کورٹ میرج فرسودہ روایات سے تنگ لڑکیوں کارجحان زیادہ
غیرمسلم جوڑے قبول اسلام کے بعدقانونی چارہ جوئی سے بچنے کیلیے کورٹ میرج کرتے ہیں۔
فرسودہ روایات وٹے سٹے، ونی اورکاروکاری سے تنگ لڑکیوںکا کورٹ میرج کی جانب رحجان زیادہ ہے ۔
جرگوں کے ظالمانہ فیصلے کیخلاف بھی لڑکے اور لڑکیاں عدالت سے رجوع کرتے ہیں،کورٹ میرج کرنیوالوں کی سب سے زیادہ تعداد فیکٹری ورکرز آفس میں ساتھ کام کرنیوالی اوردیگر والدین کے فیصلے کیخلاف بغاوت کرنیوالوں کی ہے ، اس کے علاوہ وٹے سٹے ،ونی اور کاروکاری قرار دی گئی لڑکیوں نے فرسودہ روایات سے بغاوت جبکہ متعدد غیر مسلم جوڑے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرنے کے بعد قانونی چارہ جوئی سے بچنے کیلیے کورٹ میرج کرتے ہیں،ریکارڈ کے مطابق مذکورہ وجوہات کے باعث لڑکیاں اورلڑکے کورٹ میرج کرنے پر مجبور ہیں، رحیم یارخان کی رہائشی مسماۃ شاہدہ نے خودمختاری میں موقف اختیار کیا تھا کہ اس کے والدین نے اسے وٹے سٹے میں بھا وج کے بھائی کے ساتھ منسلک کردیا تھا جبکہ وہ پڑوسی ریاض کو پسند کرتی ہے ۔
وہاڑی پنجاب کی رہائشی شاہدہ نے بھی برادری کے فیصلے سے بغاوت کی کیونکہ وہ محمد انور سے شادی کرنا چاہتی تھی لیکن برادری نے انکارکردیا جس پر اس نے اپنے پریمی کے ہمراہ گھر سے فرار اختیارکیا، بہاول پورکی کندن بی بی نے موقف اختیار کیا کہ اسے وٹے سٹے جیسے فرسودہ رواج کی سولی کا سامنا کرنا پڑا تھا ایک برس ظلم برداشت کیے لیکن وہ گلزارکو پسند کرتی تھی اس کے بھائی نے شوہر کی بہن کو طلاق دی تو اسے بھی آزادی مل گئی اب وہ اپنے گلزار کے ہمراہ اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتی ہے،ٹھٹھہ کی رہاشی گل بانو نے جسٹس آف پیس کو بتایا کہ اس نے والدین کو منور علی سے شادی کرنیکا اظہار کیا تھا جس پر وڈیرے نے جرگے میں اسے اور اسکے پریمی کو کاروکاری قرار دیا تھا موقع ملتے ہی فرار ہوکر نہ آتے تو قتل کردیے جاتے،وسیم اور نرگس بانو نے بتایا کہ وہ مقامی فیکٹری میں کام کرتے تھے اور اس دوران محبت ہوگئی تھی والدین نے انکار کردیا تھا جس پر انھوں نے کورٹ میرج کرلی۔
جرگوں کے ظالمانہ فیصلے کیخلاف بھی لڑکے اور لڑکیاں عدالت سے رجوع کرتے ہیں،کورٹ میرج کرنیوالوں کی سب سے زیادہ تعداد فیکٹری ورکرز آفس میں ساتھ کام کرنیوالی اوردیگر والدین کے فیصلے کیخلاف بغاوت کرنیوالوں کی ہے ، اس کے علاوہ وٹے سٹے ،ونی اور کاروکاری قرار دی گئی لڑکیوں نے فرسودہ روایات سے بغاوت جبکہ متعدد غیر مسلم جوڑے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرنے کے بعد قانونی چارہ جوئی سے بچنے کیلیے کورٹ میرج کرتے ہیں،ریکارڈ کے مطابق مذکورہ وجوہات کے باعث لڑکیاں اورلڑکے کورٹ میرج کرنے پر مجبور ہیں، رحیم یارخان کی رہائشی مسماۃ شاہدہ نے خودمختاری میں موقف اختیار کیا تھا کہ اس کے والدین نے اسے وٹے سٹے میں بھا وج کے بھائی کے ساتھ منسلک کردیا تھا جبکہ وہ پڑوسی ریاض کو پسند کرتی ہے ۔
وہاڑی پنجاب کی رہائشی شاہدہ نے بھی برادری کے فیصلے سے بغاوت کی کیونکہ وہ محمد انور سے شادی کرنا چاہتی تھی لیکن برادری نے انکارکردیا جس پر اس نے اپنے پریمی کے ہمراہ گھر سے فرار اختیارکیا، بہاول پورکی کندن بی بی نے موقف اختیار کیا کہ اسے وٹے سٹے جیسے فرسودہ رواج کی سولی کا سامنا کرنا پڑا تھا ایک برس ظلم برداشت کیے لیکن وہ گلزارکو پسند کرتی تھی اس کے بھائی نے شوہر کی بہن کو طلاق دی تو اسے بھی آزادی مل گئی اب وہ اپنے گلزار کے ہمراہ اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتی ہے،ٹھٹھہ کی رہاشی گل بانو نے جسٹس آف پیس کو بتایا کہ اس نے والدین کو منور علی سے شادی کرنیکا اظہار کیا تھا جس پر وڈیرے نے جرگے میں اسے اور اسکے پریمی کو کاروکاری قرار دیا تھا موقع ملتے ہی فرار ہوکر نہ آتے تو قتل کردیے جاتے،وسیم اور نرگس بانو نے بتایا کہ وہ مقامی فیکٹری میں کام کرتے تھے اور اس دوران محبت ہوگئی تھی والدین نے انکار کردیا تھا جس پر انھوں نے کورٹ میرج کرلی۔