تھر کے منظر آثارِقدیمہ زبوں حالی کا شکار ہوکر معدوم ہورہے ہیں
منفرد اور خوب صورت خطے کے سفر کی روداد
تھر میں پیا س اور بھوک سے ہلاکتوں کی خبریں اور تصاویر اپنے صحافتی دور کے آغاز سے دیکھتا آ رہا ہوں۔ ہمیشہ سے دل میں یہ کسک سی ضرور اُٹھتی رہی کہ زندگی اورموت کے اس بھیانک کھیل کا مشاہدہ ایک دن اپنی جاگتی آنکھوں سے دیکھ کر یہ جاننے کی ضرور کوشش کروں گا کہ تھری عوام اتنی خشک سالی اور قحط کے باوجود وہ صحرا چھوڑنے پر آخر کیوں آمادہ نہیں ہوتے اور ایسی کیا طلسمی طاقت ہے جو انہیں وہاں روکے رکھتی ہے!! میرے اس تجسس کو اُس روز تقویت ملی جس روز کالم نگاروں کی تنظیم پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ نے تھر کا مشاہداتی دورہ ترتیب دیا۔
11مارچ کو تھر کے تین روزہ دورے پر گلشن اقبال میں واقع پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے آفس سے ہمارا کارواں نکلا۔ گاڑی کے چلتے ہی ہم نے سب سے عرض کی سب برائے مہربانی سفر کی دعا پڑھ لیں۔ ہماری گاڑی نیشنل ہائی وے کی جانب رواںدواں تھی مگر چھوٹی بڑی گاڑیوں نے ہمارا راستہ تنگ کیا ہوا تھا۔ ڈرگ روڈ پل تک سفر سست روی کا شکار رہا۔
اس کے بعد ڈرائیور نے جو ایکسلیٹر پر پائوں رکھا تو گھارو کے مشہور چائے کے ہوٹل پر ہی جاکے رکا۔ ہم سب نے وہاں چائے پی اور پھر دوبارہ سفر شروع ہوا۔ آٹھ گھنٹے کی مسافت کے بعد کالم نگاروں اور صحافیوں پر مشتمل قافلے نے تھر کے صدرمقام مٹھی میں پہلا پڑائو ڈالا۔
کم وبیش 800 سال قبل مٹھی ایک بہت بڑا گائوں تھا جو بتدریج قابل ذکر تجارتی مرکز کی شکل اختیار کرتا چلا گیا۔ لوگوں کو پانی کی سہولت فراہم کرنے کے لیے " مٹھاں " نامی ایک نیک خاتون نے اپنی مدد آپ کے تحت یہاں ایک کنواں کھدوایا، جس کے بعد لوگ یہاں آکر آباد ہونا شروع ہوگئے۔ مٹھا ں کے نام سے منسوب یہ گائوں 'مٹھی' کے نام سے مشہور ہوگیا۔
مٹھی تھر کا صدر مقا م ہے۔ سہولت کی ہر شے یہاں بہ آسانی دست یاب ہے۔ پختہ سڑکیں، صاف گلیاں، نئی عمارتیں اور2015 میں مرمت کیا گیا قدیم مرلی دھر مندر آج جدت کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے، جب کہ نئی عمارتیں زیادہ تر گیسٹ ہائوس کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ علاقے کا تفریحی مقام ''گڑھی بھٹ'' بالخصوص سیاحوں کے لیے کشش رکھتا ہے۔
تھر کے تین روزہ دورے میں ہمیں دو مرتبہ اس تفریحی مقام پر جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک بار رات میں یہاں سے مٹھی شہر کا قابل دید نظارہ دیکھ کر اسلام آباد کی یاد تازہ ہوگئی۔ دوسری بار بارش کے دوران مٹھی کا اُجلا، نکھرا نظارہ بہت حسین لگ رہا تھا۔ یہاں ہم سب نے پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے کیمرامین زیشان عدیل سے خوب تصاویر بنوائیں۔
مٹھی ہنرمندوں، دست کاروں اور فن کاروں کا شہر ہے۔ یہاں قالین سازی کا کام عروج پر ہے جب کہ یہاں بنائی جانے والی سوتی نواڑ، جو چارپائیاں بُننے میں کام آتی ہے، بہت مشہور ہے ۔ ہمارا مٹھی کے بازار بھی جانا ہوا۔ وہاں کے دکان داروں کا کہنا تھا کہ ہمارا کاروبار بیرون شہر سے آنے والے لوگوں سے ہوتا ہے۔
یہاں کے چنری کے سوٹ خاصے مشہور ہیں، جن کی رنگائی حیدرآباد سے کرائی جاتی ہے، جو 400سے لے کر 2400 تک میں دست یاب ہوتے ہیں، جب کہ ہاتھوں کی کڑھائی والے دیدہ زیب گلے ، بیڈشیٹیں، رلیاں اور پرس وغیرہ مناسب دام پر ملتے ہیں۔ ہم سب ہی صحافی دوستوں نے اپنے گھر والوں کے لیے دل کھول کر خریداری کی اور آچر خاصخیلی نے ہماری صاحب زادی کے لیے ایک تھری سوٹ دلوایا۔ ہم نے اندازہ لگایا کہ مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے لیے دام مختلف ہیں۔ ہم نے اس سفر میں مٹھی پریس کلب کی خوب صورت بلڈنگ بھی دیکھی، جو حال ہی میں تعمیر ہونے والی عمارتوں میں ایک نیا اضافہ ہے۔
مٹھی سول ہسپتال کی حالت بھی پہلے سے بہت بہتر ہو گئی ہے۔ ہمارا رات کے پہر سنیئر صحافی حمیرااطہر اور منصورمانی کے ساتھ وہاں جانا ہوا تو ہماری ملاقات ایمرجینسی میں موجود ڈاکٹر سے ہوئی۔ ان سے معلوم ہوا کہ 63ڈاکٹر یہاں کام کر رہے ہیں اور پچھلے گیارہ دنوں میں 2356مریضوں نے ہسپتال کا رخ کیا، جن میں زیادہ تر حاملہ عورتیں اور پیٹ کے درد میں مبتلا لوگ تھے۔ ہم سب کو بچوں کا انتہائی نگہ داشت کاوارڈ دیکھنے کی جلدی تھی۔ ہم نے ڈاکٹر سے عرض کی کہ ہمیں وہاں جانا ہے۔ وہاں16اینکوبیٹرز میں12 میں بچے تھے، جن کی اس وقت ایک ڈاکٹر کے ساتھ تین اسسٹنٹ دیکھ بھال کررہے تھے۔
چند سالوں میں تھر نے ترقی کی کئی اہم منازل طے کی ہیں بدین سے باہر نکلتے ہی نئی پختہ سڑک پر سفر شروع ہوجاتا ہے، جو کسی بھی طرح بڑے شہروں کی شاہراہ سے کم نہیں یہ شاہراہ مٹھی تک اور پھر وہاں سے ننگرپارکر تک تھریوں کی آمدورفت کو آسان کردیا ہے۔ تھر میں عام علاقوں کی نسبت سڑکوں کی تعمیر پر25سے 30فی صد زیادہ لاگت آتی ہے پانی کے لیے نوکوٹ سے مٹھی تک پانی کی پائپ لائن بچھائی گئی تھی، جس سے نہ صرف ان شہروں بل کہ راستے میں آنے والے تمام گوٹھوں میں مقیم لوگوں اور ان کے مال مویشیوں کو بھی پینے کے پانی کی سہولت دست یاب ہوگئی ہے، جب کہ 450 واٹرپلانٹ کے ساتھ ساتھ ایشیا کے سب سے بڑے آر او پلانٹ کی مصری شاہ میں تنصیب کے بعد اب مٹھی شہرکو جدید شہروں میں گنا جاسکتا ہے۔
یہ پلانٹ 20لاکھ گیلن پانی صاف کر نے کی صلاحیت رکھتا ہے، جب کہ اب تک اس سے صرف 12لاکھ گیلن پانی صاف کرایا گیا ہے۔ اس کی وجہ پانی اسٹور کرنے کی مناسب جگہ کا نہ ہونا ہے۔ صرف 4 بڑے ٹینک ہیں جن میں پانی اسٹور کیا جاتا ہے اور پھر48گائوں کو پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ تھر کی مرکزی شاہراہوں کو چھوڑ کر پورے تھر کا سفر خشکی کے راستوں کا ہے، جو زیادہ تر اونٹ پریا پیدل طے کیا جاتا ہے۔ اہم شہروں سے دوردراز علاقوں میں پوٹھوہاری جیپ استعمال کی جاتی ہے، جس میں سفر کرنے کا اتفاق ہمیں بھی ہوا۔ جب ہم ڈیپلوروڈ سے نمک جھیل کی طرف جارہے تھے تو ہم نے مہاراج اشوک کی پوٹھوہاری جیپ میں سفر کیا جو اس نے آلٹر کروائی ہوئی تھی اسی طرح کیکڑا (تھر کی منفرد سواری) تھرکی ریتیلے راستوں پر عام گاڑی نہیں چل سکتی۔
اس لیے پرانے فورویل ڈرائیو فوجی ٹرکوں کو ضرورت کے مطابق آلٹر کرکے استعمال کیا جاتا ہے تھر کے ہنرمند ڈرائیور ان فوجی ٹرکوں میں چوبی تختے جوڑ کر اور اس کی باڈی بناکر اس کا حلیہ ہی بدل دیتے ہیں اور پھر یہ تھر میں"کیکڑاکوچ" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ سواری انسانوں کے ساتھ ساتھ بڑے مال مویشیوں کو بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے میں کام آتی ہے۔
صحرائے تھر کے دور افتادہ علاقوں میں آج بھی اس ترقی یافتہ دور میں جہاں دنیا گلوبل ولیج بن گئی ہے وہاں لوگ غاروں اور پتھروں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں سڑک کے ساتھ واقع شہروں اور قصبوں میں کسی حد تک بجلی، پانی، تعلیم اور صحت کی سہولیات تھر واسیوں کو مل رہی ہے۔ لوگ وہاں ٹیلی ویژن کیبلز اور انٹرنیٹ سے لطف اندوز ہورہے ہیں، مگر اندرون تھر یہ سب ایک خواب ہے اور یہ سہولتیں لوگوں کی پہنچ سے دور ہیں۔ وہاں سیل فون بھی شاذ و نادر ہی کسی کے ہاتھ میں نظر آتا ہے۔
تھر کی موسیقی کا جواب نہیں۔ جدید دور میں بھی اس کی لوک موسیقی کی قدروقیمت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ مٹھی میں ہر تھوڑے فاصلے پر جھونپڑا ہوٹل اور موسیقی کے مراکز گہماگہمی کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ تھر وسیع وعریض ہونے کے ساتھ ساتھ قدیم بھی ہے۔ یہاں ہزاروں ایسے تاریخی مقامات موجود ہیں جنہیں طوفانوں اور زلزلوں نے نظروں سے اوجھل کردیا ہے۔
عوام کی آنکھوں سے پوشیدہ ان مقامات کو منظر عام پر لانے کے لیے ہم نے ان کا تفصیلی مشاہدہ کیا جب کہ دوسرا دن ننگرپارکر سے متصل علاقے میں گزارا۔ شہنشاہ اکبر کی جائے پیدائش عمر کوٹ ہے۔ ان کے والد شہنشاہ ہمایوں نے ایران جاتے ہوئے یہاں قیام کیا تھا، جہاں اکبر کی ولادت ہوئی تھی۔ جب شہنشاہ اکبر نے تخت سنبھالا تو اپنی جائے پیدائش کا حق ادا کرتے ہوئے تھرپارکر کو تمام ٹیکسوں سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ تھرپارکر میں مختلف مذاہب کے پیروکار حکم راں رہے ہیں۔
موجودہ آثار قدیمہ، جن میں جین دھرم، بدھ مت کے مندر، گئوشالے اور بوڈھیسر کی مسجد شامل ہیں، اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ یہاں ان تمام مذاہب نے اچھا وقت گزارا ہے۔ صحرا کے تاریخی مقامات آج بھی شان دار ماضی کی یاد دلاتے ہیں۔ تھر کے قدیم شہروں میں کاسبو، کیرتھی، ویرواہ، بوڈھیسر، عمرکوٹ اور پاری نگر شامل ہیں جب کہ مٹھی ، اسلام کوٹ، ڈیپلو، چیلمہار ایک اندازے کے مطابق ایک صدی سے زاید عرصہ پہلے آباد ہوئے۔
تھرپارکر کے صدر مقام مٹھی میں میروں نے اپنے دوراقتدار میں دو قلعے تعمیر کروائے تھے جن کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ گھڑی بھٹ مٹھی کا وہ مقام ہے جہاں سے آپ پورے مٹھی کا نظارہ کرسکتے ہیں۔ اب تو حکومت نے وہاں پر ایک یادگار بنادی ہے، جس پر سیڑھیوں سے اوپر جاکر آپ بہتر طریقے سے مٹھی شہر کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں تھرپارکر جانے والا ہر شخص ضرور جاتا ہے۔ بھالوا اس تھری عورت کا گائوں ہے جس کے ذکر کے بغیر تھر کا تذکرہ نامکمل رہ جاتا ہے۔
اس بہادر عورت نے حکم راں عمرسومرو کی طرف سے شادی کی پیشکش ٹھکرادی تھی اور رانی کے بجائے تھر کی ماروی بن کر رہنے کو ترجیح دی تھی۔ اسی گائوں میں ماروی کا کنواں بھی موجود ہے جو اب ماروی کلچرل کمپلیکس میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اس شان دار عمارت میں ماروی اور اس کی سہیلی کی مٹی سے بنی مورتیاں، اس زمانے میں استعمال ہونے والے برتن اور چرخہ بھی موجود ہیں۔ ماروی کی رومانوی کہانی کے بعد مہاراج مہادیو نے ہمیں سارنگا اور سدھونت کی کہانی بھی سنائی، یہ رومانوی کہانی ہمارے لیے نئی تھی۔
بھالوا سے چھے کلومیٹر دور گوڑی کے جین کا مندر میں چمگادڑوں کے مسکن دیکھ کر بہت حیرانی ہوئی۔ ان بے تحاشا مسکنوں کو پہلی نظر میں دیکھ کر یہ گمان ہوا کہ جیسے کوئی نقش نگاری کی گئی ہو۔ یہ مندر تین حصوں پر مشتمل ہے۔
پہلا حصہ صحن ہے، جہاں مندر کا پجاری بیٹھا ہوا تھا، دوسرا ایک گول سا ہال اور اس پر ایک گنبد اور اس ہال سے گزرکر اندر ایک اور کمرہ جہاں کسی زمانے میں مورتی رکھی ہوا کرتی تھی اور اس کے ساتھ ہی چھوٹے چھوٹے کمرے نما پجاریوں کے لیے بنے ہوئے تھے۔ اسلام کو ٹ کا قلعہ میروں کے ابتدائی دور میں 1795 میں تعمیر کیا گیا تھا، جس کا مقصد تھر پر اپنی اجارہ داری کو مضبوط رکھنا تھا۔ یہ قلعہ386مربع فٹ چوڑا ہے۔ اس میں ہر وقت میروں کی مسلح سپاہ مقامی بغاوت کو کچلنے کے لیے تیار رہتی تھی۔ اب اس تاریخی قلعے کے آثار زمیں بوس ہوچکے ہیں۔
مٹھی سے ننگرپارکر جاتے ہوئے وروئی نامی ایک چھوٹا سا گائوں واقع ہے۔ یہاں کے لوگ جین مذہب کے پیروکار ہیں۔ اسی لیے یہاں جین مذہب کا مندر تاحال موجود ہے۔ ویراواہ ننگرپارکر سے تھوڑا فاصلے پر تاریخی بندرگاہ پاری نگر کے ساتھ واقع ہے۔ یہاں پر بھی جین مذہب کے مندر موجود ہیں۔ ان باقیات کی حالات زار دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ ہماری ناقدری کی وجہ سے چند سال میں نظروں سے اوجھل ہوجائیں گے۔
تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ یہ قدیم اور مہذب لوگوں کا ساحلی شہر تھا، لیکن بارہویں صدی میں قدرتی آفات کی وجہ سے یہ شہر برباد ہوگیا اور اب یہاں اینٹوں کے ڈھیر کے سوا کچھ نہیں۔ ویرواہ میں صرف ایک جین مندر پوری طرح باقی ہے، جو اُس وقت کے فن تعمیر اور لوگوں کے رہن سہن کی داستان سنا رہا ہے۔ ویرواہ کے قرب و جوار میں ہزاروں ایکڑ رقبے پر چینی مٹی کا ذخیرہ موجود ہے، جسے چائنا کلے کہا جاتا ہے۔
بوڈھیسر ایک قدیم شہر ہے جو تھرپارکر کے مشہور پہاڑی سلسلے کارونجھر کے دامن میں واقع ہے۔ اسے پرانے زمانے میں بوڈھیسر نگری بھی کہا جاتا تھا۔ یہ اُس وقت کے آباد اور مہذب شہروں میں سے ایک تھا۔ یہاں تالاب کی نشانیاں بھی ملتی ہیں، جسے اب ڈیم کی شکل دے دی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ وسیع تالاب مقامی آبادی کی پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے شہرت کا حامل تھا۔
کارونجھر پہاڑ کے دامن میں ہونے کی وجہ سے بارشوں کا پانی اس تالاب میں جمع ہوجایا کرتا تھا اور اس پانی سے اردگرد کے بسنے والے اور مویشی مستفید ہوا کرتے تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ 1026ء میں سلطان محمود غزنوی سومنات فتح کرنے کے بعد اس راستے سے واپس گیا تھا اور اس کا قافلہ بھٹک گیا تھا۔
اس اثناء میں پانی تلاش کرتے کرتے یہ قافلہ بوڈھیسر آنکلا اور یہاں کچھ عرصہ قیام کے دوران محمود غزنوی نے سنگ مرمر سے ایک یادگار بھی تعمیر کروائی۔ 1505ء میں سلطان محمود بیگڑا کی قیام کے دوران نظر اس یادگار پر پڑی تو انہوں نے اس یادگار کو سلطان مسجد میں تبدیل کروا دیا۔ اس مسجد کے آثار آج بھی موجود ہیں۔
اسی علاقے میں جین مذہب کے تین مندر بھی نظر آتے ہیں، جن کے بارے میں کوئی حتمی رائے دست یاب نہیں ہوئی۔ یہاں کے لوگ اس کے بارے میں الگ الگ رائے رکھتے ہیں۔ دو مندر تو بالکل ساتھ ساتھ ہیں۔ ایک تھوڑا اونچائی پر ہے۔ یہاں کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ شیومندر ہے، جس کو دیکھ کر احرام مصر یاد آجاتے ہیں اور اس سے تھوڑا سے آگے بالکل پہاڑ کے دامن میں ایک اور مندر ہے، جس کو لوگ سانپوں کا مندر کہتے ہیں۔
ہم نے خود مندر کے اندر سانپوں کی نشانیاں اور اس کی جلد سے اترنے والے چھلکے وہاں دیکھے، مگر دوسرے تاریخی مقامات کے ساتھ ساتھ ان کا بھی برا حال ہے اور تیزی سے تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
ننگرپارکر قدیم شہر ہے، جو کسی زمانے میں جین مذہب کا اہم مرکز تھا۔ یہاں مشہور مہادیوی کا مندر ہونے کی وجہ سے جین مذہب کے ماننے والے ہزاروں کی تعداد میں حاضری کی نیت سے رخ کیا کرتے تھے۔ مندر کے پاس ہی ایک وسیع تالاب تھا، جہاں یہ لوگ اپنے مرنے والوں کی آخری رسومات ادا کیا کرتے تھے۔ تالاب کے قریب ہی ایک قلعہ تھا، جسے برطانوی افواج نے باغیوں کا مرکز ہونے کے شبہے میں مسمار کروادیا تھا۔
کاسبو، بھارتی صوبے گجرات کی سرحد پر واقع قصبہ ہے۔ یہ تھر کا سب سے زیادہ سرسبزوشاداب علاقہ ہے۔ اس کی وجہ شہرت یہاں کے میٹھے پانی کا کنواں ہے اور یہاں سارا سال صرف پچیس سے تیس فٹ کی گہرائی میں میٹھا پانی نکل آتا ہے۔ مقامی باشندے بڑے پیمانے پر سبزیاں اور فصلیں کاشت کرتے ہیں۔
ایک قدیم جین مذہب کا مندر ہے، جس کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔
تھرپارکر کے تاریخی و قدیم آثار کچھ قدرتی آفات کی بھینٹ چڑھ گئے، کچھ حکومت کی بے اعتنائی کا شکار ہوگئے اور باقی ماندہ آہستہ آہستہ تباہی کی کی طرف گام زن ہیں۔ ان قیمتی تاریخی مقامات کی قدر اور حفاظت جس دل جمعی اور ذمہ داری سے کرنے چاہیے تھی، وہ ہمارے ادارے اور آثارقدیمہ کے ماہرین انجام دینے میں ناکام رہے ہیں۔
یہ تمام آثار خطے کی تہذیب و تمدن اور تاریخ کی امانت ہیں، جن کی حفاظت اور دیکھ بھال ہم سب کا قومی فریضہ ہے۔ ماروی کلچرل کمپلیکس کی طرح ا ن تمام تاریخی مقامات کو تفریح مقامات میں بدل کر سیاحوں کے لیے کشش پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے محکمہ آثار قدیمہ کو متحرک ہونا پڑے گا، اس سے پہلے کہ یہ قیمتی اثاثے صفحہ ہستی سے مٹ جائیں۔
11مارچ کو تھر کے تین روزہ دورے پر گلشن اقبال میں واقع پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے آفس سے ہمارا کارواں نکلا۔ گاڑی کے چلتے ہی ہم نے سب سے عرض کی سب برائے مہربانی سفر کی دعا پڑھ لیں۔ ہماری گاڑی نیشنل ہائی وے کی جانب رواںدواں تھی مگر چھوٹی بڑی گاڑیوں نے ہمارا راستہ تنگ کیا ہوا تھا۔ ڈرگ روڈ پل تک سفر سست روی کا شکار رہا۔
اس کے بعد ڈرائیور نے جو ایکسلیٹر پر پائوں رکھا تو گھارو کے مشہور چائے کے ہوٹل پر ہی جاکے رکا۔ ہم سب نے وہاں چائے پی اور پھر دوبارہ سفر شروع ہوا۔ آٹھ گھنٹے کی مسافت کے بعد کالم نگاروں اور صحافیوں پر مشتمل قافلے نے تھر کے صدرمقام مٹھی میں پہلا پڑائو ڈالا۔
کم وبیش 800 سال قبل مٹھی ایک بہت بڑا گائوں تھا جو بتدریج قابل ذکر تجارتی مرکز کی شکل اختیار کرتا چلا گیا۔ لوگوں کو پانی کی سہولت فراہم کرنے کے لیے " مٹھاں " نامی ایک نیک خاتون نے اپنی مدد آپ کے تحت یہاں ایک کنواں کھدوایا، جس کے بعد لوگ یہاں آکر آباد ہونا شروع ہوگئے۔ مٹھا ں کے نام سے منسوب یہ گائوں 'مٹھی' کے نام سے مشہور ہوگیا۔
مٹھی تھر کا صدر مقا م ہے۔ سہولت کی ہر شے یہاں بہ آسانی دست یاب ہے۔ پختہ سڑکیں، صاف گلیاں، نئی عمارتیں اور2015 میں مرمت کیا گیا قدیم مرلی دھر مندر آج جدت کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے، جب کہ نئی عمارتیں زیادہ تر گیسٹ ہائوس کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ علاقے کا تفریحی مقام ''گڑھی بھٹ'' بالخصوص سیاحوں کے لیے کشش رکھتا ہے۔
تھر کے تین روزہ دورے میں ہمیں دو مرتبہ اس تفریحی مقام پر جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک بار رات میں یہاں سے مٹھی شہر کا قابل دید نظارہ دیکھ کر اسلام آباد کی یاد تازہ ہوگئی۔ دوسری بار بارش کے دوران مٹھی کا اُجلا، نکھرا نظارہ بہت حسین لگ رہا تھا۔ یہاں ہم سب نے پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے کیمرامین زیشان عدیل سے خوب تصاویر بنوائیں۔
مٹھی ہنرمندوں، دست کاروں اور فن کاروں کا شہر ہے۔ یہاں قالین سازی کا کام عروج پر ہے جب کہ یہاں بنائی جانے والی سوتی نواڑ، جو چارپائیاں بُننے میں کام آتی ہے، بہت مشہور ہے ۔ ہمارا مٹھی کے بازار بھی جانا ہوا۔ وہاں کے دکان داروں کا کہنا تھا کہ ہمارا کاروبار بیرون شہر سے آنے والے لوگوں سے ہوتا ہے۔
یہاں کے چنری کے سوٹ خاصے مشہور ہیں، جن کی رنگائی حیدرآباد سے کرائی جاتی ہے، جو 400سے لے کر 2400 تک میں دست یاب ہوتے ہیں، جب کہ ہاتھوں کی کڑھائی والے دیدہ زیب گلے ، بیڈشیٹیں، رلیاں اور پرس وغیرہ مناسب دام پر ملتے ہیں۔ ہم سب ہی صحافی دوستوں نے اپنے گھر والوں کے لیے دل کھول کر خریداری کی اور آچر خاصخیلی نے ہماری صاحب زادی کے لیے ایک تھری سوٹ دلوایا۔ ہم نے اندازہ لگایا کہ مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے لیے دام مختلف ہیں۔ ہم نے اس سفر میں مٹھی پریس کلب کی خوب صورت بلڈنگ بھی دیکھی، جو حال ہی میں تعمیر ہونے والی عمارتوں میں ایک نیا اضافہ ہے۔
مٹھی سول ہسپتال کی حالت بھی پہلے سے بہت بہتر ہو گئی ہے۔ ہمارا رات کے پہر سنیئر صحافی حمیرااطہر اور منصورمانی کے ساتھ وہاں جانا ہوا تو ہماری ملاقات ایمرجینسی میں موجود ڈاکٹر سے ہوئی۔ ان سے معلوم ہوا کہ 63ڈاکٹر یہاں کام کر رہے ہیں اور پچھلے گیارہ دنوں میں 2356مریضوں نے ہسپتال کا رخ کیا، جن میں زیادہ تر حاملہ عورتیں اور پیٹ کے درد میں مبتلا لوگ تھے۔ ہم سب کو بچوں کا انتہائی نگہ داشت کاوارڈ دیکھنے کی جلدی تھی۔ ہم نے ڈاکٹر سے عرض کی کہ ہمیں وہاں جانا ہے۔ وہاں16اینکوبیٹرز میں12 میں بچے تھے، جن کی اس وقت ایک ڈاکٹر کے ساتھ تین اسسٹنٹ دیکھ بھال کررہے تھے۔
چند سالوں میں تھر نے ترقی کی کئی اہم منازل طے کی ہیں بدین سے باہر نکلتے ہی نئی پختہ سڑک پر سفر شروع ہوجاتا ہے، جو کسی بھی طرح بڑے شہروں کی شاہراہ سے کم نہیں یہ شاہراہ مٹھی تک اور پھر وہاں سے ننگرپارکر تک تھریوں کی آمدورفت کو آسان کردیا ہے۔ تھر میں عام علاقوں کی نسبت سڑکوں کی تعمیر پر25سے 30فی صد زیادہ لاگت آتی ہے پانی کے لیے نوکوٹ سے مٹھی تک پانی کی پائپ لائن بچھائی گئی تھی، جس سے نہ صرف ان شہروں بل کہ راستے میں آنے والے تمام گوٹھوں میں مقیم لوگوں اور ان کے مال مویشیوں کو بھی پینے کے پانی کی سہولت دست یاب ہوگئی ہے، جب کہ 450 واٹرپلانٹ کے ساتھ ساتھ ایشیا کے سب سے بڑے آر او پلانٹ کی مصری شاہ میں تنصیب کے بعد اب مٹھی شہرکو جدید شہروں میں گنا جاسکتا ہے۔
یہ پلانٹ 20لاکھ گیلن پانی صاف کر نے کی صلاحیت رکھتا ہے، جب کہ اب تک اس سے صرف 12لاکھ گیلن پانی صاف کرایا گیا ہے۔ اس کی وجہ پانی اسٹور کرنے کی مناسب جگہ کا نہ ہونا ہے۔ صرف 4 بڑے ٹینک ہیں جن میں پانی اسٹور کیا جاتا ہے اور پھر48گائوں کو پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ تھر کی مرکزی شاہراہوں کو چھوڑ کر پورے تھر کا سفر خشکی کے راستوں کا ہے، جو زیادہ تر اونٹ پریا پیدل طے کیا جاتا ہے۔ اہم شہروں سے دوردراز علاقوں میں پوٹھوہاری جیپ استعمال کی جاتی ہے، جس میں سفر کرنے کا اتفاق ہمیں بھی ہوا۔ جب ہم ڈیپلوروڈ سے نمک جھیل کی طرف جارہے تھے تو ہم نے مہاراج اشوک کی پوٹھوہاری جیپ میں سفر کیا جو اس نے آلٹر کروائی ہوئی تھی اسی طرح کیکڑا (تھر کی منفرد سواری) تھرکی ریتیلے راستوں پر عام گاڑی نہیں چل سکتی۔
اس لیے پرانے فورویل ڈرائیو فوجی ٹرکوں کو ضرورت کے مطابق آلٹر کرکے استعمال کیا جاتا ہے تھر کے ہنرمند ڈرائیور ان فوجی ٹرکوں میں چوبی تختے جوڑ کر اور اس کی باڈی بناکر اس کا حلیہ ہی بدل دیتے ہیں اور پھر یہ تھر میں"کیکڑاکوچ" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ سواری انسانوں کے ساتھ ساتھ بڑے مال مویشیوں کو بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے میں کام آتی ہے۔
صحرائے تھر کے دور افتادہ علاقوں میں آج بھی اس ترقی یافتہ دور میں جہاں دنیا گلوبل ولیج بن گئی ہے وہاں لوگ غاروں اور پتھروں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں سڑک کے ساتھ واقع شہروں اور قصبوں میں کسی حد تک بجلی، پانی، تعلیم اور صحت کی سہولیات تھر واسیوں کو مل رہی ہے۔ لوگ وہاں ٹیلی ویژن کیبلز اور انٹرنیٹ سے لطف اندوز ہورہے ہیں، مگر اندرون تھر یہ سب ایک خواب ہے اور یہ سہولتیں لوگوں کی پہنچ سے دور ہیں۔ وہاں سیل فون بھی شاذ و نادر ہی کسی کے ہاتھ میں نظر آتا ہے۔
تھر کی موسیقی کا جواب نہیں۔ جدید دور میں بھی اس کی لوک موسیقی کی قدروقیمت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ مٹھی میں ہر تھوڑے فاصلے پر جھونپڑا ہوٹل اور موسیقی کے مراکز گہماگہمی کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ تھر وسیع وعریض ہونے کے ساتھ ساتھ قدیم بھی ہے۔ یہاں ہزاروں ایسے تاریخی مقامات موجود ہیں جنہیں طوفانوں اور زلزلوں نے نظروں سے اوجھل کردیا ہے۔
عوام کی آنکھوں سے پوشیدہ ان مقامات کو منظر عام پر لانے کے لیے ہم نے ان کا تفصیلی مشاہدہ کیا جب کہ دوسرا دن ننگرپارکر سے متصل علاقے میں گزارا۔ شہنشاہ اکبر کی جائے پیدائش عمر کوٹ ہے۔ ان کے والد شہنشاہ ہمایوں نے ایران جاتے ہوئے یہاں قیام کیا تھا، جہاں اکبر کی ولادت ہوئی تھی۔ جب شہنشاہ اکبر نے تخت سنبھالا تو اپنی جائے پیدائش کا حق ادا کرتے ہوئے تھرپارکر کو تمام ٹیکسوں سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ تھرپارکر میں مختلف مذاہب کے پیروکار حکم راں رہے ہیں۔
موجودہ آثار قدیمہ، جن میں جین دھرم، بدھ مت کے مندر، گئوشالے اور بوڈھیسر کی مسجد شامل ہیں، اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ یہاں ان تمام مذاہب نے اچھا وقت گزارا ہے۔ صحرا کے تاریخی مقامات آج بھی شان دار ماضی کی یاد دلاتے ہیں۔ تھر کے قدیم شہروں میں کاسبو، کیرتھی، ویرواہ، بوڈھیسر، عمرکوٹ اور پاری نگر شامل ہیں جب کہ مٹھی ، اسلام کوٹ، ڈیپلو، چیلمہار ایک اندازے کے مطابق ایک صدی سے زاید عرصہ پہلے آباد ہوئے۔
تھرپارکر کے صدر مقام مٹھی میں میروں نے اپنے دوراقتدار میں دو قلعے تعمیر کروائے تھے جن کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ گھڑی بھٹ مٹھی کا وہ مقام ہے جہاں سے آپ پورے مٹھی کا نظارہ کرسکتے ہیں۔ اب تو حکومت نے وہاں پر ایک یادگار بنادی ہے، جس پر سیڑھیوں سے اوپر جاکر آپ بہتر طریقے سے مٹھی شہر کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں تھرپارکر جانے والا ہر شخص ضرور جاتا ہے۔ بھالوا اس تھری عورت کا گائوں ہے جس کے ذکر کے بغیر تھر کا تذکرہ نامکمل رہ جاتا ہے۔
اس بہادر عورت نے حکم راں عمرسومرو کی طرف سے شادی کی پیشکش ٹھکرادی تھی اور رانی کے بجائے تھر کی ماروی بن کر رہنے کو ترجیح دی تھی۔ اسی گائوں میں ماروی کا کنواں بھی موجود ہے جو اب ماروی کلچرل کمپلیکس میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اس شان دار عمارت میں ماروی اور اس کی سہیلی کی مٹی سے بنی مورتیاں، اس زمانے میں استعمال ہونے والے برتن اور چرخہ بھی موجود ہیں۔ ماروی کی رومانوی کہانی کے بعد مہاراج مہادیو نے ہمیں سارنگا اور سدھونت کی کہانی بھی سنائی، یہ رومانوی کہانی ہمارے لیے نئی تھی۔
بھالوا سے چھے کلومیٹر دور گوڑی کے جین کا مندر میں چمگادڑوں کے مسکن دیکھ کر بہت حیرانی ہوئی۔ ان بے تحاشا مسکنوں کو پہلی نظر میں دیکھ کر یہ گمان ہوا کہ جیسے کوئی نقش نگاری کی گئی ہو۔ یہ مندر تین حصوں پر مشتمل ہے۔
پہلا حصہ صحن ہے، جہاں مندر کا پجاری بیٹھا ہوا تھا، دوسرا ایک گول سا ہال اور اس پر ایک گنبد اور اس ہال سے گزرکر اندر ایک اور کمرہ جہاں کسی زمانے میں مورتی رکھی ہوا کرتی تھی اور اس کے ساتھ ہی چھوٹے چھوٹے کمرے نما پجاریوں کے لیے بنے ہوئے تھے۔ اسلام کو ٹ کا قلعہ میروں کے ابتدائی دور میں 1795 میں تعمیر کیا گیا تھا، جس کا مقصد تھر پر اپنی اجارہ داری کو مضبوط رکھنا تھا۔ یہ قلعہ386مربع فٹ چوڑا ہے۔ اس میں ہر وقت میروں کی مسلح سپاہ مقامی بغاوت کو کچلنے کے لیے تیار رہتی تھی۔ اب اس تاریخی قلعے کے آثار زمیں بوس ہوچکے ہیں۔
مٹھی سے ننگرپارکر جاتے ہوئے وروئی نامی ایک چھوٹا سا گائوں واقع ہے۔ یہاں کے لوگ جین مذہب کے پیروکار ہیں۔ اسی لیے یہاں جین مذہب کا مندر تاحال موجود ہے۔ ویراواہ ننگرپارکر سے تھوڑا فاصلے پر تاریخی بندرگاہ پاری نگر کے ساتھ واقع ہے۔ یہاں پر بھی جین مذہب کے مندر موجود ہیں۔ ان باقیات کی حالات زار دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ ہماری ناقدری کی وجہ سے چند سال میں نظروں سے اوجھل ہوجائیں گے۔
تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ یہ قدیم اور مہذب لوگوں کا ساحلی شہر تھا، لیکن بارہویں صدی میں قدرتی آفات کی وجہ سے یہ شہر برباد ہوگیا اور اب یہاں اینٹوں کے ڈھیر کے سوا کچھ نہیں۔ ویرواہ میں صرف ایک جین مندر پوری طرح باقی ہے، جو اُس وقت کے فن تعمیر اور لوگوں کے رہن سہن کی داستان سنا رہا ہے۔ ویرواہ کے قرب و جوار میں ہزاروں ایکڑ رقبے پر چینی مٹی کا ذخیرہ موجود ہے، جسے چائنا کلے کہا جاتا ہے۔
بوڈھیسر ایک قدیم شہر ہے جو تھرپارکر کے مشہور پہاڑی سلسلے کارونجھر کے دامن میں واقع ہے۔ اسے پرانے زمانے میں بوڈھیسر نگری بھی کہا جاتا تھا۔ یہ اُس وقت کے آباد اور مہذب شہروں میں سے ایک تھا۔ یہاں تالاب کی نشانیاں بھی ملتی ہیں، جسے اب ڈیم کی شکل دے دی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ وسیع تالاب مقامی آبادی کی پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے شہرت کا حامل تھا۔
کارونجھر پہاڑ کے دامن میں ہونے کی وجہ سے بارشوں کا پانی اس تالاب میں جمع ہوجایا کرتا تھا اور اس پانی سے اردگرد کے بسنے والے اور مویشی مستفید ہوا کرتے تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ 1026ء میں سلطان محمود غزنوی سومنات فتح کرنے کے بعد اس راستے سے واپس گیا تھا اور اس کا قافلہ بھٹک گیا تھا۔
اس اثناء میں پانی تلاش کرتے کرتے یہ قافلہ بوڈھیسر آنکلا اور یہاں کچھ عرصہ قیام کے دوران محمود غزنوی نے سنگ مرمر سے ایک یادگار بھی تعمیر کروائی۔ 1505ء میں سلطان محمود بیگڑا کی قیام کے دوران نظر اس یادگار پر پڑی تو انہوں نے اس یادگار کو سلطان مسجد میں تبدیل کروا دیا۔ اس مسجد کے آثار آج بھی موجود ہیں۔
اسی علاقے میں جین مذہب کے تین مندر بھی نظر آتے ہیں، جن کے بارے میں کوئی حتمی رائے دست یاب نہیں ہوئی۔ یہاں کے لوگ اس کے بارے میں الگ الگ رائے رکھتے ہیں۔ دو مندر تو بالکل ساتھ ساتھ ہیں۔ ایک تھوڑا اونچائی پر ہے۔ یہاں کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ شیومندر ہے، جس کو دیکھ کر احرام مصر یاد آجاتے ہیں اور اس سے تھوڑا سے آگے بالکل پہاڑ کے دامن میں ایک اور مندر ہے، جس کو لوگ سانپوں کا مندر کہتے ہیں۔
ہم نے خود مندر کے اندر سانپوں کی نشانیاں اور اس کی جلد سے اترنے والے چھلکے وہاں دیکھے، مگر دوسرے تاریخی مقامات کے ساتھ ساتھ ان کا بھی برا حال ہے اور تیزی سے تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
ننگرپارکر قدیم شہر ہے، جو کسی زمانے میں جین مذہب کا اہم مرکز تھا۔ یہاں مشہور مہادیوی کا مندر ہونے کی وجہ سے جین مذہب کے ماننے والے ہزاروں کی تعداد میں حاضری کی نیت سے رخ کیا کرتے تھے۔ مندر کے پاس ہی ایک وسیع تالاب تھا، جہاں یہ لوگ اپنے مرنے والوں کی آخری رسومات ادا کیا کرتے تھے۔ تالاب کے قریب ہی ایک قلعہ تھا، جسے برطانوی افواج نے باغیوں کا مرکز ہونے کے شبہے میں مسمار کروادیا تھا۔
کاسبو، بھارتی صوبے گجرات کی سرحد پر واقع قصبہ ہے۔ یہ تھر کا سب سے زیادہ سرسبزوشاداب علاقہ ہے۔ اس کی وجہ شہرت یہاں کے میٹھے پانی کا کنواں ہے اور یہاں سارا سال صرف پچیس سے تیس فٹ کی گہرائی میں میٹھا پانی نکل آتا ہے۔ مقامی باشندے بڑے پیمانے پر سبزیاں اور فصلیں کاشت کرتے ہیں۔
ایک قدیم جین مذہب کا مندر ہے، جس کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔
تھرپارکر کے تاریخی و قدیم آثار کچھ قدرتی آفات کی بھینٹ چڑھ گئے، کچھ حکومت کی بے اعتنائی کا شکار ہوگئے اور باقی ماندہ آہستہ آہستہ تباہی کی کی طرف گام زن ہیں۔ ان قیمتی تاریخی مقامات کی قدر اور حفاظت جس دل جمعی اور ذمہ داری سے کرنے چاہیے تھی، وہ ہمارے ادارے اور آثارقدیمہ کے ماہرین انجام دینے میں ناکام رہے ہیں۔
یہ تمام آثار خطے کی تہذیب و تمدن اور تاریخ کی امانت ہیں، جن کی حفاظت اور دیکھ بھال ہم سب کا قومی فریضہ ہے۔ ماروی کلچرل کمپلیکس کی طرح ا ن تمام تاریخی مقامات کو تفریح مقامات میں بدل کر سیاحوں کے لیے کشش پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے محکمہ آثار قدیمہ کو متحرک ہونا پڑے گا، اس سے پہلے کہ یہ قیمتی اثاثے صفحہ ہستی سے مٹ جائیں۔