شفاف ٹرائل بنیادی حق بن چکا کورٹ مارشل میں فیصلے کی وجوہ بتانی چاہئیں چیف جسٹس

آئین میں 10Aشامل ہونے کے بعد ٹرائل کا طریقہ بدل گیا، اس سے متصادم کالعدم ہوجائیگا، جسٹس گلزار

’’نان اسپیکنگ آرڈر‘‘ سے قانونی طریقہ کار پورا نہیں ہوتا،قانون میں سقم متعلقہ ادارہ خود بھی دورکرسکتا ہے، عدالت کی آبزرویشن،وزارت دفاع سے آج وضاحت طلب کرلی گئی فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے آبزرویشن دی ہے کہ کسی بھی عدالت یا ٹربیونل کا نان اسپیکنگ آرڈر آئین کی شق 10اے سے متصادم ہوتا ہے اور آرٹیکل 25کی بنیاد پر اسے کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔

یہ آبزرویشن عدالت نے کورٹ مارشل کے بعد فیصلہ اور وجوہ جاری نہ کرنے کے بارے میں آرمی ایکٹ کی شق کے خلاف دائر پٹیشن کی سماعت کے دوران دی ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے مقدمے میں فوج کے وکیل کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس سقم کو دور کرنے کیلیے آرمی ایکٹ میں ترمیم کیلیے وزارت دفاع سے ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کریں۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے فوج کے وکیل سے کہاکہ ''نان اسپیکنگ آرڈر'' سے قانونی طریقہ کار پورا نہیں ہوتا، ایسا آرڈرآئین کے آرٹیکلA 10کے بھی خلاف ہے۔ فیصلے کی وجوہ بتائی جانی چاہیئں۔


درخواست گزار کرنل (ر)اکرم نے عدالت کو بتایا، کورٹ مارشل کے تحت سزا دینے کا نہ تو فیصلہ فراہم کیا جاتا ہے نہ ہی وجوہ بتائی جاتی ہیں جس سے اپیل کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ اس لیے عدالت بنیادی آئینی حقوق کے تحت فوج کو ہدایت کرے کہ وہ متعلقہ قانون میں ترمیم کرے۔ انھوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں نیوی اور ائیرفورس ایکٹ میں ترمیم کردی گئی ہے تو بری فوج میں کیوں نہیں کی جاسکتی ۔ پاک فوج کے وکیل مجیب الرحمٰن نے کہاکہ پاک فوج کا قانون دیگر دونوں اداروں سے مختلف اور پرانا ہے۔ درخواست گزار کی بات مانی گئی تو آدھا آرمی ایکٹ تبدیل کرنا پڑے گا۔

جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ آئین میں 10Aشامل ہونے کے بعد ٹرائل کا طریقہ کار تبدیل ہوگیا ہے۔ شفاف ٹرائل اور کارروائی اب بنیادی حق بن چکا ہے، اس آرٹیکل کی رو سے جوکچھ متصادم ہوگا کالعدم ہوجائے گا۔ عدالت نے کہاکہ ہم آرٹیکل 25کے تحت اس قانون کو امتیازی قرار دے کر کالعدم بھی قرار دے سکتے ہیں تاہم اس سے قبل اس سقم کو متعلقہ ادارہ خود بھی ترمیم کرکے دور کر سکتا ہے۔ فوج کے وکیل نے استدعا کی کہ اس کیلیے انھیں متعلقہ اتھارٹی سے ہدایات لینا ہوں گی اس کیلیے کچھ وقت دیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزارت دفاع میں معاملے پر تفصیل سے بحث کرنا پڑے گی تاہم عدالت نے انھیں ہدایت کی کہ وہ ابتدائی طور پر آج (منگل) ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کریں کہ کیا متعلقہ اتھارٹی ترمیم کیلیے رضامند ہے ۔آئی این پی کے مطابق سپریم کورٹ نے آرمی ، فضائیہ اور بحریہ کے کورٹ مارشل سے متعلق بعض قوانین میں یکسانیت پیدا کرنے پر وزارت دفاع سے جواب طلب کرلیا ہے۔ عدالت نے وزارت دفاع کو ہدایت کہ پاکستان کی بری، بحری اور فضائی افواج کے کورٹ مارشل سے متعلق بعض قوانین میں یکسانیت پیدا کرنے کے حوالے سے تجاویز دی جائیں۔

Recommended Stories

Load Next Story