رقوم کی تقسیم ایف آئی اے سے تحقیقات کرانے کامعاملہ

مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان ایک بار پھر محاذ آرائی اور تناؤ بڑھ رہا ہے۔

اصغر خان کیس کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ(ن) کی قیادت شدید تنقید کی زد میں ہے۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD:
بلامبالغہ اصغرخان کیس کے ملک کی قومی سیاست پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے تفصیلی فیصلے میں 1990ء کے عشرے میں انتخابات پر اثرانداز ہونے کے لیے سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم کے معاملے سے پاک فوج کو بطور ادارہ بری الذمہ قرار دیدیا ہے اور یہ قرار دیا ہے کہ سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل(ر)مرزا اسلم بیگ اور سابق ڈائریکٹرجنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل(ر)اسد درانی پاک فوج کی بدنامی کا باعث بنے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے دونوں سابق فوجی جرنیلوں کے خلاف کارروائی اور سیاستدانوں اور دیگر افراد سے بمعہ سودرقم وصول کرنے کا کہا ہے۔

اب حکومت وقت نے عدالتی فیصلے پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کرنا ہے۔ وزیراعظم راجہ پرویزاشرف اس عزم کااعادہ کرچکے ہیں کہ فیصلے پر مکمل عملدرآمد ہوگا،ایف آئی اے سے تحقیقات کرانے کا فیصلہ میں ذکر موجود ہے،تاحال یہ سطور قلم بند کرنے تک تحریری طور پر حکومت نے ایف آئی اے کو تحقیقات کرنے کے لئے کوئی ہدایت نہیں دی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تفصیلی فیصلہ کے بعد حکومت رقوم حاصل کرنے والے سیاستدانوں سے تحقیقات کرانے اور رقوم واپس لینے کیلئے کیا اقدامات کرتی ہے۔ مبینہ طور پر جن سیاستدانوں میں 1990ء کے عشرے میں انتخابات کے نتائج تبدیل کرانے کے لئے رقوم تقسیم کی گئیں،ان میں سے بیشتر سیاستدان اس دنیا میں نہیں ہیں۔

تفصیلی فیصلہ کے بعد ایک بار پھر مسلم لیگ(ن) کی قیادت شدید تنقید کی زد میں ہے اور پیپلزپارٹی اور اس کی اتحادی جماعت مسلم لیگ(ق) کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کی تمام تر توپوں کا رخ میاں نوازشریف کی جانب ہے اور پیپلزپارٹی کے قائدین یہ کہہ رہے ہیں کہ میاں نوازشریف اس فیصلہ کے بعد سیاست کو خیر آباد کہہ دیں کیونکہ بقول ناقدین میاں نوازشریف پہلی مرتبہ ایجنسیوں کی مدد کے بغیرآئندہ انتخابات میں حصہ لیں گے۔ مسلم لیگ(ن) کے قائدین کا یہ استدلال ہے کہ اس فیصلہ میں میاں نوازشریف کا کہیں ذکر نہیں ہے اور نہ یہ ثبوت ہے کہ میاں نوازشریف نے فوجی جرنیلوں سے 1990ء میں پیسے لئے ہوں۔ اگرثبوت ہے تو سامنے لایا جائے،قومی سیاست میں اپنی نوعیت کا یہ اہم کیس اور دیاگیاتفصیلی فیصلہ موضوع بحث بنا ہوا ہے ۔

دونوں روایتی حریف سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان ایک بار پھر اسی کیس کی وجہ سے محاذ آرائی اور تنائو بڑھ رہا ہے اور دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔ بلاشبہ عدالتی احکامات پر اصغرخان کیس میں ملوث تمام کرداروں کے بارے میں شفاف اور آزادانہ تحقیقات انتہائی ضروری ہے تاکہ اصل حقائق قوم کے سامنے آسکیں۔ پاکستان مسلم لیگ(ن)کے مرکزی رہنماء اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثارعلی خان نے مختصر فیصلہ آنے پر ایف آئی اے سے تحقیقات کرانے کے فیصلے کو یکسرمسترد کر دیا تھا، تاہم مسلم لیگ(ن) کے دیگرقائدین نے ایف آئی اے سے ہی تحقیقات کرانے کے فیصلے کی نہ صرف تائید کردی تھی بلکہ کہاتھا کہ ہم ان تحقیقات میں مکمل ساتھ دیں گے۔


بعدازاں ایسی اطلاعات بھی منظرعام پر آئیں کہ چوہدری نثار علی خان کے اس ردعمل بلکہ پالیسی بیان پر شریف برادران نے ناخوشی کا اظہار کیا ہے اور یہاں تک سناگیا کہ چوہدری نثارعلی خان کے اور شریف برادران کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ میاں نوازشریف اور شہبازشریف کے چوہدری نثارعلی خان کے گھر جاکر منانے کی بھی اطلاعات گردش کرتی رہیں۔ تاہم ان تمام قیاس آرائیوں کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائدین کے درمیان ایف آئی اے سے تحقیقات کرانے کے فیصلے پر اختلافات ہیں۔

مسلم لیگی حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ میاں نوازشریف کو ایف آئی اے سے تحقیقات کرانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور وہ تحقیقات میں تعاون کریں گے،اب مسلم لیگ(ن)کے قائدین یہ تحقیقات رکوانے کیلئے عدالت سے رجوع نہیں کریں گے۔ عدالت نے واضح طور پر فیصلہ میں قراردیا ہے کہ ایوان صدر میں اگر کوئی سیاسی سیل ہے تو فوری طور پر بند کردیاجائے۔ سرکاری افسران صدر اور وزیراعظم کے غیرقانونی احکامات نہ مانیں۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں ایوان صدر میں سیاسی سرگرمیوں اور صدر مملکت کے پارٹی اجلاسوں کی صدارت کرنے کے معاملے پر ایک عرصہ سے تنقید کررہی ہیں۔

سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے بعد صدر مملکت کیلئے ایوان صدر میں سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنا خاصا مشکل ہوگیا ہے۔ مخالفین حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ آج کے صدر اور1990ء کے عشرے میں قصرِ صدارت پر فائز صدرمملکت میں کیا فرق ہے؟سابق آرمی چیف آف آرمی سٹاف جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ کے اس بیان پر کہ''پاک فوج کو بغاوت پر اکسایاجارہاہے''حیرت کا اظہار کیاجارہا ہے۔عدالت نے بطور ادارہ پاک فوج کو بری الذمہ قرار دے کر مستحسن فیصلہ کیا ہے۔ عسکری قیادت بھی سابق سپہ سالار کے خیالات سے اتفاق نہیں کرتی۔

ان دنوں ریاستی اہم ستونوں کے مابین اختیارات کے حوالے سے بحث وتمحیص کا ایک لامتناعی سلسلہ جاری ہے ۔ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویزکیانی اور چیف جسٹس آف پاکستان مسٹرجسٹس افتخارمحمد چوہدری کے حالیہ بیانات پر ردعمل کاسلسلہ ابھی نہیں تھما۔ بعض تجزیہ نگاروں کے خیال میں یہ بحث اس لئے صحت مند ہے کہ ارتقائی مراحل میں یہ ساری چیزیں آہستہ آہستہ پختہ ہوتی ہیں۔ عدلیہ ، پاک فوج، پارلیمنٹ اوردیگر اداروں کی آئینی حدود طے ہیں اور آئینی حدود کے اندر رہ کر ریاستی ادارے کام کریں گے تو اداروں کے درمیان کبھی ٹکرائو نہیں ہوگا۔

اختلاف رائے الگ چیز ہوتی ہے تاہم ریاستی اداروں میں تصادم ریاست کے لئے ٹھیک نہیں ہوتا۔ عدلیہ، میڈیا اور سول سوسائٹی کے متحرک ہونے کے مثبت اثرات سامنے آرہے ہیں اور شعور وآگہی میں اضافہ ہواہے۔ یہ بحث بھی جاری ہے کہ حتمی فیصلہ کا اختیار عدلیہ کو ہے یا پارلیمنٹ کو ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے موجودہ پارلیمنٹ کو سلام پیش کرکے ایک مثبت مثال قائم کی ہے،آئینی مدت کی تکمیل قریب تر ہے ،پارلیمنٹ کی کارکردگی پر عدلیہ کے سربراہ کا بیان سیاسی حلقوں میں بھی پذیرائی حاصل کررہا ہے۔
Load Next Story