کراچی میں بڑھتی ہوئی خونریزی
سپریم کورٹ کےعبوری حکم کراچی میں جاری خونریزی میں شدت پیدا ہوگئی۔
KARACHI:
محرم الحرام کی آمد سے قبل ہی کراچی خون میں نہایا ہوا ہے ۔
محرم جیسے جیسے نزدیک آرہا ہے ، بے گناہ لوگوں کا قتل عام بڑھتا جا رہا ہے ، اگرچہ نسلی اور لسانی بنیادوں پر بھی پہلے کی طرح لوگوں کو مارا جا رہا ہے لیکن گزشتہ کچھ دنوں سے انسانی خون پر فرقہ واریت کا رنگ چڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ یہ بات نہ صرف پولیس ، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے تشویش ناک ہے ، بلکہ کراچی کے عوام میں بھی زبردست خوف وہراس پایا جاتا ہے ۔ گزشتہ ساڑھے تین عشروں سے کراچی میں جاری خونریزی کو مختلف رنگ دیئے جاتے رہے ہیں لیکن امن و امان کو کنٹرول کرنے والے ادارے اور عوام سیاسی الجھنوں کا شکار ہیں ۔
شیعہ اور اہلسنت کے علماء جنازوں کے جلوسوں سے خطاب کرتے ہوئے مسلسل فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور صبر کا درس دے رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ محرم سے قبل ایک سازش کے تحت فرقہ وارانہ فسادات کرانے کی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن ہم ان کوششوں کو ناکام بنادیں گے ۔ دونوں طرف کے علماء کرام کا اس حوالے سے کردار انتہائی مثبت اور قابل ستائش ہے ۔ اتحاد بین المسلمین کے لیے علماء کرام جتنا کراچی میں سرگرم ہیں ، اتنا کہیں بھی نہیں ہیں لیکن کراچی میں دہشت گرد اور سازشی عناصر بہت مضبوط ہیں اور ان کے خلاف کارروائی نہ ہونے سے ہر طرف افراتفری اور انتشار ہے ۔
آئی جی سندھ فیاض لغاری کا بھی یہی کہنا ہے کہ ایک سازش کے تحت محرم سے پہلے کراچی کے حالات خراب کیے جا رہے ہیں مگر کوئی بھی واضح طور پر یہ بتانے کے لیے تیار نہیں ہے کہ یہ سازشی عناصر کون ہیں ۔ حکومت سندھ کے ایک ذمہ دار سے جب یہ پوچھا گیا کہ حالات خراب کرنے والے یہ عناصر کون ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ کراچی بدامنی کیس میں سپریم کورٹ کو ہم نے ان عناصر کی نشاندہی کی لیکن فیصلے میں ان کی واضح نشاندہی نہیں ہوسکی ۔
یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ 13 دسمبر 2011ء کو کراچی بدامنی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرانے کے لیے اکتوبر 2012ء میں سپریم کورٹ کے ایک پانچ رکنی بینچ نے دوبارہ ایک عبوری حکم جاری کیا ، جس میں سندھ حکومت کو کراچی میں امن قائم کرنے کے لیے مزید کچھ اقدامات کرنے کی ہدایت کی گئی ۔ پانچ رکنی بینچ جب سماعت کر رہا تھا ، تب بھی قتل عام جاری تھا لیکن عبوری حکم کے بعد خونریزی میں شدت پیدا ہوگئی ۔
کراچی کے ساتھ ساتھ حیدرآباد میں بھی ٹارگٹ کلنگ کا عفریت داخل ہوگیا ہے اور حیدرآباد پاکستان کا دوسرا شہر بنتا جا رہا ہے ، جہاں بے خوف و خطر زندگی گزارنے کا لطف ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ حیدرآباد کے لوگ بھی کراچی کے لوگوں کے کرب اور عذاب کو آہستہ آہستہ محسوس کرنے لگے ہیں اور انہیں پتہ چل رہا ہے کہ کسی شہر کا ''کراچی ہونا'' کس قدر بھیانک تصور ہے ۔ کراچی میں رواں سال کے پہلے دس ماہ میں 1900 افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن چکے ہیں اور ایک بھی قاتل کو سزا نہیں ہوئی ہے ۔ بھارتی صوبہ بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار گزشتہ ہفتے کراچی کے تین روزہ دورے پر آئے ہوئے تھے ۔ انہوں نے مختلف استقبالیہ تقریبات سے خطاب کیا اور آداب سفارت کاری ملحوظ رکھتے ہوئے انہوں نے کراچی کے حالات کے بارے میں بین السطور وہ باتیں کہہ دیں، جو ہر صاحب دل کو کہنی چاہئیں ۔ انہوں نے ایک ایسی بات بتائی جو ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے ۔
انہوں نے ہماری حکومت پر تنقید نہیں کی لیکن ہمارے حکمرانوں کو اصل بات سمجھادی ۔ شری نتیش کمار نے کہا کہ میں نے اپنے دور حکومت میں ریاست بہار کے اندر 74 ہزار مجرموں کو سزائیں دلوائیں ۔ آج وہاں لوگ جرم کرتے ہوئے کانپتے ہیں ۔ ان کی اس بات سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ کراچی میں دراصل مجرموں کو سزائیں نہیں ملیں۔ یہی کراچی کا اصل مسئلہ ہے ۔ اب صورت حال یہ ہے کہ لوگوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ۔ اس لیے مدارس اور مذہبی تنظیموں نے فیصلہ کیا ہے کہ ان کے کارکن غیر محفوظ مقامات پر نہ جائیں ۔
عام آدمی کا تحفظ تو دور کی بات ہے ۔ صدر آصف علی زرداری کی بہن اور پاکستان پیپلز پارٹی شعبہ خواتین کی صدر فریال تالپور نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کردی ہے ، جس میں انہوں نے استدعا کی ہے کہ انہیں سیکیورٹی مہیا کی جائے۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ کرائسز مینجمنٹ سیل نے فریال تالپور پر حملوں کا خدشہ ظاہر کیا ہے جس کے بعد آئی جی سندھ اور ڈی جی رینجرز سندھ سے سیکورٹی بڑھانے کی درخواست کی گئی تاہم وہاں سے کوئی خاطر خواہ جواب موصول نہیں ہوا ۔ فریال تالپور کو سیاسی جماعت کے رہنما ہونے کی وجہ سے اندرون ملک کے مختلف شہروں میں سیاسی دوروں پر جانا ہوتا ہے ۔
لہٰذا اسلحہ لائسنس رکھنے والے سیکورٹی گارڈز اور گاڑی کے کالے شیشے رکھنے کی اجازت دی جائے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت سندھ فریال تالپور کو سیکورٹی گارڈ مہیا کرنے سے انکار کرسکتی ہے ؟ اگر حکومت سندھ انکار نہیں کرسکتی تو پھر انہیں سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی ؟ اس حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں لیکن ایک قیاس آرائی زیادہ منطقی لگتی ہے ۔ وہ یہ ہے کہ فریال تالپور صاحبہ کو علم ہے کہ آئندہ کچھ دنوں کے بعد ملک میں عبوری حکومتیں قائم ہوں گی ۔ یہ حکومتیں فریال تالپور کو وہ پروٹوکول اور سیکورٹی فراہم نہیں کریں گی ، جو ان کے لئے ضروری ہوگی۔
لہٰذا سندھ ہائی کورٹ کے حکم کی بنیاد پر وہ آئندہ بھی سیکورٹی لے سکیں گی ۔ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی آئندہ انتخابی مہم فریال تالپور ہی چلائیں گی ۔ کیونکہ صدر زرداری یہ مہم نہیں چلا سکتے اور بلاول بھٹو زرداری کے لیے بھی سیکورٹی خدشات ہیں لیکن آئندہ عام انتخابات کے شیڈول کے اعلان سے پہلے کراچی کے حالات کو دیکھتے ہوئے بعض حلقے یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ کراچی کے حالات کا ملک کے دیگر حصوں پر کیا اثر پڑے گا؟
محرم الحرام کی آمد سے قبل ہی کراچی خون میں نہایا ہوا ہے ۔
محرم جیسے جیسے نزدیک آرہا ہے ، بے گناہ لوگوں کا قتل عام بڑھتا جا رہا ہے ، اگرچہ نسلی اور لسانی بنیادوں پر بھی پہلے کی طرح لوگوں کو مارا جا رہا ہے لیکن گزشتہ کچھ دنوں سے انسانی خون پر فرقہ واریت کا رنگ چڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ یہ بات نہ صرف پولیس ، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے تشویش ناک ہے ، بلکہ کراچی کے عوام میں بھی زبردست خوف وہراس پایا جاتا ہے ۔ گزشتہ ساڑھے تین عشروں سے کراچی میں جاری خونریزی کو مختلف رنگ دیئے جاتے رہے ہیں لیکن امن و امان کو کنٹرول کرنے والے ادارے اور عوام سیاسی الجھنوں کا شکار ہیں ۔
شیعہ اور اہلسنت کے علماء جنازوں کے جلوسوں سے خطاب کرتے ہوئے مسلسل فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور صبر کا درس دے رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ محرم سے قبل ایک سازش کے تحت فرقہ وارانہ فسادات کرانے کی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن ہم ان کوششوں کو ناکام بنادیں گے ۔ دونوں طرف کے علماء کرام کا اس حوالے سے کردار انتہائی مثبت اور قابل ستائش ہے ۔ اتحاد بین المسلمین کے لیے علماء کرام جتنا کراچی میں سرگرم ہیں ، اتنا کہیں بھی نہیں ہیں لیکن کراچی میں دہشت گرد اور سازشی عناصر بہت مضبوط ہیں اور ان کے خلاف کارروائی نہ ہونے سے ہر طرف افراتفری اور انتشار ہے ۔
آئی جی سندھ فیاض لغاری کا بھی یہی کہنا ہے کہ ایک سازش کے تحت محرم سے پہلے کراچی کے حالات خراب کیے جا رہے ہیں مگر کوئی بھی واضح طور پر یہ بتانے کے لیے تیار نہیں ہے کہ یہ سازشی عناصر کون ہیں ۔ حکومت سندھ کے ایک ذمہ دار سے جب یہ پوچھا گیا کہ حالات خراب کرنے والے یہ عناصر کون ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ کراچی بدامنی کیس میں سپریم کورٹ کو ہم نے ان عناصر کی نشاندہی کی لیکن فیصلے میں ان کی واضح نشاندہی نہیں ہوسکی ۔
یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ 13 دسمبر 2011ء کو کراچی بدامنی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرانے کے لیے اکتوبر 2012ء میں سپریم کورٹ کے ایک پانچ رکنی بینچ نے دوبارہ ایک عبوری حکم جاری کیا ، جس میں سندھ حکومت کو کراچی میں امن قائم کرنے کے لیے مزید کچھ اقدامات کرنے کی ہدایت کی گئی ۔ پانچ رکنی بینچ جب سماعت کر رہا تھا ، تب بھی قتل عام جاری تھا لیکن عبوری حکم کے بعد خونریزی میں شدت پیدا ہوگئی ۔
کراچی کے ساتھ ساتھ حیدرآباد میں بھی ٹارگٹ کلنگ کا عفریت داخل ہوگیا ہے اور حیدرآباد پاکستان کا دوسرا شہر بنتا جا رہا ہے ، جہاں بے خوف و خطر زندگی گزارنے کا لطف ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ حیدرآباد کے لوگ بھی کراچی کے لوگوں کے کرب اور عذاب کو آہستہ آہستہ محسوس کرنے لگے ہیں اور انہیں پتہ چل رہا ہے کہ کسی شہر کا ''کراچی ہونا'' کس قدر بھیانک تصور ہے ۔ کراچی میں رواں سال کے پہلے دس ماہ میں 1900 افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن چکے ہیں اور ایک بھی قاتل کو سزا نہیں ہوئی ہے ۔ بھارتی صوبہ بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار گزشتہ ہفتے کراچی کے تین روزہ دورے پر آئے ہوئے تھے ۔ انہوں نے مختلف استقبالیہ تقریبات سے خطاب کیا اور آداب سفارت کاری ملحوظ رکھتے ہوئے انہوں نے کراچی کے حالات کے بارے میں بین السطور وہ باتیں کہہ دیں، جو ہر صاحب دل کو کہنی چاہئیں ۔ انہوں نے ایک ایسی بات بتائی جو ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے ۔
انہوں نے ہماری حکومت پر تنقید نہیں کی لیکن ہمارے حکمرانوں کو اصل بات سمجھادی ۔ شری نتیش کمار نے کہا کہ میں نے اپنے دور حکومت میں ریاست بہار کے اندر 74 ہزار مجرموں کو سزائیں دلوائیں ۔ آج وہاں لوگ جرم کرتے ہوئے کانپتے ہیں ۔ ان کی اس بات سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ کراچی میں دراصل مجرموں کو سزائیں نہیں ملیں۔ یہی کراچی کا اصل مسئلہ ہے ۔ اب صورت حال یہ ہے کہ لوگوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ۔ اس لیے مدارس اور مذہبی تنظیموں نے فیصلہ کیا ہے کہ ان کے کارکن غیر محفوظ مقامات پر نہ جائیں ۔
عام آدمی کا تحفظ تو دور کی بات ہے ۔ صدر آصف علی زرداری کی بہن اور پاکستان پیپلز پارٹی شعبہ خواتین کی صدر فریال تالپور نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کردی ہے ، جس میں انہوں نے استدعا کی ہے کہ انہیں سیکیورٹی مہیا کی جائے۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ کرائسز مینجمنٹ سیل نے فریال تالپور پر حملوں کا خدشہ ظاہر کیا ہے جس کے بعد آئی جی سندھ اور ڈی جی رینجرز سندھ سے سیکورٹی بڑھانے کی درخواست کی گئی تاہم وہاں سے کوئی خاطر خواہ جواب موصول نہیں ہوا ۔ فریال تالپور کو سیاسی جماعت کے رہنما ہونے کی وجہ سے اندرون ملک کے مختلف شہروں میں سیاسی دوروں پر جانا ہوتا ہے ۔
لہٰذا اسلحہ لائسنس رکھنے والے سیکورٹی گارڈز اور گاڑی کے کالے شیشے رکھنے کی اجازت دی جائے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت سندھ فریال تالپور کو سیکورٹی گارڈ مہیا کرنے سے انکار کرسکتی ہے ؟ اگر حکومت سندھ انکار نہیں کرسکتی تو پھر انہیں سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی ؟ اس حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں لیکن ایک قیاس آرائی زیادہ منطقی لگتی ہے ۔ وہ یہ ہے کہ فریال تالپور صاحبہ کو علم ہے کہ آئندہ کچھ دنوں کے بعد ملک میں عبوری حکومتیں قائم ہوں گی ۔ یہ حکومتیں فریال تالپور کو وہ پروٹوکول اور سیکورٹی فراہم نہیں کریں گی ، جو ان کے لئے ضروری ہوگی۔
لہٰذا سندھ ہائی کورٹ کے حکم کی بنیاد پر وہ آئندہ بھی سیکورٹی لے سکیں گی ۔ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی آئندہ انتخابی مہم فریال تالپور ہی چلائیں گی ۔ کیونکہ صدر زرداری یہ مہم نہیں چلا سکتے اور بلاول بھٹو زرداری کے لیے بھی سیکورٹی خدشات ہیں لیکن آئندہ عام انتخابات کے شیڈول کے اعلان سے پہلے کراچی کے حالات کو دیکھتے ہوئے بعض حلقے یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ کراچی کے حالات کا ملک کے دیگر حصوں پر کیا اثر پڑے گا؟