کراچی کے ضمنی انتخابات میں متحدہ سرخرو
الیکشن کمیشن نےاین اے 245اورپی ایس115کراچی کےضمنی انتخابات کو کالعدم قرار دینے کا تحریک انصاف کا مطالبہ مسترد کر دیا
کراچی میں این اے 245 اور پی ایس 115 کے ضمنی انتخابات کے غیرسرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق ایم کیو ایم نے دونوں نشستیں جیت لیں، این اے 245 میں ایم کیوایم کے کمال ملک نے 39ہزار 597 ووٹ حاصل کیے جب کہ مد مقابل پیپلزپارٹی کے شاہد حسین 3116 ووٹ لے سکے، تحریک انصاف کے امجد اللہ خان کو دستبرداری کے باوجود 1489 ووٹ ملے، ٹرن آؤٹ11.21 فیصد رہا، پی ایس 115 سے ایم کیو ایم کے امیدوار فیصل رفیق نے11 ہزار 747 ووٹ لیے، مہاجر قومی موومنٹ کے جمیل قادری نے1381 اور تحریک انصاف کے امجد آصف جاہ نے 1210 ووٹ حاصل کیے۔
بلاشبہ ضمنی انتخابات کے نتائج کے غیر معمولی یا اپ سیٹ ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا کیونکہ ان حلقوں میں متحدہ کا ووٹ بینک شہر کے سیاسی و سماجی نشیب و فراز کے باوجود متاثر نہیں ہوا جب کہ ٹرن آؤٹ 9.20فیصد رہا، ضمنی انتخابات میں ٹرن آؤٹ عموماً کم ہی رہتا ہے اس لیے روایتی انتخابی گہما گہمی دیکھنے میں نہیں آئی مگر سیاسی بلوغت کا جو سفر کراچی نے حالیہ برسوں میں طے کیا ہے وہ جمہوری عمل کے استحکام کا باعث بنا ہے۔
پولنگ مجموعی طور پر پرامن و شفاف رہی، البتہ کراچی کے حلقہ پی ایس115 میں کئی پولنگ اسٹیشنوں کے باہر متحدہ قومی موومنٹ اور مہاجر قومی موومنٹ کے کارکنوں کے درمیان تصادم ہوا مگر پولیس اور رینجرز کی بروقت کارروائی کے باعث صورتحال قابو میں رہی، بہر حال پولنگ سے 6 گھنٹے قبل تحریک انصاف کے منحرف رہنما امجد اللہ خان نے پی ٹی آئی سے دستبردار ہو کر نائن زیرو میں رابطہ کمیٹی کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران متحدہ میں شمولیت کا دلچسپ فیصلہ کیا ۔ الیکشن کمیشن نے این اے 245 اور پی ایس115 کراچی کے ضمنی انتخابات کو کالعدم قرار دینے کا تحریک انصاف کا مطالبہ مسترد کر دیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملکی سیاست میں موقع پرستی، نظریاتی انحراف اور سیاسی اختلافات کو ذاتی مفادات کی جنگ کی شکل دینا کوئی نئی بات نہیں مگر صائب طریقہ یہ ہے کہ سیاسی اخلاقیات اور جمہوری روایات و آداب کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے، اس حوالے سے سیاسی و سماجی نشیب و فراز اور شہر کی مخصوص سیمابی صورتحال میں انتخابی مہم اور پولنگ کے دوران رواداری اور جمہوری اسپرٹ کا جو مظاہرہ کراچی کے ضمنی انتخابات کے دوران ہوا وہ قابل صد تحسین ہے۔
بلاشبہ ضمنی انتخابات کے نتائج کے غیر معمولی یا اپ سیٹ ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا کیونکہ ان حلقوں میں متحدہ کا ووٹ بینک شہر کے سیاسی و سماجی نشیب و فراز کے باوجود متاثر نہیں ہوا جب کہ ٹرن آؤٹ 9.20فیصد رہا، ضمنی انتخابات میں ٹرن آؤٹ عموماً کم ہی رہتا ہے اس لیے روایتی انتخابی گہما گہمی دیکھنے میں نہیں آئی مگر سیاسی بلوغت کا جو سفر کراچی نے حالیہ برسوں میں طے کیا ہے وہ جمہوری عمل کے استحکام کا باعث بنا ہے۔
پولنگ مجموعی طور پر پرامن و شفاف رہی، البتہ کراچی کے حلقہ پی ایس115 میں کئی پولنگ اسٹیشنوں کے باہر متحدہ قومی موومنٹ اور مہاجر قومی موومنٹ کے کارکنوں کے درمیان تصادم ہوا مگر پولیس اور رینجرز کی بروقت کارروائی کے باعث صورتحال قابو میں رہی، بہر حال پولنگ سے 6 گھنٹے قبل تحریک انصاف کے منحرف رہنما امجد اللہ خان نے پی ٹی آئی سے دستبردار ہو کر نائن زیرو میں رابطہ کمیٹی کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران متحدہ میں شمولیت کا دلچسپ فیصلہ کیا ۔ الیکشن کمیشن نے این اے 245 اور پی ایس115 کراچی کے ضمنی انتخابات کو کالعدم قرار دینے کا تحریک انصاف کا مطالبہ مسترد کر دیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملکی سیاست میں موقع پرستی، نظریاتی انحراف اور سیاسی اختلافات کو ذاتی مفادات کی جنگ کی شکل دینا کوئی نئی بات نہیں مگر صائب طریقہ یہ ہے کہ سیاسی اخلاقیات اور جمہوری روایات و آداب کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے، اس حوالے سے سیاسی و سماجی نشیب و فراز اور شہر کی مخصوص سیمابی صورتحال میں انتخابی مہم اور پولنگ کے دوران رواداری اور جمہوری اسپرٹ کا جو مظاہرہ کراچی کے ضمنی انتخابات کے دوران ہوا وہ قابل صد تحسین ہے۔