پٹھوں کی کم زوری کا مسئلہ

خون کا ٹیسٹ کروانے کا مقصد یہ جاننا ہوتا ہے کہ بلڈ میں وہ اینٹی باڈیز تو موجود نہیں جو ریسپٹرز کو ختم کرتی ہیں

خون کا ٹیسٹ کروانے کا مقصد یہ جاننا ہوتا ہے کہ بلڈ میں وہ اینٹی باڈیز تو موجود نہیں جو ریسپٹرز کو ختم کرتی ہیں:فوٹو : فائل

عضلات کی کم زوری کا مسئلہ باقاعدہ علاج اور احتیاطی تدابیر اپنانے سے حل ہوجاتا ہے، لیکن اس میں چند ہفتے یا اس سے زائد وقت بھی لگ سکتا ہے۔ اس بیماری کے اثرات جسم کے تمام پٹھوں پر پڑتے ہیں۔ تاہم ان کی شدت میں فرق ہوسکتا ہے۔ اس بیماری سے عموماً آنکھوں، پپوٹوں، چہرے کے عضلات کے علاوہ غذا چبانے، نگلنے اور بات کرنے میں مدد دینے والے پٹھے متأثر نہیں ہوتے، مگر بعض مریض اس حوالے سے بھی شکایت کرسکتے ہیں۔

حلق، ہاتھوں اور پیروں کے عضلات اور عملِ تنفس میں مددگار پٹھوں پر اس بیماری کی وجہ سے زیادہ اثر پڑتا ہے۔ جسمانی تھکن اور بھاگ دوڑ ہی نہیں بلکہ معمول کے مطابق اپنے کام نمٹانے کے باوجود مریض پٹھوں میں درد کی شدت میں اضافہ محسوس کرسکتا ہے۔ تاہم آرام کرنے سے تکلیف میں کمی آجاتی ہے۔ اس عضلاتی مرض کی ایک بڑی وجہ شریانوں کے عضلات کی کارکردگی میں کسی قسم کی بے تر تیبی اور رکاوٹ پیدا ہونا ہے۔

یہ رکاوٹ دراصل خون کی شریانوں اور مسلز میں رابطے کے عمل میں خرابی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ عام طور پر جسم میں موجود شریانوں اور مسلز کے درمیان رابطے میں جو طبی قوت متحرک ہوتی ہے، وہی شریانوں کے اختتام پر پہنچ کر ایک نیورو ٹرانسمیٹر چھوڑتی ہیں جسے Acetylcholine کہتے ہیں۔ یہ پٹھوں میں جاکر ایک قسم کا طبی نظام (Receptors) ترتیب دیتا ہے جو اعصاب کو زندہ رکھتا ہے۔ جسم میں موجود اینٹی باڈیز جو جسم کا حفاظتی نظام تشکیل دیتی ہیں، وہ پٹھوں میں بننے والے مخصوص نظام کے ذمہ دار رسیپٹرز کو ختم کرنے لگتا ہے اور ہمیں مسلز کی اس بیماری میں مبتلا کردیتا ہے۔

Thymus گلینڈ جسم کے حفاظتی نظام کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ابتدائی عمر میں اس گلینڈ کا سائز بڑا ہوتا ہے، مگر عمر میں اضافے کے ساتھ سائز میں کمی ہونے لگتی ہے۔ یہ اتنا چھوٹا ہوجاتا ہے کہ جسم میں موجود فیٹ کی تہ اسے ڈھانپ لیتی ہے۔ اگر بڑی عمر کا کوئی فرد پٹھوں کے اس مرض کا شکار ہو جائے تو اس کی وجہ گلینڈ کے سائز میں عمر بڑھنے کے ساتھ کمی واقع نہ ہونا ہوسکتی ہے۔ یہ ایک پیچیدہ اور خطرناک مسئلہ ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق ایسے گلینڈ میں ٹیومر بننے کا خدشہ رہتا ہے۔ تاہم طبی محققین اس گلینڈ اور عضلاتی کم زوری کی بیماری کا آپس میں تعلق دریافت نہیں کرسکے ہیں۔


یہ ایک طبی مفروضہ ہے، جس پر تحقیق جاری ہے۔ اس بیماری کا اثر کسی مخصوص عصب پر نہیں پڑتا بلکہ اس سے متعدد پٹھے متأثر ہوتے ہیں۔ محققین کے مطابق زیادہ تر کیسز میں آنکھوں کے مسلز کی کم زوری کے علاوہ نگلنے اور بات کرنے کے دوران مدد دینے والے پٹھوں کی شکایت سامنے آتی ہے۔ جسم کے حساس عضلات پر اس کے درد کی شدت زیادہ ہوسکتی ہے۔ آنکھوں کے مسلز کی کم زوری کی وجہ سے چہرے کے تأثرات پر فرق پڑتا ہے۔ ایسے مریض کو کھانا نگلنے اور چبانے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ درد کی شدت سے گفتگو کے دوران رکاوٹ پیش آتی ہے اور مریض ہکلانے لگتا ہے۔

اس مسئلے کا شکار ہونے والے کو ہاتھوں پیروں کی انگلیوں کے ساتھ گردن کے پٹھوں کی کم زوری کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق یہ ایسی بیماری ہے جو کسی بھی عمر میں لاحق ہو سکتی ہے۔ تاہم زیادہ تر چالیس سال سے کم عمر خواتین اور ساٹھ سال سے زائد عمر کے مردوں میں اس کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر کسی کم سن کو مذکورہ شکایات ہوں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بچے کے امیون سسٹم کی گڑبڑ سے مخصوص گلینڈ پر بیماری کا حملہ ہو چکا ہے بلکہ ظاہر ہونے والے اثرات موروثی بھی ہوسکتے ہیں۔

انسان کو لاحق ہونے والی بے شمار بیماریوں کے اثرات میں جسمانی کم زوری بھی شامل ہوتی ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ کوئی بھی فرد پٹھوں کی اسی بیماری کا شکار ہو گیا ہو۔ یہ اس مرض اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کم زوری ہوسکتی ہے جس کا علاج ہونے پر جسم کی توانائی اور پٹھوں کی طاقت بحال ہوجاتی ہے۔ اس لیے بیماری کی نوعیت اور مریض کی طبی ہسٹری جاننے کے بعد ہی ڈاکٹر اصل بات بتا سکتا ہے۔ Myasthenia gravis یا پٹھوں کے امراض کی صورت میں نیورولوجیکل اور فزیکل ٹیسٹ کرائے جاتے ہیں۔ اس بیماری میں آنکھوں کی جانچ کے ساتھ بلڈ ٹیسٹ بھی کرایا جاتا ہے۔

خون کا ٹیسٹ کروانے کا مقصد یہ جاننا ہوتا ہے کہ بلڈ میں وہ اینٹی باڈیز تو موجود نہیں جو ریسپٹرز کو ختم کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک ٹیسٹ EMG بھی کرایا جاتا ہے۔ طبی معالج سی ٹی اور ایم آئی آر کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش بھی کرتا ہے کہ Thymus گلینڈ پر ٹیومر تو نہیں بننا شروع ہو گیا۔ ایسے تمام ٹیسٹ کی رپورٹس کے بعد ہی معالج علاج کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ جدید طبی آلات اور طریقۂ علاج کی مدد سے اس بیماری سے نجات اور جسم پر اس کے منفی اثرات کو پوری طرح ختم کیا جاسکتا ہے۔ بعض ایسی ادویات بھی دست یاب ہیں جو نیورو مسلز ٹرانسمیشن کے نظام کو بہتر بنانے کے ساتھ عضلات کو طاقت بخشتی ہیں۔
Load Next Story