چوہدری نثار کی عمران خان کو مرضی کے ایف آئی اے افسر سے پاناما لیکس کی تحقیقات کی پیش کش

وزیراعظم نواز شریف، صدر ممنون حسین اور نا ہی عمران خان کو جواہدہ ہوں بلکہ صرف اللہ کو جوابدہ ہوں، وزیر داخلہ

اپوزیشن جماعتیں پاناما لیکس کی تحقیقات کیلئے سنجیدہ ہیں تو حکومت کے ساتھ مل کر بیٹھیں، چوہدری نثار۔ فوٹو: فائل

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ آف شور کمپنیوں کے حوالے سے حکومت پر الزامات نہ لگائے جائیں، عمران خان کی مرضی کے ایف آئی اے افسر سے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لئے تیار ہیں۔



کلر سیداں میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ آف شور کمپنیوں کے حوالے سے مجھے خود بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ کیا بلا ہے لیکن گزشتہ 3، 4 روز سے میڈیا پر آنے کے بعد اس حوالے سے معلومات اکٹھی کر رہا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاناما لیکس کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو برطانیہ اور روس سمیت دنیا کی اکثریت سے مسترد کیا لیکن وزیراعظم نواز شریف نے فوری طور پر معاملے کا نوٹس لیا اور اعلیٰ سطح کا عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا۔ حکومت نے پہلے سپریم کورٹ کے 2 ریٹائرڈ ججز کو واقعہ کی تحقیقات کرنے کا کہا لیکن اپوزیشن کے احتجاج کو دیکھتے ہوئے دونوں ججز نے معذرت کر لی تاہم اس حوالے سے مشاورت جاری ہے اور جلد ہی اعلیٰ سطح کا عدالتی کمیشن واقعہ کی تحقیقات شروع کردے گا۔



چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ پاناما لیکس کے حوالے سے اپوزیشن کے بیانات نے قوم کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے، ایک جماعت کے اپوزیشن رہنما پارلیمنٹ اور سینیٹ میں پاناما لیکس کے حوالے سے بہت کچھ بولتے ہیں لیکن قوم کو یہ نہیں بتاتے کہ ان کی لیڈر کا نام بھی اس لیکس میں شامل ہے، واقعہ پر تحقیقات کا مطالبہ بجا لیکن مزا تو تب ہو کہ جب اس کا آغاز اپنے آپ سے کیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ اگر پاناما لیکس کے حوالے سے اپوزیشن نے دھینگا مشتی، دھرنے اور حکومت کا میڈیا ٹرائل ہی کرنا ہے تو پھر اس کا فیصلہ کون کرے گا لیکن اگر اپوزیشن جماعتیں پاناما لیکس کے حوالے سے سنجیدہ ہیں تو حکومت کے ساتھ مل کر بیٹھیں اور تحقیقات میں ساتھ دیں۔



وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ عمران خان نے پاناما لیکس کے حوالے سے میرا نام لے کر کہا کہ ایف آئی اے کہاں ہے تو میں عمران خان کو پیش کش کرتا ہوں کہ وہ پورے پاکستان سے ایف آئی اے کے جس افسر سے بھی معاملے کی انکوائری کرانا چاہتے ہیں مجھے بتائیں میں اسے مکمل اختیارات دوں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں وزیراعظم نواز شریف، صدر ممنون حسین اور نا ہی عمران خان کو جواہدہ ہوں بلکہ صرف اللہ کو جوابدہ ہوں۔




عمران خان کے پی ٹی وی پر خطاب کے اعلان کے حوالے سے چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں سرکاری ٹی وی پر صرف صدر یا وزیراعظم کا خطاب ہی نشر کیا جاتا ہے اور عمران خان تو اپوزیشن لیڈربھی نہیں ہے تو کس حق سے وہ سرکاری ٹی وی پر خطاب کا حق رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ دور حکومت میں 5 سال تک اپوزیشن لیڈر رہا لیکن میری ایک بھی تقریر سرکاری ٹی وی پر دکھائی گئی، عمران خان کی تو ساری تقریر میڈیا پر آگئی تھی، میں ملک کا وزیر داخلہ ہونے کے باوجود قوم سے خطاب نہیں کر سکتا۔ الٹی گنگا نہ بہائی جائے، عمران خان کو جتنی میڈیا کوریج ملتی ہے اتنی تو وزیراعظم نواز شریف کو بھی نہیں ملتی۔



بھارتی جاسوس کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ حکومت نے اس معاملے کو ہر مناسب فورم پر اٹھایا، بھارتی جاسوس کا معاملہ ایرانی صدر کے سامنے بھی اٹھایا گیا اور بھارتی ہائی کمیشن کو بلا کر احتجاج بھی ریکارڈ کرایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ملک پر اللہ کے رحم اور فضل کے بعد سب سے بڑی رحمت اچھے سول ملٹری تعلقات ہیں جو دشمنوں کے عزائم کے سامنے پہاڑ جیسی دیوار ہیں، ہمارے دشمنوں کی خواہش ہے کہ سول ملٹری تعلقات میں نقاق پڑے لیکن پاکستان کے معاملے پر تمام سیاسی جماعتیں متحد ہیں اور ملک کے دشمنوں کے سامنے ایک ایک پاکستانی سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہو گا۔



چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ دھرنوں نے اسلام آباد کی زندگی اجیرن بنا کر رکھ دی ہے جس کا دل چاہتا ہے وہ چند سو افراد جمع کر کے دھرنا دے دیتا ہے، ملک کا وفاقی دارالحکومت بند ہونے سے دنیا بھر میں بدنامی ہوتی ہے اس لئے فیصلہ کیا ہے کہ ڈی چوک اور ایف نائن پارک میں کسی کو جلسے کی اجازت نہیں دیں گے۔ متفقہ فیصلہ کرنے کے بعد اسلام آباد میں جلسے کے لئے ایک مقام متعین کیا جائے گا تاکہ شہریوں کی زندگی متاثر نہ ہو اور آئندہ چند ہفتوں میں یہ معاملہ حل ہو جائے گا۔

گزشتہ ماہ ممتاز قادری کے چہلم کے حوالے سے وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ حکومت نے خود مذہبی جماعتوں کو اجازت دی تھی اور خوشی ہے کہ مذہبی جماعتوں نے معاہدے کی پاسداری بھی کی لیکن چند لوگوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے عوام کے پیسے سے بننے والی میٹرو بس اور فائر بریگیڈ کو نقصان پہنچایا، یہ کون سے عالم دین ہیں جو ایک طرف تو رسول اللہ کا نام لیتے اور دوسری طرف گندی گالیاں دیتے تھے، ہمارے بنی ﷺ نے تو کبھی دشمنوں سے معاہدے کے خلاف ورزی نہیں کی اور کافروں کو بھی معاف کیا، صرف نام لینے سے کوئی رسول اللہ ﷺ کا امتی نہیں ہو جاتا بلکہ اس کے لئے ان کے قول پر عمل کر کے بھی دکھانا پڑتا ہے۔

Load Next Story