میڈیا کا سحر اور ہماری زندگی
یوں ایک بڑی معاشی، معاشرتی، سیاسی ،ثقافتی اور ریاستی تبدیلی واقع ہوئی
جاوید صاحب کی بیٹی کا رزلٹ آیا تو وہ بہت خوش تھے، کہنے لگے کہ نئی کتابوں کا خرچہ بھی ہے اور نئے موبائل کا خرچہ بھی! میں نے کہا کہ ابھی تو آپ کی بیٹی پانچویں جماعت میں گئی ہے اس کو موبائل کی کیا ضرورت ؟ بولے کہ بیٹی نے وعدہ لیا تھا کہ اگر وہ اچھے نمبرز سے پاس ہوگئی تو وہ انعام میں نئے ماڈل کا ٹچ موبائل لے گی۔ میں نے کہا کہ اس کو کیا پتہ کہ نئے ماڈل کا ٹچ موبائل کیسا ہوتا ہے؟ جاوید صاحب کہنے لگے کہ بھئی گھر میں موجود ٹی وی آج کل کے بچوں کو سب کچھ بتا دیتا ہے۔
اپنے دوست جاویدکی بات سن کر مجھے یاد آیا کہ آج سے کوئی پندرہ سال پہلے سری لنکا کی پارلیمنٹ نے ٹی وی پر باربی ڈول کے اشتہار پر پابندی لگا دی تھی اور وجہ یہ بیان کی تھی کہ چونکہ عوام کی اکثریت اس قیمتی گڑیا کو خریدنے کی مالی پوزیشن نہیں رکھتی، لٰہذا بچوں میں احساس کمتری پیدا ہو سکتا ہے۔
امریکا میںایک خاتون ڈاکٹر نے ریسرچ کی اور بتایا کہ ٹی وی پر پیش کیے جانے والے اشتہارات کے باعث بچوں کو کی گئی ایک اچھی نصیحت بھی بے کار جاتی ہے کیونکہ اشتہارات اس قدر سحرانگیز ہوتے ہیں کہ بچے کسی اور کی بات سننے اور ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے، یہی وجہ ہے کہ امریکا میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اشتہارات کی اس قسم کی سحر انگیزی اور مبالغہ آرائی کے خلاف تحریک چلی اور حکومت کو کچھ قوانین بنانے پڑے یوں امریکا میں پہلی مرتبہ اے بی سی ( آڈٹ بیورو سرکولیشن) کا قیام عمل میں آیا۔
اس سلسلے میں ایک امریکی مصنف گرانٹ ڈیوڈ کی بات بھلی لگتی ہے، اس نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ جناب صنعتی انقلاب industirial revolation نہیں تھا بلکہ یہ ایک consumer revolation تھا ،یعنی یہ ایک ایسا انقلاب تھا کہ جس سے صارفین پیدا کیے گئے، دراصل مشینوں کے انقلاب کے نتیجے میں انسان کے استعمال کی اشیاء انسان کی ضرورت کے مقابلے میں کہیں زیادہ تعداد میں( یعنی سرپلس) بنائی جانے لگیں اور پھر ان اشیاء کے صارفین(یعنی اشیاء کواستعمال کرنے والے) بڑی تعداد میں پیدا کیے گئے۔
یوں ایک بڑی معاشی، معاشرتی، سیاسی ،ثقافتی اور ریاستی تبدیلی واقع ہوئی۔ گرانٹ ڈیوڈ کی بات تو صد فیصد درست ہے کیونکہ اس انقلاب سے پہلے مغرب میں نہ تو فیشن انڈسٹری تھی، نہ تفریحی، فلمی اور نہ ہی اس معاشرے میں سلمنگ کلب، جیمز اور نہ ہی ڈے کیئر سینٹر اور اولڈ ہاؤسز یا خودکشی کرنے کے مراکز وغیرہ تھے۔ مگر یہاں ایک سوال یہ ہے کہ آخر ایک انسان وہ سرپلس اشیاء خرید نے پر مجبور کیوں ہوا جو کہ اس کی ضرورت ہی نہ تھی؟ اس بات کا جواب یہ ہے کہ ان سرپلس اشیاء کو فروخت کرنے کے لیے ایسے سحر انگیز اشتہارات بنائے گئے کہ دیکھنے والا اس کے سحر میں مبتلا ہو کر کوئی شئے خریدتے وقت یہ نہیں دیکھتا کہ وہ اس کی ضرورت بھی ہے یا نہیں؟ میڈیا کے استعمال سے انسان کے ذہنوں میں ان چیزوں کی خواہشوں کے انبار لگنے لگے جو اس کی ضرورت ہی نہ تھی۔
یوں ایک شخص اپنی خواہش اور ضرورت کا فرق بھلا بیٹھا ہے اور وہ اپنی خواہش کو اپنی ضرورت سمجھتا ہے۔ اس طرح وہ اس شئے کو بھی خریدنے کی پوری کوشش کرتا ہے جو اس کی ضرورت ہرگز نہیں ہوسکتی۔ اس ضمن میں ایک امریکی مارکیٹر کہتا ہے کہ ہم نے امریکی ماؤں کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی ہے کہ وہ ایک بہترین ماں اس وقت تک نہیں ہو سکتیں جب تک کہ وہ اپنے بچے کو ان کی کمپنی کا دودھ نہ پلائیں۔
امریکا میں ایک لپ اسٹک کی کمپنی جس کی سالانہ آمدنی ہزاروں ڈالر میں تھی، اس نے جب 1950 میں ٹی وی پر اشتہارات دینے کا آغاز کیا تو خواتین کی ایک بڑی تعداد اس کی صارف بن گئی یوں اس کی آمدنی لاکھوں ڈالر میں بدل گئی۔ پی ایچ ڈی کے ایک محقق استاد کا کہنا ہے کہ صرف اشتہارات ہی نہیں بلکہ پورا میڈیا ہی معاشرے میں consumption کی نفسیات پھیلاتا ہے۔
پرانی اشیاء کے استعمال کے رحجان کو ختم کرنے کے اور نت نئی اشیاء استعمال کرنے کے رحجان کو فروغ دیتا ہے اور سادگی اختیار کرنے کا مخالف درس دیتا ہے کیونکہ سادگی اختیار کرنے سے سرمایہ دار کا پہیہ نہیں چلے گا اور جب یہ نہ ہوگا تو میڈیا کو اشتہارات بھی نہیں ملیں گے ۔ لہذا اگر لوگ زیادہ سے زیادہ فضول خرچی کریں گے زیادہ سے زیادہ اشیاء خریدیں گے، استعمال کریں گے تو میڈیا ، اشتہاری کمپنیوں اور سرمایہ داروں کا کاروبار بھی چلے گا۔ اسی تناظر میں مشہور ماہر معاشیات آدم اسمتھ نے کہا تھا کہ virtuman یعنی مذہبی (سادہ) آدمی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے کیونکہ وہ سادگی کی ترغیب دیتا ہے اور سادگی ترقی کا الٹ ہے۔ترقی کرنا ہے تو سادگی کو خیر باد کہنا ہوگا۔
سادگی کا درس کون دیتا ہے؟ غورکیا جائے تو یہ تصور مذہب دیتا ہے کہ انسان کو سادگی اختیار کرنی چاہیے، دین اسلام میں بھی سادگی کا درس ہے، سنت نبویﷺ بھی سادگی پر مبنی ہے۔ پرانے کپڑے پہننا، پیوند لگے کپڑے پہننا، چپلوں کو مرمت کرکے پہننا، سادہ لباس اور سادہ غذا کا استعمال کرنا، یہ سب مذہبی تعلیمات ہیں۔ دین تو میانہ روی کا درس دیتا ہے، امام غزالی سنت کی روشنی میں فرماتے ہیں کہ گفتگو میں بھی کم سے کم کا خیال رکھنا چاہییے۔
لیکن میڈیا سے ان تمام کے برخلاف پیغامات ملتے ہیں، مثلاً موبائل فون کمپنیاں زیادہ سے زیادہ فون استعمال کرنے کا پیغام دیتی ہیں، مشروبات کی کمپنیاں زیادہ سے زیادہ پینے کاپیغام دیتی ہیں اور اس تمام عمل میں اخلاقیات بھی ایک طرف رہ جاتی ہیں ، مثلاً ایک ہی مشروب کی کمپنی میچ میں دونوں ملکوں کے عوام کو اپنا صارف بنانے کے لیے ایک ہی وقت اور ایک ہی میچ میںاس قسم کے نعرے دیتی ہے کہ آپ کی ہی ٹیم جیتے گی، اور جو ٹیم ہار جائے تو ہارنے والی ٹیم کے ملک کے صارفین کو پیغام دیا جاتا ہے کہ غم بھلانے کے لیے اور جیتنے والے ملک کے لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ جیت کی خوشی یا جشن منانے کے لیے پیو۔
یوں جو لوگ اشتہارات یا میڈیا کے سحر میں آجاتے ہیں تو مالی لحاظ سے بھی ان کی زندگی مشکل تر ہوتی جاتی ہے کہ اس عمل میں جو شے اس کے پاس نہ ہوگی اس کے حصول کے لیے اس کو بے چین کیا جائے گا اور وہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں لگا رہے گا۔ ایک ایسی تلاش جو کبھی ختم نہیں ہوگی کہ روز کسی نہ کسی شئے کا نیا والیم، نیا ورجن یا نیا ماڈل وغیرہ اس کے سامنے کھڑا ہوگا۔ ہمارے ایک جاننے والے نے اپنے بیٹے کی شادی سادگی سے کی، نہ جہیز لیا، نہ کچھ اور بس مسجد میں نکاح کرایا، خاندان کے قریبی لوگوں کو بلا کر گھر پر ولیمہ کردیا۔ دوسری طرف میرے ایک پڑوسی کے پاس تین لاکھ ہیں مگر وہ اپنے بیٹے کی شادی کے لیے اپنے دفتر سے مزید قرضہ لے رہے ہیں۔
غورکیجیے ، آج میری اورآپ کی زندگی اجیرن کیوں ہوگئی ہے؟ آج کیوں وہ شخص بھی جس کی تنخواہ پندرہ ہزار ہے یہ شکوہ کرتا ہے کہ گزارہ نہیں ہوتا اور وہ سوچتا ہے کہ کسی طرح اس کی آمدنی میں چند ہزارکا اور اضافہ ہوجائے تو مسئلہ حل ہوجائے اور وہ شخص بھی گزارہ نہ ہونے کا شکوہ کیوں کرتا ہے کہ جس کی تنخواہ پچاس ہزار یا اس سے بھی زیادہ ہے؟ یہ شکوہ اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتا کہ جب تک ہم یہ فرق نہ کرلیں کہ ہماری ضرورت کیا ہے اور خواہش کیا ہے۔
ہماری ضرورت پیاس بجھانے کے لیے پانی کی ہے یا قمیتی مشروب کی؟ ہماری ضرورت تحفظ کے لیے چار دیواری کی ہے یا محل کی ؟ ہماری ضرورت سفرکے لیے صرف گاڑی کی ہے یا ذاتی ملکیت میں کسی پچیرو یا نئے ماڈل کی مرسڈیزکی؟ ہماری ضرورت جسم ڈھانپنے کے لیے کسی کپڑے کی ہے یا مہنگی ترین پوشاک کی ؟ شادی کے لیے ہماری ضرورت نکاح کی ہے یا جہیز اور ایک بڑی پر تکلف دعوت کی؟ آئیے کچھ دیر کے لیے میڈیا کے سحر سے نکل کر دیکھیں کہ ہماری ضروریات کیا ہیں اور خواہشات کیا ہیں؟ اگر ہم اس سحر سے نکل جائیں تو ہم بہت سی ذہنی ٹینشن سے بھی نکل آئیں گے اور ہمیں ذہنی سکون بھی حاصل ہوگا اور ہماری زندگی بھی آسان تر ہوجائے گی۔
اپنے دوست جاویدکی بات سن کر مجھے یاد آیا کہ آج سے کوئی پندرہ سال پہلے سری لنکا کی پارلیمنٹ نے ٹی وی پر باربی ڈول کے اشتہار پر پابندی لگا دی تھی اور وجہ یہ بیان کی تھی کہ چونکہ عوام کی اکثریت اس قیمتی گڑیا کو خریدنے کی مالی پوزیشن نہیں رکھتی، لٰہذا بچوں میں احساس کمتری پیدا ہو سکتا ہے۔
امریکا میںایک خاتون ڈاکٹر نے ریسرچ کی اور بتایا کہ ٹی وی پر پیش کیے جانے والے اشتہارات کے باعث بچوں کو کی گئی ایک اچھی نصیحت بھی بے کار جاتی ہے کیونکہ اشتہارات اس قدر سحرانگیز ہوتے ہیں کہ بچے کسی اور کی بات سننے اور ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے، یہی وجہ ہے کہ امریکا میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اشتہارات کی اس قسم کی سحر انگیزی اور مبالغہ آرائی کے خلاف تحریک چلی اور حکومت کو کچھ قوانین بنانے پڑے یوں امریکا میں پہلی مرتبہ اے بی سی ( آڈٹ بیورو سرکولیشن) کا قیام عمل میں آیا۔
اس سلسلے میں ایک امریکی مصنف گرانٹ ڈیوڈ کی بات بھلی لگتی ہے، اس نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ جناب صنعتی انقلاب industirial revolation نہیں تھا بلکہ یہ ایک consumer revolation تھا ،یعنی یہ ایک ایسا انقلاب تھا کہ جس سے صارفین پیدا کیے گئے، دراصل مشینوں کے انقلاب کے نتیجے میں انسان کے استعمال کی اشیاء انسان کی ضرورت کے مقابلے میں کہیں زیادہ تعداد میں( یعنی سرپلس) بنائی جانے لگیں اور پھر ان اشیاء کے صارفین(یعنی اشیاء کواستعمال کرنے والے) بڑی تعداد میں پیدا کیے گئے۔
یوں ایک بڑی معاشی، معاشرتی، سیاسی ،ثقافتی اور ریاستی تبدیلی واقع ہوئی۔ گرانٹ ڈیوڈ کی بات تو صد فیصد درست ہے کیونکہ اس انقلاب سے پہلے مغرب میں نہ تو فیشن انڈسٹری تھی، نہ تفریحی، فلمی اور نہ ہی اس معاشرے میں سلمنگ کلب، جیمز اور نہ ہی ڈے کیئر سینٹر اور اولڈ ہاؤسز یا خودکشی کرنے کے مراکز وغیرہ تھے۔ مگر یہاں ایک سوال یہ ہے کہ آخر ایک انسان وہ سرپلس اشیاء خرید نے پر مجبور کیوں ہوا جو کہ اس کی ضرورت ہی نہ تھی؟ اس بات کا جواب یہ ہے کہ ان سرپلس اشیاء کو فروخت کرنے کے لیے ایسے سحر انگیز اشتہارات بنائے گئے کہ دیکھنے والا اس کے سحر میں مبتلا ہو کر کوئی شئے خریدتے وقت یہ نہیں دیکھتا کہ وہ اس کی ضرورت بھی ہے یا نہیں؟ میڈیا کے استعمال سے انسان کے ذہنوں میں ان چیزوں کی خواہشوں کے انبار لگنے لگے جو اس کی ضرورت ہی نہ تھی۔
یوں ایک شخص اپنی خواہش اور ضرورت کا فرق بھلا بیٹھا ہے اور وہ اپنی خواہش کو اپنی ضرورت سمجھتا ہے۔ اس طرح وہ اس شئے کو بھی خریدنے کی پوری کوشش کرتا ہے جو اس کی ضرورت ہرگز نہیں ہوسکتی۔ اس ضمن میں ایک امریکی مارکیٹر کہتا ہے کہ ہم نے امریکی ماؤں کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی ہے کہ وہ ایک بہترین ماں اس وقت تک نہیں ہو سکتیں جب تک کہ وہ اپنے بچے کو ان کی کمپنی کا دودھ نہ پلائیں۔
امریکا میں ایک لپ اسٹک کی کمپنی جس کی سالانہ آمدنی ہزاروں ڈالر میں تھی، اس نے جب 1950 میں ٹی وی پر اشتہارات دینے کا آغاز کیا تو خواتین کی ایک بڑی تعداد اس کی صارف بن گئی یوں اس کی آمدنی لاکھوں ڈالر میں بدل گئی۔ پی ایچ ڈی کے ایک محقق استاد کا کہنا ہے کہ صرف اشتہارات ہی نہیں بلکہ پورا میڈیا ہی معاشرے میں consumption کی نفسیات پھیلاتا ہے۔
پرانی اشیاء کے استعمال کے رحجان کو ختم کرنے کے اور نت نئی اشیاء استعمال کرنے کے رحجان کو فروغ دیتا ہے اور سادگی اختیار کرنے کا مخالف درس دیتا ہے کیونکہ سادگی اختیار کرنے سے سرمایہ دار کا پہیہ نہیں چلے گا اور جب یہ نہ ہوگا تو میڈیا کو اشتہارات بھی نہیں ملیں گے ۔ لہذا اگر لوگ زیادہ سے زیادہ فضول خرچی کریں گے زیادہ سے زیادہ اشیاء خریدیں گے، استعمال کریں گے تو میڈیا ، اشتہاری کمپنیوں اور سرمایہ داروں کا کاروبار بھی چلے گا۔ اسی تناظر میں مشہور ماہر معاشیات آدم اسمتھ نے کہا تھا کہ virtuman یعنی مذہبی (سادہ) آدمی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے کیونکہ وہ سادگی کی ترغیب دیتا ہے اور سادگی ترقی کا الٹ ہے۔ترقی کرنا ہے تو سادگی کو خیر باد کہنا ہوگا۔
سادگی کا درس کون دیتا ہے؟ غورکیا جائے تو یہ تصور مذہب دیتا ہے کہ انسان کو سادگی اختیار کرنی چاہیے، دین اسلام میں بھی سادگی کا درس ہے، سنت نبویﷺ بھی سادگی پر مبنی ہے۔ پرانے کپڑے پہننا، پیوند لگے کپڑے پہننا، چپلوں کو مرمت کرکے پہننا، سادہ لباس اور سادہ غذا کا استعمال کرنا، یہ سب مذہبی تعلیمات ہیں۔ دین تو میانہ روی کا درس دیتا ہے، امام غزالی سنت کی روشنی میں فرماتے ہیں کہ گفتگو میں بھی کم سے کم کا خیال رکھنا چاہییے۔
لیکن میڈیا سے ان تمام کے برخلاف پیغامات ملتے ہیں، مثلاً موبائل فون کمپنیاں زیادہ سے زیادہ فون استعمال کرنے کا پیغام دیتی ہیں، مشروبات کی کمپنیاں زیادہ سے زیادہ پینے کاپیغام دیتی ہیں اور اس تمام عمل میں اخلاقیات بھی ایک طرف رہ جاتی ہیں ، مثلاً ایک ہی مشروب کی کمپنی میچ میں دونوں ملکوں کے عوام کو اپنا صارف بنانے کے لیے ایک ہی وقت اور ایک ہی میچ میںاس قسم کے نعرے دیتی ہے کہ آپ کی ہی ٹیم جیتے گی، اور جو ٹیم ہار جائے تو ہارنے والی ٹیم کے ملک کے صارفین کو پیغام دیا جاتا ہے کہ غم بھلانے کے لیے اور جیتنے والے ملک کے لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ جیت کی خوشی یا جشن منانے کے لیے پیو۔
یوں جو لوگ اشتہارات یا میڈیا کے سحر میں آجاتے ہیں تو مالی لحاظ سے بھی ان کی زندگی مشکل تر ہوتی جاتی ہے کہ اس عمل میں جو شے اس کے پاس نہ ہوگی اس کے حصول کے لیے اس کو بے چین کیا جائے گا اور وہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں لگا رہے گا۔ ایک ایسی تلاش جو کبھی ختم نہیں ہوگی کہ روز کسی نہ کسی شئے کا نیا والیم، نیا ورجن یا نیا ماڈل وغیرہ اس کے سامنے کھڑا ہوگا۔ ہمارے ایک جاننے والے نے اپنے بیٹے کی شادی سادگی سے کی، نہ جہیز لیا، نہ کچھ اور بس مسجد میں نکاح کرایا، خاندان کے قریبی لوگوں کو بلا کر گھر پر ولیمہ کردیا۔ دوسری طرف میرے ایک پڑوسی کے پاس تین لاکھ ہیں مگر وہ اپنے بیٹے کی شادی کے لیے اپنے دفتر سے مزید قرضہ لے رہے ہیں۔
غورکیجیے ، آج میری اورآپ کی زندگی اجیرن کیوں ہوگئی ہے؟ آج کیوں وہ شخص بھی جس کی تنخواہ پندرہ ہزار ہے یہ شکوہ کرتا ہے کہ گزارہ نہیں ہوتا اور وہ سوچتا ہے کہ کسی طرح اس کی آمدنی میں چند ہزارکا اور اضافہ ہوجائے تو مسئلہ حل ہوجائے اور وہ شخص بھی گزارہ نہ ہونے کا شکوہ کیوں کرتا ہے کہ جس کی تنخواہ پچاس ہزار یا اس سے بھی زیادہ ہے؟ یہ شکوہ اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتا کہ جب تک ہم یہ فرق نہ کرلیں کہ ہماری ضرورت کیا ہے اور خواہش کیا ہے۔
ہماری ضرورت پیاس بجھانے کے لیے پانی کی ہے یا قمیتی مشروب کی؟ ہماری ضرورت تحفظ کے لیے چار دیواری کی ہے یا محل کی ؟ ہماری ضرورت سفرکے لیے صرف گاڑی کی ہے یا ذاتی ملکیت میں کسی پچیرو یا نئے ماڈل کی مرسڈیزکی؟ ہماری ضرورت جسم ڈھانپنے کے لیے کسی کپڑے کی ہے یا مہنگی ترین پوشاک کی ؟ شادی کے لیے ہماری ضرورت نکاح کی ہے یا جہیز اور ایک بڑی پر تکلف دعوت کی؟ آئیے کچھ دیر کے لیے میڈیا کے سحر سے نکل کر دیکھیں کہ ہماری ضروریات کیا ہیں اور خواہشات کیا ہیں؟ اگر ہم اس سحر سے نکل جائیں تو ہم بہت سی ذہنی ٹینشن سے بھی نکل آئیں گے اور ہمیں ذہنی سکون بھی حاصل ہوگا اور ہماری زندگی بھی آسان تر ہوجائے گی۔