یونان سے واپسی شروع ترکی پہنچنے والے زیادہ ترمہاجرین پاکستانی ہیں
50 پاکستانیوں سمیت131مہاجرین کویونان کے جزائر لیس بوس اور شیوس سے بھیجا گیا، وطن واپس بھیج دینگے، ترک حکام
یورپی یونین اور ترکی کے مابین گزشتہ ماہ طے پانے والے معاہدے کے تحت یونان سے غیرقانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل شروع ہو گیا ہے اور پہلی کشتی میں50 پاکستانیوں سمیت تقریباً131مہاجرین کو یونان سے ترکی بھیجا گیا جو ترک علاقے دکیلی پہنچ گئے۔
جزائر لیس بوس اور شیوش سے یونانی حکام نے سخت سیکیورٹی میں روانہ کیا گیا جبکہ یونانی حکام نے اعلان کیا ہے کہ آج منگل اور کل بدھ کو مزید 250 پاکستانی، سری لنکن، افریقی اوربنگلہ دیشی تارکین وطن کو ترکی بھیجاجائیگا۔ میڈیارپورٹس کے مطابق یونانی جزیرے لیسبوس سے ترک بحری جہاز لیس بوس اور نیزلی جیل131تارکین وطن کو لے کر ترکی پہنچ گئے ، ترکی پہنچنے والے مہاجرین میں50 پاکستانی اور81 دیگر ممالک کے شہری شامل ہیں، ترک حکام کے بقول ان پناہ گزینوں کو ترک علاقے دکیلی میں عارضی قیام کے بعد چشمے نامی ایک اور ساحلی شہر منتقل کر دیا جائے گا اور وہاں سے انھیں مزید آگے روانہ کیا جائے گا۔
یونان میں یورپی سرحدوں کی محافظ ایجنسی فرنٹیکس ملک بدری کے عمل کی نگرانی کر رہی ہے۔ ترک وزیر داخلہ افکان آلا نے کہا کہ یونان سے واپس آنے والے ایسے غیر قانونی تارکین وطن جن کا تعلق پاکستان، افغانستان یا عراق سے ہو گا، انھیں ان کے آبائی ملکوں کی جانب واپس بھیج دیا جائے گا جب کہ شامی مہاجرین کو ترکی کے مختلف شہروں میں قائم پناہ گزینوں کے کیمپوں میں بھیج دیا جائے گا۔
معاہدے کے مطابق ہر اس شامی پناہ گزین جسے ترکی بھیجا جائے گا کی جگہ یورپی یونین اس شامی پناہ گزین کو لے گا جس نے قانونی طور پر درخواست دی ہو۔یونان کی انتظامیہ کا کہنا ہے اس گروپ میں بنگلہ دیش، سری لنکا اور مراکش کے وہ شہری شامل ہیں جنھوں نے پناہ کی درخواست جمع نہیں کرائی تھی۔ ترک حکام کے مطابق 500 مہاجرین کی دکیلی میں واپسی متوقع ہے۔
دریں اثنا معاہدے کے تحت ترکی میں موجود شامی پناہ گزینوں کی یورپ منتقلی کا عمل بھی پیر سے ہی شروع ہوگیا ہے ،پہلے روز 35 شامی تارکین وطن ترکی سے جرمنی پہنچے، جبکہ دیگر کچھ کوفرانس، فن لینڈ اور پرتگال پہنچادیاگیا۔ برلن میں جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے کہا ہے کہ مہاجرین کے بحران کی شدت اب کم ہو رہی ہے۔ آسٹریلوی حکومت نے تارک وطن بچوں کو اپنی سرزمین پر مزید قید نہ رکھنے کا اعلان کردیا، اس اقدام کے نتیجے میں آسٹریلیا پہنچنے والے تارکین وطن کے بچوں کو''کمیونٹی حراستی مراکز''میں رکھا جائے گا۔
جزائر لیس بوس اور شیوش سے یونانی حکام نے سخت سیکیورٹی میں روانہ کیا گیا جبکہ یونانی حکام نے اعلان کیا ہے کہ آج منگل اور کل بدھ کو مزید 250 پاکستانی، سری لنکن، افریقی اوربنگلہ دیشی تارکین وطن کو ترکی بھیجاجائیگا۔ میڈیارپورٹس کے مطابق یونانی جزیرے لیسبوس سے ترک بحری جہاز لیس بوس اور نیزلی جیل131تارکین وطن کو لے کر ترکی پہنچ گئے ، ترکی پہنچنے والے مہاجرین میں50 پاکستانی اور81 دیگر ممالک کے شہری شامل ہیں، ترک حکام کے بقول ان پناہ گزینوں کو ترک علاقے دکیلی میں عارضی قیام کے بعد چشمے نامی ایک اور ساحلی شہر منتقل کر دیا جائے گا اور وہاں سے انھیں مزید آگے روانہ کیا جائے گا۔
یونان میں یورپی سرحدوں کی محافظ ایجنسی فرنٹیکس ملک بدری کے عمل کی نگرانی کر رہی ہے۔ ترک وزیر داخلہ افکان آلا نے کہا کہ یونان سے واپس آنے والے ایسے غیر قانونی تارکین وطن جن کا تعلق پاکستان، افغانستان یا عراق سے ہو گا، انھیں ان کے آبائی ملکوں کی جانب واپس بھیج دیا جائے گا جب کہ شامی مہاجرین کو ترکی کے مختلف شہروں میں قائم پناہ گزینوں کے کیمپوں میں بھیج دیا جائے گا۔
معاہدے کے مطابق ہر اس شامی پناہ گزین جسے ترکی بھیجا جائے گا کی جگہ یورپی یونین اس شامی پناہ گزین کو لے گا جس نے قانونی طور پر درخواست دی ہو۔یونان کی انتظامیہ کا کہنا ہے اس گروپ میں بنگلہ دیش، سری لنکا اور مراکش کے وہ شہری شامل ہیں جنھوں نے پناہ کی درخواست جمع نہیں کرائی تھی۔ ترک حکام کے مطابق 500 مہاجرین کی دکیلی میں واپسی متوقع ہے۔
دریں اثنا معاہدے کے تحت ترکی میں موجود شامی پناہ گزینوں کی یورپ منتقلی کا عمل بھی پیر سے ہی شروع ہوگیا ہے ،پہلے روز 35 شامی تارکین وطن ترکی سے جرمنی پہنچے، جبکہ دیگر کچھ کوفرانس، فن لینڈ اور پرتگال پہنچادیاگیا۔ برلن میں جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے کہا ہے کہ مہاجرین کے بحران کی شدت اب کم ہو رہی ہے۔ آسٹریلوی حکومت نے تارک وطن بچوں کو اپنی سرزمین پر مزید قید نہ رکھنے کا اعلان کردیا، اس اقدام کے نتیجے میں آسٹریلیا پہنچنے والے تارکین وطن کے بچوں کو''کمیونٹی حراستی مراکز''میں رکھا جائے گا۔