انڈونیشیا میں مذہبی انتہا پسندی کو شکست

دُنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک کے علماء نے دہشت گردی کے حامی مذہبی حلقوں کو کس طرح پسپا کیا؟

دُنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک کے علماء نے دہشت گردی کے حامی مذہبی حلقوں کو کس طرح پسپا کیا؟:فوٹو : فائل

گذشتہ ماہ مارچ خصوصاً دو اہم اسلامی ممالک، پاکستان اور ترکی پر بہت بھاری گذرا۔ اس مہینے دہشت گردی کے آٹھ بڑے واقعات رونما ہوئے۔ ان میں سے تین پاکستان میںہوئے۔ 7 مارچ کو پشاور کے ہسپتال پر خودکش حملہ ہوا جس میں اٹھارہ شہری جاں بحق ہوئے۔

جماعت الاحرار نامی پاکستانی جنگجو تنظیم نے دھماکا کرانے کی ذمے داری قبول کرلی۔16 مارچ کو پشاور کی ایک بس میں بم دھماکا ہوا۔ بس میں سرکاری ملازم سوار تھے۔ اس واقعے میں سترہ افراد شہید ہوئے۔ یہ دھماکا ایک جنگجو تنظیم، لشکر اسلام نے کرایا۔ 27 مارچ کو لاہور میں جماعت الاحرار کے ایک خودکش حملہ آور نے گلشن اقبال پارک میں بم دھماکا کردیا۔ اس واقعے میں پچھتّر شہری زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مقتولین میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔

13 مارچ کو القاعدہ کے کارندوں نے آئیوری کوسٹ کے ساحل پرسولہ افراد مار ڈالے۔ اسی دن ترکی میں ایک کار بم دھماکا ہوا جو سینتیس انسانوں کی جان لے گیا۔ یہ دھماکہ ترک مملکت سے نبردآزما جنگجو کرد تنظیم، کردستان فریڈم ہاکس نے انجام دیا۔ 16 مارچ کو نائیجیریا کی ایک مسجد میں خودکش حملہ ہوا۔ اس حملے میں بائیس نمازی شہید ہوگئے۔حملہ آور جنگجو تنظیم، بوکوحرام سے تعلق رکھتے تھے۔19 مارچ کو ترک شہر، استنبول میں خودکش حملہ آور نے چلتے پھرتے سیاحوں کے مابین خود کو اڑالیا۔ اس حملے میں پانچ سیاح مارے گئے اور کئی زخمی ہوئے۔ حملہ آور کو جنگجو تنظیم، داعش نے بھجوایا تھا۔ 22 مارچ کو داعش ہی کے خودکش حملہ آوروں نے مختلف عوامی مقامات پر بم دھماکوں کے ذریعے اکتیس افراد مار ڈالے۔ماہ مارچ کا آخری دھماکا 31 تاریخ کو ترک شہر دیاربکر میں ہوا۔ وہاں جنگجو کردوں نے بم دھماکے کے ذریعے سات ترک سپاہی ہلاک کردیئے، جبکہ ستائیس شہری زخمی ہوئے۔
٭٭
درج بالا دھماکوں کا چلن آشکارا کرتا ہے کہ عالم اسلام میں مصروف عمل جنگجو تنظیمیں پہلے سے زیادہ سرگرم اور شدت پسند ہوچکیں۔ یہ اب حکومتوں، غیر مسلموں، مخالف مسلمانوں غرض سبھی کو نشانہ بنارہی ہیں۔ شاید مقاصد حاصل کرنے میں ناکامی پر یہ تنظیمیں طیش میں آکر بے دریغ تخریبی کارروائیاں کرنے لگیں یا پھر وہ جلد از جلد اپنے نظریات کی ترقی و ترویج چاہتی ہیں۔

عالم اسلام کی جنگجو تنظیموں کو جنم دینے میں سب سے بڑا کردار مغربی استعمار نے ادا کیا۔ لیکن ان تنظیموں کی بڑھتی شدت پسندی نے کئی اسلامی ممالک مثلاً عراق، شام، پاکستان، لیبیا، ترکی، افغانستان، یمن، مصر، تیونس، مراکش، مالی اور نائیجیریا میں امن و امان کا سنگین مسئلہ پیدا کررکھا ہے۔بم دھماکوں میں لوگ چیونٹیوں کی طرح مارے جارہے ہیں۔اسی وجہ سے کئی اسلامی ممالک مسلسل بدامنی اور معاشی و معاشرتی زوال کا شکار بھی ہیں۔ماہرین اب ان ممالک کی حکومتوں، دانش وروں اور خواص و عوام پہ زور دے رہے ہیں کہ وہ انڈونیشیا کی مثال سامنے رکھ کر شدت پسند تنظیموں کا مقابلہ کریں۔ دنیا کے اس سب سے بڑے اسلامی ملک میں اعتدال پسند مسلمان شدت پسندی کو شکست دینے میں کامیاب رہے ہیں۔ اسی لیے جب داعش نے ''عالمی جہاد'' کا اعلان کیا، تو محض چند سو انڈونیشی مردوزن نے لبیک کہا اور جنگجوئی کی جانب مائل ہوئے۔ آخر انڈونیشیا میں اعتدال پسندوں کی فتح کا راز کیا ہے؟

جیت کے راز
انڈونیشیا میں شدت پسندی 2002ء میںنمایاں ہوئی۔ تب القاعدہ سے وابستہ مقامی تنظیم، جماعت اسلامیہ کے خودکش حملہ آوروں نے بم دھماکوں کے ذریعے بالی میں202 افراد مار ڈالے۔ ان میں اکثریت غیر ملکی سیاحوں کی تھی۔بعد ازاں بھی جماعت اسلامیہ کے کارندے سرکاری تنصیبات و شخصیات اور غیر مسلموں پر حملے کرتے رہے، مگر اس جنگجو تنظیم کو انڈونیشیا میں مقبولیت حاصل نہ ہوسکی۔ یہی نہیں، قومی سطح پر اس کی دیکھا دیکھی دیگر شدت پسند تنظیمیں بھی وجود میں نہ آسکیں۔جماعت اسلامیہ کے بانیوں میںا بوبکر بشیر' عبداللہ سنگکر اورشرحوح الاسلام شامل ہیں۔

اس انہونی بات کی وجہ یہ ہے کہ انڈونیشیا کی دو نمایاں ترین مذہبی تنظیمیں... نہضتہ العلماء اور محمدیہ شدت پسندوں کے عزائم کے سامنے رکاوٹ بن گئیں۔ ان دونوں مذہبی تنظیموں سے وابستہ علماء اور دانش وروں نے شدت پسندوں سے زبردست نظریاتی جنگ لڑی اور انہیں انہی کے پلیٹ فارم پر شکست دی۔ چناں چہ شدت پسند انڈونیشی معاشرے میں اپنے نظریات و خیالات پھیلانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔

یاد رہے، عالم اسلام میں پائی جانے والی شدت پسند اور جنگجو مذہبی تنظیمیں عموماً اپنی سرگرمیوں کو جائز بنانے کے لیے مذہب کا سہارا لیتی ہیں۔ ان تنظیموں کے بھی مختلف طبقات ہیں۔ بعض صرف مغربی استعمار سے مجادلہ چاہتی ہیں۔ کچھ کے نزدیک تنظیم کے نظریات سے اختلافات کرنے والے مسلمان بھی واجب القتل ہیں۔ بعض میں مسلمان دشمن خفیہ ایجنسیاں نفوذ کرچکیں۔ جیسے حال ہی میںانکشاف ہوا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی، را پاکستان مخالف سیاسی و مذہبی تنظیموں کی فنڈنگ کرتی، کارندوں کو تربیت اور اسلحہ دیتی ہے۔

نہضتہ العلماء اور محمدیہ کے علما نے شدت پسندوں کا مقابلہ کرنے کے لیے قرآن و حدیث سے مدد لی۔ وہ عوام کو دکھانا چاہتے تھے کہ کتاب و سنت میں شدت پسندی کو کس نظر سے دیکھا گیا ہے۔ انہوں نے شدت پسندوں کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے اور گالی و گولی کا مقابلہ دلائل کی مدد سے کیا۔ یہ علماء اپنی تحقیق، تجربے اور سعی سے اس نتیجے پر پہنچے کہ بیشتر اسلامی ممالک میں دو وجوہ کی بنا پر شدت پسندی میں اضافہ ہوا۔

اول یہ کہ جو اسلامی رہنما (صحیح یا غلط اندازعمل سے قطع نظر) )اہل مغرب اور مخالف مسلمانوں سے جنگ اور قتل و قتال چاہتے تھے، وہ اپنی کتب میں سیاق و سباق اور تاریخی پس منظر کا ذکر کیے بغیر آیات قرآنی اور احادیث کے حوالے دینے لگے۔ گویا انہوں نے پہلے کتاب و سنت میں اپنے دلائل کی توثیق کرنے والے من پسند حوالے ڈھونڈے اور پھر انہیں موجودہ حالات پر منطبق کردیا۔ اول اول خارجیوں نے یہ طریق کار اپنایا تھا جسے جمہور علما نے نہایت ناپسندیدگی سے دیکھا کیونکہ سیاق و سباق اور تاریخی پس منظر کا ذکر نہ ہو تو ایک آیت یا حدیث کے معنی بدل جاتے ہیں۔تب پس منظر سے ناواقف مسلمان آیت یا حدیث کے کچھ اور ہی معنی اخذ کر سکتا ہے۔


اسلام دشمن نام نہاد مغربی دانش ور بھی قرآن و حدیث سے اپنی مرضی کے حوالے لیتے اور انہیں بطور ثبوت پیش کرتے ہیں کہ اسلام ایک انتہا پسند، متشدد اور آمریت پسند مذہب ہے۔ مگر علمی پلیٹ فارم پر ان کی تحقیق بودی ثابت ہوتی ہے۔ علمائے کرام صدیوں سے اسلام دشمن مغربی دانشوروں کے دلائل کی قلعی کھولتے چلے آئے ہیں، لیکن بیسویں صدی میں بعض علماء نے یہ انوکھا وتیرہ اختیار کرلیا کہ وہ اپنی شدت پسندی کو جائز قرار دینے کے لیے قرآن و سنت سے چُن چُن کر حوالے دینے لگے۔ انہوں نے یہ ثابت کرنے کی خاطر ایڑی چوٹی کا زور لگادیا کہ ایک انفرادی مسلمان بھی قتال (اور جہاد) کرسکتا ہے۔ اور یہ کہ خاص حالات میں ''جارحانہ جہاد'' بھی جائز ہے۔ ان علماء نے اپنے نظریات کی ترویج و اشاعت کے لیے کتب و رسائل بھی تحریر کیے۔

دوم بیسویں صدی میں عالم اسلام میں جابجا مدارس کھلنے لگے۔ آخر ایک وقت ایسا آیا کہ ان مدارس میں ایسے اساتذہ بھی پڑھانے لگے جو کسی سکّہ بند مدرسے مثلاً جامعہ الازہر،دیوبند، ندوۃ العلماء وغیرہ کے سند یافتہ نہیں تھے۔ انہوں نے گلی محلوں میں قائم مدارس میں تعلیم پائی تھی۔ جن اساتذہ نے شدت پسندوں کا وضع کردہ لٹریچر پڑھا اور اس سے متاثر ہوئے، وہ بھی انہی کے رنگ میں رنگے گئے۔ یہ ناتجربہ کار اساتذہ پھر اپنے شاگردوں کو بھی شدت پسندانہ تعلیم دینے لگے۔ یوں شدت پسندی کی چنگاریاں پھیلتی چلی گئیں اور ایک دن بھڑک کر شعلے بن گئیں۔ یہ شعلے اب عالم اسلام میں جگہ جگہ الاؤ کی شکل اختیار کرچکے۔ ایک قوم میں جنم لینے والی مثل صدیوں کے تجربے کا نچوڑ ہوتی ہے۔ اور ایک مشہور اردو مثل ہے: نیم حکیم خطرہ جان، نیم ملاّ خطرہ ایمان!

دین اسلام کا حقیقی رخ
جب نہضتہ العلماء اور محمدیہ کے علماء نے درج بالا نتائج پائے، تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ انہیں عوام الناس تک پہنچایا اور پھیلایا جائے۔ چنانچہ انہوں نے قومی اخبارات میں مضامین لکھے، پمفلٹ چھپوائے، مساجداور جلسوں میں اور ٹیلیویژن پر تقاریر کیں اور شدت پسندی بڑھنے کے عوامل عام کردیئے۔ ساتھ ساتھ انہوں نے اسلام کا حقیقی رخ بھی انڈونیشی عوام و خواص پر واضح کیا جو محبت، امن، رواداری، برداشت، حلم، دوستی اور ہمدردی کی لازوال خوبیوں سے روشن و تاباں ہے۔

سیرت نبویﷺکا مطالعہ کیجیے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی اس لیے غیر مسلموں پر حملہ نہیں کیا کہ وہ اسلام نہیں لائے تھے... اسلام کی اشاعت کا طریق تبلیغ ہے اور یہی سنت نبویؐ ہے۔اہل ایمان کے قتال کا توسوال پیدا نہیں ہوتا۔ سنن ابن ماجہ میں حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ عقبہ کی صبح حضورؐ نے فرمایا: چھوٹی چھوٹی کنکریاں چن لاؤ' میں چھوٹی چھوٹی سات کنکریاں چن لایا۔ آپؐ نے انہیںاپنے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا: ہاں ایسی ہی کنکریاں مارو' پھر فرمایا: اے لوگو تم دین میںزیادتی سے بچو کیونکہ تم سے پہلی امتیں دین میں زیادتی کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔ (ابن ماجہ' السننن' کتاب المناسک' باب قدر حصی الرمی)

صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، آپؐ نے فرمایا ''یہ دین(اسلام) آسان ہے۔ یہ مسلمان کو سخت، غصیلا اور جھگڑالو نہیں بناتا۔ (اے مسلمانو!) بس تم اپنی ذمے داریاں (خلوص نیت سے) ادا کرو اور خوش ہوجاؤ۔ صبح اور شام اپنی سی کوشش(محنت) کرو اور رات کو بھی، تم منزل تک پہنچ جاؤ گے۔''

درج بالا احادیث سے عیاں ہے کہ ایک حقیقی مسلمان شدت پسند نہیں ہوسکتا۔ جو مسلمان شدت پسندی اختیار کرلے، دیکھنا چاہیے کہ اس کے عزائم کیا ہیں؟ ترمذی شریف کی ایک حدیث ہے: ''ایک وقت ایسا آئے گا جب (بعض) مسلمان مذہب کی مدد سے دنیا حاصل کرنا چاہیں گے۔'' انہی مسلمانوں کو ''فتنہ'' بھی کہا گیا جو عالم اسلام میں شورش برپا کرتے ہیں۔

انڈونیشیا میں شدت پسندی کو اسلام سے علیحدہ کرنے کے لیے نہضتہ العلماء کے سربراہ، مصطفیٰ بصری، محمدیہ کے ناظم، ڈاکٹر حیدر نصیراور سابق صدر اور مشہور عالم دین،عبدالرحمن وحید کی دخترینی وحید بہت سرگرم رہے۔ انہوں نے شدت پسند مسلم رہنماؤں کے خلاف باقاعدہ تحریک چلائی اور انہیں پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔ ان کا نعرہ ہے ''اسلام محبت، امن اور رحم ہے۔'' مصطفیٰ بصری کہتے ہیں:

''یہ نہایت ضروری ہے کہ اب مسلمان اپنے انداز فکر کا باریک بینی سے جائزہ لیں۔ وہ گہرائی میں جاکر غور و فکر کریں کہ آخر ان کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ کیا وہ دنیا میں نفرت اورجنگ کے شعلے بھڑکانا چاہتے ہیں یا محبت اور امن کے داعی ہیں؟''

نہضۃ العلماء اور محمدیہ کے علمائے دین کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج انڈونیشیا میں مسلمان پُر امن انداز میں اسلامی تعلیمات کی جانب راغب ہورہے ہیں۔ لیکن وہ غیر مسلموں سے نفرت نہیں کرتے بلکہ اپنے کردار و عمل کی پاکیزگی و نفاست کے بل بوتے پر ان کو اسلام کی جانب راغب کرنا چاہتے ہیں اور یہی سنت نبویؐ ہے۔

اب وقت آن پہنچا ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان شدت پسندی ترک کرکے سنت نبویؐ پر عمل پیرا ہوجائیں۔ آپؐ کا ارشاد مبارک ہے ''اہل زمین پر رحم کرو، آسمانوں کا مالک تم پر رحم کرے گا۔'' بعض مسلمان سمجھتے ہیں کہ صرف مسلمانوں پر ہی رحم کیا جائے گا۔ انہیں درج ذیل حدیث ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے۔ترمذی شریف میں آیا ہے:

ایک بار صحابہ کرامؓؓ نے بارگاہ نبویؐ میں عرض کی ''یا رسول اللہ! غیر مسلموں پر لعنت ملامت فرمائیے۔'' آپؐ نے فرمایا: ''اے لوگو! میں انسانوں پر لعنت بھیجنے کے لیے مبعوث نہیں ہوا بلکہ مجھے ان کے لیے رحمت بناکر بھیجا گیا ہے۔''
Load Next Story