حالت جنگ
کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی ہی اصل میں یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس کے قومی مفادات کونسا رخ اختیار کررہے ہیں
کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی ہی اصل میں یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس کے قومی مفادات کونسا رخ اختیار کررہے ہیں۔ اس کے ذریعے ہی پتہ چلتا ہے کہ پڑوسی اوردیگر ممالک سے تعلقات کو استوارکرنا ہے یا بگاڑ پیداکرنا ہے، اگر ہر معاملے میں قومی مفادات پیش نظر ہوتے ہیں تو ہی ایک مضبوط مستحکم پالیسی کا انعقاد ممکن نظر آتا ہے۔ جس کی پاسداری آنے والوں کو بھی کرنی پڑتی ہے، مگر جب ہم اس تناظر میں پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لیں تو افسوس ہوتا ہے کہ قیام پاکستان کے کچھ عرصے کے بعد سے ہماری خارجہ پالیسی میں قومی مفادات جانے کب نکل گئے اور ذاتی مفاد نے اس کی جگہ لے لی ہے۔
پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے مگر ہم ابھی تک اس بات کا فیصلہ صحیح طور پر نہیں کر پائے کہ ہمارا دشمن کون ہے اور دوست کون؟ ضیا الحق کے دور میں افغان جنگ کو جہاد کا نام دے کر امریکا کے اشاروں پر ہم نے روس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا، مگر اس کا خمیازہ ہم اب تک بھگت رہے ہیں کہ کتنے علاقے ایسے ہیں جہاں کبھی کبھی تو لگتا ہے پاکستان میں ریاست کی رٹ ہی قائم نہیں ہے۔
اس لیے اس وقت بھی ہم قومی مفادات کو ایک طرف رکھ کر ذاتی دوستیاں نبھاتے رہے، ذاتی فائدے اٹھاتے رہے، ڈالروں سے اپنے بینک اکاؤنٹ تو بھر لیے مگر پاکستان کا خزانہ خالی کا خالی رہا۔ افغان جنگ کے دوران کتنے لوگ تھے جو ارب پتی ہوگئے مگر ملک کی ترقی میں ان کا حصہ نظر نہیں آتا بلکہ مہنگائی کا طوفان، ہیروئن کلچر، کلاشنکوف کلچر اس دور کی ہی پیداوار ہیں۔ لاکھوں مہاجرین الگ ہمارے ملک پر بوجھ بنے، جنھوں نے کچھ پیسہ خرچ کرکے پاکستانی شہریت لے لی، یہاں اپنے کاروبار چمکائے، جائیدادیں بنائیں اور پاکستان کے لیے بدنامی کا باعث بنے مگرکیونکہ ہمارے بیرون ملک اکاؤنٹ بھر رہے تھے تو ہم نے اس سے صرف نظرکی۔
اسی طرح پاکستان کا پڑوسی ملک انڈیا ہے مگر یہ بات سب کو معلوم ہے کہ بد ترین دشمن ہے،کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جب بھارت کی طرف سے قومی سطح پر پاکستان کی ہرزہ سرائی نہ کی جاتی ہو، پاکستان کو توڑنے کی بات اورکوشش نہ کی جاتی ہو۔ اب تو یہ بات سب پرعیاں ہوگئی ہے کہ انڈیا نے پاکستان کو دولخت کرانے میں اپنا بھرپورکردار ادا کیا تھا۔ حتیٰ کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی اس ڈھٹائی سے کی اور کر رہا ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی، پاکستان کے دریا خشک ہورہے ہیں، نیلم، جہلم پروجیکٹ ابھی تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا مگر وہاں کشن گنگا ڈیم بن چکا ہے۔
یہ ایک الگ کہانی ہے کہ انڈیا کس کس طرح پاکستان کو زک پہنچانے کا کوئی بھی موقع ضایع نہیں کرتا۔ حتیٰ کہ الزامات در الزامات کا ایسا سلسلہ ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا کوئی بھی واقعہ انڈیا میں رونما ہو اس کی تحقیق سے بھی پہلے وہاں کے آفیشل اور میڈیا گروپ ایک ہی راگ الاپنے لگتے ہیں کہ اس میں پاکستان کا ہاتھ ہے کیوں کہ پاکستان کو الزام دینا وہاں کے قومی مفاد میں ہے تو وہاں کا ہر ادارہ اپنی قومی خدمت سمجھ کر ہر کام سر انجام دے رہا ہے۔ پٹھان کوٹ کے واقعے کو ہی لے لیں، اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے پاکستان پر دباؤ ڈالا گیا کہ اس کی تحقیقات پاکستان میں کی جائیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم صاف انکار کرتے مگر ہم نے مودی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے فوراً کارروائی شروع کردیں، تحقیقاتی ٹیم بھی بھارت جا پہنچی مگر یہ اور بات ہے کہ اس تحقیقاتی ٹیم کو نہ تو جائے وقوعہ پر لے کر جایا جارہا ہے اور نہ ہی ثبوت فراہم کیے جارہے ہیں بلکہ روڑے اٹکائے جارہے ہیں کہ کہیں حقائق سامنے نہ آجائیں مگر دوسری طرف ہمارا یہ کردار ہے کہ بلوچستان سے بھارتی اہم جاسوس پکڑا جاتا ہے وہ بہت اہم شواہد مہیا کرتا ہے کہ کس طرح پاکستان میں تخریب کاری کی، بے شمار وارداتوں میں ملوث رہا ہے۔
کس طرح پاکستان کی جڑیں کمزور کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے مگر اس کے باوجود ہمارے وزیراعظم اور اعلیٰ سطح کے لوگ اپنے بیانات میں انتہائی محتاط رویہ اختیار کرتے ہیں ۔کیونکہ قومی مفادات سے کوئی مطلب نہیں، ان کے ذاتی مفادات بھارت سے وابستہ ہیں، بھارتی سرمایہ داروں سے خفیہ ملاقاتیں ہوں یا گھریلو تقریبات اس وقت ہم اپنے قانون ایک طرف رکھ کر اپنے مفادات کی بالادستی کے لیے ان لوگوں کی باقاعدہ خوشامد کرتے نظر آتے۔
کیونکہ کاروبارکا سوال ہے عام آدمی اگر اپنے رشتے داروں کے ہاں بھارت جاتا ہے تو یہاں اور وہاں مشکوک ٹھہرتا ہے مگر جب شوگر ملوں میں متعدد بھارتی ماہرین موجود ہوں تو پھر زبانیں بند ہوجاتی ہیں کیا پاکستان میں ماہرین کی کمی ہے ریاست کے اعلیٰ عہدیداروں کو اپنے کام کرنے میں کچھ تو محتاط ہونا چاہیے کہ کہیں در پردہ یہ لوگ کسی خفیہ مشن پر نہ ہوں اور اس طرح ناداستہ طور پر سیاسی حکومت ان کی سہولت کار بن جاتی ہے مگر کاروباری سوچ کے آگے کوئی دوسری سوچ پروان نہیں چڑھ سکتی۔
کیسی حب الوطنی،کہاں کی وطن پرستی صرف زر پرستی اگر آج فوج کی کارروائیاں نہ ہوتیں تو پنجاب میں آپریشن بھی نہ ہوتا مگر ایسٹر کے موقعے پر اقبال پارک میں خودکش دھماکے نے پنجاب میں بھی آپریشن کی راہیں ہموار کردیں بھارتی جاسوس کے ڈانڈے اگر ایران سے مل رہے ہیں کہ چاہ بہار سے اس کو سہولت فراہم کی جاتی تھی تو یہ کوئی نئی بات نہیں، ایران اپنے قومی مفادات کی خاطر کسی بھی ملک سے دوستی رکھ سکتا ہے اور توڑ سکتا ہے۔
سب کو معلوم ہے کہ افغانستان کی جنگ میں پاکستان نے امریکا کا ساتھ دیا تو ایران روس کے ساتھ کھڑا نظر آرہا تھا۔ آج بھی ایران ہندوستان کو سپورٹ کررہاہے کیونکہ ایران کے اقتصادی مفادات بھارت کے ساتھ وابستہ ہیں ہماری سول حکومت تو ایرانی صدر کی آمد کے موقعے پر بھی کھل کر نہ کہہ سکی کہ ایران بھارتی جاسوسوں اور دہشت گردوں کو اپنی سرحد سے پاکستان میں مداخلت سے باز رکھے مگر جنرل راحیل شریف نے برملا دو ٹوک اظہار کرکے قومی سلامتی پر کچھ بھی کمپرومائز نہ کرنے کا اشارہ دے دیا ہے۔
ایک وقت تھا کہ ایران ترکی پاکستان آر سی ڈی معاہدے کے تحت دوست ممالک کی فہرست میں شامل تھے ۔ اس لیے پاکستان کو ایسا رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ ایران جیسے برادر اسلامی ملک کے ساتھ تعلقات خراب بھی نہ ہوں اور ایران کے ذریعے بھارت ہمارے ملک کے خلاف ریشہ دوانیوں سے بھی باز رہے۔
پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے مگر ہم ابھی تک اس بات کا فیصلہ صحیح طور پر نہیں کر پائے کہ ہمارا دشمن کون ہے اور دوست کون؟ ضیا الحق کے دور میں افغان جنگ کو جہاد کا نام دے کر امریکا کے اشاروں پر ہم نے روس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا، مگر اس کا خمیازہ ہم اب تک بھگت رہے ہیں کہ کتنے علاقے ایسے ہیں جہاں کبھی کبھی تو لگتا ہے پاکستان میں ریاست کی رٹ ہی قائم نہیں ہے۔
اس لیے اس وقت بھی ہم قومی مفادات کو ایک طرف رکھ کر ذاتی دوستیاں نبھاتے رہے، ذاتی فائدے اٹھاتے رہے، ڈالروں سے اپنے بینک اکاؤنٹ تو بھر لیے مگر پاکستان کا خزانہ خالی کا خالی رہا۔ افغان جنگ کے دوران کتنے لوگ تھے جو ارب پتی ہوگئے مگر ملک کی ترقی میں ان کا حصہ نظر نہیں آتا بلکہ مہنگائی کا طوفان، ہیروئن کلچر، کلاشنکوف کلچر اس دور کی ہی پیداوار ہیں۔ لاکھوں مہاجرین الگ ہمارے ملک پر بوجھ بنے، جنھوں نے کچھ پیسہ خرچ کرکے پاکستانی شہریت لے لی، یہاں اپنے کاروبار چمکائے، جائیدادیں بنائیں اور پاکستان کے لیے بدنامی کا باعث بنے مگرکیونکہ ہمارے بیرون ملک اکاؤنٹ بھر رہے تھے تو ہم نے اس سے صرف نظرکی۔
اسی طرح پاکستان کا پڑوسی ملک انڈیا ہے مگر یہ بات سب کو معلوم ہے کہ بد ترین دشمن ہے،کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جب بھارت کی طرف سے قومی سطح پر پاکستان کی ہرزہ سرائی نہ کی جاتی ہو، پاکستان کو توڑنے کی بات اورکوشش نہ کی جاتی ہو۔ اب تو یہ بات سب پرعیاں ہوگئی ہے کہ انڈیا نے پاکستان کو دولخت کرانے میں اپنا بھرپورکردار ادا کیا تھا۔ حتیٰ کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی اس ڈھٹائی سے کی اور کر رہا ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی، پاکستان کے دریا خشک ہورہے ہیں، نیلم، جہلم پروجیکٹ ابھی تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا مگر وہاں کشن گنگا ڈیم بن چکا ہے۔
یہ ایک الگ کہانی ہے کہ انڈیا کس کس طرح پاکستان کو زک پہنچانے کا کوئی بھی موقع ضایع نہیں کرتا۔ حتیٰ کہ الزامات در الزامات کا ایسا سلسلہ ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا کوئی بھی واقعہ انڈیا میں رونما ہو اس کی تحقیق سے بھی پہلے وہاں کے آفیشل اور میڈیا گروپ ایک ہی راگ الاپنے لگتے ہیں کہ اس میں پاکستان کا ہاتھ ہے کیوں کہ پاکستان کو الزام دینا وہاں کے قومی مفاد میں ہے تو وہاں کا ہر ادارہ اپنی قومی خدمت سمجھ کر ہر کام سر انجام دے رہا ہے۔ پٹھان کوٹ کے واقعے کو ہی لے لیں، اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے پاکستان پر دباؤ ڈالا گیا کہ اس کی تحقیقات پاکستان میں کی جائیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم صاف انکار کرتے مگر ہم نے مودی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے فوراً کارروائی شروع کردیں، تحقیقاتی ٹیم بھی بھارت جا پہنچی مگر یہ اور بات ہے کہ اس تحقیقاتی ٹیم کو نہ تو جائے وقوعہ پر لے کر جایا جارہا ہے اور نہ ہی ثبوت فراہم کیے جارہے ہیں بلکہ روڑے اٹکائے جارہے ہیں کہ کہیں حقائق سامنے نہ آجائیں مگر دوسری طرف ہمارا یہ کردار ہے کہ بلوچستان سے بھارتی اہم جاسوس پکڑا جاتا ہے وہ بہت اہم شواہد مہیا کرتا ہے کہ کس طرح پاکستان میں تخریب کاری کی، بے شمار وارداتوں میں ملوث رہا ہے۔
کس طرح پاکستان کی جڑیں کمزور کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے مگر اس کے باوجود ہمارے وزیراعظم اور اعلیٰ سطح کے لوگ اپنے بیانات میں انتہائی محتاط رویہ اختیار کرتے ہیں ۔کیونکہ قومی مفادات سے کوئی مطلب نہیں، ان کے ذاتی مفادات بھارت سے وابستہ ہیں، بھارتی سرمایہ داروں سے خفیہ ملاقاتیں ہوں یا گھریلو تقریبات اس وقت ہم اپنے قانون ایک طرف رکھ کر اپنے مفادات کی بالادستی کے لیے ان لوگوں کی باقاعدہ خوشامد کرتے نظر آتے۔
کیونکہ کاروبارکا سوال ہے عام آدمی اگر اپنے رشتے داروں کے ہاں بھارت جاتا ہے تو یہاں اور وہاں مشکوک ٹھہرتا ہے مگر جب شوگر ملوں میں متعدد بھارتی ماہرین موجود ہوں تو پھر زبانیں بند ہوجاتی ہیں کیا پاکستان میں ماہرین کی کمی ہے ریاست کے اعلیٰ عہدیداروں کو اپنے کام کرنے میں کچھ تو محتاط ہونا چاہیے کہ کہیں در پردہ یہ لوگ کسی خفیہ مشن پر نہ ہوں اور اس طرح ناداستہ طور پر سیاسی حکومت ان کی سہولت کار بن جاتی ہے مگر کاروباری سوچ کے آگے کوئی دوسری سوچ پروان نہیں چڑھ سکتی۔
کیسی حب الوطنی،کہاں کی وطن پرستی صرف زر پرستی اگر آج فوج کی کارروائیاں نہ ہوتیں تو پنجاب میں آپریشن بھی نہ ہوتا مگر ایسٹر کے موقعے پر اقبال پارک میں خودکش دھماکے نے پنجاب میں بھی آپریشن کی راہیں ہموار کردیں بھارتی جاسوس کے ڈانڈے اگر ایران سے مل رہے ہیں کہ چاہ بہار سے اس کو سہولت فراہم کی جاتی تھی تو یہ کوئی نئی بات نہیں، ایران اپنے قومی مفادات کی خاطر کسی بھی ملک سے دوستی رکھ سکتا ہے اور توڑ سکتا ہے۔
سب کو معلوم ہے کہ افغانستان کی جنگ میں پاکستان نے امریکا کا ساتھ دیا تو ایران روس کے ساتھ کھڑا نظر آرہا تھا۔ آج بھی ایران ہندوستان کو سپورٹ کررہاہے کیونکہ ایران کے اقتصادی مفادات بھارت کے ساتھ وابستہ ہیں ہماری سول حکومت تو ایرانی صدر کی آمد کے موقعے پر بھی کھل کر نہ کہہ سکی کہ ایران بھارتی جاسوسوں اور دہشت گردوں کو اپنی سرحد سے پاکستان میں مداخلت سے باز رکھے مگر جنرل راحیل شریف نے برملا دو ٹوک اظہار کرکے قومی سلامتی پر کچھ بھی کمپرومائز نہ کرنے کا اشارہ دے دیا ہے۔
ایک وقت تھا کہ ایران ترکی پاکستان آر سی ڈی معاہدے کے تحت دوست ممالک کی فہرست میں شامل تھے ۔ اس لیے پاکستان کو ایسا رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ ایران جیسے برادر اسلامی ملک کے ساتھ تعلقات خراب بھی نہ ہوں اور ایران کے ذریعے بھارت ہمارے ملک کے خلاف ریشہ دوانیوں سے بھی باز رہے۔