وزیراعظم کا پاناما لیکس کے معاملے پر اعلیٰ سطح کا عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان
کچھ لوگ سیاسی مقاصد کے لیے مجھے اور میرے خاندان کو نشانہ بنارہے ہیں، وزیراعظم نوازشریف کا قوم سے خطاب
BARA:
وزیراعظم نوازشریف نے پاناما لیکس کے معاملے پر اعلیٰ سطح کا عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ کچھ لوگ سیاسی مقاصد کے لیے مجھے اور میرے خاندان کو نشانہ بنارہے ہیں جب کہ ہم نے وہ قرض بھی اتارے ہیں جو ہم پر واجب نہیں تھے۔
قوم سے خطاب میں وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ اپنی پوری سیاسی زندگی میں آج پہلی بار ذاتی حوالے سے کچھ کہنے کے لیے خدمت میں حاضر ہوا ہوں، مجھے ان گزارشات کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ ایک بار پھر کچھ لوگ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے مجھے اور میرے خاندان کو نشانہ بنارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 25 سالوں سے بار بار دہرائے جانے والے الزامات کو ایک بار پھر میڈیا پر اچھالا جارہا ہے جس کے چند بنیادی حقائق آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ خود اندازہ لگا سکیں کہ ان کی حقیقت کیا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ قیام پاکستان سے کئی سال قبل میرے والد نے لاہور سے کاروبار کا آغاز کیا اور اتفاق فاؤنڈری کی بنیاد ڈالی، قیام پاکستان تک یہ ایک مستحکم مضبوط صنعتی ادارہ بن چکا تھا جس کی ایک شاخ ڈھاکا میں بھی قائم ہوچکی تھی، یہ صنعتی ادارہ ہزاروں خاندانوں کو روزگار کی فراہمی کا ذریعہ بن چکا تھا جو قومی خزانے میں ٹیکسوں کی صورت اپنا حصہ بھی ڈال رہا تھا لیکن 16 دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان میں یہ سقوط ڈھاکا کی نذر ہوگیا، اس کے 15 دن بعد ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے لاہور میں ہماری اتفاق فاؤنڈری پر قبضہ کرلیا اور یہ اس وقت مغربی پاکستان میں اسٹین اور مشینری اور انجینئرنگ کی سب سے بڑی صنعت بن چکی تھی، اس طرح 1936 سے ہمارے بزرگوں کی محبت سرمایہ کاری جمع پونجی ایک لمحے میں ختم کردی گئی۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ ظلم زیادتی بھی ہمارے والد کے عزم حوصلے میں کمزوری پیدا نہ کرسکی، انہوں نے کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر کمر باندھی اور بھٹو دور میں ہی 18 ماہ میں 6 نئی فیکٹریاں قائم کرلیں جو وطن کی مٹی سے محبت اور عزم و ہمت کی روشن داستان ہے۔ انہوں نے کہا کہ جولائی 1979 میں اتفاق فاؤنڈری ہمیں کھنڈرات کی حالت میں دوبارہ ملی جسے والد صاحب نے دوبارہ مضبوط ادارے کے طور پر قائم کیا اور اس وقت ہمارا حکومت اور سیاست سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا، ہماری ان فیکٹریاں نے ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کیا اور قومی خزانے میں ٹیکس اور محصولات کی مد میں کروڑوں روپے جمع کرائے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سیاست میں آنے سے پہلے اور بعد بھی سیاسی اور ذاتی انتقام کا نشانہ بنایا گیا جو سلسلہ اب تک جاری ہے، 1989 میں ہماری فیکٹری کا خام مال لانے والے بحری جہاز 'جوناتھن ' کو ایک سال تک سامان اتارنے کی اجازت نہیں دی گئی جب کہ اس جھٹکے سے ہمیں 50 کروڑ روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا جو آج کے دور میں 50 ارب سے زیادہ ہوگا۔
وزیراعظم نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے دور میں مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے اتفاق فاؤنڈری کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی اور پھر 1999 میں جمہوریت کا تختہ الٹا گیا تو ہمارے ساتھ کیا کچھ ہوا اسے سے قوم بخوبی واقف ہے کہ کیسے ہمیں جیلوں میں ڈالا گیا،ہمارا کاروبار تباہ کیا گیا، ملک بدر کردیا گیا اور ساری حکومتی مشینری کو ہمارے احتساب پر لگا دیا گیا، ہم سالوں اس یک طرفہ احتساب کا سامنا کرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی عدالت میں ہمارے خلاف کوئی الزام ثابت نہیں کیا جاسکا جب کہ جبری جلاوطنی کے دور میں ہمارے والد نے مکہ مکرمہ کے قریب اسٹیل کا ایک کارخانہ لگایا جس کے لیے سعودی بینکوں سے قرض حاصل کیا گیا اور چند برس بعد یہ تمام اثاثوں کے ساتھ فروخت کردی گئی، یہ رقم میرے بیٹوں حسن اور حسین نواز کے کاروبار کے لیے دی گئی جو بیرون ملک لندن اور دبئی میں رہائش پذیر ہیں جب کہ دونوں ان ممالک کے قوانین کے مطابق اپنا کاروبار کرتے ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اگر ہمارے بچے ملک کے اندر کاروبار چلائیں تو الزامات اور تنقید کی جاتی ہے، اگر بیرون ملک اپنا کاروبار چلائیں تو بھی الزامات کی زد میں رہتے ہیں، کرپشن یا ناجائز ذرائع سے کمانے والے اپنے نام پر کمپنیاں اور اثاثے نہیں رکھتے۔ انہوں نے کہا کہ میرے خاندان نے بینکوں سے لی گئی رقم میں ایک روپیہ بھی معاف نہیں کرایا اور پونے 6 ارب روپے کی واجب الادا رقم ادا کی جب کہ مجھے امید ہے ہمارے کاروبار کا یہ سارا پس مںظر قوم پر واضح ہوگیا، میں نے حکومت سے باہر یا حکومت کے اندر رہتے ہوئے قومی امانت میں ذرا سے بھی خیانت نہیں کی اور کبھی اقتدار کو کاروبار سے منسلک نہیں کیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں نے وطن عزیز کو اندھیروں سے پاک کرنے اور تعمیر وترقی کی جانب لے جانے کا عہد کررکھا ہے اور ساری توجہ اس پر مرکوز ہے، میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ روز روز ان الزامات کی وضاحتیں پیش کروں، اس الزامات کی لہر کو سمجھتا ہوں لیکن اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے بعض رفقا نے مشورہ دیا کہ میرے خطاب سے اس معاملے کو غیر ضروری اہمیت حاصل ہوجائے گی، حالانکہ میرے خاندان کے کسی فرد پر ناجائز کام کا کوئی الزام نہیں لگا اس لیے مجھے اس معاملے میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن میں چاہتا تھا کہ اصل حقائق قوم کے سامنے آئیں۔
وزیراعظم نوازشریف نے پاناما لیکس کے معاملے پر اعلیٰ سطح کا عدالتی کمیشن قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس کمیشن کے سربراہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج ہوں گے جو تحقیقات کرنے کے بعد فیصلہ سنائیں گے کہ ان الزامات میں کتنی حقیقت ہے۔
واضح رہے کہ پاناما لیکس کی دستاویزات میں دنیا کی اعلیٰ ترین اور حکومتی شخصیات پر خفیہ طریقے سے دولت چھپانے کا الزام عائد کیا گیا ہے جب کہ الزامات کی بنیاد پر آئس لینڈ کے وزیراعظم نے شدید عوامی احتجاج پر استعفیٰ دے دیا ہے۔
وزیراعظم نوازشریف نے پاناما لیکس کے معاملے پر اعلیٰ سطح کا عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ کچھ لوگ سیاسی مقاصد کے لیے مجھے اور میرے خاندان کو نشانہ بنارہے ہیں جب کہ ہم نے وہ قرض بھی اتارے ہیں جو ہم پر واجب نہیں تھے۔
قوم سے خطاب میں وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ اپنی پوری سیاسی زندگی میں آج پہلی بار ذاتی حوالے سے کچھ کہنے کے لیے خدمت میں حاضر ہوا ہوں، مجھے ان گزارشات کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ ایک بار پھر کچھ لوگ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے مجھے اور میرے خاندان کو نشانہ بنارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 25 سالوں سے بار بار دہرائے جانے والے الزامات کو ایک بار پھر میڈیا پر اچھالا جارہا ہے جس کے چند بنیادی حقائق آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ خود اندازہ لگا سکیں کہ ان کی حقیقت کیا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ قیام پاکستان سے کئی سال قبل میرے والد نے لاہور سے کاروبار کا آغاز کیا اور اتفاق فاؤنڈری کی بنیاد ڈالی، قیام پاکستان تک یہ ایک مستحکم مضبوط صنعتی ادارہ بن چکا تھا جس کی ایک شاخ ڈھاکا میں بھی قائم ہوچکی تھی، یہ صنعتی ادارہ ہزاروں خاندانوں کو روزگار کی فراہمی کا ذریعہ بن چکا تھا جو قومی خزانے میں ٹیکسوں کی صورت اپنا حصہ بھی ڈال رہا تھا لیکن 16 دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان میں یہ سقوط ڈھاکا کی نذر ہوگیا، اس کے 15 دن بعد ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے لاہور میں ہماری اتفاق فاؤنڈری پر قبضہ کرلیا اور یہ اس وقت مغربی پاکستان میں اسٹین اور مشینری اور انجینئرنگ کی سب سے بڑی صنعت بن چکی تھی، اس طرح 1936 سے ہمارے بزرگوں کی محبت سرمایہ کاری جمع پونجی ایک لمحے میں ختم کردی گئی۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ ظلم زیادتی بھی ہمارے والد کے عزم حوصلے میں کمزوری پیدا نہ کرسکی، انہوں نے کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر کمر باندھی اور بھٹو دور میں ہی 18 ماہ میں 6 نئی فیکٹریاں قائم کرلیں جو وطن کی مٹی سے محبت اور عزم و ہمت کی روشن داستان ہے۔ انہوں نے کہا کہ جولائی 1979 میں اتفاق فاؤنڈری ہمیں کھنڈرات کی حالت میں دوبارہ ملی جسے والد صاحب نے دوبارہ مضبوط ادارے کے طور پر قائم کیا اور اس وقت ہمارا حکومت اور سیاست سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا، ہماری ان فیکٹریاں نے ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کیا اور قومی خزانے میں ٹیکس اور محصولات کی مد میں کروڑوں روپے جمع کرائے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سیاست میں آنے سے پہلے اور بعد بھی سیاسی اور ذاتی انتقام کا نشانہ بنایا گیا جو سلسلہ اب تک جاری ہے، 1989 میں ہماری فیکٹری کا خام مال لانے والے بحری جہاز 'جوناتھن ' کو ایک سال تک سامان اتارنے کی اجازت نہیں دی گئی جب کہ اس جھٹکے سے ہمیں 50 کروڑ روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا جو آج کے دور میں 50 ارب سے زیادہ ہوگا۔
وزیراعظم نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے دور میں مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے اتفاق فاؤنڈری کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی اور پھر 1999 میں جمہوریت کا تختہ الٹا گیا تو ہمارے ساتھ کیا کچھ ہوا اسے سے قوم بخوبی واقف ہے کہ کیسے ہمیں جیلوں میں ڈالا گیا،ہمارا کاروبار تباہ کیا گیا، ملک بدر کردیا گیا اور ساری حکومتی مشینری کو ہمارے احتساب پر لگا دیا گیا، ہم سالوں اس یک طرفہ احتساب کا سامنا کرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی عدالت میں ہمارے خلاف کوئی الزام ثابت نہیں کیا جاسکا جب کہ جبری جلاوطنی کے دور میں ہمارے والد نے مکہ مکرمہ کے قریب اسٹیل کا ایک کارخانہ لگایا جس کے لیے سعودی بینکوں سے قرض حاصل کیا گیا اور چند برس بعد یہ تمام اثاثوں کے ساتھ فروخت کردی گئی، یہ رقم میرے بیٹوں حسن اور حسین نواز کے کاروبار کے لیے دی گئی جو بیرون ملک لندن اور دبئی میں رہائش پذیر ہیں جب کہ دونوں ان ممالک کے قوانین کے مطابق اپنا کاروبار کرتے ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اگر ہمارے بچے ملک کے اندر کاروبار چلائیں تو الزامات اور تنقید کی جاتی ہے، اگر بیرون ملک اپنا کاروبار چلائیں تو بھی الزامات کی زد میں رہتے ہیں، کرپشن یا ناجائز ذرائع سے کمانے والے اپنے نام پر کمپنیاں اور اثاثے نہیں رکھتے۔ انہوں نے کہا کہ میرے خاندان نے بینکوں سے لی گئی رقم میں ایک روپیہ بھی معاف نہیں کرایا اور پونے 6 ارب روپے کی واجب الادا رقم ادا کی جب کہ مجھے امید ہے ہمارے کاروبار کا یہ سارا پس مںظر قوم پر واضح ہوگیا، میں نے حکومت سے باہر یا حکومت کے اندر رہتے ہوئے قومی امانت میں ذرا سے بھی خیانت نہیں کی اور کبھی اقتدار کو کاروبار سے منسلک نہیں کیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں نے وطن عزیز کو اندھیروں سے پاک کرنے اور تعمیر وترقی کی جانب لے جانے کا عہد کررکھا ہے اور ساری توجہ اس پر مرکوز ہے، میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ روز روز ان الزامات کی وضاحتیں پیش کروں، اس الزامات کی لہر کو سمجھتا ہوں لیکن اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے بعض رفقا نے مشورہ دیا کہ میرے خطاب سے اس معاملے کو غیر ضروری اہمیت حاصل ہوجائے گی، حالانکہ میرے خاندان کے کسی فرد پر ناجائز کام کا کوئی الزام نہیں لگا اس لیے مجھے اس معاملے میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن میں چاہتا تھا کہ اصل حقائق قوم کے سامنے آئیں۔
وزیراعظم نوازشریف نے پاناما لیکس کے معاملے پر اعلیٰ سطح کا عدالتی کمیشن قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس کمیشن کے سربراہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج ہوں گے جو تحقیقات کرنے کے بعد فیصلہ سنائیں گے کہ ان الزامات میں کتنی حقیقت ہے۔
واضح رہے کہ پاناما لیکس کی دستاویزات میں دنیا کی اعلیٰ ترین اور حکومتی شخصیات پر خفیہ طریقے سے دولت چھپانے کا الزام عائد کیا گیا ہے جب کہ الزامات کی بنیاد پر آئس لینڈ کے وزیراعظم نے شدید عوامی احتجاج پر استعفیٰ دے دیا ہے۔