ہوتا ہے شب و روز تماشا
میری ہمدردی ان اہلکاروں کے ساتھ تھی کہ یہ بے چارے کریں بھی توکیا کریں جو محنت اور بھاگ دوڑ وہ کرتے ہیں
THATTA:
آج گھر سے نکلتے ہوئے خلاف معمول پانچ منٹ کی تاخیر ہوگئی، کیونکہ شادیوں کا موسم بہار کئی ہفتوں سے عروج پر ہے جو آج تاخیر کا باعث ہوا۔ میں نے وقت پر کالج پہنچنے کے لیے سگنل فری کوریڈور اختیار کیا ہوا ہے مگر اس میں بھی ایک سگنل پڑتا ہے جہاں کراچی میں راشد منہاس روڈ جب شاہراہ فیصل سے ملتا ہے۔
شاہراہ فیصل کا ٹریفک ایئرپورٹ کی جانب جاتا ہے عموماً یہ سگنل بند ملتا ہے اور میں اس کا دھیان رکھتے ہوئے ہی گھر سے نکلتی ہوں مگر آج خلاف معمول سگنل کھلا ہوا تھا آگے کئی گاڑیاں تھیں مگر ڈرائیور نے بند ہونے سے قبل گاڑی تقریباً نکال لی تھی ،ابھی گاڑی پوری طرح شاہراہ فیصل پر آئی نہ تھی کہ سرخ بتی روشن ہوگئی۔
اب ہم اس مقام پر تھے کہ نہ رک سکتے تھے اور نہ پیچھے واپس جاسکتے تھے لہٰذا گاڑی کو آگے بڑھا دیا اگر رک جاتے تو دونوں جانب کا ٹریفک متاثر ہوتا۔ ٹریفک کانسٹیبل نے ہاتھ کے اشارے سے گاڑی ایک جانب رکوائی اور ڈرائیور کو اترنے کا کہا، مجھے پہلے دیر ہو رہی تھی میں نے اس اہلکار سے کہا کہ جناب! میں نے سگنل ضرور توڑا ہے مگر اس وقت ہم اس پوزیشن میں نہ تھے کہ رکتے یا واپس جاتے، آپ چالان کریں ہمیں پہلے دیر ہو رہی ہے مگر انھوں نے میری بات سنی ان سنی کرکے ڈرائیور کو ایک طرف لے جاکر اپنی چالان بک نکالی مگر صرف دو منٹ بعد ڈرائیور آگیا گاڑی روانہ ہوگئی۔
میں نے اس سے پوچھا کیا رہا ؟ اس نے بتایا باجی! سو روپے لیے ہیں، آپ کو دیر ہو رہی تھی ورنہ میں تو ایک روپیہ بھی نہ دیتا۔ مجھے بہت تعجب ہوا کہ صورتحال سمجھانے پر تو پولیس اہلکارکی سمجھ میں بات نہ آئی اور مسلسل کہتے رہے کہ آپ نے سگنل کی خلاف ورزی کی ہے یعنی ہم قانون شکنی کے مرتکب ہوئے تھے لہٰذا سزا بھی ملنی چاہیے تھی، مگر صرف سو روپے لے کر قانون ٹوٹنے سے کیسے بچ گئے؟
میری ہمدردی ان اہلکاروں کے ساتھ تھی کہ یہ بے چارے کریں بھی توکیا کریں جو محنت اور بھاگ دوڑ وہ کرتے ہیں ان کا مشاہرہ اور سہولیات اس کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دنیا اور اس کے معاملات سب کے ساتھ ہیں اگر یہ اہلکار صرف سو روپے وہ بھی کسی جواز پر دن بھر میں سو افراد سے دن بھر میں لیتے بھی ہیں تو صرف دس ہزار روپے کماسکتے ہیں مگر ملک کا کوئی ادارہ، کوئی شعبہ اور کوئی محکمہ ایسا باقی نہیں بچا جہاں اربوں کی بدعنوانی نہ ہوئی ہو۔
قومی ایکشن پلان کی بھی بڑی دھوم ہے مگر اب تک کوئی اس لوٹی ہوئی اربوں کی دولت کو وصول نہ کرسکا، اب نیا گل پاناما لیکس کے انکشافات نے کھلایا ہے، جس ملک میں اعلیٰ شخصیات ملکی دولت کو شیر مادر سمجھ کر ہضم کر رہی ہوں، منی لانڈرنگ، بیرون ملک کاروبار یا کسی بھی صورت اور کسی بھی نام سے ملکی دولت خفیہ طور پر باہر بھیجی جارہی ہو، ان اربوں روپے کا حساب کس کے پاس اورجوازکیا ہے؟ کئی وقت سے فاقے زدہ ایک روٹی چرانے والا بچہ تو قانون کی زد میں آئے مگر ملک کو قرضوں کی دلدل میں پھینکنے اور غریب کے منہ کا نوالہ چھیننے والا ہر قانون سے بالاتر ہو۔
کیا عوام اپنے خون پسینے کی کمائی پر چند افراد کو عیش کرتے دیکھیں اور اُف بھی نہ کریں؟ اگلے انتخابات میں پھر انھی لٹیروں کو مسند اقتدار پر بٹھادیں؟ بات دراصل یہ ہے کہ حکومت، سیاست حتیٰ کہ مذہب تک پر جب دولت کا غلبہ ہو، ملک کا سارا نظام، سرمایہ داروں، جاگیرداروں، وڈیروں اور سرداروں کی منشا و مرضی کے مطابق چلتا ہو تو پھر ایسے ملک میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہی رہے گا۔
اس صورتحال کی ذمے داری جاگیردارانہ نظام پر ہی عائد ہوتی ہے، کیونکہ ہر برائی کی جڑ ہوس دنیا ودولت میں پیوست ہے، اگر ملک کے ہر شخص کو اس کے حقوق ملتے رہیں، ضروریات پوری ہوتی رہیں، حسب اہلیت و صلاحیت روزگار میسر ہو تو پھر کوئی طبقاتی تفریق کیسے جنم لے سکتی ہے؟ مگر جب محنت کریں عوام اور عیش کریں خواص تو پھر بے چینی اور بے سکونی ہی جنم لے گی اور اس کے بطن سے مزید برائیاں معاشرتی سطح پر رونما ہوں گی۔صاحبان اقتدارعوام کے خادم ہوتے ہیں لہٰذا ان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ جو بھی قدم اٹھائیں عوامی بھلائی کے لیے جو منصوبہ سازی کریں عوام کی بہبود کو مدنظر رکھ کر کریں۔
مگر ہمارے حکمراں تو عوام کو الٹا اپنا زرخرید غلام سمجھنے لگتے ہیں۔ قارئین سوچتے ہوں گے کہ موصوفہ ملک کے ہر مسئلے کو جاگیرداری سے جوڑ دیتی ہیں، جوڑتا کوئی نہیں بلکہ ہر مسئلہ ازخود صرف اور صرف اسی ایک مسئلے سے جڑا ہوا ہے۔ اس کا عام سا ثبوت یہ ہے کہ انتخابات میں صرف وہی لوگ منتخب ہوسکتے ہیں جو کروڑوں خرچ کرسکتے ہوں، ایک عام آدمی تو ایوان کی نشست پر بیٹھنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا، ساری نامی گرامی سیاسی جماعتیں جو خود کو عوامی پارٹی بھی کہلاتی ہیں وہ بتائیں کہ انھوں نے کسی ایسے شخص کو پارٹی ٹکٹ دیا جو اس کی بڑھ کر بولی نہ لگا سکے، اب چاہے اس میں اہلیت ہو نہ ہو سب سے زیادہ قیمت ادا کرنے والا ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا۔
چند سر پھروں نے ایسا قدم نہ صرف اٹھایا بلکہ اس پر عمل کرکے دکھایا بھی کہ ایک روپیہ خرچ کیے بنا نچلے، غریب طبقے کے باصلاحیت نوجوانوں کو (جن کا کوئی سیاسی پس منظر بھی نہ تھا) ایوان میں جاگیرداروں، سرداروں کے برابر لے جاکر بٹھایا تو ان اعلیٰ شخصیات کی پیشانی پر ایسے بل پڑے کہ صورت ہی مسخ ہوکر رہ گئی، پھر ان ارکان اور ان کی جرأت مند جماعت کے ''جرم عظیم'' کی سزا کے طور پر تمام مراعات یافتہ شخصیات اور جماعتیں متحد ہوکر اور ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گئیں۔
دنیا کا ہر عیب، ہر الزام ان پر عائد کیا گیا، ہر مرحلے پر ان کی حوصلہ شکنی کرنا اور ان کے خلاف پروپیگنڈا ان اعلیٰ شخصیات کی شان میں اضافے کا باعث ہوتا رہا۔ وہ تمام حربے استعمال کیے جاتے ہیں کہ ان کو ایوان سے نکال باہر پھینک دیں اور آیندہ انھیں اس قابل نہ رہنے دیں کہ وہ ایوان کا رخ کرسکیں۔ اس کوشش میں جو جدید ترین طریقہ اختیار کیا گیا ہے (حالانکہ ہے وہ فرسودہ ہی) اس کی کارکردگی دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شاید یہ حربہ کامیاب ہوجائے، مگر کتنے سوالات عوام کے ذہن میں ابھر رہے ہیں جن کے جوابات فی الحال (بظاہر) کسی کے پاس نہیں مگر آنے والے چند ماہ میں سب کے جوابات طشت از بام ہوجائیں گے۔
ایک بار بڑی محنت سے لکھا گیا اسکرپٹ ہر نئے آنے والے سے پڑھوایا جا رہا ہے، بات اب تک روز اول کی گفتگو سے آگے بڑھی نہ الزامات میں کوئی نیا پن نظر آیا۔ یہ اعلان بھی کئی بار کیا جاچکا ہے کہ جو کارکنان انتقامی طور پر اٹھائے گئے ۔
ان کو اہلکاروں نے (ان پر الزامات بھی شدید نوعیت کے ہیں) پتا بتائیں نئی جماعت کے کرتا دھرتا ( بغور دیکھا جائے تو یہ بھی ایک اہم سوال کا جواب ہے) خیر یہ سب بھی اسی وقت تک چلے گا جب تک بانیان پاکستان کی اولادوں کی نمایندہ جماعت ختم نہیں ہوجاتی لیکن حالات بتا رہے ہیں کہ ماضی میں (جو ابھی ماضی ہوا نہیں) جو مقبولیت اس غریب عوام کی نمایندہ جماعت کو حاصل ہوئی وہ ملک کی اعلیٰ شخصیات و اداروں کے کاندھے پر چڑھ کر آنے والی ترانہ پارٹی کو کبھی نصیب نہ ہوسکے گی، کیونکہ یہی منشا اس پارٹی کو ظہور میں لانے والوں کا ہے، جب مقبول جماعتوں کا حسب منصوبہ حشر کرنے سے فارغ ہوگئے تو پھر ان جدید رہنماؤں کو بھی صاف جھنڈی دکھادی جائے گی کہ نچلے طبقے کی طاقت و صلاحیت سے ہر صورت نجات مطلوب ہے۔
ایک اور اہم بات کہ اگر کسی پر سچا یا جھوٹا معتبر و غیر معتبر ذرایع سے الزام عائد ہوجائے تو اس کو ازخود مستعفی ہوجانا چاہیے، چاہے وہ کسی مقبول جماعت کا ہردلعزیز قائد ہو یا سربراہ مملکت اسی میں عزت ہے ''بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے'' والی نوبت نہ آنے دینی چاہیے۔
آج گھر سے نکلتے ہوئے خلاف معمول پانچ منٹ کی تاخیر ہوگئی، کیونکہ شادیوں کا موسم بہار کئی ہفتوں سے عروج پر ہے جو آج تاخیر کا باعث ہوا۔ میں نے وقت پر کالج پہنچنے کے لیے سگنل فری کوریڈور اختیار کیا ہوا ہے مگر اس میں بھی ایک سگنل پڑتا ہے جہاں کراچی میں راشد منہاس روڈ جب شاہراہ فیصل سے ملتا ہے۔
شاہراہ فیصل کا ٹریفک ایئرپورٹ کی جانب جاتا ہے عموماً یہ سگنل بند ملتا ہے اور میں اس کا دھیان رکھتے ہوئے ہی گھر سے نکلتی ہوں مگر آج خلاف معمول سگنل کھلا ہوا تھا آگے کئی گاڑیاں تھیں مگر ڈرائیور نے بند ہونے سے قبل گاڑی تقریباً نکال لی تھی ،ابھی گاڑی پوری طرح شاہراہ فیصل پر آئی نہ تھی کہ سرخ بتی روشن ہوگئی۔
اب ہم اس مقام پر تھے کہ نہ رک سکتے تھے اور نہ پیچھے واپس جاسکتے تھے لہٰذا گاڑی کو آگے بڑھا دیا اگر رک جاتے تو دونوں جانب کا ٹریفک متاثر ہوتا۔ ٹریفک کانسٹیبل نے ہاتھ کے اشارے سے گاڑی ایک جانب رکوائی اور ڈرائیور کو اترنے کا کہا، مجھے پہلے دیر ہو رہی تھی میں نے اس اہلکار سے کہا کہ جناب! میں نے سگنل ضرور توڑا ہے مگر اس وقت ہم اس پوزیشن میں نہ تھے کہ رکتے یا واپس جاتے، آپ چالان کریں ہمیں پہلے دیر ہو رہی ہے مگر انھوں نے میری بات سنی ان سنی کرکے ڈرائیور کو ایک طرف لے جاکر اپنی چالان بک نکالی مگر صرف دو منٹ بعد ڈرائیور آگیا گاڑی روانہ ہوگئی۔
میں نے اس سے پوچھا کیا رہا ؟ اس نے بتایا باجی! سو روپے لیے ہیں، آپ کو دیر ہو رہی تھی ورنہ میں تو ایک روپیہ بھی نہ دیتا۔ مجھے بہت تعجب ہوا کہ صورتحال سمجھانے پر تو پولیس اہلکارکی سمجھ میں بات نہ آئی اور مسلسل کہتے رہے کہ آپ نے سگنل کی خلاف ورزی کی ہے یعنی ہم قانون شکنی کے مرتکب ہوئے تھے لہٰذا سزا بھی ملنی چاہیے تھی، مگر صرف سو روپے لے کر قانون ٹوٹنے سے کیسے بچ گئے؟
میری ہمدردی ان اہلکاروں کے ساتھ تھی کہ یہ بے چارے کریں بھی توکیا کریں جو محنت اور بھاگ دوڑ وہ کرتے ہیں ان کا مشاہرہ اور سہولیات اس کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دنیا اور اس کے معاملات سب کے ساتھ ہیں اگر یہ اہلکار صرف سو روپے وہ بھی کسی جواز پر دن بھر میں سو افراد سے دن بھر میں لیتے بھی ہیں تو صرف دس ہزار روپے کماسکتے ہیں مگر ملک کا کوئی ادارہ، کوئی شعبہ اور کوئی محکمہ ایسا باقی نہیں بچا جہاں اربوں کی بدعنوانی نہ ہوئی ہو۔
قومی ایکشن پلان کی بھی بڑی دھوم ہے مگر اب تک کوئی اس لوٹی ہوئی اربوں کی دولت کو وصول نہ کرسکا، اب نیا گل پاناما لیکس کے انکشافات نے کھلایا ہے، جس ملک میں اعلیٰ شخصیات ملکی دولت کو شیر مادر سمجھ کر ہضم کر رہی ہوں، منی لانڈرنگ، بیرون ملک کاروبار یا کسی بھی صورت اور کسی بھی نام سے ملکی دولت خفیہ طور پر باہر بھیجی جارہی ہو، ان اربوں روپے کا حساب کس کے پاس اورجوازکیا ہے؟ کئی وقت سے فاقے زدہ ایک روٹی چرانے والا بچہ تو قانون کی زد میں آئے مگر ملک کو قرضوں کی دلدل میں پھینکنے اور غریب کے منہ کا نوالہ چھیننے والا ہر قانون سے بالاتر ہو۔
کیا عوام اپنے خون پسینے کی کمائی پر چند افراد کو عیش کرتے دیکھیں اور اُف بھی نہ کریں؟ اگلے انتخابات میں پھر انھی لٹیروں کو مسند اقتدار پر بٹھادیں؟ بات دراصل یہ ہے کہ حکومت، سیاست حتیٰ کہ مذہب تک پر جب دولت کا غلبہ ہو، ملک کا سارا نظام، سرمایہ داروں، جاگیرداروں، وڈیروں اور سرداروں کی منشا و مرضی کے مطابق چلتا ہو تو پھر ایسے ملک میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہی رہے گا۔
اس صورتحال کی ذمے داری جاگیردارانہ نظام پر ہی عائد ہوتی ہے، کیونکہ ہر برائی کی جڑ ہوس دنیا ودولت میں پیوست ہے، اگر ملک کے ہر شخص کو اس کے حقوق ملتے رہیں، ضروریات پوری ہوتی رہیں، حسب اہلیت و صلاحیت روزگار میسر ہو تو پھر کوئی طبقاتی تفریق کیسے جنم لے سکتی ہے؟ مگر جب محنت کریں عوام اور عیش کریں خواص تو پھر بے چینی اور بے سکونی ہی جنم لے گی اور اس کے بطن سے مزید برائیاں معاشرتی سطح پر رونما ہوں گی۔صاحبان اقتدارعوام کے خادم ہوتے ہیں لہٰذا ان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ جو بھی قدم اٹھائیں عوامی بھلائی کے لیے جو منصوبہ سازی کریں عوام کی بہبود کو مدنظر رکھ کر کریں۔
مگر ہمارے حکمراں تو عوام کو الٹا اپنا زرخرید غلام سمجھنے لگتے ہیں۔ قارئین سوچتے ہوں گے کہ موصوفہ ملک کے ہر مسئلے کو جاگیرداری سے جوڑ دیتی ہیں، جوڑتا کوئی نہیں بلکہ ہر مسئلہ ازخود صرف اور صرف اسی ایک مسئلے سے جڑا ہوا ہے۔ اس کا عام سا ثبوت یہ ہے کہ انتخابات میں صرف وہی لوگ منتخب ہوسکتے ہیں جو کروڑوں خرچ کرسکتے ہوں، ایک عام آدمی تو ایوان کی نشست پر بیٹھنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا، ساری نامی گرامی سیاسی جماعتیں جو خود کو عوامی پارٹی بھی کہلاتی ہیں وہ بتائیں کہ انھوں نے کسی ایسے شخص کو پارٹی ٹکٹ دیا جو اس کی بڑھ کر بولی نہ لگا سکے، اب چاہے اس میں اہلیت ہو نہ ہو سب سے زیادہ قیمت ادا کرنے والا ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا۔
چند سر پھروں نے ایسا قدم نہ صرف اٹھایا بلکہ اس پر عمل کرکے دکھایا بھی کہ ایک روپیہ خرچ کیے بنا نچلے، غریب طبقے کے باصلاحیت نوجوانوں کو (جن کا کوئی سیاسی پس منظر بھی نہ تھا) ایوان میں جاگیرداروں، سرداروں کے برابر لے جاکر بٹھایا تو ان اعلیٰ شخصیات کی پیشانی پر ایسے بل پڑے کہ صورت ہی مسخ ہوکر رہ گئی، پھر ان ارکان اور ان کی جرأت مند جماعت کے ''جرم عظیم'' کی سزا کے طور پر تمام مراعات یافتہ شخصیات اور جماعتیں متحد ہوکر اور ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گئیں۔
دنیا کا ہر عیب، ہر الزام ان پر عائد کیا گیا، ہر مرحلے پر ان کی حوصلہ شکنی کرنا اور ان کے خلاف پروپیگنڈا ان اعلیٰ شخصیات کی شان میں اضافے کا باعث ہوتا رہا۔ وہ تمام حربے استعمال کیے جاتے ہیں کہ ان کو ایوان سے نکال باہر پھینک دیں اور آیندہ انھیں اس قابل نہ رہنے دیں کہ وہ ایوان کا رخ کرسکیں۔ اس کوشش میں جو جدید ترین طریقہ اختیار کیا گیا ہے (حالانکہ ہے وہ فرسودہ ہی) اس کی کارکردگی دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شاید یہ حربہ کامیاب ہوجائے، مگر کتنے سوالات عوام کے ذہن میں ابھر رہے ہیں جن کے جوابات فی الحال (بظاہر) کسی کے پاس نہیں مگر آنے والے چند ماہ میں سب کے جوابات طشت از بام ہوجائیں گے۔
ایک بار بڑی محنت سے لکھا گیا اسکرپٹ ہر نئے آنے والے سے پڑھوایا جا رہا ہے، بات اب تک روز اول کی گفتگو سے آگے بڑھی نہ الزامات میں کوئی نیا پن نظر آیا۔ یہ اعلان بھی کئی بار کیا جاچکا ہے کہ جو کارکنان انتقامی طور پر اٹھائے گئے ۔
ان کو اہلکاروں نے (ان پر الزامات بھی شدید نوعیت کے ہیں) پتا بتائیں نئی جماعت کے کرتا دھرتا ( بغور دیکھا جائے تو یہ بھی ایک اہم سوال کا جواب ہے) خیر یہ سب بھی اسی وقت تک چلے گا جب تک بانیان پاکستان کی اولادوں کی نمایندہ جماعت ختم نہیں ہوجاتی لیکن حالات بتا رہے ہیں کہ ماضی میں (جو ابھی ماضی ہوا نہیں) جو مقبولیت اس غریب عوام کی نمایندہ جماعت کو حاصل ہوئی وہ ملک کی اعلیٰ شخصیات و اداروں کے کاندھے پر چڑھ کر آنے والی ترانہ پارٹی کو کبھی نصیب نہ ہوسکے گی، کیونکہ یہی منشا اس پارٹی کو ظہور میں لانے والوں کا ہے، جب مقبول جماعتوں کا حسب منصوبہ حشر کرنے سے فارغ ہوگئے تو پھر ان جدید رہنماؤں کو بھی صاف جھنڈی دکھادی جائے گی کہ نچلے طبقے کی طاقت و صلاحیت سے ہر صورت نجات مطلوب ہے۔
ایک اور اہم بات کہ اگر کسی پر سچا یا جھوٹا معتبر و غیر معتبر ذرایع سے الزام عائد ہوجائے تو اس کو ازخود مستعفی ہوجانا چاہیے، چاہے وہ کسی مقبول جماعت کا ہردلعزیز قائد ہو یا سربراہ مملکت اسی میں عزت ہے ''بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے'' والی نوبت نہ آنے دینی چاہیے۔