کرپشن بھی ملک سے غداری ہے
روس میں کرپشن کی سطح بہت بلند ہے۔
TANDO JAM:
چیئرمین سینیٹ مشرف کے ملک چھوڑنے پر اس قدر اپ سیٹ (پریشان) ہوئے کہ انھوں نے پارلیمنٹ سے کہا کہ وہ آئین میں ترمیم کر کے آرٹیکل 6 کو ختم کر دے جو غداری سے متعلق ہے کیونکہ اس آرٹیکل کے ذریعے نہ صرف یہ کہ آئین کا تحفظ نہیں کیا جا سکا بلکہ یہ پارلیمنٹ اور جمہوریت کے تحفظ میں بھی ناکام رہا ہے۔
ڈکشنری میں غداری کی تعریف یہ ہے کہ ''اپنے ہی ملک کے خلاف جنگ کرنا یا جان بوجھ کر اس کے دشمنوں کی مدد کرنا، یا اپنی ریاست کی حکومت کو گرانے کی کوشش کرنا جس کا وہ خود باشندہ ہو، یا اس کے حکمران کو خود ہلاک کرنا یا حکمران خاندان کو حملہ کر کے زخمی کر دینا''۔ جنرل مشرف نے 2007ء میں ایمرجنسی نافذ کر کے آئین کو معطل کر دیا جو درست بات نہیں تھی لیکن سپریم کورٹ کے عزت مآب جج حضرات نے 1999ء میں پرویز مشرف کے اقدام کی توثیق کی تھی اور آئین میں ترامیم کی اجازت بھی دیدی تھی (جس کے نتیجے میں 100 ترامیم کی گئیں)۔
روس میں کرپشن کی سطح بہت بلند ہے۔ اس حوالے سے ''روس میں کرپشن'' کے عنوان سے 2013ء میں جاری کی جانیوالی رپورٹ پیش کی جا سکتی ہے جس پر روس کی قومی انسداد کرپشن کمیٹی کے سربراہ کیرل کابانوف (Kirill Kabanov) نے کہا تھا کہ ہمیں اس کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنا ہو گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کرپشن بدترین قسم کی غداری ہے لہٰذا جو بھی اس کا ارتکاب کرے یا ارتکاب کی کوشش کرے اس کا احتساب لازمی ہے اور اس کو وہی سزا دی جائے جو ملک سے غداری کی سزا ہوتی ہے۔ ''کرپشن میں کمی کے ذریعے حکومت اپنی سماجی، اقتصادی ذمے داریاں پوری کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے اور وہ عوام کو روٹی کپڑا اور مکان کے علاوہ ان کی صحت اور تعلیم پر بھی اخراجات کر سکتی ہے۔
کیا کوئی اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ کرپشن پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے براہ راست کتنا بڑا خطرہ ہے۔ بہت سے تحقیقاتی ادارے اتنی مہارت رکھتے ہیں کہ وہ آف شور کمپنیوں کے اکاؤنٹس کی فارنسک جانچ پڑتال کر کے یہ پتہ چلاسکتے ہیں کہ ان میں جمع کرائی جانیوالی رقوم پر ان کے اپنے ملک میں ٹیکس ادا کیا گیا ہے یا نہیں۔ میں چونکہ ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) کی گلوبل ایجنڈا کونسل (جی اے سی) برائے انسداد کرپشن اور ٹرانسپرنسی اور ڈبلیو ای ایف کی ایک اور کمپنی Partnering Against Corruption Initiative (پی اے سی آئی) کا کئی سال تک ممبر رہا ہوں اور میں نے بار بار ای سی ڈی پر زور دیا ہے کہ برطانیہ کے حکام سے معلوم کریں آیا منی لانڈرنگ کے خلاف قوانین موجود ہیں۔
جن کے ذریعے یہ پتہ چلایا جا سکے کہ پاکستان سے آنیوالے اکاؤنٹس پر متعلقہ شخص نے ٹیکس ادا کیا ہے یا نہیں۔ ٹریژر آئی لینڈ نامی کتاب کے مصنف نکولس شیکسن (Shaxson) نے اپنی کتاب میں آف شور ٹیکس ہیونز کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ لندن دنیا کے ٹیکس چوروں کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ میں نے درجنوں بار لکھا ہے کہ لندن کی ہائیڈپارک کے اردگرد ایک مربع میل کے علاقے میں جہاں قانونی بزنس کرنے والے مقیم ہیں وہاں دنیا بھر کے سب سے بڑے ٹھگ بھی رہائش پذیر ہیں۔ جنہوں نے بہت بھاری رقوم کی خرد برد کی ہوئی ہے۔ ان کو بے نقاب کیا جانا چاہیے تا کہ پانامہ میں جو اقتصادی کارپوریشنیں بہت بھاری رقوم کا ہیر پھیر کرتی ہیں ان کے معاملات کو شفاف بنایا جائے۔ اور ای سی ڈی کے سیکریٹری جنرل اینجل گوریا نے کہا ہے کہ پانامہ پیپرز کے انکشاف نے پانامہ کی ثقافت اور اس کی آزادی کو واشگاف کر دیا ہے۔
پانامہ ان ممالک کی خفیہ رقوم کو رکھنے والا اہم مرکز ہے جہاں ٹیکس کی ادائیگی کے بغیر غیر قانونی رقوم رکھی جاتی ہیں۔
آخر رضا ربانی نے زرداری اور ان کے حواریوں کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ حالانکہ انھوں نے بڑی مہارت سے آئین کی خلاف ورزی کا ذکر کیا ہے۔ ان کے بیان کی اخبارات میں جو سرخی نکالی گئی ہے اس میں منافقت صاف نمایاں ہے کہ ''پی پی پی کو پاکستان سے بھاری سرمائے کے غیر قانونی طور پر باہر جانے پر بڑی تشویش ہے'' واضح رہے کہ تھوک کے حساب سے کرپشن منظم جرائم کا راستہ کھولتی ہے جس کے ذریعے دہشت گردی کے سہولت کار جان بوجھ کر یا انجانے میں مدد کرتے ہیں۔
وہ افراد جو اپنی سرکاری حیثیت کے ذریعے جرائم کی پردہ پوشی کرتے ہیں وہی درحقیقت آئین کی خلاف ورزی کرنیوالے ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کرپشن بھی غداری کے زمرے میں آتی ہے اور یہ ملک کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔
17 ستمبر 2015ء کو میں نے ''کرپشن کا قلع قمع کرنا'' کے عنوان سے آرٹیکل لکھا تھا کہ صرف منظم جرائم کے ذریعے ہی بہت بھاری مقدار میں رقوم جو کرپٹ لین دین کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں وہ آف شور کمپنیوں کے ذریعے بڑے بڑے بینکوں میں جاتی ہیں جن سے جائیدادیں خریدی جاتی ہیں۔ مشرف کے این آر او کے بعد کرپشن کی سطح میں حد سے زیادہ اضافہ ہو گیا۔
یہ ہماری انتہائی بدقسمتی تھی کہ ہمیں کرپٹ حکمران مل گئے۔'' اس سے بھی زیادہ برا وہ این آر او کو غیر قانونی قرار دینے کا فیصلہ تھا لیکن این آر او سے استفادہ کرنیوالوں کو کچھ نہ کہا گیا اور وہ بدستور اپنی کرپشن میں مصروف رہے۔
اس میں ہمارے بہت سے سیاست دان، بیورو کریٹس، بعض جج حضرات وغیرہ بھی شامل تھے جو مختلف پیمانوں پر کرپشن میں ملوث تھے جن کی کرپشن پر سیاسی، انتظامی اور عدالتی طور پر اس حوالے سے کرپشن کے انسد اد کی کوئی نیت ہی نہیں تھی۔ آپ ان مقدس لوگوں کو کیا کہیں گے جو پارلیمنٹ میں جاتے ہیں لیکن کرپشن میں ملوث ہوتے ہیں یا وہ ڈھٹائی سے کرپشن کے معاملات پر چشم پوشی کا ارتکاب کرتے ہیں۔
پانامہ لیکس نے پاکستان میں ایک طوفان برپا کر دیا ہے۔ آف شور کمپنیاں ٹیکس نادہندوں کے لیے راستہ کھولتی ہیں جو ٹیکس قوانین کی خامیوں کا فائدہ اٹھا کر بھاری رقوم باہر پہنچاتی ہیں حالانکہ یہ غیر قانونی کام ہے۔ نہ صرف غیر قانونی بلکہ غیر اخلاقی بھی ہے۔ آف شور کمپنیوں میں جمع کرائی جانے والی رقوم منی لانڈرنگ کے لیے استعمال ہوتی ہیں جو ٹیکس کو غیر قانونی طور پر بچا کر بھیجی جاتی ہیں۔ انگریزی کا محاورہ ہے کہ بہترین دفاع جارحیت میں مضمر ہے۔
اس کی مثال رانا ثنا اللہ نے پانامہ لیکس کو ''پاجامہ لیکس'' کہہ کر پیش کی۔ جب کہ دانیال عزیز اور مصدق ملک بھی وزیراعظم کی فیملی کے دفاع میں پیچھے نہیں رہے۔ وہ بڑی چالاکی سے تحقیقات کا ہدف آف شور اکاؤنٹس سے تبدیل کرنے کی کوشش کرتے رہے حالانکہ فارنسک آڈٹ کے ذریعے آف شور اکاؤنٹس کے بارے میں بآسانی سچائی تلاش کی جا سکتی ہے جب کہ حکومت کی طرف سے جان بوجھ کر توجہ منعطف کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے حتیٰ کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تہمینہ درانی نے بھی اپنی فیملی کی طرف سے اپنی پیٹھ موڑ لی ہے۔ اگر ان رقوم کا سراغ لگانے کی کوشش کی جائے تو نتیجہ بڑا دلچسپ برآمد ہو گا۔ جب حکمرانوں کی اولادیں بیرون ملک کاروبار کر رہی ہیں تو کیا وہ حکمران دوسروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر راغب کر سکتے ہیں۔
یہ سوال ضرور ذہن میں اٹھتا ہے کہ غیر شفاف الیکشن کے راستے جب جمہوریت قائم ہوتی ہے اور جب اس کو معاشرے کے جرائم کی پردہ پوشی کے لیے استعمال کیا جائے تو کیا ہمیں اس آئین اور جمہوریت کی پاسداری کا دعویٰ زیب دیتا ہے؟
حکومت کے اخلاقی کردار اور اقدار کی بالادستی قائم رکھنے کے لیے یہ امر ناگزیر ہے کہ آئین کا غلط استعمال نہ کیا جائے۔ رضا ربانی تسلیم کرتے ہیں کہ آئین کی حفاظت نہیں کی جاتی۔ ہمارے حکمران بھی بخوبی جانتے ہیںکہ غداری کا مرتکب ہونا عوام اور ملک کے لیے سود مند نہیں۔ وہ اچھائی اور برائی میں تحریف کرنا جانتے ہیں۔
چیئرمین سینیٹ مشرف کے ملک چھوڑنے پر اس قدر اپ سیٹ (پریشان) ہوئے کہ انھوں نے پارلیمنٹ سے کہا کہ وہ آئین میں ترمیم کر کے آرٹیکل 6 کو ختم کر دے جو غداری سے متعلق ہے کیونکہ اس آرٹیکل کے ذریعے نہ صرف یہ کہ آئین کا تحفظ نہیں کیا جا سکا بلکہ یہ پارلیمنٹ اور جمہوریت کے تحفظ میں بھی ناکام رہا ہے۔
ڈکشنری میں غداری کی تعریف یہ ہے کہ ''اپنے ہی ملک کے خلاف جنگ کرنا یا جان بوجھ کر اس کے دشمنوں کی مدد کرنا، یا اپنی ریاست کی حکومت کو گرانے کی کوشش کرنا جس کا وہ خود باشندہ ہو، یا اس کے حکمران کو خود ہلاک کرنا یا حکمران خاندان کو حملہ کر کے زخمی کر دینا''۔ جنرل مشرف نے 2007ء میں ایمرجنسی نافذ کر کے آئین کو معطل کر دیا جو درست بات نہیں تھی لیکن سپریم کورٹ کے عزت مآب جج حضرات نے 1999ء میں پرویز مشرف کے اقدام کی توثیق کی تھی اور آئین میں ترامیم کی اجازت بھی دیدی تھی (جس کے نتیجے میں 100 ترامیم کی گئیں)۔
روس میں کرپشن کی سطح بہت بلند ہے۔ اس حوالے سے ''روس میں کرپشن'' کے عنوان سے 2013ء میں جاری کی جانیوالی رپورٹ پیش کی جا سکتی ہے جس پر روس کی قومی انسداد کرپشن کمیٹی کے سربراہ کیرل کابانوف (Kirill Kabanov) نے کہا تھا کہ ہمیں اس کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنا ہو گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کرپشن بدترین قسم کی غداری ہے لہٰذا جو بھی اس کا ارتکاب کرے یا ارتکاب کی کوشش کرے اس کا احتساب لازمی ہے اور اس کو وہی سزا دی جائے جو ملک سے غداری کی سزا ہوتی ہے۔ ''کرپشن میں کمی کے ذریعے حکومت اپنی سماجی، اقتصادی ذمے داریاں پوری کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے اور وہ عوام کو روٹی کپڑا اور مکان کے علاوہ ان کی صحت اور تعلیم پر بھی اخراجات کر سکتی ہے۔
کیا کوئی اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ کرپشن پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے براہ راست کتنا بڑا خطرہ ہے۔ بہت سے تحقیقاتی ادارے اتنی مہارت رکھتے ہیں کہ وہ آف شور کمپنیوں کے اکاؤنٹس کی فارنسک جانچ پڑتال کر کے یہ پتہ چلاسکتے ہیں کہ ان میں جمع کرائی جانیوالی رقوم پر ان کے اپنے ملک میں ٹیکس ادا کیا گیا ہے یا نہیں۔ میں چونکہ ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) کی گلوبل ایجنڈا کونسل (جی اے سی) برائے انسداد کرپشن اور ٹرانسپرنسی اور ڈبلیو ای ایف کی ایک اور کمپنی Partnering Against Corruption Initiative (پی اے سی آئی) کا کئی سال تک ممبر رہا ہوں اور میں نے بار بار ای سی ڈی پر زور دیا ہے کہ برطانیہ کے حکام سے معلوم کریں آیا منی لانڈرنگ کے خلاف قوانین موجود ہیں۔
جن کے ذریعے یہ پتہ چلایا جا سکے کہ پاکستان سے آنیوالے اکاؤنٹس پر متعلقہ شخص نے ٹیکس ادا کیا ہے یا نہیں۔ ٹریژر آئی لینڈ نامی کتاب کے مصنف نکولس شیکسن (Shaxson) نے اپنی کتاب میں آف شور ٹیکس ہیونز کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ لندن دنیا کے ٹیکس چوروں کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ میں نے درجنوں بار لکھا ہے کہ لندن کی ہائیڈپارک کے اردگرد ایک مربع میل کے علاقے میں جہاں قانونی بزنس کرنے والے مقیم ہیں وہاں دنیا بھر کے سب سے بڑے ٹھگ بھی رہائش پذیر ہیں۔ جنہوں نے بہت بھاری رقوم کی خرد برد کی ہوئی ہے۔ ان کو بے نقاب کیا جانا چاہیے تا کہ پانامہ میں جو اقتصادی کارپوریشنیں بہت بھاری رقوم کا ہیر پھیر کرتی ہیں ان کے معاملات کو شفاف بنایا جائے۔ اور ای سی ڈی کے سیکریٹری جنرل اینجل گوریا نے کہا ہے کہ پانامہ پیپرز کے انکشاف نے پانامہ کی ثقافت اور اس کی آزادی کو واشگاف کر دیا ہے۔
پانامہ ان ممالک کی خفیہ رقوم کو رکھنے والا اہم مرکز ہے جہاں ٹیکس کی ادائیگی کے بغیر غیر قانونی رقوم رکھی جاتی ہیں۔
آخر رضا ربانی نے زرداری اور ان کے حواریوں کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ حالانکہ انھوں نے بڑی مہارت سے آئین کی خلاف ورزی کا ذکر کیا ہے۔ ان کے بیان کی اخبارات میں جو سرخی نکالی گئی ہے اس میں منافقت صاف نمایاں ہے کہ ''پی پی پی کو پاکستان سے بھاری سرمائے کے غیر قانونی طور پر باہر جانے پر بڑی تشویش ہے'' واضح رہے کہ تھوک کے حساب سے کرپشن منظم جرائم کا راستہ کھولتی ہے جس کے ذریعے دہشت گردی کے سہولت کار جان بوجھ کر یا انجانے میں مدد کرتے ہیں۔
وہ افراد جو اپنی سرکاری حیثیت کے ذریعے جرائم کی پردہ پوشی کرتے ہیں وہی درحقیقت آئین کی خلاف ورزی کرنیوالے ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کرپشن بھی غداری کے زمرے میں آتی ہے اور یہ ملک کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔
17 ستمبر 2015ء کو میں نے ''کرپشن کا قلع قمع کرنا'' کے عنوان سے آرٹیکل لکھا تھا کہ صرف منظم جرائم کے ذریعے ہی بہت بھاری مقدار میں رقوم جو کرپٹ لین دین کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں وہ آف شور کمپنیوں کے ذریعے بڑے بڑے بینکوں میں جاتی ہیں جن سے جائیدادیں خریدی جاتی ہیں۔ مشرف کے این آر او کے بعد کرپشن کی سطح میں حد سے زیادہ اضافہ ہو گیا۔
یہ ہماری انتہائی بدقسمتی تھی کہ ہمیں کرپٹ حکمران مل گئے۔'' اس سے بھی زیادہ برا وہ این آر او کو غیر قانونی قرار دینے کا فیصلہ تھا لیکن این آر او سے استفادہ کرنیوالوں کو کچھ نہ کہا گیا اور وہ بدستور اپنی کرپشن میں مصروف رہے۔
اس میں ہمارے بہت سے سیاست دان، بیورو کریٹس، بعض جج حضرات وغیرہ بھی شامل تھے جو مختلف پیمانوں پر کرپشن میں ملوث تھے جن کی کرپشن پر سیاسی، انتظامی اور عدالتی طور پر اس حوالے سے کرپشن کے انسد اد کی کوئی نیت ہی نہیں تھی۔ آپ ان مقدس لوگوں کو کیا کہیں گے جو پارلیمنٹ میں جاتے ہیں لیکن کرپشن میں ملوث ہوتے ہیں یا وہ ڈھٹائی سے کرپشن کے معاملات پر چشم پوشی کا ارتکاب کرتے ہیں۔
پانامہ لیکس نے پاکستان میں ایک طوفان برپا کر دیا ہے۔ آف شور کمپنیاں ٹیکس نادہندوں کے لیے راستہ کھولتی ہیں جو ٹیکس قوانین کی خامیوں کا فائدہ اٹھا کر بھاری رقوم باہر پہنچاتی ہیں حالانکہ یہ غیر قانونی کام ہے۔ نہ صرف غیر قانونی بلکہ غیر اخلاقی بھی ہے۔ آف شور کمپنیوں میں جمع کرائی جانے والی رقوم منی لانڈرنگ کے لیے استعمال ہوتی ہیں جو ٹیکس کو غیر قانونی طور پر بچا کر بھیجی جاتی ہیں۔ انگریزی کا محاورہ ہے کہ بہترین دفاع جارحیت میں مضمر ہے۔
اس کی مثال رانا ثنا اللہ نے پانامہ لیکس کو ''پاجامہ لیکس'' کہہ کر پیش کی۔ جب کہ دانیال عزیز اور مصدق ملک بھی وزیراعظم کی فیملی کے دفاع میں پیچھے نہیں رہے۔ وہ بڑی چالاکی سے تحقیقات کا ہدف آف شور اکاؤنٹس سے تبدیل کرنے کی کوشش کرتے رہے حالانکہ فارنسک آڈٹ کے ذریعے آف شور اکاؤنٹس کے بارے میں بآسانی سچائی تلاش کی جا سکتی ہے جب کہ حکومت کی طرف سے جان بوجھ کر توجہ منعطف کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے حتیٰ کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تہمینہ درانی نے بھی اپنی فیملی کی طرف سے اپنی پیٹھ موڑ لی ہے۔ اگر ان رقوم کا سراغ لگانے کی کوشش کی جائے تو نتیجہ بڑا دلچسپ برآمد ہو گا۔ جب حکمرانوں کی اولادیں بیرون ملک کاروبار کر رہی ہیں تو کیا وہ حکمران دوسروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر راغب کر سکتے ہیں۔
یہ سوال ضرور ذہن میں اٹھتا ہے کہ غیر شفاف الیکشن کے راستے جب جمہوریت قائم ہوتی ہے اور جب اس کو معاشرے کے جرائم کی پردہ پوشی کے لیے استعمال کیا جائے تو کیا ہمیں اس آئین اور جمہوریت کی پاسداری کا دعویٰ زیب دیتا ہے؟
حکومت کے اخلاقی کردار اور اقدار کی بالادستی قائم رکھنے کے لیے یہ امر ناگزیر ہے کہ آئین کا غلط استعمال نہ کیا جائے۔ رضا ربانی تسلیم کرتے ہیں کہ آئین کی حفاظت نہیں کی جاتی۔ ہمارے حکمران بھی بخوبی جانتے ہیںکہ غداری کا مرتکب ہونا عوام اور ملک کے لیے سود مند نہیں۔ وہ اچھائی اور برائی میں تحریف کرنا جانتے ہیں۔