دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ہمارے مسائل کی جڑ ہے
کبھی کوئی دھمکی نہیں ملی، حکومت اور بین الاقوامی فلاحی تنظیموں سے فنڈز نہیں لیتے
کمرہ زیادہ بڑا نہیں تھا۔ میز کی ایک طرف مسجد نبوی کا بڑا سا، خوب صورت ماڈل رکھا تھا۔ دیواروں پر خطاطی کے نمونے آویزاں۔ ساتھ اُن کی درجنوں تصاویر۔ چند میں مشاہیر کے ساتھ، کچھ میں اعزازات وصول کرتے ہوئے۔ کراچی کے بڑے سانحات پر مختلف اخبارات نے جو ایڈیشنز نکالے، وہ بھی فریم کی صورت دیواروں پر موجود۔ چھیپا کی ایمبولینسز ان میں نمایاں۔ سب سے اہم حصہ وہ، جہاں اُن ایمبولینس ڈرائیوروں اور کارکنوں کی تصاویر نظر آرہی تھیں، جنھوں نے فرض کی ادائی کے دوران جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
رمضان چھیپا اپنے مخصوص سبز لباس میں تھے۔ کمرے میں داخل ہوئے، تو چہرے پر مسکراہٹ۔ تاخیر پر معذرت کی۔ پھر بات چیت کا سلسلہ چل نکلا۔ چھیپا فاؤنڈیشن کا کام قابل قدر ہے۔ کراچی میں مراکز کی تعداد 100 سے زاید۔ ان مراکز پر لگنے والے دستر خوانوں سے یومیہ 30 ہزار افراد اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ 300 سے زاید ایمبولینسز ہیں۔ 1020 ایمرجینسی ٹیلی فون نمبر۔ ملازمین کی تعداد 700 سے زیادہ۔ قدرتی آفات کے موقعے پر میڈیکل کیمپ بھی لگائے جاتے ہیں۔
مرکزی دفتر شارع فیصل پر، ایف ٹی سی پُل کے مدمقابل۔ اس کی بنیاد سن 2000 میں رکھی۔ یہاں سینٹرل کچن ہے۔ 2015 میں سرد خانہ بنایا۔ کورنگی میں چھیپا قبرستان ہے۔ ان کے مطابق کراچی میں تدفین کے لیے جگہ کی تلاش اور دیگر انتظامات مشکل بھی ہیں، اور منہگے بھی۔ ہر کوئی اُنھیں افورڈ نہیں کرسکتا۔ فلاحی تنظیمیں کام تو کر رہی ہیں، مگر اس ضمن میں حکومت کو کردار ادا کرنا ہوگا۔
خدمات کے اعتراف میں کتنے ہی اعزازات سے انھیں نوازا گیا، مگر دو اہم۔ حکومت پاکستان کی جانب سے 2013 میں ستارۂ امتیاز وصول کیا۔ جامعہ کراچی نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔
فنڈز کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ کہنے لگے؛ اوائل میں اہل خانہ نے مالی معاونت کی۔ خبر کمیونٹی کے مخیر افراد تک پہنچی، تو وہ تعاون کرنے لگے۔ دھیرے دھیرے کام پھیلنے لگا۔ اب تیس برس ہونے کو ہیں۔ یوں تو ہر طبقے، ہر شخص نے دل کھول کر تعاون کیا، مگر بہ قول اُن کے، چھیپا کمیونٹی کے ساتھ میمن کمیونٹی اور اہل پنجاب کا تذکرہ ضروری ہے۔ ''ہمارے ادارے کی پالیسی ہے کہ مخیر حضرات اور عوام سے فنڈ لیں گے۔ ہم حکومت سے، بین الاقوامی فلاحی تنظیموں یا سیاسی جماعتوں سے فنڈ نہیں لیتے۔ اگر کوئی پیش کش کرے، تو معذرت کر لیتے ہیں۔''
یادیں بچپن کی۔۔۔
کپڑوں پر چھپائی (پرنٹنگ) اُن کا خاندانی پیشہ۔ مغلوں کے دور سے اجداد اس سے وابستہ۔ اسی باعث یہ قبیلہ چھیپا کہلایا۔ خاندان نے احمد آباد سے ہجرت کی، تو کراچی میں ڈیرا ڈالا۔ یہیں 9 اکتوبر 1971 کو رنچھوڑ لائن کے ایک میٹرنٹی ہوم میں محمد رمضان چھیپا نے آنکھ کھولی۔ پانچ بہن بھائیوں میں بڑے ہیں۔ کھیلوں میں کرکٹ کے دل دادہ۔ شریر نہیں تھے۔ پڑھنے لکھنے کا شوق تھا۔ خواہش تھی، پڑھ لکھ کر ملک کی خدمت کریں۔ والد، محمد اسماعیل کو ایک شفیق انسان کے طور پر یاد کرتے ہیں۔
قابل اور سرگرم طالب علم تھے۔ کلاس کے مانیٹر رہے۔ انگریزی اور اردو، دونوں ہی کی رائٹنگ بہت اچھی تھی۔ امتحانی پرچے ان ہی کے خط میں تیار ہوتے، اور پھر فوٹو کاپی کیے جاتے۔ 88ء میں الفا اسکول، رنچھوڑ لائن سے میٹرک کیا۔ کامرس کے طالب علم تھے۔ بعد میں پرائیویٹ گریجویشن پر اکتفا کرنا پڑا کہ اس وقت تک فلاحی سرگرمیاں کُلی توجہ کا مرکز بن گئی تھیں۔
بوہری بازار اور صدر کے دھماکے
یہ 87ء کا تذکرہ ہے، ابھی میٹرک کے امتحان کی تیاری کر رہے تھے۔ ایک روز قیامت خیز سانحہ پیش آیا۔ درودیوار ہل گئے۔ بوہری بازار اور صدر میں ہول ناک دھماکے ہوئے تھے، جن میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں۔ رمضان چھیپا اس دن کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں،''ہمارا گھر سول اسپتال کے قریب ہی ہے۔
اس روز مسجدوں سے اعلان ہورہا تھا کہ بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہیں، خون عطیہ کیا جائے۔ میں اسپتال چلا گیا۔ پہلے خون دیا۔ پھر ٹراما سینٹر میں آگیا۔ وہاں کے مناظر خوف ناک تھے۔ زخمیوں کو لایا جارہا تھا۔ کتنوں ہی نے میرے سامنے دم توڑا۔ ایمبولینسز نہ ہونے کی وجہ سے وہ بروقت اسپتال نہیں پہنچ سکے۔ پھر اسپتالوں میں نہ تو اتنا پیرامیڈیکل اسٹاف تھا، نہ ہی ڈاکٹرز اور سہولیات۔ بستر کم تھے۔ انھیں زمین پر لٹا دیا گیا۔ بے یارومددگار، وہ سسک سسک کر اللہ میاں کو پیارے ہوگئے۔''
اس واقعے نے زندگی بدل دی۔ سوچا، کیا میرا فرض فقط یہ ہے کہ آیا، خون عطیہ کیا، لوگوں کا ہاتھ بٹایا، اور لوٹ گیا۔ دل سے جواب آیا؛ نہیں! اِسی روز فلاحی خدمت کے میدان میں آگئے۔ تقویت گھر کے ماحول سے ملی۔ والدہ کا کردار مرکزی رہا، جو کمیونٹی کی مستحکم خواتین کی مدد اور دیکھ ریکھ کیا کرتی تھیں۔
پہلے دفتر کا تذکرہ
آغاز کچھ یوں ہوا کہ وہ صبح سول اسپتال پہنچ جاتے۔ مریضوں کی راہ نمائی کرتے، معذور اور ضعیفوں کے لیے دوڑے دوڑے وہیل چیئر یا اسٹریچر لے آتے۔ انھیں متعلقہ ڈاکٹر کے پاس لے جاتے۔ پاکٹ منی اسی کام میں خرچ ہوتی۔ اس عمل پر کچھ لوگ تعریف کرتے، تو کچھ پھبتیاں کستے۔ تنقید کی انھیں پروا نہیں تھی کہ اس کام سے روحانی سکون مل رہا تھا۔
اوائل میں جن افراد کی اسپتال آمد کے وقت مدد کی تھی، جب وہ وارڈ میں شفٹ ہوگئے، تو ان کی عیادت کو گئے۔ چند ایسے مریضوں سے سامنے ہوا، جن کے پاس دوا تو کیا، کھانے کو بھی پیسے نہیں تھے۔
نوجوان رمضان کو بڑا دکھ ہوا۔ والدہ کے سامنے اپنا کرب بیان کیا۔ انھوں نے اپنی بچت میں سے کچھ پیسے انھیں دے دیے۔ اسی روز خیال آیا کہ چندہ کرکے فلاحی کاموں کو وسعت دے سکتے ہیں۔ سول اسپتال کے نزدیک والد کا ایک گودام تھا، وہاں پرانی میز اور کرسی رکھ کر دفتر سا بنا لیا۔ چوں کہ والد کو سب چھیپا بھائی، چھیپا بھائی کہا کرتے تھے، سو تنظیم کے لیے چھیپا فاؤنڈیشن کا نام چنا۔ اس وقت جیب میں فقط پانچ روپے تھے۔
اگلے مرحلے میں سول اسپتال کے باہر ایک دفتر کھولا۔ ایک معنوں میں میڈیکل اسٹور۔ ایمرجینسی کے ڈاکٹرز سے کہہ دیا کہ جس مریض کو مستحق پائیں، ہماری سمت بھیج دیں۔
کرب ناک یاد
یوں تو کتنے ہی کرب ناک واقعات کے گواہ بنے، مگر 87ء کے دھماکوں کا غم آج بھی ذہن پر نقش ہے۔ بہ قول ان کے،''اس روز حال یہ تھا کہ بوہری بازار میں بجلی کے تاروں پر انسانی اعضا لٹکے ہوئے تھے۔ وہ بہت تکلیف دہ منظر تھا۔ اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ جو لوگ زخمی ہوئے تھے، ان کی آہ وبکا روح کو جھنجھوڑ دیتی تھی۔
ہر کوئی مدد کے لیے پکار رہا تھا۔ اس واقعے نے ذہن پر اَن مٹ نقوش چھوڑے۔ 2004 میں پی اے سی سی کا جو بلاسٹ ہوا تھا، اس میں میرا بھائی بھی شدید زخمی ہوا۔ یعنی میں ذاتی حیثیت میں اس کرب کو جانتا تھا۔ بس، اللہ پاکستان کو ایسے شرپسندوں سے محفوظ رکھے، اور لوگوں کی حفاظت فرمائے۔''
خدمت، مصیبت؟
کراچی جیسے شہر میں خدمت کا جذبہ بھی مصیبت بن سکتا ہے۔ اسی تناظر میں پوچھا، کبھی کوئی دھمکی ملی؟ کہنے لگے،''نہیں، کبھی نہیں۔ ہمارا مقصد اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خوش نودی ہے۔ بلاتفریق کام کرتے ہیں۔ سب ہماری عزت کرتے ہیں، ہم سے تعاون کرتے ہیں۔''
مگر شہرت تنازعات کو بھی جنم دیتی ہے، مخالفین آپ پر بھی الزامات لگاتے ہوں گے؟ کچھ دیر سوچنے کے بعد جواب دیا،''اگر آپ تعریف کے خواہش مند ہیں، اس پر خوش ہوتے ہیں، تو جب آپ پر تنقید ہوگی، تو آپ ناراض ہوجائیں گے۔ تعریف ہماری منزل نہیں ہے۔
ہم تو صبر اور جذبے کے ساتھ کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں، کیوں کہ ہمارا مقصد اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو راضی کرنا ہے۔'' مزید کہتے ہیں، جن عوامل کی وجہ سے اختلافات پیدا ہوتے ہیں، جھگڑے ہوتے ہیں، اس سے اجتناب برتا جاتا ہے۔ ''جیسے کھالوں کا مسئلہ ہے۔ تو کھالیں ہم جمع ہی نہیں کرتے۔ اگر کوئی فون کر کے بلاتا ہے، تو جا کر کھال لے لیتے ہیں، یا کوئی خود آکر جمع کروا دیتا ہے۔''
جان بچانے والوں کو لاحق خطرات
فلاحی سرگرمیوں کا میدان کٹھن، بالخصوص ایمبولینس ڈرائیور ہمہ وقت خطرے میں گھرے رہتے ہیں۔ جانے کب کہاں سے اندھی گولی آجائے، دھماکے کے بعد جائے وقوع پر پہنچیں، اور دوسرا دھماکا ہوجائے۔ اس طرح کے واقعات میں ان کے کارکن بھی شہید ہوئے۔ کہتے ہیں،''یہ بہت بڑا چیلینج ہے۔
امن و امان کی صورت حال بگڑنے یا سانحہ ہونے کے بعد پولیس سے پہلے وہاں ایمبولینس پہنچتی ہے۔ کئی خطرات ہوتے ہیں۔ ہمارے تین چار لوگ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اسی وجہ سے لوگ اس پیشے میں بہت کم آتے ہیں۔ یہ کام حکومت کے کرنے کا ہے، جو فلاحی تنظیمیں کر رہی ہیں۔ کم از کم اس طرح کے واقعات میں حکومت کو ہماری حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، مگر حکومت کے پاس شاید اس کے لیے وقت نہیں ہے۔''
ڈرائیور کو ان کے ہاں بارہ ہزار روپے دیے جاتے ہیں، مگر تن خواہ پر معاملہ تمام نہیں ہوتا۔ بہ قول ان کے، ہر سطح پر ان کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ایک تو یہ اُن کا اخلاقی فرض ہے، پھر یہ یوں بھی ضروری ہے کہ وہ اس کام سے وابستہ رہیں۔ ''مددگاروں کے اہل خانہ کی خواہش تو یہی ہوتی ہے کہ وہ اس کام کو چھوڑ دیں۔ اور جب ہمارا کوئی کارکن شہید ہوجاتا ہے، تو باقیوں پر ان کے اہل خانہ کی طرف سے دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ تو ہمیں ان کا خیال بھی رکھنا ہوتا ہے، متحرک بھی کرنا ہوتا ہے۔''
سبز لباس، جناح کیپ
ہمیشہ سبز شلوار قمیص میں دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے ایک سے زاید عوامل۔ ایک سبب تو یہ کہ گنبد خضرا کا رنگ بھی سبز ہے، پھر یہی رنگ پاکستان کے جھنڈے کا۔ اصل وجہ وہ منت تھی، جو والدہ نے ان کی پیدایش سے قبل مانگی تھی۔ ''مجھ سے پہلے ایک بھائی فوت ہوگیا تھا، تو والدہ نے محرم کے مہینے میں حضرت امام حسینؓ کی منت مانگی کہ اگر بیٹا ہوگا، تو اسے مولا حسینؓ کا فقیر بناؤں گی، سبز کپڑے پہناؤں گی۔ بس، تب سے یہ سلسلہ ہے۔ پھر جس زمانے میں مَیں نے کام شروع کیا، حالات بہت خراب تھے، تو رسول کریم ﷺ سے عقیدت اور جذبۂ حب الوطنی کے تحت یہ رنگ چنا۔ جناح کیپ شروع ہی سے پہن رہا ہوں۔''
ایدھی صاحب
ان کے اور عبدالستار ایدھی کی فلاحی سرگرمیوں میں جو مماثلت، کچھ حلقے اس سے جڑی مسابقت کا بھی تذکرہ کرتے ہیں، مگر وہ اس قسم کی باتوں کو افواہ ٹھہراتے ہیں۔ ''ایدھی صاحب نے بہت بڑا کام کیا۔ پوری دنیا ان کی معترف ہے۔ آج کل وہ بیمار ہیں، اللہ تعالیٰ انھیں صحت اور تن درستی دے۔ ہماری دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔''
آج شہر میں کئی فلاحی تنظیمیں سرگرم۔ چھیپا سمیت ایدھی اور سیلانی جیسے منظم نیٹ ورک، پھر کیا وجہ کہ مسائل جوں کے توں ہیں؟ کہنے لگے،''اس کی وجہ دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے۔ معاشرہ دو طبقوں میں بٹا ہوا ہے۔ امیر امیر سے امیر تر ہوتا جارہا ہے۔ غریب کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔ دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ہی مسائل کی جڑ ہے۔''
مسئلہ کراچی کا
گذشتہ تیس برس سے کراچی میں سرگرم۔ اس عرصے میں کتنے ہی مذہبی اور لسانی سانحات ہوئے، کیسے کیسے المیوں نے جنم لیا۔ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں،''90 کی دہائی اس شہر کے لیے مشکل ترین دور تھا۔ بہت خون خرابہ ہوا۔ پھر 2006 سے 2010-11 تک بھی حالات مخدوش تھے۔'' ہم نے سوال کیا، اس کی وجہ کیا رہی؟ بولے،''میں اس کی وجہ عدم برداشت کو ٹھہراؤں گا۔ ہم میں اب صبر، وسیع القلبی اور درگزر کی عادت نہیں رہی۔ کوئی آپ کو گالی دیتا ہے، تو آپ آگے بڑھ کر اسے گالی دے دیتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا حوصلہ اب ہم میں نہیں رہا۔ یہ ضرور کہوں گا کہ اس وقت کراچی کے حالات بہت بہتر ہیں۔ آج سے قبل کبھی امن و امان کی صورت حال اتنی اچھی نہیں رہی۔ ''
دعاؤں سے وابستہ خوشی
سادگی پسند ہیں۔ اوروں کو بھی یہی مشورہ دیتے ہیں۔ خوشی تب محسوس کرتے ہیں، جب ان کی کوششوں سے کسی انسان کی زندگی بچ جائے، اور وہ ہاتھ اٹھا کر دعائیں دے۔ کھانے میں دال چاول سے رغبت۔ بہار کا موسم پسند۔ اخبارات اور ٹی وی دیکھنے کا وقت نہیں ملتا۔ یہی معاملہ فلموں کا۔ رفیع، نور جہاں اور جگجیت کی آواز پسند۔ اچھی شاعری سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ سیرت کی کتب مطالعے میں رہتی ہیں۔ جوائنٹ فیملی سسٹم ہے۔
پرنٹنگ کا کاروبار۔ انھیں فلاحی سرگرمیاں مصروف رکھتی ہیں۔ کاروبار والد اور بھائی سنبھالتے ہیں۔ کبھی اس ضمن میں پریشانی پیش نہیں آئی۔2000 میں شادی ہوئی۔ خدا نے دو بیٹوں، دو بیٹیوں سے نوازا۔ شروع میں بچے وقت کی کمی کی شکایت کرتے تھے، مگر جیسے جیسے وہ سمجھ دار ہوتے گئے، شکایات کم ہوتی گئیں۔ پھر جب گھر پر ہوں، انھیں بھرپور توجہ دیتے ہیں۔ دوبارہ زندگی ملی، تو یہی کردار چنیں گے، انسانیت کی خدمت، انسان سے پیار۔
رمضان چھیپا اپنے مخصوص سبز لباس میں تھے۔ کمرے میں داخل ہوئے، تو چہرے پر مسکراہٹ۔ تاخیر پر معذرت کی۔ پھر بات چیت کا سلسلہ چل نکلا۔ چھیپا فاؤنڈیشن کا کام قابل قدر ہے۔ کراچی میں مراکز کی تعداد 100 سے زاید۔ ان مراکز پر لگنے والے دستر خوانوں سے یومیہ 30 ہزار افراد اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ 300 سے زاید ایمبولینسز ہیں۔ 1020 ایمرجینسی ٹیلی فون نمبر۔ ملازمین کی تعداد 700 سے زیادہ۔ قدرتی آفات کے موقعے پر میڈیکل کیمپ بھی لگائے جاتے ہیں۔
مرکزی دفتر شارع فیصل پر، ایف ٹی سی پُل کے مدمقابل۔ اس کی بنیاد سن 2000 میں رکھی۔ یہاں سینٹرل کچن ہے۔ 2015 میں سرد خانہ بنایا۔ کورنگی میں چھیپا قبرستان ہے۔ ان کے مطابق کراچی میں تدفین کے لیے جگہ کی تلاش اور دیگر انتظامات مشکل بھی ہیں، اور منہگے بھی۔ ہر کوئی اُنھیں افورڈ نہیں کرسکتا۔ فلاحی تنظیمیں کام تو کر رہی ہیں، مگر اس ضمن میں حکومت کو کردار ادا کرنا ہوگا۔
خدمات کے اعتراف میں کتنے ہی اعزازات سے انھیں نوازا گیا، مگر دو اہم۔ حکومت پاکستان کی جانب سے 2013 میں ستارۂ امتیاز وصول کیا۔ جامعہ کراچی نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔
فنڈز کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ کہنے لگے؛ اوائل میں اہل خانہ نے مالی معاونت کی۔ خبر کمیونٹی کے مخیر افراد تک پہنچی، تو وہ تعاون کرنے لگے۔ دھیرے دھیرے کام پھیلنے لگا۔ اب تیس برس ہونے کو ہیں۔ یوں تو ہر طبقے، ہر شخص نے دل کھول کر تعاون کیا، مگر بہ قول اُن کے، چھیپا کمیونٹی کے ساتھ میمن کمیونٹی اور اہل پنجاب کا تذکرہ ضروری ہے۔ ''ہمارے ادارے کی پالیسی ہے کہ مخیر حضرات اور عوام سے فنڈ لیں گے۔ ہم حکومت سے، بین الاقوامی فلاحی تنظیموں یا سیاسی جماعتوں سے فنڈ نہیں لیتے۔ اگر کوئی پیش کش کرے، تو معذرت کر لیتے ہیں۔''
یادیں بچپن کی۔۔۔
کپڑوں پر چھپائی (پرنٹنگ) اُن کا خاندانی پیشہ۔ مغلوں کے دور سے اجداد اس سے وابستہ۔ اسی باعث یہ قبیلہ چھیپا کہلایا۔ خاندان نے احمد آباد سے ہجرت کی، تو کراچی میں ڈیرا ڈالا۔ یہیں 9 اکتوبر 1971 کو رنچھوڑ لائن کے ایک میٹرنٹی ہوم میں محمد رمضان چھیپا نے آنکھ کھولی۔ پانچ بہن بھائیوں میں بڑے ہیں۔ کھیلوں میں کرکٹ کے دل دادہ۔ شریر نہیں تھے۔ پڑھنے لکھنے کا شوق تھا۔ خواہش تھی، پڑھ لکھ کر ملک کی خدمت کریں۔ والد، محمد اسماعیل کو ایک شفیق انسان کے طور پر یاد کرتے ہیں۔
قابل اور سرگرم طالب علم تھے۔ کلاس کے مانیٹر رہے۔ انگریزی اور اردو، دونوں ہی کی رائٹنگ بہت اچھی تھی۔ امتحانی پرچے ان ہی کے خط میں تیار ہوتے، اور پھر فوٹو کاپی کیے جاتے۔ 88ء میں الفا اسکول، رنچھوڑ لائن سے میٹرک کیا۔ کامرس کے طالب علم تھے۔ بعد میں پرائیویٹ گریجویشن پر اکتفا کرنا پڑا کہ اس وقت تک فلاحی سرگرمیاں کُلی توجہ کا مرکز بن گئی تھیں۔
بوہری بازار اور صدر کے دھماکے
یہ 87ء کا تذکرہ ہے، ابھی میٹرک کے امتحان کی تیاری کر رہے تھے۔ ایک روز قیامت خیز سانحہ پیش آیا۔ درودیوار ہل گئے۔ بوہری بازار اور صدر میں ہول ناک دھماکے ہوئے تھے، جن میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں۔ رمضان چھیپا اس دن کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں،''ہمارا گھر سول اسپتال کے قریب ہی ہے۔
اس روز مسجدوں سے اعلان ہورہا تھا کہ بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہیں، خون عطیہ کیا جائے۔ میں اسپتال چلا گیا۔ پہلے خون دیا۔ پھر ٹراما سینٹر میں آگیا۔ وہاں کے مناظر خوف ناک تھے۔ زخمیوں کو لایا جارہا تھا۔ کتنوں ہی نے میرے سامنے دم توڑا۔ ایمبولینسز نہ ہونے کی وجہ سے وہ بروقت اسپتال نہیں پہنچ سکے۔ پھر اسپتالوں میں نہ تو اتنا پیرامیڈیکل اسٹاف تھا، نہ ہی ڈاکٹرز اور سہولیات۔ بستر کم تھے۔ انھیں زمین پر لٹا دیا گیا۔ بے یارومددگار، وہ سسک سسک کر اللہ میاں کو پیارے ہوگئے۔''
اس واقعے نے زندگی بدل دی۔ سوچا، کیا میرا فرض فقط یہ ہے کہ آیا، خون عطیہ کیا، لوگوں کا ہاتھ بٹایا، اور لوٹ گیا۔ دل سے جواب آیا؛ نہیں! اِسی روز فلاحی خدمت کے میدان میں آگئے۔ تقویت گھر کے ماحول سے ملی۔ والدہ کا کردار مرکزی رہا، جو کمیونٹی کی مستحکم خواتین کی مدد اور دیکھ ریکھ کیا کرتی تھیں۔
پہلے دفتر کا تذکرہ
آغاز کچھ یوں ہوا کہ وہ صبح سول اسپتال پہنچ جاتے۔ مریضوں کی راہ نمائی کرتے، معذور اور ضعیفوں کے لیے دوڑے دوڑے وہیل چیئر یا اسٹریچر لے آتے۔ انھیں متعلقہ ڈاکٹر کے پاس لے جاتے۔ پاکٹ منی اسی کام میں خرچ ہوتی۔ اس عمل پر کچھ لوگ تعریف کرتے، تو کچھ پھبتیاں کستے۔ تنقید کی انھیں پروا نہیں تھی کہ اس کام سے روحانی سکون مل رہا تھا۔
اوائل میں جن افراد کی اسپتال آمد کے وقت مدد کی تھی، جب وہ وارڈ میں شفٹ ہوگئے، تو ان کی عیادت کو گئے۔ چند ایسے مریضوں سے سامنے ہوا، جن کے پاس دوا تو کیا، کھانے کو بھی پیسے نہیں تھے۔
نوجوان رمضان کو بڑا دکھ ہوا۔ والدہ کے سامنے اپنا کرب بیان کیا۔ انھوں نے اپنی بچت میں سے کچھ پیسے انھیں دے دیے۔ اسی روز خیال آیا کہ چندہ کرکے فلاحی کاموں کو وسعت دے سکتے ہیں۔ سول اسپتال کے نزدیک والد کا ایک گودام تھا، وہاں پرانی میز اور کرسی رکھ کر دفتر سا بنا لیا۔ چوں کہ والد کو سب چھیپا بھائی، چھیپا بھائی کہا کرتے تھے، سو تنظیم کے لیے چھیپا فاؤنڈیشن کا نام چنا۔ اس وقت جیب میں فقط پانچ روپے تھے۔
اگلے مرحلے میں سول اسپتال کے باہر ایک دفتر کھولا۔ ایک معنوں میں میڈیکل اسٹور۔ ایمرجینسی کے ڈاکٹرز سے کہہ دیا کہ جس مریض کو مستحق پائیں، ہماری سمت بھیج دیں۔
کرب ناک یاد
یوں تو کتنے ہی کرب ناک واقعات کے گواہ بنے، مگر 87ء کے دھماکوں کا غم آج بھی ذہن پر نقش ہے۔ بہ قول ان کے،''اس روز حال یہ تھا کہ بوہری بازار میں بجلی کے تاروں پر انسانی اعضا لٹکے ہوئے تھے۔ وہ بہت تکلیف دہ منظر تھا۔ اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ جو لوگ زخمی ہوئے تھے، ان کی آہ وبکا روح کو جھنجھوڑ دیتی تھی۔
ہر کوئی مدد کے لیے پکار رہا تھا۔ اس واقعے نے ذہن پر اَن مٹ نقوش چھوڑے۔ 2004 میں پی اے سی سی کا جو بلاسٹ ہوا تھا، اس میں میرا بھائی بھی شدید زخمی ہوا۔ یعنی میں ذاتی حیثیت میں اس کرب کو جانتا تھا۔ بس، اللہ پاکستان کو ایسے شرپسندوں سے محفوظ رکھے، اور لوگوں کی حفاظت فرمائے۔''
خدمت، مصیبت؟
کراچی جیسے شہر میں خدمت کا جذبہ بھی مصیبت بن سکتا ہے۔ اسی تناظر میں پوچھا، کبھی کوئی دھمکی ملی؟ کہنے لگے،''نہیں، کبھی نہیں۔ ہمارا مقصد اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خوش نودی ہے۔ بلاتفریق کام کرتے ہیں۔ سب ہماری عزت کرتے ہیں، ہم سے تعاون کرتے ہیں۔''
مگر شہرت تنازعات کو بھی جنم دیتی ہے، مخالفین آپ پر بھی الزامات لگاتے ہوں گے؟ کچھ دیر سوچنے کے بعد جواب دیا،''اگر آپ تعریف کے خواہش مند ہیں، اس پر خوش ہوتے ہیں، تو جب آپ پر تنقید ہوگی، تو آپ ناراض ہوجائیں گے۔ تعریف ہماری منزل نہیں ہے۔
ہم تو صبر اور جذبے کے ساتھ کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں، کیوں کہ ہمارا مقصد اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو راضی کرنا ہے۔'' مزید کہتے ہیں، جن عوامل کی وجہ سے اختلافات پیدا ہوتے ہیں، جھگڑے ہوتے ہیں، اس سے اجتناب برتا جاتا ہے۔ ''جیسے کھالوں کا مسئلہ ہے۔ تو کھالیں ہم جمع ہی نہیں کرتے۔ اگر کوئی فون کر کے بلاتا ہے، تو جا کر کھال لے لیتے ہیں، یا کوئی خود آکر جمع کروا دیتا ہے۔''
جان بچانے والوں کو لاحق خطرات
فلاحی سرگرمیوں کا میدان کٹھن، بالخصوص ایمبولینس ڈرائیور ہمہ وقت خطرے میں گھرے رہتے ہیں۔ جانے کب کہاں سے اندھی گولی آجائے، دھماکے کے بعد جائے وقوع پر پہنچیں، اور دوسرا دھماکا ہوجائے۔ اس طرح کے واقعات میں ان کے کارکن بھی شہید ہوئے۔ کہتے ہیں،''یہ بہت بڑا چیلینج ہے۔
امن و امان کی صورت حال بگڑنے یا سانحہ ہونے کے بعد پولیس سے پہلے وہاں ایمبولینس پہنچتی ہے۔ کئی خطرات ہوتے ہیں۔ ہمارے تین چار لوگ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اسی وجہ سے لوگ اس پیشے میں بہت کم آتے ہیں۔ یہ کام حکومت کے کرنے کا ہے، جو فلاحی تنظیمیں کر رہی ہیں۔ کم از کم اس طرح کے واقعات میں حکومت کو ہماری حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، مگر حکومت کے پاس شاید اس کے لیے وقت نہیں ہے۔''
ڈرائیور کو ان کے ہاں بارہ ہزار روپے دیے جاتے ہیں، مگر تن خواہ پر معاملہ تمام نہیں ہوتا۔ بہ قول ان کے، ہر سطح پر ان کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ایک تو یہ اُن کا اخلاقی فرض ہے، پھر یہ یوں بھی ضروری ہے کہ وہ اس کام سے وابستہ رہیں۔ ''مددگاروں کے اہل خانہ کی خواہش تو یہی ہوتی ہے کہ وہ اس کام کو چھوڑ دیں۔ اور جب ہمارا کوئی کارکن شہید ہوجاتا ہے، تو باقیوں پر ان کے اہل خانہ کی طرف سے دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ تو ہمیں ان کا خیال بھی رکھنا ہوتا ہے، متحرک بھی کرنا ہوتا ہے۔''
سبز لباس، جناح کیپ
ہمیشہ سبز شلوار قمیص میں دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے ایک سے زاید عوامل۔ ایک سبب تو یہ کہ گنبد خضرا کا رنگ بھی سبز ہے، پھر یہی رنگ پاکستان کے جھنڈے کا۔ اصل وجہ وہ منت تھی، جو والدہ نے ان کی پیدایش سے قبل مانگی تھی۔ ''مجھ سے پہلے ایک بھائی فوت ہوگیا تھا، تو والدہ نے محرم کے مہینے میں حضرت امام حسینؓ کی منت مانگی کہ اگر بیٹا ہوگا، تو اسے مولا حسینؓ کا فقیر بناؤں گی، سبز کپڑے پہناؤں گی۔ بس، تب سے یہ سلسلہ ہے۔ پھر جس زمانے میں مَیں نے کام شروع کیا، حالات بہت خراب تھے، تو رسول کریم ﷺ سے عقیدت اور جذبۂ حب الوطنی کے تحت یہ رنگ چنا۔ جناح کیپ شروع ہی سے پہن رہا ہوں۔''
ایدھی صاحب
ان کے اور عبدالستار ایدھی کی فلاحی سرگرمیوں میں جو مماثلت، کچھ حلقے اس سے جڑی مسابقت کا بھی تذکرہ کرتے ہیں، مگر وہ اس قسم کی باتوں کو افواہ ٹھہراتے ہیں۔ ''ایدھی صاحب نے بہت بڑا کام کیا۔ پوری دنیا ان کی معترف ہے۔ آج کل وہ بیمار ہیں، اللہ تعالیٰ انھیں صحت اور تن درستی دے۔ ہماری دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔''
آج شہر میں کئی فلاحی تنظیمیں سرگرم۔ چھیپا سمیت ایدھی اور سیلانی جیسے منظم نیٹ ورک، پھر کیا وجہ کہ مسائل جوں کے توں ہیں؟ کہنے لگے،''اس کی وجہ دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے۔ معاشرہ دو طبقوں میں بٹا ہوا ہے۔ امیر امیر سے امیر تر ہوتا جارہا ہے۔ غریب کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔ دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ہی مسائل کی جڑ ہے۔''
مسئلہ کراچی کا
گذشتہ تیس برس سے کراچی میں سرگرم۔ اس عرصے میں کتنے ہی مذہبی اور لسانی سانحات ہوئے، کیسے کیسے المیوں نے جنم لیا۔ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں،''90 کی دہائی اس شہر کے لیے مشکل ترین دور تھا۔ بہت خون خرابہ ہوا۔ پھر 2006 سے 2010-11 تک بھی حالات مخدوش تھے۔'' ہم نے سوال کیا، اس کی وجہ کیا رہی؟ بولے،''میں اس کی وجہ عدم برداشت کو ٹھہراؤں گا۔ ہم میں اب صبر، وسیع القلبی اور درگزر کی عادت نہیں رہی۔ کوئی آپ کو گالی دیتا ہے، تو آپ آگے بڑھ کر اسے گالی دے دیتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا حوصلہ اب ہم میں نہیں رہا۔ یہ ضرور کہوں گا کہ اس وقت کراچی کے حالات بہت بہتر ہیں۔ آج سے قبل کبھی امن و امان کی صورت حال اتنی اچھی نہیں رہی۔ ''
دعاؤں سے وابستہ خوشی
سادگی پسند ہیں۔ اوروں کو بھی یہی مشورہ دیتے ہیں۔ خوشی تب محسوس کرتے ہیں، جب ان کی کوششوں سے کسی انسان کی زندگی بچ جائے، اور وہ ہاتھ اٹھا کر دعائیں دے۔ کھانے میں دال چاول سے رغبت۔ بہار کا موسم پسند۔ اخبارات اور ٹی وی دیکھنے کا وقت نہیں ملتا۔ یہی معاملہ فلموں کا۔ رفیع، نور جہاں اور جگجیت کی آواز پسند۔ اچھی شاعری سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ سیرت کی کتب مطالعے میں رہتی ہیں۔ جوائنٹ فیملی سسٹم ہے۔
پرنٹنگ کا کاروبار۔ انھیں فلاحی سرگرمیاں مصروف رکھتی ہیں۔ کاروبار والد اور بھائی سنبھالتے ہیں۔ کبھی اس ضمن میں پریشانی پیش نہیں آئی۔2000 میں شادی ہوئی۔ خدا نے دو بیٹوں، دو بیٹیوں سے نوازا۔ شروع میں بچے وقت کی کمی کی شکایت کرتے تھے، مگر جیسے جیسے وہ سمجھ دار ہوتے گئے، شکایات کم ہوتی گئیں۔ پھر جب گھر پر ہوں، انھیں بھرپور توجہ دیتے ہیں۔ دوبارہ زندگی ملی، تو یہی کردار چنیں گے، انسانیت کی خدمت، انسان سے پیار۔