اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے پاناما لیکس پر جوڈیشل کمیشن کو مسترد کردیا
قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا تو قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے پاناما لیکس کے معاملے پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پاناما لیکس میں دو ڈھائی سو پاکستانیوں کا ذکر ہے، یہ ایک عالمی مسئلہ بن گیا ہے جب کہ اس معاملے پر وزیراعظم کے قوم سے خطاب نے سوالات اور بڑھا دیئے ہیں، وزیراعظم کو قوم سے خطاب کی کوئی ضرورت نہیں تھی، پتا نہیں نوازشریف کو خطاب کے لیے کس نے دھکا دیا۔
خورشید شاہ نے کہا کہ یہ ایک انتہائی اہم قومی معاملہ ہے، حسین نواز نے اعتراف کیا کہ ٹیکس بچانے کے لیے باہر کمپنیاں بنائیں، اگر وزیراعظم کا بیٹا ہی ایسا بیان دے تو ٹیکس اسکیم کا کیا فائدہ ہے، حسین نواز نے ٹیکس بچانے کےلیے پیسہ باہر بھیجنے کا خود اعتراف کیا ہے اور ٹیکس بچانے کے لیے بیرون ملک آف شور کمپنیاں بنانے کا معاملہ اہم اور سنگین ہے، جب حکمران خاندان کے لوگ ہی ملک سے باہر کاروبار کررہے ہیں تو کس منہ سے دنیا کو یہاں آکر سرمایہ کاری کرنے کا کہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سرمایہ باہر سے لانا چاہتے ہیں یہاں معاملہ ہی الٹا چل رہا ہے۔
اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ نوازشریف پیسے کیسے باہر لے گئے، اور آپ برے وقت کے لیے پیسے باہر لے گئے تو کیسے لے گئے، پیسے منی لانڈرنگ سے باہر گئے یا پھر کسی اور طرح سے گئے جب کہ نوازشریف کی چھوٹی اسٹیل مل نے دنیا کی بڑی اسٹیل مل سے زیادہ پیسہ کمایا، یورپ میں 80 ارب ڈالر کی پراپرٹی خریدی گئی۔ خورشید شاہ نے کہا کہ سوالوں کا جواب جوڈیشل کمیشن نہیں ہے کیونکہ کمیشن کو کوئی نہیں مانے گا اور 3 ماہ کیا 30 سال میں بھی کمیشن کے پاس کوئی ثبوت نہیں آئے گا۔
خورشید شاہ نے کہا کہ آف شور کمپنیوں کے لیے بھیجے گئے تمام سرمائے کا آڈٹ ہونا چاہیے، ہم جوڈیشل کمیشن کے اعلان کو مسترد کرتے ہیں اور پاناما کے معاملے پر غیر ملکی آڈٹ کے سوا کچھ نہیں مانیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جلدی میں کسی سے استعفے کا مطالبہ نہیں کریں گے، انکوائری اور آڈٹ مکمل ہونے کے بعد ہی کوئی مطالبہ کریں گے۔
ادھر چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے پاناما لیکس پر چیف جسٹس پاکستان کے تحت اعلیٰ سطح کا کمیشن بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن خود مختار نہ بنایا گیا تو سڑکوں پرآنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں پاناما لیکس کے معاملے پر اظہار خیال کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ پاناما لیکس اپوزیشن کی سازش نہیں اس میں وہ چیزیں نکلیں جنہیں چھپایا گیا تھا جب کہ پاناما لیکس میں وزیراعظم کے بچوں کا ذکر آنے پر حکومت کو شوکت خانم پرالزام لگانا یاد آگیا حالانکہ پاناما لیکس میں شوکت خانم کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ شوکت خانم واحد کینسر اسپتال ہے جہاں غریب علاج کراسکتا ہے اگر وہ بند ہوگیا تو کینسر کا علاج کہاں ہوگا اور اگرعوامی چندے سے بنا اسپتال غلط کام کرتا ہے تو پکڑنا حکومت کی ذمے داری ہے۔
عمران خان نے کہا کہ الزام لگایا گیا کہ آف شور کمپنی میں اینڈومنٹ فنڈ لگایا گیا جب کہ شوکت خانم کا فنڈ 40 فیصد سمندر پار سے آتا ہے، منی لانڈرنگ کر کے شوکت خانم کے لیے پیسا نہیں لیا گیا، شوکت خانم کے سارے فنڈ اوپن ہیں، سب دیکھ سکتے ہیں، یہ کون سی سیاست ہے کہ نوازشریف کرسی بچانے کے لیے فلاحی ادارے کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم پر 4 الزامات لگے جس کے جوابات دینے پڑیں گے لیکن (ن) لیگ نے جواب دینے کے بجائے شوکت خانم پر الزامات لگادیئے، پاناما لیکس عالمی مسئلہ ہے، نوازشریف اپنا نہیں بلکہ ملک کے بارے میں سوچیں اور خود کو احتساب کے لیے پیش کریں۔
چیئرمین تحریک انصاف نے پاناما لیکس پر چیف جسٹس آف پاکستان کے تحت اعلیٰ سطح کا خود مختار کمیشن بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن میں فرانزک ایکسپرٹ شامل کریں جب کہ عدالتی کمیشن مجھ سے تحقیقات کا آغاز کرے اور کمیشن شوکت خانم، بنی گالا اورمیرے دیگراثاثوں کی تحقیقات کرے لیکن اگر کمیشن خود مختار نہ بنایا گیا تو ہمارے پاس سڑکوں پرآنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پر 3 سال کے دوران اربوں روپے کا قرضہ چڑھا لیکن یہ موقع پاکستان کے لیے اہم موڑ بن سکتا ہے، ارکان کو وزیر اعظم کو کہنا چاہیے کہ آپ اپنے اثاثے ڈکلیئر کردیں جب کہ ہم ٹیکس کا نظام درست، اثاثوں کا اعلان، نیب کودرست کرلیں توباعزت ملک بن سکتے ہیں۔
پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ مستند احتساب نہیں ہوگا تو ہم سڑکوں پر نکلیں گے اور نیا کمیشن نہ بنا تو اس بار ڈی چوک نہیں بلکہ رائے ونڈ کا رخ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف پر منی لانڈرنگ ،ٹیکس چوری ،کرپشن ،غلط بیانی کے الزامات ہیں جب کہ یہ لوگ جھوٹ پر جھوٹ بول کر پھنستے جا رہے ہیں، غریب آدمی ڈیزل پر 98 فیصد ٹیکس دے اور آپ اپنے پیسے باہر رکھیں۔
دوسری جانب وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم پر پاناما لیکس کے حوالے سے کوئی بھی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی لیکن پھر بھی انہوں نے انکوائری کمیشن کا اعلان کرکے ذمہ داری کا ثبوت دیا مگر اب جس کو اس کمیشن پر تسلی نہ ہوئی تو وہ سپریم کورٹ جاسکتا ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم پر بلواسطہ یا بلا واسطہ کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی لیکن بھر بھی انہوں نے ٹی وی پر آکر وضاحت بیان کرکے ذمہ داری کا ثبوت دیا جب کہ وزیراعظم نے ازخود انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان کیا جس کے ارکان کا آج کل میں نام آجائے گا لیکن اب اس پر بھی اپوزیشن کو تسلی نہیں ہوئی۔
خواجہ آصف نے کہا کہ صرف عدالتی کمیشن میں حاضر سروس ججز ہوتے ہیں جب کہ یہ انکوائری کمیشن ہے اور قانون کے مطابق انکوائری کمیشن میں حاضر سروس ججز کی تقرری لازمی نہیں ہوتی، اب جس کو اس کمیشن پر تسلی نہ ہوئی تو وہ سپریم کورٹ جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں رینٹل پاور اور ایل پی جی سمیت متعدد اسکینڈلز سامنے آئے لیکن پیپلز پارٹی کو پہلے انکوائری کا خیال کیوں نہیں آیا۔
وزیردفاع نے کہا کہ وزیر اعظم پر الزامات کی بوچھاڑ کرنے والوں کے نام پاناما لیکس کی لسٹ میں سرفہرست ہیں جب کہ ہمیں پاک دامن ہونے کا درس دیا جارہا ہے، اسی ملک کے کچھ پارسا افراد نے بیرون ملک کمپنیوں میں چندے اور خیرات کے پیسے لگائے اور انہی پیسوں کو فرانس اور مسقط میں بھی لگایا گیا، خیرات کے پیسے باہر جمع کرنے والوں اور خیراتی ادارے کے فنڈ باہر سے لانے والوں کا بھی محاصرہ ہونا چاہیے۔ خواجہ آصف کہنا تھا کہ آمریت کے دور میں بھی ہمیں کڑے احتساب سے گزرنا پڑا تھا اور ہم ثابت قدم رہے اور آج بھی میرا لیڈر اس بحران سے سرخرو رو ہوکر نکلے گا۔