امریکیوں کی اجتماعی دانش آخری حصہ
پاکستان اور امریکا ایک دوسرے کے حلیف رہے اور اب دونوں کے درمیان تلخی اور بے اعتباری کی ایک خلیج حائل ہے۔
امریکا... نسل، رنگ، مذہب، ثقافت، زبان اور رسم و رواج کی ایک ایسی کھد بداتی ہوئی دیگ ہے جس کا متنوع ذائقہ حیران کردیتا ہے۔
کہاں اس وسیع و عریض ملک کے کٹر پن کا یہ عالم تھا کہ اپنے کھیتوں، کھلیانوں، کارخانوں، بازاروں اور گھروں میں خدمات انجام دینے والے سیاہ فاموں کے ساتھ یوں پیش آتا تھا جیسے وہ موجود ہی نہ ہوں۔ اور جو چیز نگاہوں کے سامنے ہوتے ہوئے بھی نظر نہ آتی ہو، اس کے مسائل یا اس کے دکھ سکھ کے بارے میں سوچا کیوں جائے؟ انھیں حل کرنے کی کوشش کیوں کی جائے؟
ابراہم لنکن سے غلاموں کی آزادی اور بعد میں انھیں مساوی مواقعے اور مساوی حقوق دینے کا جو سفر شروع ہوا، وہ پہلے نہایت سست رفتاری اور پھر اتنی تیز رفتاری سے آگے بڑھا کہ اس نے باراک اوباما کو وہائٹ ہائوس پہنچا کر دم لیا۔ امریکیوں کی بھاری تعداد اور دنیا کو اس انہونی پر یقین نہ آیا۔ وہ لوگ جو ایک بس میں انھیں برابر بٹھانے، ایک فوارے سے پانی پینے اور ایک کالج میں پڑھنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں تھے، انھوں نے یہ کیسے برداشت کیا کہ وہ اسے اپنا صدر چن لیں۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ امریکیوں کے ذہن میں کوئی فتور ہے۔
یہی سبب تھا کہ جب باراک اوباما نے دوسری مدت کے لیے صدارتی انتخابات لڑنے کا اعلان کیا تو یہ بے شمار لوگوں کے لیے حیران کن تھا اور نسل پرست سفید فام امریکیوں نے اس اعلان کا مضحکہ اڑایا۔ ان میں سے کچھ نے زیر لب یہ بات کہی کہ امریکا دوسری مرتبہ غلطی نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ تھی کہ مٹ رومنی اور ان کے ساتھیوں کو اس بات کا یقین تھا کہ وہائٹ ہائوس ان کا ہے۔ اس یقین کو امریکا کے چاروں کونوں سے آنے والے انتخابی نتائج نے جھٹلانا شروع کیا تو انھیں یقین نہیں آیا اور اب تک رومنی ششدر ہیں۔
مشکل یہ ہے کہ مجموعی طور پر امریکی اپنے مفادات کو جانتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ ان کی اسلحہ ساز فیکٹریوں کا 24 گھنٹے کام کرتے رہنا ان کے مفاد میں ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اپنی سرحدوں سے نکل کر جارحانہ توسیعی عزائم رکھنا اور مختلف ملکوں میں اپنے جوانوں کو جنگ کی آگ میں جھونک دینے کا کیا مطلب ہے؟ یہ امریکی تھے جنہوں نے بش سینیئر کے جنگ پسندی کے نتائج برداشت کیے۔ انھوں نے ایک ڈیمو کریٹ صدر بل کلنٹن کے دو مرتبہ کے صدارتی ادوارمیں خزانے کو بھرتے اور پھر بش جونیئر کے ہاتھوں امریکی دولت کی آتش بازی عراق اور افغانستان میں دیکھی۔ کساد بازاری اور بیروزگاری کے نقصانات سہے۔ باراک اوباما نے اپنے پہلے دور صدارت میں کساد بازاری پر قابو پانے کی کوشش کی اور بیروزگاری ان کے دور میں کسی حد تک کم ہوئی۔
وہ دوسری مرتبہ انتخابی میدان میں اترے تو اس اعلان کے ساتھ کہ وہ امریکا کے امیر ترین لوگوں پر ٹیکس میں اضافہ کریں گے۔مٹ رومنی امریکی امیروں پر نئے ٹیکس لگانے کی مخالفت کررہے تھے جب کہ اوباما متوسط طبقے کی زندگی کو سہل بنانے کی بنیاد پر اپنی انتخابی مہم چلا رہے تھے۔ ایک امریکی تاریخ دان ڈیوڈ ناسا کا کہنا ہے کہ ''سیاہ فام اور لاطینی امریکی ووٹروں نے اوباما کو اس لیے ووٹ نہیں دیا کہ وہ بھی اوبام کی طرح سیاہ فام یا رنگ دار تھے۔ انھوں نے اگر اپنے ووٹ اوباما کو دیے تو اس لیے کہ ان کے خیال میں یہ پالیسیاں ان کی زندگیوں پر مثبت اثر ڈال سکتی ہیں۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ گزشتہ دہائیوں میں دولت مند سفید فام، کارپوریٹ سیکٹر اور دولت کے سرچشمے پر قابض افراد نے ان کے مفادات کو پس پشت ڈالا''۔
ری پبلکن پارٹی کے بارے میں امریکی عورتوں کی مجموعی رائے یہ ہے کہ وہ ان کے مسائل اور معاملات سے لاتعلق ہے یا انھیں نظر انداز کرتی ہے۔ اس کے برعکس ڈیموکریٹک پارٹی کے اوباما عورتوں کے مساوی حقوق اور مساوی مواقع کے بارے میں واضح مؤقف رکھتے تھے۔ وہ مانع حمل طریقوں اور اسقاط جیسے اہم اورنازک معاملات میں عورتوں کے ساتھ تھے۔ اس انتخاب میں 20 عورتیں ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوکر آئی ہیں۔ اپنی ایک تقریر میں اوباما نے کہا کہ یہ لاکھوں کی تعداد میں تنہا (غیر شادی شدہ یا طلاق یافتہ) عورتیں تھیں جنہوں نے مجھے ووٹ دیا اور میری کامیابی ممکن بنائی۔ اپنی فتح کے فوراً بعد انھوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ '' اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ سیاہ فام ہیں یا سفید فام، آپ ہسپانوی ہیں یا ایشیائی، یا اصلی النسل امریکی، نوجوان ہیں یا بوڑھے، امیر ہیں یا غریب، جسمانی طور پر صحت مند ہیں یا معذور، ہم جنس پرست ہیں یا نہیں۔ آپ امریکا میں وہ سب کچھ ممکن کرسکتے ہیں جو آپ کرنا چاہتے ہیں۔''
مٹ رومنی اور ان کے ساتھیوں کو اس بات کا ادراک نہ ہوسکاکہ امریکا کس تیزی سے بدل رہا ہے۔ صرف یہی نہیں ہوا ہے کہ ناسا میں بیٹھے ہوئے مختلف النسل سائنس دانوں اور ہنرمندوں نے مریخ پر ''کیوریوسٹی'' کو کامیابی سے اتار دیا ہے، بلکہ امریکا اندر سے تبدیل ہورہاہے۔ ایک ایسی تکثیریت جنم لے رہی ہے جس کے اپنے تقاضے ہیں۔ پرانی قدریں تیزی سے تحلیل ہورہی ہیں اور مختلف النوع نسلوں، عقائد اور ثقافتوں کاایک دوسرے سے جڑنا ممکن ہورہا ہے۔
ان انتخابات میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ایک ہندوستانی/ امریکی خاتون تلسی گبارڈ کانگریس کی رکن منتخب ہوئیں اور امریکی ایوان نمایندگان میں یہ واقعہ پہلی مرتبہ رونما ہوگا کہ وہ اپنی مقدس کتاب گیتا ہاتھ میں تھام کر حلف وفاداری اٹھائیں گی۔ اسی طرح یہ ناقابل یقین واقعہ بھی ان ہی انتخابات میں رونما ہوا کہ ہم جنس پرست ہونے کا اعلان کرنے والے اور ان شادیوں کی حمایت کرنے والے امیدوار، عوامی ووٹوں سے مین، میری لینڈ اور واشنگٹن میں منتخب ہوئے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان ری پبلکن امیدواروں کو شکست ہوئی جنہوں نے مذہب، مسلک اور نسل کی بنیاد پر مسلمانوں کو ہدف تنقید بنایا اور ان پر مختلف نوعیت کے الزام عائد کیے۔
باراک اوباما کو اپنی خود نوشت کے ابتدائی صفحات میں لکھے ہوئے یہ جملے یقیناً یاد ہوں گے جب انھوں نے کہا تھا کہ:11 ستمبر2001 کے دن دنیا میں دراڑیں پڑگئیں۔
اس دن کے بارے میں کچھ لکھنا میرے بس سے باہر ہے: جہازوں کا بھوتوں کی طرح فولاد اور شیشے سے ٹکرانا، ٹاورز کا آہستہ آہستہ منہدم ہونا: گلیوں اور بازاروں میں راکھ سے بھری ہوئی شبیہیں: غیض و غضب اور خوف۔ میں اس برہنہ انکاریت (Nihilism) کو سمجھنے کا دکھاوا بھی نہیں کرتا جس کے تحت دہشت گردوں نے یہ کام کیا اور ان کے بھائی اب بھی اس قسم کے کاموں میں مصروف ہیں۔
میں بس اتنا جانتا ہوں کہ اس روز تاریخ اپنا انتقام لینے آئی تھی کہ درحقیقت ( ولیم فاکنر کے الفاظ میں) ماضی کبھی مردہ اور مدفون نہیں ہوتا۔ وہ کبھی ماضی نہیں گزرتا۔ یہ اجتماعی تاریخ ہے، یہ ماضی براہ راست میرے اپنے ماضی سے منسلک ہے۔ صرف القاعدہ کے بم اپنی سرزمین پر پھٹنے کی وجہ سے ہی رہی پبلکن کارندوں نے مخصوص ویب سائٹس پر میرے نام کو بنیاد پر بناکر مذاق نہیں اڑایا۔ اس کی وجہ زیر سطح جاری کشمکش بھی ہے۔ کثرت اور احتیاج کی دنیا کے درمیان اور جدید اور قدیم دنیائوں کے درمیان۔
میں جانتا ہوں کہ میں نے بے اختیار لوگوں کی مایوسی اور انتشار کو دیکھا ہے۔ یہ چیز کس طرح جکارتہ یا نیروبی کی گلیوں میں بھی بچوں کی زندگیوں کو اسی طرح مسخ کرتی ہے جیسے شکاگو کی سائوتھ سائیڈ میں پرورش پانے والے بچوں کو۔ میں جانتا ہوں کہ ذلت اوربے لگام غضب کے درمیان راستہ کس قدر تنگ ہے۔ کہ وہ کس قدر آسانی سے تشدد اور مایوسی کی راہ پر آسکتے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ صاحب اقتدار لوگ ان رویوں کے جواب میں قید کی سزائوں کی معیاد بڑھانے اور زیادہ حساس عسکری آلات استعمال کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ میں جانتا ہوں کہ کٹریت، بنیاد پرستی اور قبیلے سے وابستگی ہم سب کے لیے باعث تباہی ہے۔''
وہ جب یہ سطریں لکھ رہے تھے اس وقت امریکی قصر صدر ان کی نگاہوں کا مرکز نہیں تھا لیکن اب جب کہ وہ دوسری مرتبہ امریکی صدر منتخب ہوئے ہیں۔ انھیں اپنا لکھا ہوا یہ جملہ یقیناً یاد ہوگا کہ ''ذلت اور بے لگام غضب کے درمیان راستہ کس قدر تنگ ہے۔''
پاکستان اور امریکا کئی دہائیوں تک ایک دوسرے کے بہترین حلیف رہے اور اب دونوں کے درمیان تلخی اور بے اعتباری کی ایک بہت چوڑی خلیج حائل ہے۔
امریکیوں نے اجتماعی طور پر اپنی دانش کا مظاہرہ کیا ہے اورمشکل زمانوں سے نکلنے کے لیے صدر اوباما کو ایک بار پھر منتخب کیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو بہتر راستے پر لانے کے لیے کس نوعیت کی دانش اور تکثریت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ دنیا کی عظیم طاقت ہونے کی بناء پر ان کی ذمے داری زیادہ ہے کہ وہ پاکستانی جرنیلوں اور سیاستدانوں سے بہتر معاملت کریں تاکہ جنوبی ایشیا میں امن قائم ہوسکے اور امریکا بھی بہت سے عذابوں سے نجات پائے۔
کہاں اس وسیع و عریض ملک کے کٹر پن کا یہ عالم تھا کہ اپنے کھیتوں، کھلیانوں، کارخانوں، بازاروں اور گھروں میں خدمات انجام دینے والے سیاہ فاموں کے ساتھ یوں پیش آتا تھا جیسے وہ موجود ہی نہ ہوں۔ اور جو چیز نگاہوں کے سامنے ہوتے ہوئے بھی نظر نہ آتی ہو، اس کے مسائل یا اس کے دکھ سکھ کے بارے میں سوچا کیوں جائے؟ انھیں حل کرنے کی کوشش کیوں کی جائے؟
ابراہم لنکن سے غلاموں کی آزادی اور بعد میں انھیں مساوی مواقعے اور مساوی حقوق دینے کا جو سفر شروع ہوا، وہ پہلے نہایت سست رفتاری اور پھر اتنی تیز رفتاری سے آگے بڑھا کہ اس نے باراک اوباما کو وہائٹ ہائوس پہنچا کر دم لیا۔ امریکیوں کی بھاری تعداد اور دنیا کو اس انہونی پر یقین نہ آیا۔ وہ لوگ جو ایک بس میں انھیں برابر بٹھانے، ایک فوارے سے پانی پینے اور ایک کالج میں پڑھنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں تھے، انھوں نے یہ کیسے برداشت کیا کہ وہ اسے اپنا صدر چن لیں۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ امریکیوں کے ذہن میں کوئی فتور ہے۔
یہی سبب تھا کہ جب باراک اوباما نے دوسری مدت کے لیے صدارتی انتخابات لڑنے کا اعلان کیا تو یہ بے شمار لوگوں کے لیے حیران کن تھا اور نسل پرست سفید فام امریکیوں نے اس اعلان کا مضحکہ اڑایا۔ ان میں سے کچھ نے زیر لب یہ بات کہی کہ امریکا دوسری مرتبہ غلطی نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ تھی کہ مٹ رومنی اور ان کے ساتھیوں کو اس بات کا یقین تھا کہ وہائٹ ہائوس ان کا ہے۔ اس یقین کو امریکا کے چاروں کونوں سے آنے والے انتخابی نتائج نے جھٹلانا شروع کیا تو انھیں یقین نہیں آیا اور اب تک رومنی ششدر ہیں۔
مشکل یہ ہے کہ مجموعی طور پر امریکی اپنے مفادات کو جانتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ ان کی اسلحہ ساز فیکٹریوں کا 24 گھنٹے کام کرتے رہنا ان کے مفاد میں ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اپنی سرحدوں سے نکل کر جارحانہ توسیعی عزائم رکھنا اور مختلف ملکوں میں اپنے جوانوں کو جنگ کی آگ میں جھونک دینے کا کیا مطلب ہے؟ یہ امریکی تھے جنہوں نے بش سینیئر کے جنگ پسندی کے نتائج برداشت کیے۔ انھوں نے ایک ڈیمو کریٹ صدر بل کلنٹن کے دو مرتبہ کے صدارتی ادوارمیں خزانے کو بھرتے اور پھر بش جونیئر کے ہاتھوں امریکی دولت کی آتش بازی عراق اور افغانستان میں دیکھی۔ کساد بازاری اور بیروزگاری کے نقصانات سہے۔ باراک اوباما نے اپنے پہلے دور صدارت میں کساد بازاری پر قابو پانے کی کوشش کی اور بیروزگاری ان کے دور میں کسی حد تک کم ہوئی۔
وہ دوسری مرتبہ انتخابی میدان میں اترے تو اس اعلان کے ساتھ کہ وہ امریکا کے امیر ترین لوگوں پر ٹیکس میں اضافہ کریں گے۔مٹ رومنی امریکی امیروں پر نئے ٹیکس لگانے کی مخالفت کررہے تھے جب کہ اوباما متوسط طبقے کی زندگی کو سہل بنانے کی بنیاد پر اپنی انتخابی مہم چلا رہے تھے۔ ایک امریکی تاریخ دان ڈیوڈ ناسا کا کہنا ہے کہ ''سیاہ فام اور لاطینی امریکی ووٹروں نے اوباما کو اس لیے ووٹ نہیں دیا کہ وہ بھی اوبام کی طرح سیاہ فام یا رنگ دار تھے۔ انھوں نے اگر اپنے ووٹ اوباما کو دیے تو اس لیے کہ ان کے خیال میں یہ پالیسیاں ان کی زندگیوں پر مثبت اثر ڈال سکتی ہیں۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ گزشتہ دہائیوں میں دولت مند سفید فام، کارپوریٹ سیکٹر اور دولت کے سرچشمے پر قابض افراد نے ان کے مفادات کو پس پشت ڈالا''۔
ری پبلکن پارٹی کے بارے میں امریکی عورتوں کی مجموعی رائے یہ ہے کہ وہ ان کے مسائل اور معاملات سے لاتعلق ہے یا انھیں نظر انداز کرتی ہے۔ اس کے برعکس ڈیموکریٹک پارٹی کے اوباما عورتوں کے مساوی حقوق اور مساوی مواقع کے بارے میں واضح مؤقف رکھتے تھے۔ وہ مانع حمل طریقوں اور اسقاط جیسے اہم اورنازک معاملات میں عورتوں کے ساتھ تھے۔ اس انتخاب میں 20 عورتیں ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوکر آئی ہیں۔ اپنی ایک تقریر میں اوباما نے کہا کہ یہ لاکھوں کی تعداد میں تنہا (غیر شادی شدہ یا طلاق یافتہ) عورتیں تھیں جنہوں نے مجھے ووٹ دیا اور میری کامیابی ممکن بنائی۔ اپنی فتح کے فوراً بعد انھوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ '' اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ سیاہ فام ہیں یا سفید فام، آپ ہسپانوی ہیں یا ایشیائی، یا اصلی النسل امریکی، نوجوان ہیں یا بوڑھے، امیر ہیں یا غریب، جسمانی طور پر صحت مند ہیں یا معذور، ہم جنس پرست ہیں یا نہیں۔ آپ امریکا میں وہ سب کچھ ممکن کرسکتے ہیں جو آپ کرنا چاہتے ہیں۔''
مٹ رومنی اور ان کے ساتھیوں کو اس بات کا ادراک نہ ہوسکاکہ امریکا کس تیزی سے بدل رہا ہے۔ صرف یہی نہیں ہوا ہے کہ ناسا میں بیٹھے ہوئے مختلف النسل سائنس دانوں اور ہنرمندوں نے مریخ پر ''کیوریوسٹی'' کو کامیابی سے اتار دیا ہے، بلکہ امریکا اندر سے تبدیل ہورہاہے۔ ایک ایسی تکثیریت جنم لے رہی ہے جس کے اپنے تقاضے ہیں۔ پرانی قدریں تیزی سے تحلیل ہورہی ہیں اور مختلف النوع نسلوں، عقائد اور ثقافتوں کاایک دوسرے سے جڑنا ممکن ہورہا ہے۔
ان انتخابات میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ایک ہندوستانی/ امریکی خاتون تلسی گبارڈ کانگریس کی رکن منتخب ہوئیں اور امریکی ایوان نمایندگان میں یہ واقعہ پہلی مرتبہ رونما ہوگا کہ وہ اپنی مقدس کتاب گیتا ہاتھ میں تھام کر حلف وفاداری اٹھائیں گی۔ اسی طرح یہ ناقابل یقین واقعہ بھی ان ہی انتخابات میں رونما ہوا کہ ہم جنس پرست ہونے کا اعلان کرنے والے اور ان شادیوں کی حمایت کرنے والے امیدوار، عوامی ووٹوں سے مین، میری لینڈ اور واشنگٹن میں منتخب ہوئے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان ری پبلکن امیدواروں کو شکست ہوئی جنہوں نے مذہب، مسلک اور نسل کی بنیاد پر مسلمانوں کو ہدف تنقید بنایا اور ان پر مختلف نوعیت کے الزام عائد کیے۔
باراک اوباما کو اپنی خود نوشت کے ابتدائی صفحات میں لکھے ہوئے یہ جملے یقیناً یاد ہوں گے جب انھوں نے کہا تھا کہ:11 ستمبر2001 کے دن دنیا میں دراڑیں پڑگئیں۔
اس دن کے بارے میں کچھ لکھنا میرے بس سے باہر ہے: جہازوں کا بھوتوں کی طرح فولاد اور شیشے سے ٹکرانا، ٹاورز کا آہستہ آہستہ منہدم ہونا: گلیوں اور بازاروں میں راکھ سے بھری ہوئی شبیہیں: غیض و غضب اور خوف۔ میں اس برہنہ انکاریت (Nihilism) کو سمجھنے کا دکھاوا بھی نہیں کرتا جس کے تحت دہشت گردوں نے یہ کام کیا اور ان کے بھائی اب بھی اس قسم کے کاموں میں مصروف ہیں۔
میں بس اتنا جانتا ہوں کہ اس روز تاریخ اپنا انتقام لینے آئی تھی کہ درحقیقت ( ولیم فاکنر کے الفاظ میں) ماضی کبھی مردہ اور مدفون نہیں ہوتا۔ وہ کبھی ماضی نہیں گزرتا۔ یہ اجتماعی تاریخ ہے، یہ ماضی براہ راست میرے اپنے ماضی سے منسلک ہے۔ صرف القاعدہ کے بم اپنی سرزمین پر پھٹنے کی وجہ سے ہی رہی پبلکن کارندوں نے مخصوص ویب سائٹس پر میرے نام کو بنیاد پر بناکر مذاق نہیں اڑایا۔ اس کی وجہ زیر سطح جاری کشمکش بھی ہے۔ کثرت اور احتیاج کی دنیا کے درمیان اور جدید اور قدیم دنیائوں کے درمیان۔
میں جانتا ہوں کہ میں نے بے اختیار لوگوں کی مایوسی اور انتشار کو دیکھا ہے۔ یہ چیز کس طرح جکارتہ یا نیروبی کی گلیوں میں بھی بچوں کی زندگیوں کو اسی طرح مسخ کرتی ہے جیسے شکاگو کی سائوتھ سائیڈ میں پرورش پانے والے بچوں کو۔ میں جانتا ہوں کہ ذلت اوربے لگام غضب کے درمیان راستہ کس قدر تنگ ہے۔ کہ وہ کس قدر آسانی سے تشدد اور مایوسی کی راہ پر آسکتے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ صاحب اقتدار لوگ ان رویوں کے جواب میں قید کی سزائوں کی معیاد بڑھانے اور زیادہ حساس عسکری آلات استعمال کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ میں جانتا ہوں کہ کٹریت، بنیاد پرستی اور قبیلے سے وابستگی ہم سب کے لیے باعث تباہی ہے۔''
وہ جب یہ سطریں لکھ رہے تھے اس وقت امریکی قصر صدر ان کی نگاہوں کا مرکز نہیں تھا لیکن اب جب کہ وہ دوسری مرتبہ امریکی صدر منتخب ہوئے ہیں۔ انھیں اپنا لکھا ہوا یہ جملہ یقیناً یاد ہوگا کہ ''ذلت اور بے لگام غضب کے درمیان راستہ کس قدر تنگ ہے۔''
پاکستان اور امریکا کئی دہائیوں تک ایک دوسرے کے بہترین حلیف رہے اور اب دونوں کے درمیان تلخی اور بے اعتباری کی ایک بہت چوڑی خلیج حائل ہے۔
امریکیوں نے اجتماعی طور پر اپنی دانش کا مظاہرہ کیا ہے اورمشکل زمانوں سے نکلنے کے لیے صدر اوباما کو ایک بار پھر منتخب کیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو بہتر راستے پر لانے کے لیے کس نوعیت کی دانش اور تکثریت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ دنیا کی عظیم طاقت ہونے کی بناء پر ان کی ذمے داری زیادہ ہے کہ وہ پاکستانی جرنیلوں اور سیاستدانوں سے بہتر معاملت کریں تاکہ جنوبی ایشیا میں امن قائم ہوسکے اور امریکا بھی بہت سے عذابوں سے نجات پائے۔