عام انتخابات میں میدان کون مارے گا
بلوچستان میں شخصیات کی نشستیں ہوتی ہیں تاہم آئندہ حکومت سازی میں علاقائی اور چھوٹی جماعتوں کا بڑا اہم کردار ہوگا۔
KARACHI:
2013ء کے الیکشن کیلئے حالات وواقعات گزشتہ انتخابات سے بالکل مختلف ہیں۔ ماضی میں جن سیاسی حکومتوں کو ختم کیا گیا الیکشن میں ان کیلئے حالات سازگار نہیں رہتے تھے اور ان کی اقتدار میں واپسی کبھی ممکن نہیں رہی۔
اب ایک جمہوری حکومت اپنی پانچ سال کی میعاد پوری کررہی ہے اور قومی اتفاق رائے سے آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن بروقت تشکیل دے دیا گیا ہے اور ایک غیر متنازعہ شخصیت کو چیف الیکشن کمشنر بنایا گیا ہے۔ یہ پہلو بھی سامنے رکھنا ہوگا کہ پارلیمنٹ میں موجود تمام چھوٹی بڑی جماعتیں قومی یا صوبائی حکومتوں کا حصہ ہیں اور سب جماعتوں کی اپنی حکومتوں میں کارکردگی کسی حد تک ضرور شامل ہے جس پر عوام اپنا فیصلہ صادر کریں گے۔
اس وقت مغربی ادارے پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک میں رائے عامہ کا جائزہ لے رہے ہیں۔ مشرق اور مغرب کے حالات بہت مختلف ہیں۔ اگرپاکستان میں 500 افراد سے رائے لی جائے تو ان میں سے پانچ لوگ بھی ایسے نہیںہوتے جو رائے عامہ کے جائزے کو سمجھتے ہوں جبکہ فیصلہ کن اکثریت وہ ہوتی ہے جو پول نہیں سمجھتی۔ اس طرح پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی مقبولیت رائے عامہ کے جائزوں(پول) کے ذریعے جانچنے کا طریقہ درست اور معیاری نہیںہوتا۔ یہ الیکشن اس حوالے سے بھی اہم ہوگا کہ اس میں ووٹ ڈالنے کی شرح بہت بلند ہوگی اور 70فیصد سے زائد ووٹنگ کی شرح کی توقع کی جارہی ہے اس کی کئی وجوہات ہیں لوگ پہلے سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں، میڈیا کا کردار مثبت ہو یا منفی لوگوں کیلئے سیاست کے بارے میں آگاہی بڑھ رہی ہے ۔
لوگ حق نہ ملنے پر احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں۔ پہلی بار کوئی سیاسی جماعت الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کررہی ہوگی، چھوٹی، بڑی، مذہبی سیاسی جماعتیںبلاواسطہ یا بالواسطہ اپنی حیثیت میں یا کسی اتحاد کے ذریعے الیکشن میں شامل ہوں گی۔ جن جماعتوں نے 2008ء کے الیکشن کا بائیکاٹ کیا وہ بھی انتخابات میں حصہ لیں گی۔ جس سے زیادہ لوگ پولنگ کیلئے آئیں گے۔ ووٹر لسٹوں میں دوہرے اندراج کا خاتمہ کردیا گیا ہے اور اب تمام ووٹرز کے شناختی کارڈہوں گے اور صرف درست اور فعال ووٹر ہوں گے۔
نگران سیٹ اپ سے پہلے سرکاری وسائل سے انتخابی مہم شروع کردی گئی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کی صوبائی حکومت نے عمران خان کے خوف سے لیپ ٹاپ سکیم اور نوجوانوں کے پروگرامز پر اربوں روپے خرچ کئے ہیں۔ اس سرکاری انتخابی مہم سے قومی خزانے پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔ پیپلزپارٹی کے حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر ایوان صدر میں سیاسی سرگرمیوں پر اعتراض کیا جاتا ہے تو نواز شریف کے سرکاری خرچ پر منعقد ہونے والے جلسوں کو کیوں نظر انداز کردیا جاتا ہے۔قومی اسمبلی کاایوان 342نشستوں پر مشتمل ہے جس میں 272جنرل اور 70مخصوص نشستیں ہیں، ان میں 60خواتین اور 10اقلیتی ارکان شامل ہیں ۔ آئندہ عام انتخابات میں اقلیتوں کیلئے نشستوں کی تعداد بڑھانے کی تجویز ہے ، اس حوالے سے آئینی بل قومی اسمبلی کے رواں اجلاس میں پیش کئے جانے کا امکان ہے۔
دراصل قومی اسمبلی کی 272عام نشستوں کو سامنے رکھ کر ہی انتخابات کا صحیح تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اگلے الیکشن میں بھی پیپلزپارٹی ہی سنگل لارجسٹ پارٹی کی حیثیت سے نظر آرہی ہے ۔ 2008ء کے الیکشن میں پیپلزپارٹی نے 87مسلم لیگ(ن) نے 68، مسلم لیگ(ق) 38، ایم کیو ایم 19 اور اے این پی نے 10عام نشستیں حاصل کیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کی 62اور پیپلزپارٹی کی 44نشستیں ہیں جن میں سے پیپلزپارٹی کی 23نشستیں جنوبی پنجاب اور 21 وسطی پنجاب میں تھیں۔
اگر پیپلزپارٹی نے سندھ اور جنوبی پنجاب سے اپنی پوزیشن برقرار رکھی اور وسطی پنجاب میں عمران خان فیکٹر اثر انداز ہوگیا تو پیپلزپارٹی اپنی جیتی سیٹیں دوبارہ آسانی سے نکال سکے گی۔ اس کی ایک اور وجہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کیلئے پیپلزپارٹی کا نعرہ ہوگا۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ عمران خان کی ایک سال پہلے والی پوزیشن نہیں ہے اس کے باوجود تحریک انصاف ایک ایسی حیثیت میں موجود ہے کہ ووٹ تقسیم کرے گی۔ اصل انتخابی معرکہ آرائی راولپنڈی سے ساہیوال تک وسطی اور شمالی پنجاب کی 104نشستوں پر ہوگی۔
مسلم لیگ (ن) ،مسلم لیگ(ق)اور تحریک انصاف سب کا زور اسی علاقے میں ہے اور مسلم لیگ (ن)کے ووٹ کی زیادہ تقسیم یہاں ہی ہوگی۔ مسلم لیگ(ق) کے اچھے امیدوار لیگی ووٹ لے جا سکتے ہیں۔ تحریک انصاف شہروں کے اندر اب بھی موجود ہے۔ 35سے 40فیصد پرانے ووٹرز کی پوزیشن پہلے والی ہی ہے جبکہ 30سے 35فیصد نیا اضافی ووٹ تقسیم ہورہا ہے ۔ تحریک انصاف ووٹوں کا جو حصہ لے گی اس سے تھوڑے فرق سے جیتنے والے (ن) لیگ کے امیدوار ہار سکتے ہیں جس سے مسلم لیگ(ن) کی 2008ء کے مقابلے میں حیران کن طریقے سے نشستیں کم ہو سکتی ہیں۔
الیکشن میں جے یو آئی، جماعت اسلامی، سنی اتحاد کونسل اور دیگر مذہبی جماعتوں کا کردار اہم ہوگا اور خصوصاً خیبر پختونخواہ میں مذہبی عنصر کی وجہ سے (ن) لیگ اور اے این پی کو نقصان ہوگا۔ تاریخی اعتبار سے ہزارہ اور مالاکنڈ ڈویژن مسلم لیگ(ن) کا گڑھ رہے ہیں نواز شریف نے دونوں کو ناراض کردیا ہے اس کا فائدہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ق) کے اتحاد کو ہوگا، ہوسکتا ہے کہ اے این پی اور پیپلزپارٹی اتحاد بنا کر الیکشن نہ لڑیں۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کچھ نشستوں پر نقصان اٹھائے گی اس سے فنکشنل لیگ اور مقامی دھڑوں کو فائدہ ہوگا۔
(ن) لیگ کو سندھ میں براہ راست نشستیں ملنے کا کوئی خاص امکان نہیں ہے۔ اگر پیپلزپارٹی اور ق لیگ نے ایک دوسرے کے ساتھ سیاست نہ کی اور مخلص رہے تو اچھی پوزیشن میں آسکتے ہیں۔ آئندہ الیکشن میں پچھلی دفعہ سے کم آزاد امیدوار کامیاب ہوں گے کیونکہ اب امیدواروں کے پاس بہت آپشنز ہیں اور پارٹی ٹکٹ کا امکان زیادہ ہے۔ اس بار پنجاب میں صرف 10سے 20 کے درمیان آزاد حیثیت میں ارکان صوبائی اسمبلی منتخب ہونے کا امکان زیادہ ہے جبکہ 2008ء میں 35آزاد امیدوار منتخب ہوئے تھے۔ بلوچستان میں شخصیات کی نشستیں ہوتی ہیں تاہم آئندہ حکومت سازی میں علاقائی اور چھوٹی جماعتوں کا بڑا اہم کردار ہوگا۔ مجموعی طور پر قومی سیاست کو دیکھا جائے تو آئندہ الیکشن میں بھی ہیّنگ پارلیمنٹ بنے گی اور پہلے سے زیادہ حصہ دار ہوجائیں گے جس کے نتیجے میں ایک کمزور حکومت وجود میں آئے گی۔
2013ء کے الیکشن کیلئے حالات وواقعات گزشتہ انتخابات سے بالکل مختلف ہیں۔ ماضی میں جن سیاسی حکومتوں کو ختم کیا گیا الیکشن میں ان کیلئے حالات سازگار نہیں رہتے تھے اور ان کی اقتدار میں واپسی کبھی ممکن نہیں رہی۔
اب ایک جمہوری حکومت اپنی پانچ سال کی میعاد پوری کررہی ہے اور قومی اتفاق رائے سے آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن بروقت تشکیل دے دیا گیا ہے اور ایک غیر متنازعہ شخصیت کو چیف الیکشن کمشنر بنایا گیا ہے۔ یہ پہلو بھی سامنے رکھنا ہوگا کہ پارلیمنٹ میں موجود تمام چھوٹی بڑی جماعتیں قومی یا صوبائی حکومتوں کا حصہ ہیں اور سب جماعتوں کی اپنی حکومتوں میں کارکردگی کسی حد تک ضرور شامل ہے جس پر عوام اپنا فیصلہ صادر کریں گے۔
اس وقت مغربی ادارے پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک میں رائے عامہ کا جائزہ لے رہے ہیں۔ مشرق اور مغرب کے حالات بہت مختلف ہیں۔ اگرپاکستان میں 500 افراد سے رائے لی جائے تو ان میں سے پانچ لوگ بھی ایسے نہیںہوتے جو رائے عامہ کے جائزے کو سمجھتے ہوں جبکہ فیصلہ کن اکثریت وہ ہوتی ہے جو پول نہیں سمجھتی۔ اس طرح پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی مقبولیت رائے عامہ کے جائزوں(پول) کے ذریعے جانچنے کا طریقہ درست اور معیاری نہیںہوتا۔ یہ الیکشن اس حوالے سے بھی اہم ہوگا کہ اس میں ووٹ ڈالنے کی شرح بہت بلند ہوگی اور 70فیصد سے زائد ووٹنگ کی شرح کی توقع کی جارہی ہے اس کی کئی وجوہات ہیں لوگ پہلے سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں، میڈیا کا کردار مثبت ہو یا منفی لوگوں کیلئے سیاست کے بارے میں آگاہی بڑھ رہی ہے ۔
لوگ حق نہ ملنے پر احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں۔ پہلی بار کوئی سیاسی جماعت الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کررہی ہوگی، چھوٹی، بڑی، مذہبی سیاسی جماعتیںبلاواسطہ یا بالواسطہ اپنی حیثیت میں یا کسی اتحاد کے ذریعے الیکشن میں شامل ہوں گی۔ جن جماعتوں نے 2008ء کے الیکشن کا بائیکاٹ کیا وہ بھی انتخابات میں حصہ لیں گی۔ جس سے زیادہ لوگ پولنگ کیلئے آئیں گے۔ ووٹر لسٹوں میں دوہرے اندراج کا خاتمہ کردیا گیا ہے اور اب تمام ووٹرز کے شناختی کارڈہوں گے اور صرف درست اور فعال ووٹر ہوں گے۔
نگران سیٹ اپ سے پہلے سرکاری وسائل سے انتخابی مہم شروع کردی گئی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کی صوبائی حکومت نے عمران خان کے خوف سے لیپ ٹاپ سکیم اور نوجوانوں کے پروگرامز پر اربوں روپے خرچ کئے ہیں۔ اس سرکاری انتخابی مہم سے قومی خزانے پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔ پیپلزپارٹی کے حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر ایوان صدر میں سیاسی سرگرمیوں پر اعتراض کیا جاتا ہے تو نواز شریف کے سرکاری خرچ پر منعقد ہونے والے جلسوں کو کیوں نظر انداز کردیا جاتا ہے۔قومی اسمبلی کاایوان 342نشستوں پر مشتمل ہے جس میں 272جنرل اور 70مخصوص نشستیں ہیں، ان میں 60خواتین اور 10اقلیتی ارکان شامل ہیں ۔ آئندہ عام انتخابات میں اقلیتوں کیلئے نشستوں کی تعداد بڑھانے کی تجویز ہے ، اس حوالے سے آئینی بل قومی اسمبلی کے رواں اجلاس میں پیش کئے جانے کا امکان ہے۔
دراصل قومی اسمبلی کی 272عام نشستوں کو سامنے رکھ کر ہی انتخابات کا صحیح تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اگلے الیکشن میں بھی پیپلزپارٹی ہی سنگل لارجسٹ پارٹی کی حیثیت سے نظر آرہی ہے ۔ 2008ء کے الیکشن میں پیپلزپارٹی نے 87مسلم لیگ(ن) نے 68، مسلم لیگ(ق) 38، ایم کیو ایم 19 اور اے این پی نے 10عام نشستیں حاصل کیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کی 62اور پیپلزپارٹی کی 44نشستیں ہیں جن میں سے پیپلزپارٹی کی 23نشستیں جنوبی پنجاب اور 21 وسطی پنجاب میں تھیں۔
اگر پیپلزپارٹی نے سندھ اور جنوبی پنجاب سے اپنی پوزیشن برقرار رکھی اور وسطی پنجاب میں عمران خان فیکٹر اثر انداز ہوگیا تو پیپلزپارٹی اپنی جیتی سیٹیں دوبارہ آسانی سے نکال سکے گی۔ اس کی ایک اور وجہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کیلئے پیپلزپارٹی کا نعرہ ہوگا۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ عمران خان کی ایک سال پہلے والی پوزیشن نہیں ہے اس کے باوجود تحریک انصاف ایک ایسی حیثیت میں موجود ہے کہ ووٹ تقسیم کرے گی۔ اصل انتخابی معرکہ آرائی راولپنڈی سے ساہیوال تک وسطی اور شمالی پنجاب کی 104نشستوں پر ہوگی۔
مسلم لیگ (ن) ،مسلم لیگ(ق)اور تحریک انصاف سب کا زور اسی علاقے میں ہے اور مسلم لیگ (ن)کے ووٹ کی زیادہ تقسیم یہاں ہی ہوگی۔ مسلم لیگ(ق) کے اچھے امیدوار لیگی ووٹ لے جا سکتے ہیں۔ تحریک انصاف شہروں کے اندر اب بھی موجود ہے۔ 35سے 40فیصد پرانے ووٹرز کی پوزیشن پہلے والی ہی ہے جبکہ 30سے 35فیصد نیا اضافی ووٹ تقسیم ہورہا ہے ۔ تحریک انصاف ووٹوں کا جو حصہ لے گی اس سے تھوڑے فرق سے جیتنے والے (ن) لیگ کے امیدوار ہار سکتے ہیں جس سے مسلم لیگ(ن) کی 2008ء کے مقابلے میں حیران کن طریقے سے نشستیں کم ہو سکتی ہیں۔
الیکشن میں جے یو آئی، جماعت اسلامی، سنی اتحاد کونسل اور دیگر مذہبی جماعتوں کا کردار اہم ہوگا اور خصوصاً خیبر پختونخواہ میں مذہبی عنصر کی وجہ سے (ن) لیگ اور اے این پی کو نقصان ہوگا۔ تاریخی اعتبار سے ہزارہ اور مالاکنڈ ڈویژن مسلم لیگ(ن) کا گڑھ رہے ہیں نواز شریف نے دونوں کو ناراض کردیا ہے اس کا فائدہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ق) کے اتحاد کو ہوگا، ہوسکتا ہے کہ اے این پی اور پیپلزپارٹی اتحاد بنا کر الیکشن نہ لڑیں۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کچھ نشستوں پر نقصان اٹھائے گی اس سے فنکشنل لیگ اور مقامی دھڑوں کو فائدہ ہوگا۔
(ن) لیگ کو سندھ میں براہ راست نشستیں ملنے کا کوئی خاص امکان نہیں ہے۔ اگر پیپلزپارٹی اور ق لیگ نے ایک دوسرے کے ساتھ سیاست نہ کی اور مخلص رہے تو اچھی پوزیشن میں آسکتے ہیں۔ آئندہ الیکشن میں پچھلی دفعہ سے کم آزاد امیدوار کامیاب ہوں گے کیونکہ اب امیدواروں کے پاس بہت آپشنز ہیں اور پارٹی ٹکٹ کا امکان زیادہ ہے۔ اس بار پنجاب میں صرف 10سے 20 کے درمیان آزاد حیثیت میں ارکان صوبائی اسمبلی منتخب ہونے کا امکان زیادہ ہے جبکہ 2008ء میں 35آزاد امیدوار منتخب ہوئے تھے۔ بلوچستان میں شخصیات کی نشستیں ہوتی ہیں تاہم آئندہ حکومت سازی میں علاقائی اور چھوٹی جماعتوں کا بڑا اہم کردار ہوگا۔ مجموعی طور پر قومی سیاست کو دیکھا جائے تو آئندہ الیکشن میں بھی ہیّنگ پارلیمنٹ بنے گی اور پہلے سے زیادہ حصہ دار ہوجائیں گے جس کے نتیجے میں ایک کمزور حکومت وجود میں آئے گی۔