دفتر خارجہ کی بریفنگ

پاکستان بھارت کے ساتھ برابری کی بنیاد پر پرامن اور بہترین تعلقات چاہتا ہے لیکن بھارت جامع مذاکرات کے لیے تیار نہیں

ایجنسیوں اور سیکیورٹی اداروں کو زیادہ سے زیادہ متحرک کرنا ہو گا تاکہ دشمن ایجنسیاں اپنی خفیہ سرگرمیوں میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ فوٹو؛ فائل

دفترخارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے جمعرات کو ہفتہ وار پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ پاکستان میں ''را'' کی خفیہ سرگرمیاں شدید تشویش کا باعث ہیں۔

انھوں نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ یہ خفیہ سرگرمیاں بند کرائے۔ انھوں نے کہا کہ بلوچستان سے ''را'' کے گرفتار ہونے والے افسر کلبھوشن یادیو تک بھارت نے قونصلر رسائی مانگی ہے، بھارتی درخواست زیرغور ہے تاہم اس بات کا فیصلہ قانون اور متعلقہ معاہدے کے تحت کیا جائے گا، گرفتار بھارتی ایجنٹ سے تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے اور ان تحقیقات کی روشنی میں قانون نافذ کرنے والے ادارے پاکستان دشمن سرگرمیوں میں ملوث افراد کی گرفتاری کی کوششیں کر رہے ہیں، کچھ افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔

دوسری جانب جمعرات کو جی ایچ کیو میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی زیر صدارت ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان مخالف کارروائیوں کو روکنے کے سلسلے میں تمام ضروری اور ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں گے' ایسے اقدامات جن سے پاکستان کی سلامتی اور ترقی کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو کو ہر صورت میں روکا جائے۔

بھارتی حکومت ایک عرصے سے یہ پروپیگنڈا کررہی ہے کہ اس کے ہاں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں میں پاکستان کی سرزمین استعمال کی جا رہی ہے' حالیہ پٹھانکوٹ کے واقعے میں بھی دہشت گردوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔

پاکستان نے دہشت گردی کو روکنے اور کسی بھی واقعے کے بعد اس کی تحقیقات کے لیے بھارت سے ہر ممکن تعاون کیا لیکن اس سب کے باوجود بھارتی حکومت مسلسل یہ واویلہ مچاتی آ رہی ہے کہ اس کے ہاں دہشت گردی کروائی جا رہی ہے لیکن وہ کسی دہشت گردی واقعے کے ٹھوس ثبوت ابھی تک فراہم نہیں کر سکا۔ پاکستان کے مطالبے کے باوجود بھارتی حکومت نے سمجھوتہ ایکسپریس پر تحقیقات کے نتائج سے بھی آگاہ نہیں کیا۔


تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا ہے کہ بھارت کی طرف سے کسی بھی دہشت گردی کے واقعے کی تحقیقات سے آگاہ نہ کرنے سے اس شک کو تقویت ملتی ہے کہ ان واقعات کے پیچھے بھارتی ایجنسیوں کا ہاتھ ہے جس کا مقصد پاکستان کو خواہ مخواہ بدنام کرنا ہے۔ اب بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد ٹھوس ثبوت پاکستان کے ہاتھ آ گیا اور یہ واضح ہو چکا ہے کہ بھارت باقاعدہ طور پر پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔

دوسری جانب بھارت میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے کہا ہے ہم جانتے ہیں کہ پاکستان میں بدامنی کا سبب کون ہے اور کون ہمارے ملک کو عدم استحکام کی جانب دھکیل رہا ہے' ''را'' کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد تو پاکستان کے موقف کی تائید ہو چکی ہے جب کہ کلبھوشن کے معاملے پر قونصل رسائی کا معاملہ زیر غور ہے اس لیے ابھی اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔

پٹھانکوٹ واقعے کی تحقیقات کے حوالے سے پاکستانی ہائی کمشنر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ''بھارت کی تحقیقاتی ٹیم کو پاکستان آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ان کی پاکستان آمد کا کوئی امکان بھی نہیں کیونکہ پٹھانکوٹ تحقیقات دو طرفہ مقابلے بازی نہیں بلکہ تعاون کی بات ہے' دونوں ممالک کے درمیان جامع مذاکرات کا عمل معطل ہو چکا ہے' پاکستان بھارت کے ساتھ برابری کی بنیاد پر پرامن اور بہترین تعلقات چاہتا ہے لیکن بھارت جامع مذاکرات کے لیے تیار نہیں''۔ یہ تو بالکل واضح ہے کہ بھارت پاکستان سے جامع مذاکراتی عمل کے لیے قطعی آمادہ نہیں کیونکہ جب بھی مذاکرات کی بات چلتی ہے تو ایسے موقع پر بھارت میں کوئی نہ کوئی دہشت گردی کا واقعہ رونما ہو جاتا ہے جس کے بعد مذاکرات کا عمل شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جاتا ہے۔

افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ افغان طالبان اور دیگر گروہوں کو مذاکرات کی میز پر لانا صرف پاکستان کی ذمے داری نہیں باقی ممالک بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان افغانستان میں دیرپا امن کے قیام کا خواہش مند ہے اور اس سلسلے میں وہ اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لا رہا ہے لیکن جب تک افغان طالبان اور افغان حکومت ایک دوسرے کے بارے میں اپنے رویے میں لچک پیدا نہیں کریں گے اور اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہیںگے تو تب تک مذاکرات کی کوئی بھی کوشش بارآور نہیں ہو سکتی' پاکستان تو زیادہ سے زیادہ سہولت کار کا کردار ادا کر سکتا ہے مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانا افغان حکومت اور افغان طالبان کی ذمے داری ہے۔

اب یہ کھل کر سامنے آ گیا ہے کہ بھارت پاکستان کے ہمسایہ ممالک کی سرزمین اس کے خلاف استعمال کر رہا ہے' اس صورت حال کے تناظر میں پاکستان کو اپنی سلامتی اور بقاء کے لیے داخلی اور خارجی سطح پر اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانا ہو گی۔ ایجنسیوں اور سیکیورٹی اداروں کو زیادہ سے زیادہ متحرک کرنا ہو گا تاکہ دشمن ایجنسیاں اپنی خفیہ سرگرمیوں میں کامیاب نہ ہو سکیں۔
Load Next Story