ڈاکٹر عبدالوہاب کی یادیں
کراچی کے حوالے سے ایک دور تھا جب آئی بی اے اور ڈاکٹر عبدالوہاب ایک دوسرے کی پہچان تھے۔
لاہور:
کراچی کے حوالے سے ایک دور تھا جب آئی بی اے اور ڈاکٹر عبدالوہاب ایک دوسرے کی پہچان تھے۔ اب اس دورکی صرف یادیں رہ گئی ہیں اور ان یادوں کے محافظ سب سے پہلے خود ڈاکٹر عبدالوہاب ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر عبدالوہاب نے 1962ء سے 1999ء تک بحیثیت طالب علم، استاد، ڈائریکٹر اور ڈین 37 سال کا طویل عرصہ آئی بی اے میں گزارا اوراگر وہ اس بزنس ایڈمنسٹریشن ادارے کی پہچان بن گئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ان دنوں کی یادوں کو اپنی کتاب ''سرکاری اداروں کی اصلاح۔ آئی بی اے اور کراچی یونیورسٹی کے منفرد تجربات'' میں دہرایا ہے۔ان کو آئی بی اے اور پھر کراچی یونیورسٹی کے سربراہ کی حیثیت سے جن حالات کا سامنا کرنا پڑا وہ درحقیقت صرف ان دو اداروں ہی تک محدود نہیں، کم و بیش تمام سرکاری اداروں میں بھی ایسے ہی حالات ہیں۔ اصلاح عملاً محال ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی نجی زندگی کی داستان قابل ذکر ہے یہ چھ سال کے تھے کہ ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ میٹرک کا نتیجہ ابھی نہیں آیا تھا کہ والد بھی چل بسے۔ بڑے بھائی ریلوے میں تھے، تقسیم کے وقت پاکستان آ گئے۔ کراچی میں اپنے اس زمانے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ''معاشی تنگی کی وجہ سے کئی سال بغیرناشتے کے دو وقت کی روٹی پرگزرے، دو آنے کی دو روٹیاں، چار آنے کا سالن ہوٹل سے خرید کر دن کا اور اسی طرح رات کا کھانا ہوتا تھا۔کپڑے ہفتے میں ایک دفعہ بدلتے،گھر اور اسکول کے کپڑے ایک ہی ہوتے تھے۔ ایمپریس مارکیٹ کے سامنے مرمت کیے ہوئے جوتے دس سے بارہ آنے میں مل جاتے جو چھ ماہ چل جاتے۔'' اسی تنگی ترشی میں میٹرک کیا اور بی اے بھی کر لیا۔ سول سروس کے امتحان میں بیٹھنے کا ارادہ تھا۔
آئی بی اے کے ٹیسٹ میں بیٹھ گئے، پاس ہو گئے اور وظیفہ بھی مل گیا۔ ایم بی اے کرنے کے بعد آئی بی اے میں لیکچرر ہو گئے۔ ایک سال بعد دوسرا ایم بی اے کرنے کے لیے امریکی حکومت کے وظیفے پر امریکا چلے گئے۔ واپس آ کر پڑھانے لگے۔ اس میدان میں آگے بڑھنے کے لیے پی ایچ ڈی کرنا ضروری تھا، اپنی کوشش سے کینیڈا پہنچے اور 1978ء میں پی ایچ ڈی کر کے واپس آئے اور آئی بی اے کے سٹی کیمپس میں ڈپٹی ڈائریکٹر اور پھر ڈین بنا دیے گئے۔ جاپان کی حکومت کی دعوت پر ایک سال جاپان میں ریسرچ کی۔ 1994ء سے 1996ء تک دو سال کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے اور پھر دوبارہ آئی بی میں ڈائریکٹرکی حیثیت سے تقرر ہوگیا۔ یہاں تین سال گزارے۔
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ان مسائل میں جن کا پبلک اداروں اور خصوصاً تعلیمی اداروں کو سامنا ہے مالی بدعنوانیوں، خرچ اور آمدن میں گڑبڑ، امتحانی نظام میں مداخلت، امتحانی پرچہ آؤٹ ہونا، بدنظمی کی وجہ سے فساد اور لڑائی جھگڑے، ہرکام میں دیر، امتحان کے نتائج کے اعلان میں تاخیر، گھسا پٹا نصاب تعلیم، پست معیار تدریس، ریسرچ کا پاکستان کے مسائل سے غیر متعلق ہونا، اساتذہ میں سیاست، ملازمین اورطلبا میں سیاست، گروپنگ اور غیر فعال اور کمزور قیادت شامل ہیں۔
جب ایم بی اے کرنے امریکا گئے اور بعد میں پی ایچ ڈی کے لیے کینیڈا تو وہاں انھوں نے تین باتیں نوٹ کیں اور وہ ان سے بہت متاثر ہوئے۔ پہلی چیز منصوبہ بندی تھی یعنی یہ کہ یونیورسٹیاں اپنے سال بھر کے کام کا پروگرام بناتی ہیں اور پھر اس پر پوری پابندی سے عمل ہوتا ہے، دوسری چیز ان کا میرٹ کا نظام تھا یعنی وہاں نہ تنظیمیں تھیں اور نہ نسلی، لسانی، مذہبی یا کسی اور بنیاد پر کسی کو مستثنیٰ کیا جاتا تھا اور نہ کسی کو رعایت دی جاتی تھی۔ تیسری چیز جس نے انھیں متاثرکیا وہ یہ تھی کہ طالب علم پڑھائی اور ریسرچ میں بڑے سنجیدہ، محنتی اور وقت کے پابند تھے۔
چنانچہ انھوں نے سب سے پہلے خود اپنے آپ کو اور اپنے ادارے کو رول ماڈل بنانے کا فیصلہ کیا۔ ان کے لیے پہلی آزمائش ان کے بیٹے کا IBA میں داخلہ تھا۔ اسے انٹرکے ایک پرچے کے پریکٹیکل امتحان میں دو نمبروں سے فیل کر دیا گیا تھا حالانکہ اسی پرچے کی تھیوری میں اس کے کافی اچھے نمبر تھے وہ چاہتے تو بحیثیت ڈائریکٹر انٹر بورڈ سے دو نمبر بڑھانے کی سفارش کر سکتے تھے لیکن انھوں نے بیٹے کو مزید تیاری کر کے اگلے سال داخلے کی کوشش کرنے کا مشورہ دیا اور پھر وہ اگلے سال کامیاب ہوا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کے بائیس سالہ دور میں آئی بی اے ایک دن کے لیے بھی بند نہیں ہوا حالانکہ کراچی میں ہڑتالیں ہوئیں، غارت گری ہوئی، دہشت گردی کے واقعات ہوئے۔
آئی بی اے میں BBA کی ڈگری بھی ڈاکٹر عبدالوہاب نے متعارف کرائی۔ پاکستان ہی میں نہیں ہندوستان میں بی بی اے کا یہ پہلا پروگرام تھا۔
مالی بدعنوانیوں کا سدباب کرنے میں جو مشکلات پیش آتی ہیں۔ ان کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ ان میں جعلی میڈیکل بل، سامان کی چوری، خریداری میں بدعنوانیاں، فیسوں میں کرپشن، انھوں نے کس طرح روکا۔ چوری کے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ''میں جب ڈائریکٹر بنا تو آئی بی اے کے آڈیٹوریم کے ستونوں کے بلب فیوز ہوچکے تھے۔ میں نے وہاں اندھیرا دیکھ کر بلب لگوائے۔ تین چار دن بعد دیکھا کہ وہ بلب غائب ہیں۔
میں نے چوکیدار کو بلاکر پوچھا، بلب کہاں چلے گئے؟ اس نے یہ سمجھ کرکہ شاید میں بہت ہی بڑے بے وقوفوں میں سے ہوں بڑا دلچسپ جواب دیا کہنے لگا '' یہاں کبوتر بیٹھتے ہیں اور بیٹھے بیٹھے بلب پر چونچیں مارتے ہیں بلب ڈھیلے ہوجاتے ہیں، پھرگرجاتے ہیں۔ ہم کانچ کے ٹکڑوں کو صاف کردیا کرتے ہیں۔''
ڈاکٹرعبدالوہاب نے داخلے کے ٹیسٹ کو شفاف بنانے کے لیے خصوصی کوششیں کیں۔ وہ لکھتے ہیں ''آئی بی اے کے داخلوں میں بہترین انتظام، دیانت داری اور شفافیت سے ہمیں بہت فائدہ پہنچا۔ مختلف اداروں نے ہم سے آئی بی اے میں ٹیسٹ کروانا شروع کردیے۔ پی آئی اے کے انجینئرزکی ملازمت کے ٹیسٹ کی ذمے داری مجھے دی گئی۔ اسٹیٹ بینک کے آفیسرزکا ٹیسٹ بھی ہم کو دیا گیا۔ سندھ کے میڈیکل کالج کے پری انٹری ٹیسٹ کی ابتدا بھی میرے ذریعے کرائی گئی۔''
ڈاکٹر عبدالوہاب کو اپنی اصلاحی مہم میں بہت کچھ اندرونی مخالفت برداشت کرنا پڑی۔ ان پر قاتلانہ حملہ ہوا، ان کے بیٹے کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہنگامہ آرائی بھی ہوئی۔ آخر میں پھر ڈاکٹر صاحب ہی سرخرو ہوئے۔
1994ء میں ڈاکٹر عبدالوہاب کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے۔ اس وقت محمود ہارون سندھ کے گورنر اور یونیورسٹی کے چانسلر تھے۔ یہاں بھی ڈاکٹر صاحب نے اصلاح کا عمل جاری رکھا۔ یہاں کے مسائل زیادہ تھے اور ان کی اصلاح مشکل تر۔ بہرحال ان کی کوششیں جاری رہیں اور دو سال بعد جب وہ یونیورسٹی کی وائس چانسلری سے ہٹے تو اس اطمینان کے ساتھ کہ ''کچھ کام کر چلے۔''
کراچی کے حوالے سے ایک دور تھا جب آئی بی اے اور ڈاکٹر عبدالوہاب ایک دوسرے کی پہچان تھے۔ اب اس دورکی صرف یادیں رہ گئی ہیں اور ان یادوں کے محافظ سب سے پہلے خود ڈاکٹر عبدالوہاب ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر عبدالوہاب نے 1962ء سے 1999ء تک بحیثیت طالب علم، استاد، ڈائریکٹر اور ڈین 37 سال کا طویل عرصہ آئی بی اے میں گزارا اوراگر وہ اس بزنس ایڈمنسٹریشن ادارے کی پہچان بن گئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ان دنوں کی یادوں کو اپنی کتاب ''سرکاری اداروں کی اصلاح۔ آئی بی اے اور کراچی یونیورسٹی کے منفرد تجربات'' میں دہرایا ہے۔ان کو آئی بی اے اور پھر کراچی یونیورسٹی کے سربراہ کی حیثیت سے جن حالات کا سامنا کرنا پڑا وہ درحقیقت صرف ان دو اداروں ہی تک محدود نہیں، کم و بیش تمام سرکاری اداروں میں بھی ایسے ہی حالات ہیں۔ اصلاح عملاً محال ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی نجی زندگی کی داستان قابل ذکر ہے یہ چھ سال کے تھے کہ ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ میٹرک کا نتیجہ ابھی نہیں آیا تھا کہ والد بھی چل بسے۔ بڑے بھائی ریلوے میں تھے، تقسیم کے وقت پاکستان آ گئے۔ کراچی میں اپنے اس زمانے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ''معاشی تنگی کی وجہ سے کئی سال بغیرناشتے کے دو وقت کی روٹی پرگزرے، دو آنے کی دو روٹیاں، چار آنے کا سالن ہوٹل سے خرید کر دن کا اور اسی طرح رات کا کھانا ہوتا تھا۔کپڑے ہفتے میں ایک دفعہ بدلتے،گھر اور اسکول کے کپڑے ایک ہی ہوتے تھے۔ ایمپریس مارکیٹ کے سامنے مرمت کیے ہوئے جوتے دس سے بارہ آنے میں مل جاتے جو چھ ماہ چل جاتے۔'' اسی تنگی ترشی میں میٹرک کیا اور بی اے بھی کر لیا۔ سول سروس کے امتحان میں بیٹھنے کا ارادہ تھا۔
آئی بی اے کے ٹیسٹ میں بیٹھ گئے، پاس ہو گئے اور وظیفہ بھی مل گیا۔ ایم بی اے کرنے کے بعد آئی بی اے میں لیکچرر ہو گئے۔ ایک سال بعد دوسرا ایم بی اے کرنے کے لیے امریکی حکومت کے وظیفے پر امریکا چلے گئے۔ واپس آ کر پڑھانے لگے۔ اس میدان میں آگے بڑھنے کے لیے پی ایچ ڈی کرنا ضروری تھا، اپنی کوشش سے کینیڈا پہنچے اور 1978ء میں پی ایچ ڈی کر کے واپس آئے اور آئی بی اے کے سٹی کیمپس میں ڈپٹی ڈائریکٹر اور پھر ڈین بنا دیے گئے۔ جاپان کی حکومت کی دعوت پر ایک سال جاپان میں ریسرچ کی۔ 1994ء سے 1996ء تک دو سال کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے اور پھر دوبارہ آئی بی میں ڈائریکٹرکی حیثیت سے تقرر ہوگیا۔ یہاں تین سال گزارے۔
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ان مسائل میں جن کا پبلک اداروں اور خصوصاً تعلیمی اداروں کو سامنا ہے مالی بدعنوانیوں، خرچ اور آمدن میں گڑبڑ، امتحانی نظام میں مداخلت، امتحانی پرچہ آؤٹ ہونا، بدنظمی کی وجہ سے فساد اور لڑائی جھگڑے، ہرکام میں دیر، امتحان کے نتائج کے اعلان میں تاخیر، گھسا پٹا نصاب تعلیم، پست معیار تدریس، ریسرچ کا پاکستان کے مسائل سے غیر متعلق ہونا، اساتذہ میں سیاست، ملازمین اورطلبا میں سیاست، گروپنگ اور غیر فعال اور کمزور قیادت شامل ہیں۔
جب ایم بی اے کرنے امریکا گئے اور بعد میں پی ایچ ڈی کے لیے کینیڈا تو وہاں انھوں نے تین باتیں نوٹ کیں اور وہ ان سے بہت متاثر ہوئے۔ پہلی چیز منصوبہ بندی تھی یعنی یہ کہ یونیورسٹیاں اپنے سال بھر کے کام کا پروگرام بناتی ہیں اور پھر اس پر پوری پابندی سے عمل ہوتا ہے، دوسری چیز ان کا میرٹ کا نظام تھا یعنی وہاں نہ تنظیمیں تھیں اور نہ نسلی، لسانی، مذہبی یا کسی اور بنیاد پر کسی کو مستثنیٰ کیا جاتا تھا اور نہ کسی کو رعایت دی جاتی تھی۔ تیسری چیز جس نے انھیں متاثرکیا وہ یہ تھی کہ طالب علم پڑھائی اور ریسرچ میں بڑے سنجیدہ، محنتی اور وقت کے پابند تھے۔
چنانچہ انھوں نے سب سے پہلے خود اپنے آپ کو اور اپنے ادارے کو رول ماڈل بنانے کا فیصلہ کیا۔ ان کے لیے پہلی آزمائش ان کے بیٹے کا IBA میں داخلہ تھا۔ اسے انٹرکے ایک پرچے کے پریکٹیکل امتحان میں دو نمبروں سے فیل کر دیا گیا تھا حالانکہ اسی پرچے کی تھیوری میں اس کے کافی اچھے نمبر تھے وہ چاہتے تو بحیثیت ڈائریکٹر انٹر بورڈ سے دو نمبر بڑھانے کی سفارش کر سکتے تھے لیکن انھوں نے بیٹے کو مزید تیاری کر کے اگلے سال داخلے کی کوشش کرنے کا مشورہ دیا اور پھر وہ اگلے سال کامیاب ہوا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کے بائیس سالہ دور میں آئی بی اے ایک دن کے لیے بھی بند نہیں ہوا حالانکہ کراچی میں ہڑتالیں ہوئیں، غارت گری ہوئی، دہشت گردی کے واقعات ہوئے۔
آئی بی اے میں BBA کی ڈگری بھی ڈاکٹر عبدالوہاب نے متعارف کرائی۔ پاکستان ہی میں نہیں ہندوستان میں بی بی اے کا یہ پہلا پروگرام تھا۔
مالی بدعنوانیوں کا سدباب کرنے میں جو مشکلات پیش آتی ہیں۔ ان کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ ان میں جعلی میڈیکل بل، سامان کی چوری، خریداری میں بدعنوانیاں، فیسوں میں کرپشن، انھوں نے کس طرح روکا۔ چوری کے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ''میں جب ڈائریکٹر بنا تو آئی بی اے کے آڈیٹوریم کے ستونوں کے بلب فیوز ہوچکے تھے۔ میں نے وہاں اندھیرا دیکھ کر بلب لگوائے۔ تین چار دن بعد دیکھا کہ وہ بلب غائب ہیں۔
میں نے چوکیدار کو بلاکر پوچھا، بلب کہاں چلے گئے؟ اس نے یہ سمجھ کرکہ شاید میں بہت ہی بڑے بے وقوفوں میں سے ہوں بڑا دلچسپ جواب دیا کہنے لگا '' یہاں کبوتر بیٹھتے ہیں اور بیٹھے بیٹھے بلب پر چونچیں مارتے ہیں بلب ڈھیلے ہوجاتے ہیں، پھرگرجاتے ہیں۔ ہم کانچ کے ٹکڑوں کو صاف کردیا کرتے ہیں۔''
ڈاکٹرعبدالوہاب نے داخلے کے ٹیسٹ کو شفاف بنانے کے لیے خصوصی کوششیں کیں۔ وہ لکھتے ہیں ''آئی بی اے کے داخلوں میں بہترین انتظام، دیانت داری اور شفافیت سے ہمیں بہت فائدہ پہنچا۔ مختلف اداروں نے ہم سے آئی بی اے میں ٹیسٹ کروانا شروع کردیے۔ پی آئی اے کے انجینئرزکی ملازمت کے ٹیسٹ کی ذمے داری مجھے دی گئی۔ اسٹیٹ بینک کے آفیسرزکا ٹیسٹ بھی ہم کو دیا گیا۔ سندھ کے میڈیکل کالج کے پری انٹری ٹیسٹ کی ابتدا بھی میرے ذریعے کرائی گئی۔''
ڈاکٹر عبدالوہاب کو اپنی اصلاحی مہم میں بہت کچھ اندرونی مخالفت برداشت کرنا پڑی۔ ان پر قاتلانہ حملہ ہوا، ان کے بیٹے کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہنگامہ آرائی بھی ہوئی۔ آخر میں پھر ڈاکٹر صاحب ہی سرخرو ہوئے۔
1994ء میں ڈاکٹر عبدالوہاب کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے۔ اس وقت محمود ہارون سندھ کے گورنر اور یونیورسٹی کے چانسلر تھے۔ یہاں بھی ڈاکٹر صاحب نے اصلاح کا عمل جاری رکھا۔ یہاں کے مسائل زیادہ تھے اور ان کی اصلاح مشکل تر۔ بہرحال ان کی کوششیں جاری رہیں اور دو سال بعد جب وہ یونیورسٹی کی وائس چانسلری سے ہٹے تو اس اطمینان کے ساتھ کہ ''کچھ کام کر چلے۔''