سی پیک اب بھی خطروں کی زد میں
ہم یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاک چائنا اکنامک کوریڈور ہمارے دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔
KARACHI:
ہم یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاک چائنا اکنامک کوریڈور ہمارے دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ وہ اِس منصوبے کو اِس کی تکمیل سے پہلے ہی سبوتاژ کر دینا چاہتے ہیں۔ اپنے اِن ناپاک ارادوں کے لیے وہ ہر حربہ بروئے کار لا کر یہ کام ہر قیمت کرنا چاہتے ہیں، خواہ اِس کے لیے اُنھیں کتنے ہی جتن کیوں نہ کرنا پڑیں۔
حالیہ دنوں میں ملک کے اندر دہشتگردی کی کارروائیوں میں اچانک اضافہ اور مذہبی فرقہ واریت کی نئی لہر کا آ جانا یونہی معمول کی کارروائیاں نہیں ہیں۔ دشمن اِس کام کے لیے ہمارے یہاں سے کسی کو بھی استعمال کر سکتا ہے۔ پسِ پردہ رہ کر وہ ہمارے لوگوں کی علاقائی، لسانی اور مذہبی جذبات کو بھڑکا کے یہ کام با آسانی کر سکتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یہ قوم مذہب کے معاملے میں کتنی حساس، جذباتی اور جوشیلی ہے۔
مارچ کے مہینے کے اواخر میں امن و امان کی صورتحال کا اچانک بگڑ جانا ہمارے دشمنوں کی کسی ایسی ہی سازشوں کا حصہ ہو سکتا ہے۔ ادھر بلوچستان سے ہندوستان کی سیکریٹ ایجنسی ''را'' کے ایجنٹ کلبھوشن یادو کی گرفتاری بھی اِس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ بھارت ہمیں کمزور کر دینے کی ہر سازش کا محرک ہے۔ وہ ہماری کمزوریوں اور مذہبی و فروعی اختلاف کو ہوا دے کر اور علیحدگی پسند رجحانات کی تخم ریزی اور آبیاری کر کے ہماری شکست و ریخت کا سامان کرنے پر ہر وقت تلا رہتا ہے۔ پاک چائنا کوریڈور کا منصوبہ اُسے پہلے دن سے نہیں بھاتا۔
46 بلین ڈالر کا کراچی اور گوادر کو براہ راست چائنا کے شہر کاشغر سے ملانے والا یہ منصوبہ 10 سے 15 سالوں میں اپنی مکمل تکمیل کو پہنچے گا۔ اِس منصوبے میں ہزاروں کلو میٹر کے روڈ اور ریلوے ٹریک کی تعمیر ترجیحی بنیادوں پر بنائی جائے گی۔ اِس کے علاوہ گوادر میں دنیا کا جدید ترین اور ملک کا سب سے بڑا ایئرپورٹ بھی تعمیر ہو گا۔ 33 بلین ڈالر صرف توانائی کے منصوبوں کے لیے مختص ہیں۔ پاک ایران گیس پائپ لائن کے لیے بھی اِس پروجیکٹ میں رقم رکھی گئی ہے۔
پہلے سے موجود کراچی سے پشاور تک کی مین ریلوے لائن کی اپ گریڈیشن اور ساتھ ساتھ ایک نئی ریلوے لائن کی تعمیر بھی اِس عظیم پروجیکٹ کا حصہ ہے۔ لاہور میں اورنج لائنز کا منصوبہ بھی اِسی سی پیک منصوبے میں شامل ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ اگر یہ منصوبہ اپنے طے شدہ ٹائم فریم کے مطابق تکمیل کو پہنچ گیا تو پھر پاکستان اِس خطے کا ایک خوشحال ملک بن جائے گا۔ یہی وجہ ہے امریکی سامراجیت اور یورپی استعماریت کے لیے بھی یہ منصوبہ ایسے کانٹے کی شکل اختیار کر چکا ہے جو اُن کی آنکھوں میں ہر وقت کھٹکتا رہتا ہے۔ ہمارے یہ سارے دوست نما دشمن اِس معاملے میں یکسو اور یکجا ہو چکے ہیں۔
ادھر ہمارے کچھ نادان اور ناسمجھ لوگ بھی اپنے غیرذمے دارانہ اور لااُبالی طرزِ عمل کی وجہ سے اُن کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کو مزید مہمیز کرنے کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ وہ ہر چند ماہ بعد اپنے اعتراضات اور تحفظات لے کر اِس منصوبے کے خلاف سربکف ہو کر میدانِ عمل میں اُتر آتے ہیں۔
ہم پورے یقین اور اعتماد سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ اگر اِس منصوبے کو آج ہماری آرمی اور اُس کے دلیر سپہ سالار کی سرپرستی اور حمایت حاصل نہ ہوتی تو یہ منصوبہ بھی کالا باغ ڈیم کی مانند صرف کاغذوں اور فائلوں تک ہی محدود ہو کر رہ جاتا۔ نیشنل ایکشن پروگرام اور ملٹری کورٹس بنائے کے جانے کے فیصلوں میں ہمیں آج جو ساری سیاسی قوتوں کی رضامندی اور قبولیت کی بوباس دکھائی دے رہی ہے وہ بھی اِسی آرمی چیف کی اولوالعزمی، بلند جہتی اور دبدبے کا نتیجہ ہے۔
ورنہ سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے اِس کے خلاف اپنے ناپسندیدی کا جو اظہار کیا تھا، وہی ہمارے باقی اکثریتی سیاستدانوں کا بھی استدلال ہوتا، مگر یہ اُس جنرل کی کرشمہ ساز شخصیت کا خاصہ ہے کہ آج ہمارے یہاں کئی لوگ پاک چائنا کوریڈور پر شدید اختلافات اور تحفظات رکھنے کی باوجود اُسے کالاباغ ڈیم کی مانند ناقابلِ عمل بنانے کی جرأت وہمت نہیں کر پاتے۔ وہ ہر چند ماہ بعد اپنے اعتراضات کی نئی فہرست لے کر ایک نیا شوشہ اور غلغلہ تو کھڑا کر دیتے ہیں لیکن بعد ازاں وزیرِ اعظم کے ساتھ ایک میٹنگ کر کے بظاہر نیم دلانا انداز میں طوعاً و کرہاً اُسے جوں کا توں قبول کر لینے پر آمادہ ہی ہو جاتے ہیں۔
محب وطن اہل پاکستانیوں کو یہ ڈر اور خوف لاحق ہے کہ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد کیا نیا آنے والا آرمی چیف بھی اتنا ہی طاقتور، دبنگ اور فیصلہ کن شخصیت کا مالک ہو گا کہ جس کے ایک اشارے پر قوم کو درپیش کسی اہم قومی معاملے پر نیشنل ایکشن پلان کی مانند سب کے سب فوری رضامند ہو جائیں ۔ کراچی میں آپریشن کلین اپ بھی شروع کر دیا جائے اور 126 دنوں پر محیط تاریخ دھرنا بھی لپیٹ لیا جائے۔
قوم فکر مند ہے کہ موجودہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کے بعد کہیں پاک چائنا کوریڈور کا منصوبہ بھی آپس کی چپقلش اور نااتفاقی کی نذر نہ ہو جائے۔ جیسا کہ خیبر پختون خواہ کے وزیرِ اعلیٰ نے ابھی سے یہ عندیہ دے دیا ہے کہ ہم اگر جب دیکھیں گے کہ منصوبہ طے شدہ پلان کے مطابق نہیں آگے بڑھ رہا تو اپنا پرزور احتجاج ضرور کریں گے۔ یعنی وہ اُس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جب اِس منصوبے پر نادیدہ آہنی قوت کا سایہ باقی نہ رہے گا تو وہ اُسے ایک بار پھر متنازعہ بنانے کی سعی و جستجو ضرور کریں گے۔ ادھر بلوچستان کے کئی نامور سردار اور سیاستدان بھی اِس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ احساسِ محرومی، ناانصافی اور امتیازی سلوک کا کوئی نہ کوئی بہانہ تراش کر کے اِس 'سی پیک' منصوبے کو مکمل ہونے سے روک دیا جائے۔
یا پھر ایسے حالات پیدا کر دیے جائیں کہ اِس میں سرمایہ لگانے والا ملک چین ہی از خود اِس کی تعمیر سے اپنے ہاتھ اُٹھا لے اور توبہ کر لے۔ ملک کے اندر عدم استحکام اور غیر یقینی کی صورتحال پیدا کر کے یہ کام باآسانی کیا جا سکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں عدم برداشت اور تشدد کی جو تازہ لہر ہمارے ملک میں دکھائی دے رہی ہے وہ شاید ہمارے دشمنوں کی اِسی سازش کا حصہ ہو۔
پھانسی کی سزا ہماری عدلیہ نے دی۔ حکمرانوں نے عدلیہ کے فیصلے پر عملدرآمد کیا۔ مگر سوگواروں نے اپنا غم و غصہ حکومت کے خلاف نکالا۔ صرف 27 دنوں میں چہلم کا اہتمام کر کے ہنگامہ آرائی کرنا از خود کسی درپردہ سازش کی چغلی کھاتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور تحریک ِ انصاف کا اِس سلسلہ میں خاموش تماشائی کا کردار کرنا حیران کن بلکہ قابلِ مذمت ہے۔
اِسی طرح عمران خان کا وہ ویڈیو سوشل میڈیا پر بہت عام ہے جس میں اُنھوں نے ایک غیر ملکی ٹی وی چینل انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہا تھا کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں کسی بے گناہ کو شک کی بنیاد پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ آج اُن کی جماعت بھی اسلام آباد میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کرنے والوں کی مذمت بجائے حکمرانوں ہی کو لعن طعن کر رہی ہے۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج مسلم لیگ (ن) کی جگہ اُن کی پارٹی حکمران ہوتی اور عدلیہ کے فیصلوں پر اپنے دعوؤں کے مطابق من و عن عمل درآمد کرتی۔ ہمارا یہی دوغلہ پن، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ٹانگیں کھینچنے کا شوق جمہوریت کی بے ثباتی اور ناپائیداری کی اصل وجہ بنا ہوا ہے۔
یہی رویہ ہمیں قوموں کی برادری میں ایک باوقار حیثیت اور رتبہ دلانے میں نہ صرف حائل بلکہ ہماری ترقی و خوشحالی کی راہ میں بھی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ پاک چائنا کوریڈور ہماری زیست و موت کا مسئلہ ہے۔ اِسے ہر حال میں مکمل ہونا چاہیے۔
ہم یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاک چائنا اکنامک کوریڈور ہمارے دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ وہ اِس منصوبے کو اِس کی تکمیل سے پہلے ہی سبوتاژ کر دینا چاہتے ہیں۔ اپنے اِن ناپاک ارادوں کے لیے وہ ہر حربہ بروئے کار لا کر یہ کام ہر قیمت کرنا چاہتے ہیں، خواہ اِس کے لیے اُنھیں کتنے ہی جتن کیوں نہ کرنا پڑیں۔
حالیہ دنوں میں ملک کے اندر دہشتگردی کی کارروائیوں میں اچانک اضافہ اور مذہبی فرقہ واریت کی نئی لہر کا آ جانا یونہی معمول کی کارروائیاں نہیں ہیں۔ دشمن اِس کام کے لیے ہمارے یہاں سے کسی کو بھی استعمال کر سکتا ہے۔ پسِ پردہ رہ کر وہ ہمارے لوگوں کی علاقائی، لسانی اور مذہبی جذبات کو بھڑکا کے یہ کام با آسانی کر سکتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یہ قوم مذہب کے معاملے میں کتنی حساس، جذباتی اور جوشیلی ہے۔
مارچ کے مہینے کے اواخر میں امن و امان کی صورتحال کا اچانک بگڑ جانا ہمارے دشمنوں کی کسی ایسی ہی سازشوں کا حصہ ہو سکتا ہے۔ ادھر بلوچستان سے ہندوستان کی سیکریٹ ایجنسی ''را'' کے ایجنٹ کلبھوشن یادو کی گرفتاری بھی اِس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ بھارت ہمیں کمزور کر دینے کی ہر سازش کا محرک ہے۔ وہ ہماری کمزوریوں اور مذہبی و فروعی اختلاف کو ہوا دے کر اور علیحدگی پسند رجحانات کی تخم ریزی اور آبیاری کر کے ہماری شکست و ریخت کا سامان کرنے پر ہر وقت تلا رہتا ہے۔ پاک چائنا کوریڈور کا منصوبہ اُسے پہلے دن سے نہیں بھاتا۔
46 بلین ڈالر کا کراچی اور گوادر کو براہ راست چائنا کے شہر کاشغر سے ملانے والا یہ منصوبہ 10 سے 15 سالوں میں اپنی مکمل تکمیل کو پہنچے گا۔ اِس منصوبے میں ہزاروں کلو میٹر کے روڈ اور ریلوے ٹریک کی تعمیر ترجیحی بنیادوں پر بنائی جائے گی۔ اِس کے علاوہ گوادر میں دنیا کا جدید ترین اور ملک کا سب سے بڑا ایئرپورٹ بھی تعمیر ہو گا۔ 33 بلین ڈالر صرف توانائی کے منصوبوں کے لیے مختص ہیں۔ پاک ایران گیس پائپ لائن کے لیے بھی اِس پروجیکٹ میں رقم رکھی گئی ہے۔
پہلے سے موجود کراچی سے پشاور تک کی مین ریلوے لائن کی اپ گریڈیشن اور ساتھ ساتھ ایک نئی ریلوے لائن کی تعمیر بھی اِس عظیم پروجیکٹ کا حصہ ہے۔ لاہور میں اورنج لائنز کا منصوبہ بھی اِسی سی پیک منصوبے میں شامل ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ اگر یہ منصوبہ اپنے طے شدہ ٹائم فریم کے مطابق تکمیل کو پہنچ گیا تو پھر پاکستان اِس خطے کا ایک خوشحال ملک بن جائے گا۔ یہی وجہ ہے امریکی سامراجیت اور یورپی استعماریت کے لیے بھی یہ منصوبہ ایسے کانٹے کی شکل اختیار کر چکا ہے جو اُن کی آنکھوں میں ہر وقت کھٹکتا رہتا ہے۔ ہمارے یہ سارے دوست نما دشمن اِس معاملے میں یکسو اور یکجا ہو چکے ہیں۔
ادھر ہمارے کچھ نادان اور ناسمجھ لوگ بھی اپنے غیرذمے دارانہ اور لااُبالی طرزِ عمل کی وجہ سے اُن کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کو مزید مہمیز کرنے کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ وہ ہر چند ماہ بعد اپنے اعتراضات اور تحفظات لے کر اِس منصوبے کے خلاف سربکف ہو کر میدانِ عمل میں اُتر آتے ہیں۔
ہم پورے یقین اور اعتماد سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ اگر اِس منصوبے کو آج ہماری آرمی اور اُس کے دلیر سپہ سالار کی سرپرستی اور حمایت حاصل نہ ہوتی تو یہ منصوبہ بھی کالا باغ ڈیم کی مانند صرف کاغذوں اور فائلوں تک ہی محدود ہو کر رہ جاتا۔ نیشنل ایکشن پروگرام اور ملٹری کورٹس بنائے کے جانے کے فیصلوں میں ہمیں آج جو ساری سیاسی قوتوں کی رضامندی اور قبولیت کی بوباس دکھائی دے رہی ہے وہ بھی اِسی آرمی چیف کی اولوالعزمی، بلند جہتی اور دبدبے کا نتیجہ ہے۔
ورنہ سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے اِس کے خلاف اپنے ناپسندیدی کا جو اظہار کیا تھا، وہی ہمارے باقی اکثریتی سیاستدانوں کا بھی استدلال ہوتا، مگر یہ اُس جنرل کی کرشمہ ساز شخصیت کا خاصہ ہے کہ آج ہمارے یہاں کئی لوگ پاک چائنا کوریڈور پر شدید اختلافات اور تحفظات رکھنے کی باوجود اُسے کالاباغ ڈیم کی مانند ناقابلِ عمل بنانے کی جرأت وہمت نہیں کر پاتے۔ وہ ہر چند ماہ بعد اپنے اعتراضات کی نئی فہرست لے کر ایک نیا شوشہ اور غلغلہ تو کھڑا کر دیتے ہیں لیکن بعد ازاں وزیرِ اعظم کے ساتھ ایک میٹنگ کر کے بظاہر نیم دلانا انداز میں طوعاً و کرہاً اُسے جوں کا توں قبول کر لینے پر آمادہ ہی ہو جاتے ہیں۔
محب وطن اہل پاکستانیوں کو یہ ڈر اور خوف لاحق ہے کہ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد کیا نیا آنے والا آرمی چیف بھی اتنا ہی طاقتور، دبنگ اور فیصلہ کن شخصیت کا مالک ہو گا کہ جس کے ایک اشارے پر قوم کو درپیش کسی اہم قومی معاملے پر نیشنل ایکشن پلان کی مانند سب کے سب فوری رضامند ہو جائیں ۔ کراچی میں آپریشن کلین اپ بھی شروع کر دیا جائے اور 126 دنوں پر محیط تاریخ دھرنا بھی لپیٹ لیا جائے۔
قوم فکر مند ہے کہ موجودہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کے بعد کہیں پاک چائنا کوریڈور کا منصوبہ بھی آپس کی چپقلش اور نااتفاقی کی نذر نہ ہو جائے۔ جیسا کہ خیبر پختون خواہ کے وزیرِ اعلیٰ نے ابھی سے یہ عندیہ دے دیا ہے کہ ہم اگر جب دیکھیں گے کہ منصوبہ طے شدہ پلان کے مطابق نہیں آگے بڑھ رہا تو اپنا پرزور احتجاج ضرور کریں گے۔ یعنی وہ اُس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جب اِس منصوبے پر نادیدہ آہنی قوت کا سایہ باقی نہ رہے گا تو وہ اُسے ایک بار پھر متنازعہ بنانے کی سعی و جستجو ضرور کریں گے۔ ادھر بلوچستان کے کئی نامور سردار اور سیاستدان بھی اِس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ احساسِ محرومی، ناانصافی اور امتیازی سلوک کا کوئی نہ کوئی بہانہ تراش کر کے اِس 'سی پیک' منصوبے کو مکمل ہونے سے روک دیا جائے۔
یا پھر ایسے حالات پیدا کر دیے جائیں کہ اِس میں سرمایہ لگانے والا ملک چین ہی از خود اِس کی تعمیر سے اپنے ہاتھ اُٹھا لے اور توبہ کر لے۔ ملک کے اندر عدم استحکام اور غیر یقینی کی صورتحال پیدا کر کے یہ کام باآسانی کیا جا سکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں عدم برداشت اور تشدد کی جو تازہ لہر ہمارے ملک میں دکھائی دے رہی ہے وہ شاید ہمارے دشمنوں کی اِسی سازش کا حصہ ہو۔
پھانسی کی سزا ہماری عدلیہ نے دی۔ حکمرانوں نے عدلیہ کے فیصلے پر عملدرآمد کیا۔ مگر سوگواروں نے اپنا غم و غصہ حکومت کے خلاف نکالا۔ صرف 27 دنوں میں چہلم کا اہتمام کر کے ہنگامہ آرائی کرنا از خود کسی درپردہ سازش کی چغلی کھاتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور تحریک ِ انصاف کا اِس سلسلہ میں خاموش تماشائی کا کردار کرنا حیران کن بلکہ قابلِ مذمت ہے۔
اِسی طرح عمران خان کا وہ ویڈیو سوشل میڈیا پر بہت عام ہے جس میں اُنھوں نے ایک غیر ملکی ٹی وی چینل انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہا تھا کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں کسی بے گناہ کو شک کی بنیاد پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ آج اُن کی جماعت بھی اسلام آباد میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کرنے والوں کی مذمت بجائے حکمرانوں ہی کو لعن طعن کر رہی ہے۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج مسلم لیگ (ن) کی جگہ اُن کی پارٹی حکمران ہوتی اور عدلیہ کے فیصلوں پر اپنے دعوؤں کے مطابق من و عن عمل درآمد کرتی۔ ہمارا یہی دوغلہ پن، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ٹانگیں کھینچنے کا شوق جمہوریت کی بے ثباتی اور ناپائیداری کی اصل وجہ بنا ہوا ہے۔
یہی رویہ ہمیں قوموں کی برادری میں ایک باوقار حیثیت اور رتبہ دلانے میں نہ صرف حائل بلکہ ہماری ترقی و خوشحالی کی راہ میں بھی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ پاک چائنا کوریڈور ہماری زیست و موت کا مسئلہ ہے۔ اِسے ہر حال میں مکمل ہونا چاہیے۔