ہے۔ اسے عام قسم کی بیماریوں کی تشخیص اور علاج کے لیے 15 ماہ کی تربیت دی جاتی ہے اور مسلسل تین ماہ تک کلاس میں حاضری دینا ہوتی ہے۔
پھر اس کے بعد اسے 12 ماہ تک اس کی جاب پر کام کرنے کی عملی تربیت دی جاتی ہے۔ اس کے کام کا دائرہ بھی بڑا وسیع ہے جس میں نوعیت کے اعتبار سے 20 مختلف کام شامل ہیں جس میں خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق امور بھی شامل ہیں۔ زچہ و بچہ کی صحت کی نگہداشت کے علاوہ بیماریوں کے خلاف مدافعتی اقدامات اس کے علاوہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت ایک لاکھ تیرہ ہزار سے زائد لیڈی ہیلتھ ورکرز ملک کی 60 تا 70 فیصد آبادی کی عمومی صحت کی نگہداشت کے کام پر مامور ہیں۔ان کے ذمے گاؤں دیہات اور کم آمدنی والے شہری افرادکی صحت کی دیکھ بھال کرنا ہے۔
ان تمام فرائض کی انجام دہی کے عوض ان لیڈی ہیلتھ ورکرز کو جو معاوضہ ادا کیا جاتا تھا وہ ناقابل بیان حد تک ناکافی اور شرمناک تھا یعنی صرف تین ہزار روپے ماہانہ۔ اس پر بھی ستم یہ کہ نہ انھیں کوئی اور مراعات حاصل تھیں اور نہ ہی ان کی نوکری کو تحفظ حاصل تھا۔ یعنی ان کے سروں پر بے روزگاری کی تلوار ہر لمحہ لٹکی رہتی تھی۔
بے انصافی کا یہ سلسلہ نہ جانے کب تک اسی طرح جاری رہتا تاآں کہ ایک ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آیا ہوتا۔ ہوا یوں کہ زچگی کے دوران ایک لیڈی ہیلتھ ورکر کی موت نے سب کوگویا سوتے سے جگا دیا اور بشریٰ آرائیں نامی ایک لیڈی ہیلتھ سپروائزر نے اپنی رفقائے کار کے حق میں علم بغاوت بلندکردیا۔ دسمبر 2008 میں آل پاکستان لیڈی ہیلتھ ورکرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا اور پھر یہ تنظیم متحرک ہوتی چلی گئی۔ 2009 کے شروع ہوتے ہی ہر ضلع میں ایک ''باجی'' کا تقررکردیا گیا جس کا کام لیڈی ہیلتھ ورکرز کو فعال اور متحرک کرنا تھا۔ پھر اگلے ہی سال یعنی 2010 میں چاروں صوبوں کی لیڈی ہیلتھ ورکرز نے اپنے معاوضوں میں اضافے اور انھیں ریگولر ہیلتھ سروسز میں شامل کرنے کے حق میں سڑکوں پر مظاہرے کیے اور جلوس نکالے۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ تھا جب لیڈی ہیلتھ ورکرز نے اتنی زبردست یکجہتی اور جرأت مندی کا مظاہرہ کیا، مگر اس کے باوجود حکومت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس پر مجرمانہ حد تک چپ سادھ لی۔
چار و ناچار مظلوم لیڈی ہیلتھ ورکرز نے سپریم کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کرکے انصاف کے دروازے پر دستک دی۔ عدالت نے ستمبر 2010 میں صوبوں کو ان کی سروسز کو ریگولرائزڈ کرنے کے احکامات صادرکردیے اور اس کے علاوہ ان کی تنخواہ تین ہزار روپے ماہانہ سے بڑھا کر قومی سطح کے کم ازکم معاوضے یعنی 7 ہزار روپے ماہانہ تک بڑھانے کا حکم نامہ بھی جاری کردیا۔ پھر 2015 تک کم ازکم معاوضہ 13 ہزار روپے ماہانہ مقرر ہوگیا۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں غریب کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی اور اسے اپنے جائز حقوق کے لیے بھی بڑی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ اس جدوجہد میں بڑے بڑے سنگین مراحل بھی آتے ہیں جب اچھے اچھوں کے قدم بھی ڈگمگانے لگتے ہیں۔
اول تو حکومت ہی ان کی سنی ان سنی کردیتی ہے اور اگر مزدورکے حق میں کوئی عدالتی فیصلہ آ بھی جائے تواس کے نفاذ میں سرکارکے کرتا دھرتا طرح طرح کے روڑے اٹکانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے۔ چنانچہ سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں نے سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت لیڈی ہیلتھ ورکرزکی پوزیشن کو بڑی مشکل سے مستحکم ہونے دیا ہے اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کو گریڈ 5 اور لیڈی ہیلتھ سپروائزرز کو گریڈ 7بڑی کٹ حجتی کے بعد دیا ہے اور صوبہ پنجاب کی حکومت نے تو لیڈی ہیلتھ ورکرز کی ہیلتھ سروسز میں شامل کرنے کے بجائے ایک اتھارٹی کے ماتحت کرکے چھوڑ دیا ہے۔
وفاقی حکومت نے لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام کے لیے ہر سال ضرورت سے بہت کم بجٹ مختص کیا جب کہ Devolution کے بعد صوبائی حکومتوں نے بھی سرد مہری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہی رویہ اختیارکیا ہے جس کے نتیجے میں اس 22 سالہ پروگرام کو وہ مطلوبہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی جس مقصد سے اس کا آغاز کیا گیا تھا۔ صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے صحت کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کریں اور لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام کے لیے خاطر خواہ رقوم مختصر کریں تاکہ یہ پروگرام اپنے بنیادی مقاصد حاصل کرسکے اور غریب عوام اس کے ثمرات سے مستفید ہوسکیں۔