پاکستان میں جدید طریقے سے کاشتکاری کا بڑھتا رجحان

گرین ہاؤسز کے ذریعے کاشتکاری کے اس طریقے میں ماحولیاتی خطرات کم سے کم اور کسان کو معمول سے اچھی آمدنی ہوتی ہے۔

گرین ہاؤسز کے ذریعے کاشتکاری کے اس طریقے میں ماحولیاتی خطرات کم سے کم اور کسان کو معمول سے اچھی آمدنی ہوتی ہے۔

KARACHI:
پنجاب کی تحصیل ڈسکہ کے رہائشی قاضی نعیم کا خاندانی پس منظر زراعت سے وابستہ ہے۔ قاضی نعیم ایک جانب تو اپنے پورے خاندان کے کفیل ہیں۔ انہوں نے زراعت میں اپنے والد کی میراث کو جدید علوم اور طریقوں کے ساتھ بہتر بناکر ایک عمدہ مثال قائم کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے والد ایک وژنری کی حیثیت رکھتے تھے اور نعیم کو ہمیشہ زراعت کے نئے طریقوں پر کام کی ترغیب دیتے رہے ہیں۔

2014 میں نعیم کو یوایس ایڈ کے ورلڈ لرننگ پروگرام کے تحت ہالینڈ میں موسم سے ہٹ کر کنٹرولڈ گرین ہاؤس زراعت کے ذریعے سبزیاں اگانے کی تربیت کا موقع ملا۔ ٹریننگ کے دوران قاضی نعیم کو سادہ سرنگوں اور پلاسٹک سے ڈھانپے گئے سرنگ نما گرین ہاؤسز میں کاشت کاری کی تربیت فراہم کی گئی۔ اس طریقے میں شفاف پلاسٹک کے نیچے سرنگ نما گرین ہاؤسز میں بے موسم کی سبزیاں اگائی جاتی ہیں اور برنر کے ذریعے فصل کو مناسب درجہ حرارت فراہم کیا جاسکتا ہے جب کہ اس طریقےسے فصل کا معیار بلند ہوجاتا ہے۔

کاشتکاری کے اس طریقے میں ماحولیاتی خطرات کم سے کم ہوتے ہیں اور کسان کو معمول سے اچھی آمدنی ہوتی ہے۔ نعیم نے بھی یہی کچھ کیا اور وطن واپس آنے کے بعد انہوں نے گوجرانوالہ میں اپنا فارم قائم کیا۔ لیکن اس کے بعد انہیں 2015 میں امریکہ میں بھی تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا جو کھیتوں میں پانی کے مؤثر انتظام کے بارے میں تھا۔



دونوں ٹریننگز کے دوران قاضی نعیم نے جو کچھ سیکھا انہیں اپنے فارمز میں آزمایا اور کئی گنا منافع حاصل کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ایک ہی فصل کو پورے سال اگایا جائے تو دو سے تین گنا زائد قیمت پر فروخت ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ قاضی نعیم ان جدید طریقوں سے تیار شدہ سبزیوں کی فصل کئی ہفتے قبل ہی مارکیٹ میں لے آتے ہیں کیونکہ روایتی زراعت سے ان کی قبل ازوقت آزمائش ممکن نہیں۔ کھیتی باڑی کی جدید تکینک کی بدولت اب وہ زراعتی حلقوں کی ایک مشہور شخصیت بن چکے ہیں۔


نعیم نے دوسرے بہت سے کسانوں کو بھی زراعت کے اس نئے طریقے سے روشناس کرایا ہے اور مختلف کسان اب 3000 ہیکٹر سے زائد زمین پر اسی طریقے سے کاشت کرکے منافع کمارہے ہیں اور اس سے خود نعیم بہت مسرور ہیں۔

قاضی نعیم کا کہنا ہے کہ مجھے دوسرے کاشتکاروں کی مدد کرکے بہت خوشی محسوس ہوتی ہے اور جو کچھ میں نے سیکھا ہے وہ میں دوسروں تک پہنچانا چاہتا ہوں۔ کسان کی جانب سے فصلوں کو بار بار بدل کر کاشتکاری سے ایک جانب تو فی یونٹ پیداوار بڑھتی ہے تو دوسری جانب ورائٹی بڑھا کر غذائی تحفظ میں بھی مدد ملتی ہے۔

قاضی نعیم کے لئے ایک اور پرمسرت لمحہ یہ ہے کہ اس کے بیٹے بھی اب اس خاندانی پیشے کو اپنائے ہوئے خود اپنی پسند سے زرعی علوم پڑھ رہے ہیں یوں اب ان کا بیٹا زراعت کو جدید خطوط پر استوار رکھنے کا عزم رکھتا ہے۔

قاضی نعیم کہتے ہیں آج جب پرعزم کسانوں کے ساتھ ساتھ میں اپنے بیٹے سے بات کرتا ہوں تو میرے کانوں میں میرے والد کی وہ آواز گونجتی ہے جس میں وہ مجھے برس ہا برس سے رہنمائی فراہم کرتے رہے تھے۔

Load Next Story